{تربیتِ اولاد کے دس اہم اصول}
پانچواں اصول:بچپن ہی سے غلطیوں پر تنبیہ کرنا:
ازقلم: ابوصالح دل محمد سلفی
استاذ جامعہ سلفیہ بنارس
تربیتِ اولاد میں بچوں اور بچیوں کو جس طرح بچپن ہی سے دینی امور کی تعلیم دینا، اسلامی اخلاق وآداب سے مزین کرناضروری ہے اسی طرح ابتدائے عمر ہی سے ان کو غلطیوں پر تنبیہ کرنا ضروری ہے۔اگر ان سے خلافِ شرع کوئی قول وعمل سرزد ہوجائے تو مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو روکنے کی پوری کوشش اور بچنے کی پوری تلقین کرنی چاہئے اور بر وقت مناسب اصلاح کرنی چاہئے تاکہ ان کی صحیح سالم اور صاف ستھری فطرت متأثر و پراگندہ نہ ہوجائے اور بچپن ہی سے صحیح غلط اور حلال حرام کی تمیز و پرکھ ان کے اندر پیدا ہوجائے اور وہ خلاف شرع ہر قول و عمل سے اجتناب کرنے کےاس طرح عادی و خوگر ہوجائیں کہ آگے چل کر اپنے والدین ورشتہ دار، قوم و ملت اور سماج و معاشرہ کے لئے مفید و سودمند اور معمار و خیرخواہ ثابت ہوں۔ورنہ اگر بچوں و بچیوں کو غلط باتوں، بری عادتوں اور ناجائز کاموں سے نہ روکا جائے تو وہ بگڑ جائیں گے اور بلوغت و سن شعور کو پہونچنے کے بعد اپنے والدین ہی نہیں بلکہ قوم ومعاشرہ کے لئے ناسور بن جائیں گے ۔
یہی حکمت تھی کہ پیارے حبیب جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں اور بچیوں کو غلطیوں پر فورا تنبیہ کرتے تھے اور ان کی باضابطہ اصلاح فرماتے تھےچنانچہ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم(ہمارے یہاں) تشریف لائے اور جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے اور میرے بستر پر اسی طرح بیٹھے جیسے تم (اے مخاطب) اِس وقت میرے پاس بیٹھے ہوئے ہو۔ پھر ہمارے گھر کی کچھ بچیاں دف بجانے لگیں اور میرے خاندان کے جو افراد غزوہ بدر میں شہید ہوئے تھے، ان کا مرثیہ پڑھنے لگیں۔ اتنے میں ان میں سے ایک بچی نے(ایک مصرعہ اس طرح ) پڑھا:” وفينا نَبِيٌّ يَعْلَمُ ما في غَدٍ” اور ہم میں ایک نبی ایسے ہیں جو ان باتوں کی خبر رکھتے ہیں جو کچھ کل ہونے والی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے(عقیدہ کی اس غلطی پر فورا ٹوکا اور اصلاح کرتے ہوئے ) فرمایا کہ یہ مصرعہ چھوڑ دو۔ اس کے سوا جو کچھ تم پڑھ رہی تھی وہ پڑھو۔(صحيح بخاري: 5147)
اسی طرح حضرت عمرو بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتےہیں کہ میں ابھی بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور (کھاناکھاتے وقت) میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھومتارہتا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے(اِس غلطی پر تنبیہ کرتے ہوئے) مجھ سے ارشاد فرمایا:” يا غلامُ سمِّ اللَّهَ وَكل بيمينِكَ وَكل مِمّايليكَ“بیٹے! (کھانا شروع کرنے سے پہلے) بسم اللہ پڑھ لیا کرو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے پاس سے کھایا کرو۔ چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق(بسم اللہ پڑھ کر اپنے داہنے ہاتھ سے اپنے سامنے سے) کھاتا رہا۔(صحیح بخاری:5372 و صحیح مسلم:2022)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نواسہ رسول حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے(ان کو تنبیہ کی اور سمجھاتے ہوئے) ارشاد فرمایا: “كِخْ كِخْ ألقِها ألقِها أما علمت أنّا لانأكلُ الصدقةَ “چھی چھی(منہ سے)صدقہ کی اس کھجور کو نکالو اور اسے پھینک دو، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ ہم لوگ ( آلِ رسول) صدقہ کی چیز نہیں کھاتے ہیں؟(صحیح بخاري:1491 و صحیح مسلم: 1069)
مذکورہ حدیثوں سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ تربیتِ اولاد میں بچوں اور بچیوں کو بچپن ہی سے غلطیوں پر تنبیہ واصلاح کرنا بہت ضروری ہے، اس کے بغیر اولاد کی صحیح تربیت نہیں ہو سکتی ہے۔پیارے حبیب جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربیتِ اولاد کے معاملہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حساس اور چوکنا رہنے کی تاکید کرتے تھے اور ایسے قول و فعل سے روکتے تھے جس سے اولاد کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا ہو۔چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تشریف فرما تھے، اتنے میں میری والدہ نے کہا آؤ لو میں تجھے کچھ دے رہی ہوں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے کہا:”وما أردتِ أنْ تعطيهِ؟” تم بچے کو کیا دینا چاہتی ہو؟ انہوں نےکہا کہ میں اسے کھجور دوں گی۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا”أما إنك لو لمْ تُعطيهِ شيئًا كُتبتْ عليكِ كَذِبةٌ” سنو اگر تم اسے کچھ نہ دیتی تو( لڑکے پراس کا برا اثر پڑتا اور) تیرے اوپرچھوٹ لکھا جاتا۔(صحيح أبي داود:4991)
لہذا والدین اور سرپرستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو بےجا آزادی نہ دیں بلکہ بچپن ہی سے جھوٹ، چوری، گالی گلوچ، بداخلاقی، بے پردگی وغیرہ غلطی کرنے پر تنبیہ اور زجر و توبیخ نیز اصلاح کریں تاکہ صحیح ڈھنگ سے ان کی تعلیم و تربیت ہوسکے اوربچپن ہی سے ان کاذہن اسلامی اورمزاج دینی بنے اور سن شعور و بالغ ہونے تک غلط و حرام اور خلافِ شرع کاموں سے اجتناب کرنے کے عادی وخوگر بن جائیں اور ان کی زندگی ممنوعات و منہیات سے محفوظ رہے اور وہ بڑے ہوکرنیک وصالح اور مہذب انسان بنیں۔الغرض تربیتِ اولاد کا پانچواں اصول ” بچپن ہی سے غلطیوں پر تنبیہ کرنا” ہے۔