چند گھڑیاں مادر علمی کی یاد میں

از:مولانا نعمت اللہ العمری 

(امام و خطیب جامع مسجد,کیونجھر,اڈیشا)
بخدمت ابنائے قدیم جامعہ محمدیہ!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!!
امید کہ جمیع برادرانِ عظام مع اہل وعیال بخیر وعافیت ہونگے!!!
اپنی فریاد اور استغاثہ گزاری سے پہلے چند حقائق اور عبارتیں ملاحظہ ہوں، بقول جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب مرحوم: یہ حقیقت ہے کہ با شعور اور زندہ قومیں اور مخلص ترین عہدے داروں پر مشتمل جماعتیں اپنے بزرگوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، ان کے کارناموں کا فخر کے ساتھ ذکر کرتی ہیں، انہوں نے اپنے پیچھے جو نقوش حسنات چھوڑے ہیں اور اپنی جماعت کی بھلائی کے لئے جو جد وجہد کی ہے، اس کا اجر تو انہیں اللہ تعالیٰ ہی دے گا، لیکن ان کے اخلاف بھی (اگر اپنی ذات سے کچھ آگے دیکھنے کے عادی ہوں تو) ان کی یاد گاریں قائم کرتے اور قائم رکھتے ہیں( منقول از برصغیر میں اہل حدیث کی سر گزشت صفحہ ١٩٧۔
اور بقول جناب حافظ احمد شاکر صاحب غفر لہ و لوالدیہ: آثار۔۔۔۔۔ یعنی اپنے اسلاف کی خدمات سے دلچسپی رکھنا، ان کو محفوظ کرنا اور اگلی نسلوں تک پہنچانا، اصحابِ علم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ نیز: ماضی کو یاد رکھنا اور اس کا ذکر کرتے رہنا اسلاف کی محبت کا وہ فیض ہے، جس کے عام کرنے سے فکر نکھرتی ہے، نسلیں سنورتیں اور جماعتیں تشکیل پاتی ہیں، حافظ موصوف کا مزید ارشاد ہے کہ: تاکہ نئی نسل جان سکے کہ ہم کیا تھے، کیا ہیں، کیا بن رہے ہیں اور کس طرف جا رہے ہیں اور ہمارے بزرگ کیا تھے اور ان کی خدمات کیا تھیں؟ (حوالہ مذکورہ بالا ص ١٠)
برادران عظام! بعدہ عرض اینکہ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو یہ حقیقت عیاں را چہ بیاں کی مانند ہے کہ ہم نے جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کو کچھ نہیں دیا ہے، لیکن ہمیں جو کچھ بھی ملا ہے، جو کچھ بھی حاصل کیا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر جو کچھ بھی حاصل کر کے آج ہم جو بھی عالم و فاضل بنے ہیں، خطیب و واعظ ہوئے ہیں، مصنف و مؤلف ہیں، مدرس و معلم ہیں، مدارس و معاہد کے مؤسس و بانی اور ناظم و مہتمم نظر آ رہے ہیں، تعلیمی، دعوتی، اصلاحی اور جماعتی بساط و مراکز کے مدیر و معتمد ہوئے ہیں اور فنونِ عالیہ و آلیہ اور تحقیقات مقبولہ کے اساتذہ و دکاترہ کے بلند وبالا القاب و مناصب سے شرفیاب ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہ سبھی اصطلاحات و کمالات علمیہ، رحلات تعلیمیہ اور کثیر الجہات خدمات محمودہ، اسی مادر علمی کی اولین فیض رسانی، خشت اول کی استواری اور حجر اساسی کی تقویم و تنصیب کی بدولت ہی ہم نے پائے اور حاصل کئے ہیں، چنانچہ بیان و گویائی کی تعلیم سے لے کر حروف شناسی اور عبارت شناسی تک کی بنیادیں یہیں پر قائم ہوئیں، سلیقہ گفتگو سے لے کر سلیقہ جستجو تک کے ہنر اور طاقتیں یہیں سے فراہم ہوئیں اور وہ مہمیز اور شہ بھی یہیں سے ملی، جس نے آگے بڑھنے، اعلی تعلیم حاصل کرنے اور بیرونی درس گاہوں اور اجنبی علاقوں میں نام روشن کرنے کی ہمت و حوصلہ اور ملکہ پیدا کیا۔
معززین گرامی!! اگر اس سچائی اور حقیقت کی تسلیم و اعتراف میں ادنی سا بھی تذبذب اور پس و پیش محسوس کرتے ہیں، تو قیامِ جامعہ سے قبل کے عہد ماضی پر ایک طائرانہ نظر ڈالئے، علاقے کی ایک عظیم المرتبت شخصیت حضرت مولانا عابد حسین گنگوہی صاحب مرحوم اپنی ضعیفی، ناتوانی اور عمر طبعی کے مراحل طے کر کے داعئ اجل کو لبیک کہہ چکے ہیں اور ان کا قائم کردہ تعلیمی، دعوتی اور اصلاحی ادارہ مدرسہ دار الفلاح ٹوپا ٹانڑ بھی خاندانی کش مکش، آپسی رنجش، خانہ جنگی اور عدم کارکردگی سے دو چار ہو کر نہ صرف اپنا ہمہ جہت اثر و رسوخ کھو چکا ہے، بلکہ اپنی خدماتی زندگی سے بھی ہاتھ دھو کر مرحوم ہو چکا ہے۔
دوسری جلیل القدر شخصیت اور آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے مبلغ و واعظ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب مرحوم کی دعوتی، اصلاحی اور تدریسی تگ و تاز اور مخلصانہ مساعی بھی اپنی بہاریں دکھا کر خزاں رسیدگی کی نذر ہو چکی ہیں۔
سر زمین مدھو پور میں بر سرِ خدمت تیسری قابلِ فخر شخصیت حضرت مولانا عبد الغفار صاحب مرحوم اور ان کے اقران و احباب نے بھی کوئی اقامتی مثالی درس گاہ قائم کرنے کا اور علاقہ گیر تعلیم عام کرنے کا کوئی ایسا صور نہیں پھونکا، جس سے جہالت زدہ آبادیوں میں، ناخواندہ شبستانوں میں اور پسماندہ علاقے میں تعلیمی انقلاب برپا ہو جائے۔
اور اسی تعلیمی، دعوتی اور اصلاحی سلسلۂ ذی قدر کے چوتھے ستون، بلند آہنگ خطیب اور صاحب علم و فضل شخصیت حضرت مولانا عبد الحق رحمانی ریاضی صاحب مرحوم نے بھی فراغت و دستار بندی اور وطن واپسی کے بعد موضع بٹ بریا میں جو تعلیمی اور دعوتی بساط بچھائی، موصوف کی زندگی نے وفا نہیں کیا اور اپنی مدت کار کردگی اور عرصۂ خدمات کے سہ سالہ دورانیے ہی میں سفر آخرت پر روانہ ہو گئے، اور مذکورہ بالا چاروں درس گاہوں میں سے کوئی بھی درس گاہ نہ جامعیت و مرجعیت اور مرکزیت کی شان وشوکت سے آراستہ ہو سکی اور نہ ہی علاقے کی تعلیمی ضروریات کے لئے کافی و شافی۔
غفر لھم اللہ تعالیٰ اجمعین!
اس طرح سے منجملہ تقسیم ملک اور وطن کی آزادی (جس میں جماعت اہل حدیث کے مراکز ٹوٹ گئے، مدارس و مساجد اجڑ گئے اور علماء کرام بکھر گئے) سے لے کر تأسیس جامعہ محمدیہ تک کی تقریباً تین دہائیوں پر مشتمل و محیط عرصۂ دراز، اگر کوئی عمل و حرکت اور سر گرمی ہمیں دکھاتا اور سناتا ہے، تو وہ ہے علاقے میں سال بسال اور وقفے وقفے سے منعقد ہونے والے اجتماعات اور اجلاس عام، جیسے دمکا کا اجلاس، مدھو پور کا اجلاس، بوروٹانڑ کا اجلاس، مونگیا مارنی کا اجلاس، ہرلا کا اجلاس، کوریاد کا اجلاس، پوکھریا کا اجلاس، چمپاپور کا اجلاس اور بٹ بریا کا اجلاس وغیرہ وغیرہ۔
چونکہ ان جلسوں میں اہلحدیثان ہند کی اور آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کی بڑی بڑی ہستیاں، علمی اور قیادی شخصیات، اکابرین جماعت اور واعظین و مبلغین کی بابرکت تشریف آوری اور شرکت و حاضری ہوتی تھی اور وہ اپنے مصلحانہ بیان و خطاب، واعظانہ پند و نصائح اور بکھرے ہوئے تاروں اور ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور جھنجھوڑنے والی تقریروں سے عالم افکار و اذہان میں ولولہ تازہ پیدا کر دیتے تھے اور نغمات توحید وسنت سے ایمان و عمل کے چمنستانوں میں ایمان افروز سر گرمی اور نئی روح پھونک دیتے تھے، جس سے علاقہ، اس وقت مزید بے راہ روی سے، شدھی کرن ہونے سے اور ارتدادی آزار و لہر سے محفوظ رہا ہے۔۔۔۔۔ اور اس پہلو سے ان اجتماعات اور جلسوں کے عمدہ اثرات اور افادیت بھر پور اور خوب سے خوب تر رہی ہے، جس سے کسی کو مجال انکار نہیں ہے، تقبل اللہ جھودھم و مساعیھم و جزاھم عنا و عن جمیع المسلمین احسن الجزاء فی الدنیا و الآخرۃ!!
لیکن بایں ہمہ وجوہ تعلیمی سناٹا اور درس گاہی ویرانی اپنی جگہ بر قرار ہی رہی، بنا بریں جو گھرانے اور والدین اپنی اولاد کی دینی تعلیم وتربیت کے لئے بیدار مغز تھے اور جو بچے جماعتی درس گاہی تعلیم کے لئے بیقرار تھے، ان کے لئے دہلی اور اتر پردیش کی بڑی بڑی درسگاہوں کے لئے لائق بننے اور رخت سفر باندھنے سے قبل، ابتدائی بنیادی پڑھائی کے لئے بھی خطۂ بنگال وغیرہ کے سوا کوئی چارہ کار، کوئی پناہ گاہ اور کوئی مدرسہ نہیں رہ گیا تھا، یا پھر غیر جماعتی مدرسہ سرکارڈیہ وغیرہ کی نظریں، اہل حدیث آبادیوں پر گڑی ہوئی تھیں۔
چنانچہ ناچیز کے والد محترم نے مناظر اسلام، خالد بنگال اور حضرت مولانا شیخ الکل میاں نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے تربیت و فیض یافتہ جناب مولانا عبد الرحیم صاحب بیر بھومی مرحوم کے مدرسہ آنبوہا کا رخ کیا، چمپاپور کے بہت سے متعلمین نے مدرسہ دلال پور کا سفر اختیار کیا، راقم کے چچا جناب محمد مستقیم صاحب اور بٹ بریا کے چند طلبہ نے مدرسہ اسلامیہ مدھو پور کا پیدل ہی سفر طے کیا، اور پھر حمل و نقل اور آمد ورفت کے ذرائع کے فقدان، معاشی بحران اور بدحالئ گزران نے سب کو چند ہی سال کے اندر اندر تھکا ماندہ اور ترک تعلیم اور تلاش روزگار پر مجبور کر دیا، راقم کے والد صاحب عرصہ ڈھائی سال تک مدرسہ آنبوہا میں رہ کر بحالت اضطرار مدرسہ سرکارڈیہ آگئے، پھر وہاں سے مدرسہ مظہر الحق موضع بٹ بریا آگئے اور بالآخر گھر واپس آ کر نظام گزر بسر اور زندگی کے جھمیلوں میں گم ہو گئے، چچا صاحب نے بھی کچھ عرصہ تک مدھو پور کی آمد ورفت کو جاری رکھ کر سلسلۂ تعلیم کو چھوڑ دیا اور عالم بننے سے رہ گئے۔
قارئین گرامی!!! یہ صرف ناچیز کے والد اور چچا کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس دور میں جماعتی آبادیوں کی بستی بستی، قریہ قریہ اور گھر گھر میں یہ کہانی پیش آ چکی ہے، کتنوں نے دینی تعلیم کی بے تابیوں اور امنگوں کو زبردستی زندہ درگور کیا ہے، کتنوں نے بحالت مجبوری ہندی اسکولوں کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، کتنوں نے چار و ناچار شخصیت پرستی اور رخصتی مدرسوں کی دریوزہ گری کی ہے اور کتنے ہی تشنہ لبوں نے زمانۂ فترت تعلیم کی مہلت و مجبوری سے نالاں ہو کر اپنی پوری زندگی کو علم و شریعت سے عاری اور نا آشنا رکھنے پر سمجھوتہ کر لیا، اور ہم سب کے آبا و اجداد کا زمانہ اور قیامِ جامعہ سے پہلے پیدا ہونے والے بڑے بھائیوں کا دورانیہ بھی نا خواندگی، دینی تعلیم سے محرومی، تقلیدی مدرسوں کی بد نظری، کتاب وسنت سے دوری اور در بدر کی ٹامک ٹوئیوں کی نذر ہو چکا ہے۔
بہر حال اس اندھیاری، تاریکی اور تعلیمی اضطراب و بے قراری کے کار زار اور روح فرسا حالات سے رزم آرا اور نبردآزما ہونے کے لئے قنادیل راہ، پہاڑی کے چراغ اور اصحابِ علم و فضل پر مشتمل علاقائی علماء کرام کی ایک معتد بہ تعداد بیرونی درس گاہوں میں سالہا سال گزارکر اور علوم شرعیہ سے آراستہ پیراستہ اور لیس ہو کر آگئی اور جیسے ہی جامعہ محمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا، اس کو ترقی دینے کے لئے، اسے پروان چڑھانے کے لئے اور اسے مرکزی حیثیت و شان کے ساتھ اجا گر کر نے کے لئے پورا علاقہ سراپا تحریک بن گیا، وہاں کے فقر شیوہ اور اخلاص پیشہ اساتذہ کرام نے بستی بستی اور گھر گھر کا دورہ کر کے جماعتی شیرازہ بندی بھی کی، منتشر افراد کو اکٹھا کرنے اور تعلیمی تنظیم کی لڑی میں پرونے کا بھی کام کیا، مالی فراہمی بھی کی اور تعلیمی بیداری کی ایسی مسیحائی کی کہ سبھی جماعتی طلبہ اپنی تشنگی بجھانے کے لئے عازم جامعہ ہوئے اور اور تقلیدی اداروں کو الوداع کہا، اور آب آمد تیمم بر خاست کے مصداق سنت کا سکہ، بدعت کے فرار ہونے کا اعلان بن گیا، اتباع حق کی تعلیم و ترویج، تقلیدِ باطل کے قلع قمع ہونے پر منتج ہوئی اور درس گاہ کتاب وسنت کا قیام، آماجگاہ فقہ و فن اور رزم گاہ حیلہ و حجت کی شکست و ریخت کا اعلان ثابت ہوا، جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا، والحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔۔
اللہ تعالیٰ جامعہ محمدیہ کے باحیات اساتذہ کرام کی عمر میں درازی اور صحت و تندرستی عطا فرمائے، ان کی مساعئ جمیلہ اور خدمات کو قبول فرمائے اور ہم تلامذہ اور عقیدت کیشوں کو مزید در مزید مستفید ہونے کے لئے ان کا سایہ تا دیر قائم و دائم فرمائے، اور وفات شدگان اساتذہ کرام پر کروڑوں رحمتیں برسائے، ان کی بشری لغزشوں سے صرف نظر فرمائے، قبر کی منزلیں آسان کرے اور انہیں جنت الفردوس کا اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین صد بار آمین!
وفی الختام، آج ہم وہیں کے فیض، وہیں کی بدولت، وہیں کی شہ اور وہیں کی مہمیز سے تھوڑے سے لائق کیا ہوئے کہ مادر علمی ہی کو نا لائق قرار دیئے، تھوڑے سے فائق کیا ہوئے کہ اسے پرکاہ کے درجے میں ڈال دیئے، تھوڑے سے قابل کیا بنے کہ اسے نا قابل تعلیم و تعلم باور کرانے لگے، تھوڑی سی صلاحیت کیا آئی کہ اسے غیر کار کرد کہنے لگے، اور تھوڑی سی صالحیت اور پارسائی کا خمار کیا چڑھا کہ اسے نا قابل معافی کے خانے میں ڈال کر توبہ و رجوع کی چابی سے بھی محروم کر دیا، یہ تو بالکل اسی طرح ہو گیا کہ ٹونٹی ہاتھ آئی تو ٹنکی کے انکاری ہو گئے، کنواں دیکھ لیا تو تالاب سے فراموشی اختیار کر لئے، نہر میں کیا چھلانگ لگائے کہ بحر بیکراں سے گستاخی کرنے لگے اور ایک چھوٹی سی ڈبیا اور دیا کیا ملا کہ سورج کو چراغ دکھانے لگے اور زمین آب و گل کیا ملی کہ آسماں پر تیر پھینکنے اور فضائے بسیط کو منہ چڑانے کی جرأت و جسارت پر آمادہ ہو گئے۔۔۔۔۔
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق۔
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما۔
گزارش احوال واقعی: ابنائے قدیم سے آج بھی اس مرکز جماعت اور سرمایۂ صد افتخار کی حفاظت اور اس کے منتشر افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے کمر ہمت باندھ لینے کی گزارش ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن و حدیث پر عمل کرنے اور اسلاف کرام کے نقوش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین!!!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *