چترویدی کا استعمال: ایک تحقیقی جائزہ

✍️محمد رحمت اللہ عبد الحكيم ن. ف. کٹیہاری
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

چترویدی ٹائٹل کا استعمال اپنے نام کے ساتھ کرنا یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، خطباء حضرات پہلے بھی استعمال کرتے تھے جیسا کہ بڑوں سے سنا اور آج بھی کرتے ہیں جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ پہلے چترویدی اکا دکا کہلاتا تھا جبکہ آج کل اس کا سیلاب آیا ہوا ہے، کیا اہل حدیث، کیا دیوبندی، کیا بریلوی، کیا شیعہ ہر ایک میں چترویدیوں کی بہتات ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چترویدی کسے کہتے ہیں؟ کیسے بنتے ہیں؟ اس کا تعلق کس سے ہے؟ کن لوگوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے؟ اور کیا مسلمانوں اور خصوصاً علماء کرام کے لئے اس کا استعمال درست ہے ؟ آج ہم انہیں چیزوں کو خود ہندو مت پر لکھی گئی کتابوں اور شرعی دلائل کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے.

چترویدی کسے کہتے ہیں؟
سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ “وید” (veda वेद) کسے کہتے ہیں؟ وید سنسکرت لفظ وِد ( विद्) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے: جاننا، علم حاصل کرنا، اسی سے وید ہے، جس کا معنی ہے: علم ، اسی سے ودیا (विद्या)یعنی علم، اور ودوان (विद्वान) یعنی عالم ہے،
کہا جاتا ہے کہ پرماتما (اللہ تعالیٰ ) نے سب سے پہلے ان چار مہارشی؛ اگنی، وایو، آدتیہ اور انگِرہ کو بالترتيب ان چار ویدوں؛ رگ وید (Rig veda)، یجروید (Yajur veda)، سام وید (Sama veda) اور اتھروید (Atharva veda) کا علم دیا تھا، اور انہوں نے یہ علم برہما کو دیا، جسے شُروتی (श्रुति)یعنی وحی کہتے ہیں، جس میں کائناتی اور ما فوق الفطرت سارے علوم موجود ہیں، ان کا ماننا ہے کہ یہ پرماتما (اللہ تعالیٰ) کی طرف سے وحی (Revelation of God) ہے اور اسی کا کلام ہے، کسی انسان کا کلام (Human authorship) نہیں ہے،اس لیے وہ وید کو پاک اور سروپری مانتے ہیں. (An introduction to Hinduism. By :Gavin flood, page :35)
ان چاروں وید کے متون کے مجموعہ Collection of texts کو سمہتا (संहिता) Samhita کہتے ہیں،اور انہیں سمجھنے کے لیے الگ الگ موضوعات پر شرحیں (Commentaries) جیسے: برہمن Brahmana، آرنیک Aranyaka، اُپنشد Upanishad لکھی گئی ہیں،چاروں ویدوں کی اپنی اپنی کئ ایک برہمن ، آرنیک اور اپنشد ہیں، کل ملا کر اصل ویدک لٹریچر مذکورہ بالا چار ہیں۔
سمہتا اور دیگر تینوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ سمہتا خدائی کلمات ہیں جبکہ دیگر انسانی، لیکن لازم ملزوم ہیں، (Above mentioned reference , page :36&37).
چترویدی کا اطلاق دو طرح سے ہوتا ہے:
(1) پہلا اطلاق : بھوشیا پران (Bhavishya Purana) کے مطابق مہارشی کشیپ (Kashyap) کے بیٹے کنو (Kanva) کے دس بیٹے تھے ان میں سے چار کے نام یہ تھے : 1 – پاٹھک (Pathak),  2-  دُبے (Dubey),  3 – تیواری (Tiwari), 4-چترویدی(Chaturvedi)، ان کی نسلیں انہیں کی طرف نسبت کرتے ہوئے اپنا اپنا سرنیم استعمال کرتی ہیں،
چنانچہ پاٹھک کی نسل پاٹھک
دُبے کی نسل دُبے جو بعد دُویدی اور دِویدی(Divedi)
تیواری کی نسل تیواری جو بعد میں تریویدی (Trivedi)
اور چترویدی کی نسل چترویدی جو بعد میں چوبے (Chaubey) کہلائیں،اسی لیے آج کل آپ دیکھیں گے بہت سے ہندوؤں کا سرنیم چترویدی لکھا رہتا ہے حالانکہ وہ بالکل جاہل ہوتے ہیں، اور کچھ پڑھے لکھے ہوتے ہیں لیکن وید سے ان کا دور کا واسطہ تک نہیں ہوتا، وہ صرف اپنے خاندان اور گوتر کی طرف نسبت کرکے لکھتے ہیں.
(2) دوسرا اطلاق: ان لوگوں پر ہوتا ہے جو مذکورہ چاروں وید یعنی رگ وید کے 10462 ، یجروید کے 1975 ، سام وید کے 1875 اور اتھروید کے 5977 منتروں کا گیان اور علم رکھتے ہیں چنانچہ جس نے چاروں وید پڑھا اسے چترویدی، اسی طرح جس نے تین پڑھا اسے تریویدی، جس نے دو پڑھا اسے دِویدی اور جس نے محض ایک ہی وید پڑھا اسے پاٹھک کہتے ہیں. ( Reference :On Hinduism. By: Wendy Doniger. Page :53)
واضح رہے کہ چاہے خاندان کی طرف نسبت کرتے ہوئے چترویدی کہا جائے یا وِیدِک اعتبار سے، دونوں صورت میں اس کا تعلق برہمن ہندو سے ہی ہوتا ہے، اس کے علاوہ کوئی چترویدی نہیں ہو سکتا کیونکہ بقول ان کے وید پڑھنے پڑھانے کا حق صرف برہمن کو ہے (On Hinduism , page : 52).

چترویدی کیسے بنتے ہیں؟
جس طرح قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے-پڑھانے اور سمجھنے-سمجھانے کے لیے اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور علوم آلیہ کا سیکھنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح وید پڑھنے-پڑھانے سے پہلے ان کے یہاں درج ذیل چیزوں کا پڑھنا ضروری ہے :
چھ ویدانگ یعنی اجزاء :
1- شِکشا (Phonetics) علم اصوات
2- کلپا (Terminology)علم اصطلاحات
3- نِروکت (Etymology) علم اشتقاق
4- ویاکرن (Grammer) قواعد
5- چھند  (Vedic Metre) علم عروض
6- جوتشی (Astrology) علم نجوم
(“Vedanga” in the illustrated encyclopedia of Hinduism, by: James Lochtefeld, page 744-745).
چھ صحیفے :
1 – پورومیمانسا Purvamimansa
2- ویشیشکا            Vaisheshika
3- نِیای                             Nyaya
4- یوگا                               Yoga
5- سانکھیا                    Sankhya
6- ویدانت                     Vedanta
(The essential of Indian philosophy, by:Hiriyanna M. Page :130).
اور علی اختلاف الأقوال دس اُپنشد یا کم از کم 108 اپنشد میں سے جو پرانے مشہور اُپنشد ہیں انہیں پڑھا ہو جیسے :
1- برہدرنیکا Brihdaranyaka
2 چھاندوگیہ Chhandogya
3- ایتاریہ Aitareya
4- کتھا      Katha
5- کین         Kena
(Vedas & and Upanishads, by: Witzel Michael, page:69).
یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد کوئی شخص وید پڑھ اور پڑھا سکتا ہے، اور جب کوئی چاروں وید کا مکمل علم حاصل کر لیتا ہے تب جا کر اسے چترویدی کہتے ہیں،

مسلمانوں کے لیے چترویدی کا استعمال:
مذکورہ بالا تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خود ہندو ازم کے حساب سے بھی ایک مسلمان کے لیے چترویدی لفظ کا استعمال کرنا چترویدی کے دونوں اطلاق کے حساب سے غلط ہے، کیونکہ ہندوؤں میں چترویدی دو ہی طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ایک نسلی خاندانی، دوسرا ویدک یعنی چاروں وید کا گیان پراپت کرکے، جیسا کہ اوپر مبین ہے، اور ایک مسلمان میں یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں،جہاں تک نسب کی بات ہے تو ہندوستانی مسلمانوں کا نسب خود ہی غیر معلوم اور مبہم ہے، جتنے بھی مسلمان اپنا سرنیم، لقب اور نسبت استعمال کرتے ہیں یہ محض ظنی اور خیالی پلاؤ ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں، پھر بھی مسلمانوں میں ظنی اور خیالی طور پر بھی کوئی چترویدی کی طرف اپنی خاندانی نسبت نہیں کرتا، لہذا یہ نہ تو برہمن کشیپ کے پوتے چترویدی کی اولاد ہے اور نہ ہی چاروں ویدوں کا علم اصول و ضوابط کے ساتھ کسی سنسکرت انسٹیٹیوٹ سے سیکھتے ہیں، اس لیے محض دو چار وید منتر وہ بھی اردو، ہندی یا رومن بُکلیٹ سے رٹ لینے سے کوئی چترویدی نہیں بن جاتا ہے، اگر دو چار وید منتر رٹ لینے سے کوئی اپنے آپ کو چترویدی کہلانے لگے تو پھر آج کل سارے فارغين مدارس کو علی وجه الأتم محدث و مفسر کہنا چاہئے، کیونکہ یہ قرآن مجید مع بعض کتب تفاسير اور کتب ستہ کے ساتھ ساتھ وہ تمام علوم آلیہ کا کچھ نہ کچھ پڑھ چکے ہوتے ہیں جو ایک مفسر اور محدث بننے کے لئے چاہئے ہوتا ہے، اسی طرح تمام مسلمانوں کو بھی مولانا، مولوی، عالم اور فضيلة الشيخ کا خطاب دینا چاہئے، کیونکہ ہر کسی کو تقریباً سورۃ فاتحہ کے ساتھ ساتھ دو چار سورتیں یاد تو رہتی ہی ہیں، اس حساب سے اسے عالم و فاضل کہنے میں کوئی حرج نہیں، چلئے سارے مسلمانوں کو چھوڑیئے! صرف جو برادرس ہیں انہیں ہی علماء کی صف میں کھڑے کر لیں، اور نو ڈاؤٹ کہ برادرس کا دین کے معاملے میں علم چترویدیوں کے وید کے معاملے میں علم سے کہیں زیادہ ہے! لہٰذا برادرس حضرات بھی بدرجہ اولی عالم کہے جانے کے حقدار ہیں! حالانکہ ایسا نہیں ہے، اسی طرح تورات اور انجیل کی دو چار آیات کے جانکار مسلمان کو پوپ، پادری اور راہب، جین ازم کی مذہبی کتاب “آگم” کے دو چار سُتر کے جاننے والے کو تیرتھکر یا مُنی، اور سکھوں کی پوِتر کتاب “گرو گرنتھ صاحب” کے دو چار ستر جاننے والے مسلمان کو گرو کہنا چاہئے! حالانکہ کوئی صاحب فہم و فراست اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا ہے، تو پھر ایسے دو چار وید منتر رٹا مارنے والوں کو چترویدی کیسے کہ سکتے ہیں؟ اس لیے نہ تو ہندو ازم کی رو سے چترویدی کہنا درست ہے اور نہ ہی عقل اس بات کو قبول کرتی.
یہ تو تھیں ہندو ازم کے اصولی اور عقلی دلائل! البتہ شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی مسلمان کسی طرح سے چاروں وید کا علم حاصل کر لیں تو کیا اسے شرعاً چترویدی کہنا درست ہوگا؟ بالکل نہیں! کیونکہ چترویدی ہندو برہمن کی ہر اعتبار سے ایک اعلی شناخت اور پہچان ہے چاہے نسلی اعتبار سے ہو یا پھر مذہبی اعتبار سے، جیسا کہ اوپر معلوم ہوا، اس لئے اگر ہم کسی مسلمان کو چترویدی کا خطاب دیتے ہیں یا وہ خود اسے استعمال کرتا ہے تو دونوں صورت میں تشبہ بالکفار لازم آتا ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”من تشبه بقوم فهو منهم ” جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے ہے، (ابو داؤد 4031 علامہ البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے). تشبہ بالکفار مطلقاً ناجائز اور حرام ہے، جان بوجھ کر اگر کوئی اختیار کرتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور انجانے میں اختیار کرتا ہے تو اسے فوراً ترک کر دینا چاہیے.
اگر یہ ناجائز اور حرام ہے تو پھر جلسوں کے بہت سے اشتہارات میں بعض مقررین حضرات کے نام کے ساتھ اسے کیوں لکھتے ہیں؟ اصل میں اس کا صدور دانستہ اور نادانستہ دونوں طرح سے ہوتا ہے، نادانستگی سے اس لیے کیوں کہ شاید داعی اور مدعو دونوں لفظ چترویدی کی اصلیت اور حقیقت سے ناآشنا ہیں اس لیے لکھتے اور لکھواتے ہیں، تب بھی یہ غلط ہے کیونکہ دونوں عالم دین ہیں، بغیر تحقیق کے لکھا اور لکھوایا کیوں؟ اور دانستہ طور پر اس لیے کیوں کہ لکھنے والے کو یہ معلوم ہے کہ چترویدی ہندوؤں کے القاب میں سے ایک لقب ہے اور کسی مدرسے سے ایسی کوئی ڈگری نہیں دی جاتی ہے! اور لکھوانے والے کو تو خود کے بارے میں اچھی طرح پتہ ہے، چنانچہ دانستہ طور پر لکھنے اور لکھوانے کے اعتبار سے اس کی دو صورتیں ہیں، اور دونوں غلط کے ساتھ ساتھ جرم بھی ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اراکین جلسہ یہ ٹائٹل خطیب کے نام کے ساتھ خود لکھ دیتے ہیں (کہیں نہ کہیں اس میں بھی خطیب کی رضامندی ہوتی ہے، کیسے؟ اس کا جواب آگے آ رہا ہے) جس کے پیچھے عموماً مقصد یہ ہوتا ہے کہ کثیر تعداد میں پبلک کی آمد ہو، عوام کا ہجوم ہو اور زیادہ سے زیادہ چندے بٹور سکیں، چنانچہ یہ کئ اعتبار سے غلط ہے جیسے: اسلام مخالف شئ تشبہ بالکفار کو پروموٹ کرنا ، جھوٹ بولنا اور جھوٹ بول کر ان کے نام سے چندہ بٹورنا، یہ سب حرام ہیں ، کیونکہ چترویدی کفار کی شناخت اور لقب ہے، دوسری بات یہ ہے کہ ان چترویدیوں کی اکثریت نے چاروں وید کا مطالعہ تو دور شاید انہیں دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا ہوگا پھر بھی انہیں چترویدی بولا اور لکھا گیا اور یہی جھوٹ بول کر چندہ اکٹھا کیا گیا ، لہذا یہ غلط ہے اور ان کے نام سے جتنے بھی چندے جمع کئے گئے سب کے سب حرام ہیں ، اللہ کے رسول نے جھوٹ بولنے کو أکبر الکبائر میں شمار کیا ہے اور تاکیداً اس سے منع فرمایا، چنانچہ فرمان رسول ہے : أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ ؟ “. قُلْنَا : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” الْإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ “. وَكَانَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ : ” أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ، أَلَا وَقَوْلُ الزُّورِ وَشَهَادَةُ الزُّورِ “. فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى قُلْتُ : لَا يَسْكُتُ (بخاری 5976)
دوسری صورت یہ ہے کہ مقرر صاحب خود لکھواتے ہیں، لکھوانے کے لئے بولنا ضروری نہیں، منع نہ کرنا ہی اس کے لیے کافی ہے، اس میں مقرر صاحب کئی ایک گناہ اور شریعت مخالف امور کے ارتکاب کی وجہ سے مجرم ہے جن سے شریعت نے منع کیا ہے جیسے: ١-تشبہ بالکفار، ٢-جھوٹ، ان دونوں کی دلیلیں اوپر گزر چکی ہیں،
٣-ریاکاری: چنانچہ فرمان خاتم النبيين ہے :إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمُ الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ “. قَالُوا : وَمَا الشِّرْكُ الْأَصْغَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ” الرِّيَاءُ، (مسند احمد 23630، شیخ شعیب ارناؤط نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)
٤-شہرت طلبی: فرمان سید المرسلین ہے : مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ.( ترمذی 2376) شیخ ألباني نے ” صحيح الجامع میں اس کو ذکر کیا ہے (5620).
٥-اور ادعاء ما لیس عندہ یعنی چاروں وید کے علم کا دعویٰ کرنا جو کہ حقیقت سے کوسوں دور ہے : ارشاد رحمة للعالمين ہے:… وَمَنِ ادَّعَى مَا لَيْسَ لَهُ فَلَيْسَ مِنَّا… ،(مسلم حدیث 61)
بہرحال چترویدی لکھنا ہر ایک کے لیے ہر اعتبار سے غلط ہے چاہے علماء و خطباء خود لکھے یا اراکین جلسہ یا کوئی اور، اور ہر کوئی علی حسب النیة اس میں گنہگار ہوں گے.
ایک اشکال: بعض مقررین یہ کہتے ہیں کہ ہم لکھنے کے لیے نہیں کہتے ہیں بلکہ جلسہ کمیٹی والے خود چترویدی لکھ دیتے ہیں، اس میں ہمارا کیا قصور؟ جواب : یہ بات بالکل درست نہیں ہے، کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ نے اس کا استعمال کیا نہیں، پبلک میں اپنے نام کے ساتھ چترویدی کا ڈھنڈورا پیٹا نہیں تو پھر انہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ آپ چترویدی ہیں؟ کیونکہ علماء کرام کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ چترویدی نام کی ڈگری کسی بھی مدرسے میں نہیں دی جاتی ہے، اور تو اور کچھ نام نہاد چترویدی حضرات تو کسی مدرسے میں زیرِ تعلیم ہی ہوتے ہیں ان کے بارے میں لوگوں کو کیسے پتہ چلا کہ وہ چترویدی ہیں؟ اسٹیج پہ جا کر آپ کو وید منتر پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ رام، لکشمن، سیتا، راون، رامائن، مہابھرت وغیرہ وغیرہ کے قصے کہانیاں اور ان کے نام لینے کی کیا ضرورت ہے؟ جتنے بھی جلسوں میں آپ جاتے ہیں وہ سارے کے سارے اسلامک جلسے ہوتے ہیں، جن میں اکثر بھولے بھالے معصوم سادہ اور دین سے ناآشنا لوگ ہوتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کے نام کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے ہیں، ایسی عوام جنہیں دینیات سے روشناس کرانا سب سے زیادہ ضرورت ہے، جن کے سامنے قرآن کی آیات، رسول کی احادیث پڑھ کر سمجھانے کی ضرورت ہے، ایسی عوام کے سامنے وید منتر ہانکنے کی کیا ضرورت ہے؟ رام، لکشمن اور سیتا کی کہانیوں سے ان کا کیا لینا دینا؟ مہابھارت اور رامائن کے قصوں سے ان کا کیا مطلب؟ جنہیں رحمان کا پتہ نہیں انہیں رام اور راون کی کہانی سنا رہے ہیں، جنہیں محمد کا پتہ نہیں انہیں مہابھارت اور رامائن کے قصے سنا رہے ہیں، کیوں؟ اسی لیے تاکہ لوگ آپ کو چترویدی کہیں؟ آپ کی طرف مائل ہوں اور جلسوں میں بلائیں؟ آپ کتنے تقابل ادیان اسٹیج (comparative religion stage) شئر کرتے ہیں؟ ایک بھی نہیں، تو پھر یہ وید منتر کیوں اور کس لیے؟  یاد رکھئے! ایسے جلسوں میں وید منتر پڑھنا غلط ہی نہیں بلکہ جرم ہے، اس کی وجہ سے لوگ قرآن و حديث کی باتوں سے زیادہ رام اور سیتا کی کہانی سننے میں دلچسپی لینے لگے ہیں، اچھے علماء کو سننے کی بجائے چترویدیوں اور گوئیوں کو سننا زیادہ پسند کرنے لگے ہیں، یہ جو آج کل چترویدیوں کی ہوڑ لگی ہوئی ہے نا یہ اسی کا نتیجہ ہے، لہذا آپ نے لوگوں کو زبان حال اور زبان مقال دونوں سے یہ بتلایا ہے کہ آپ چترویدی ہیں، اس لیے وہ لکھتے ہیں، گویا بیج آپ نے بویا اور پھل دونوں مل کر کھا رہے ہیں! داعی کا پھل مال و دولت اور مدعو کا پھل مال اور نام و شہرت!
دوسری بات: اشتہار میں نام لکھنے سے پہلے خطیب سے تاریخ لی جاتی ہے، جب وہ تاریخ کی تحدید کر دیتے ہیں تب اشتہار نشر کیا جاتا ہے، تو کیا تاریخ دیتے وقت منع نہیں کر سکتے ؟ بالکل کر سکتے ہیں، تھوڑا زور دے کر کہا جائے تو کبھی نہیں لکھے گا، پھر بھی اگر کوئی لکھ دیتا ہے تو پروگرام میں جانے سے پہلے اشتہار تو خطیب صاحب کو مل ہی جاتا ہے تب پروگرام میں شرکت کرنے سے منع کیوں نہیں کر دیتے؟ کہ ہمارے منع کرنے کے باوجود بھی آپ نے یہ لکھا ہے،اس لیے آپ نے غلط کیا ہے، لہذا یا تو آپ اپنی غلطی کی اصلاح کرتے ہوئے لفظ چترویدی کو ہٹائیں یا تو ہم پروگرام میں شرکت نہیں کریں گے، لیکن ڈھنگ سے کہنا ہوگا، ایک غلط اور شریعت مخالف چیز کو کوئی کیسے کسی کے لیے لکھ سکتا ہے؟ مثال کے طور اگر کوئی کمیٹی والے چترویدی کی جگہ کسی مقرر صاحب کو چور، ڈاکو، زانی یا پھر حرام خور جیسے خوبصورت القاب سے نواز دیں تو کیا اس پروگرام میں وہ شرکت کریں گے؟ کبھی نہیں! اور اگر کر بھی لیتے ہیں تو کیا کمیٹی والوں کو یونہی چھوڑیں گے؟ کبھی نہیں! پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ اس میں شریک ہی نہیں ہوں گے دوسری بات یہ ہے کہ اگر شریک ہو بھی گئے تو پوری تقریر انہیں الفاظ پر صرف کریں گے ، تو پتہ یہ چلا کہ یہ پورا کھیل دل اور نیت اور اوپر ذکر کردہ پھل کا ہے، اور ما له ظاهر يخالفه الباطن کی قبیل سے ہے، جس کے بارے میں قرآن نے یوں نقشہ کھینچا ہے :…ويحبون أن يحمدوا بما لم يفعلوا… (آل عمران 188)، لہذا یہ کہنا کہ منع کرنے کے باوجود لکھ دیتے ہیں بالکل غلط ہے، وفوق ذلك یہ ہے کہ خطیب صاحب اضطراری کنڈیشن میں نہیں بلکہ اختیاری کنڈیشن میں ہوتے ہیں، ایجاب اور انکار دونوں ان کے ہاتھ میں ہے جسے چاہے اختیار کریں، اور ایک مومن ہمیشہ صحیح اور سچ کا انتخاب کرتا ہے لہذا ان کی پسند بالکل عیاں ہے.
خلاصہ یہ ہے کہ لفظ چترویدی کا استعمال کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے بلکہ ہر اعتبار سے غلط اور ناجائز ہے، وید کے علم کا حصول اور چترویدی کا خطاب دونوں الگ الگ شئ ہیں،کیونکہ دفاع اسلام کی خاطر شرعی دائرے میں رہ کر ہر معاون شئ کو اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اسی طرح وید یا دیگر مذہبی کتابیں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جبکہ مقصد دفاع اسلام ہو، اس کا اندازہ کچھ ماہ قبل ہوئیں ٹی وی ڈبیٹس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے قربانی اور بہتر حوریں جیسے موضوع کو اچھالا جا رہا تھا، اگر انہیں کی مقدس کتابوں سے بلی اور ہزار افسراؤوں کا ذکر نہیں کیا جاتا تو نہ جانے اسلام کے بارے میں اور کیا کیا کہا جاتا.
خیر! نام نہاد چترویدیوں اور انہیں ذریعہ بنا کر  مال بٹورنے والوں سے ہنبلی گزارش ہے کہ اس کا استعمال قطعی نہ کریں، فانی دنیا کی جھوٹی صیت و شہرت کے لیے فانی و لافانی دنیا کے مالک و خالق حقیقی اور اس کے محبوب رسول کے نافرمان نہ بنے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح راہ کی ہدایت اور سچ بولنے، سننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *