از :عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(مدیر مجلہ)
الحمد و کفی و الصلاہ و السلام علی النبی المصطفی و الحبیب المرتضی و علی آلہ و صحبہ و من اھتدی۔أما بعد
ملک ِ عزیز میں نومبر ۲۰۲۰ء میں تین ایسے قوانین بزور پاس کرائے گئے تھے؛جو متنازع تھے؛اور جن سے کسانوں کو کافی نقصانات کے امکانات تھے؛مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے تحت قوانین پاس کرکے صدر جمہوریہ کی منظوری حاصل کرلی گئی ؛اور کسانوں پر زبردستی مسلط کرنے کی نا روا کوشش کی گئی ؛چنانچہ ملک ِ عزیز کے مختلف ریاستوں پنجاب، ہریانہ، اُترپردیش، راجستھان اور کئی دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں کسان ان متنازع قوانین کے خلاف گزشتہ ایک سال سے دارالحکومت نئی دہلی کے باہر(ٹکری,غازی آباد؛سدھو بارڈر وغیرہ پر) احتجاجی دھرنا دے کر بیٹھ گئے اور اس بات کی مانگ شروع ہوگئی کہ ان قوانین کو واپس لیا جائے ؛ہمیں ان کی ضرورت ہے اور نہ ہی یہ ہمارے مفاد میں ہیں؛ ملک کے کونے کونے سے کسانوں نے ان کے خلاف آوازیں بلند کیں,لکھنے والوں نے اس کے خلاف لکھا اور خوب خوب لکھا؛ہاں گودی میڈیا نے جم کر اس کی تعریف کے پل باندھے,حکومت کی گود میں بیٹھ کر قوانین کے معنی و مفہوم سمجھانے کی بھر پور کوششیں کی۔
کسانوں کا کہنا تھاکہ حکومت کی جانب سے زرعی اصلاحات کے نام پر متعارف کروائے جانے والے ان قوانین کی منظوری کے بعد زراعت کے شعبے میں نجی سیکٹر کے افراد اور کمپنیوں کے داخلے کا راستہ کھل جائے گا جس سے ان کی آمدنی متاثر ہو گی
ملک ِ عزیز کے وزیر اعظم نے 19 نومبر۲۰۲۱ء جمعہ کے روز جب صبح نو بجے قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا تو کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اچانک نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کریں گے۔ تاہم انہوں نے کسانوں سے متعلق اپنی حکومت کے تمام قوانین کو نہ صرف واپس لینے کا وعدہ کیا بلکہ اس کے لیے قوم سے معافی بھی مانگی(معافی مانگنا شاید ہمارے وزیر اعظم کو بہت اچھا لگا ہوگا)۔
وزیر اعظم نے انتہائی صاف لفظوں میں فرمایا:( ہماری حکومت کسانوں بالخصوص چھوٹے کسانوں کی فلاح اور شعبہ زراعت کے مفاد میں دیہی علاقوں اور غریبوں کے بہتر مستقبل کے لیے پوری نیک نیتی کے ساتھ یہ قوانین لے کر آئی تھی؛ہم اپنی کوششوں کے باوجود کچھ کسانوں کو ان قوانین کے بارے میں صحیح سے سمجھا نہیں سکے اس بات سے قطع نظر کہ زرعی ماہرین، ماہر اقتصادیات اور ترقی پسند کسانوں نے بھی انھیں ان قوانین کی افادیت کے بارے میں سمجھانے کی پوری کوشش کی۔ یہ قوانین کسانوں کے حالات بہتر کرنے کے لیے متعارف کروائے گئے تھے۔)
بتا تے چلیں کہ ایک سال کے دوران کسانوں اور سرکار(حکومت)کے درمیان سمجھوتہ کی کئی بار کوششیں ہوئیں؛مگر ہر بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ,اور اس دوران کسان مورچوں کی صراحت کے مطابق ساڑھے سات سو کسان کی جانیں گئیں؛گودی میڈیا کے اینکروں نے انہیں کبھی خالستانی کہا؛تو کبھی پاکستانی کے خطاب سے نوازا؛انہیں ملک مخالف بھی قرار دیا گیا؛بھاجپائی سیاست دانوں نے انہیں گالیاں بھی دیں؛برا بھلا کہنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؛راکیش ٹکیت (جو اس تحریک کے سب سے بڑے چہرے کے طور پر پہچانے گئے )کو راکیش ڈکیت تک کہا گیا؛ان کے راستے میں کیلیں گاڑی گئیں؛ان کے راستے بند کئے گئے؛ان پر گاڑیاں چلاکر انہیں روندا گیااور موت کے منہ میں دھکیلا گیا ؛ان کے اوپر دانہ پانی بند کرنے کی کوشش کی گئی؛اور نہ جانے کیا کیا خطابات و القاب سے ملقب کیا گیا
مگر آج جمعہ کی صبح (۱۹ نومبر) صاحب کو نہ جانے کیا نظر آیا ؛اچانک ٹی وی پر جلوہ افروز ہوئے اور ان تینوں قانونوں کی واپسی کا اعلان کردیا؛کچھ نے اس کا خیر مقدم کیا,تو بعض نے اسے سیاسی داؤ پیچ قرار دیا ؛خود بھاجپا کے بعض نیتاؤں نے اس کا خیر مقدم تو کیا مگر ان کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں,اور ان کے چہرے پر بارہ بج رہے تھے
اب سے(جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں )۹۹ دن کے بعد اتر پردیش کا چناؤ ہے,اس سے پہلے بنگال کے چناؤ میں بی جے پی کو مغربی بنگال کی ممتا جی کی پارٹی نے زبردست دھول چٹائی تھی,اور مغربی بنگال میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا,ضمنی انتخابات جہاں جہاں ہوئے؛بی جے پی کو خاک پھانکنی پڑی ؛کسان نیتاؤں نے ٹھان لیا تھا کہ ہر حال میں بی جے پی کی مخالفت کرنی ہے؛اور اس کے خلاف ماحول تیار کرنا ہے؛جس کا احساس بھاجپا کو بہ شدت ِ تمام ہوگیا تھا؛لوگوں کی اکثر جگہوں میں پنچایتیں کی گئیں,اور ان میں بھاری بھیڑ اکٹھی ہوئی تھی؛دوسری طرف بھاجپائی نیتا جہاں جہاں گئے,انہیں دوڑایا گیا؛انہیں کالے جھنڈے دکھائے گئے؛ان کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا گیا ؛اور کہا جاتا ہے کہ مرکزی حکومت کا راستہ اتر پردیش سے ہوکر گزرتا ہے؛اگر بھاجپا اتر پردیش ہار جاتی تو ۲۰۲۴ء میں دوبارہ مرکز میں برسر اقتدار آنا تقریبا محال لگ رہا تھا؛ایسے حالات میں ان کے سامنے اس بل واپسی کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں بچا تھا ؛اس لئے چار وناچار یہ قوانین واپس لینے کا فیصلہ لینا پڑا اور یہ زہر نہ چاہئے ہوئے پینا پڑا ؛ورنہ جو اکڑخوں پہلے دکھایا گیا تھا؛اور کسانوں کو جس طرح مرعوب کرنے کی کوشش کی گئی کہ انصاف کے ماتھے پر سردی کے دنوں میں بھی پسینہ آجائے ۔
ایسا لگتا تھا کہ چاہے جو ہوجائے؛قوانین کی واپسی کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ؛دوسری طرف کسانوں نے گویا قسم کھا رکھی تھی کہ چاہے جو ہوجائے ہم اپنے گھروں کو اس وقت تک واپس نہیں ہوں گے؛جب تک یہ قوانین واپس نہ لئے جائیں اور بغیر کسی شرط کے واپس لئے جائیں
اور کسانوں کے صبر و تحمل کو داد دئے بغیر نہیں رہا جا سکتا ہے کہ مختلف مراحل سے گزر کر بھی اپنی ہمت نہ ہارنا بڑے جگر گردے کا کام ہوسکتا ہے
ایک سال کے مسلسل احتجاجی مظاہرے,صبر آزما مراحل اور بالآخر قانون واپسی نے تو ایک چیز بہر حال سکھا دی ہے کہ انسان کو حوصلہ ہمیشہ کوہ ِ ہمالہ رکھنا چاہئے؛اللہ نے سچ فرمایا ہے (فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا * إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا )
بالآخر کسانوں کی جیت کا پہلا مرحلہ طے ہوا؛حالانکہ ابھی اور کئی مراحل ہیں جو باقی ہیں,اور ان میں بھی مودی جی کو پاس ہونا ناگزیر ہے,متعدد تنظیموں؛پارٹیوں اور ہیئات نے اس واپسی کو سراہا ہے,اور بلا شبہ سراہا جانا چاہئے؛مگر معاملہ اسی پر نہیں رکتا ,بلکہ اس سے بھی آگے کے کئی معاملات ہیں,جو طے ہونے ہیں؛اور ان میں بھی کامیابی شرط ِ اولین ہے ۔
لیکن در حقیقت یہ سیاسی کھیل سے زیادہ کچھ نہیں؛کسانوں کے جو نوجوان جاں بہ حق ہوئے ہیں؛ان کی قیمت کیسے چکائی جائے گی؟فصلوں کا جو نقصان ہوا ہے؛اس کی بھر پائی کی کیا صورت ہوگی ؟جو الزامات لگائے گئے ہیں؛ان کا حساب و کتاب کیا ہوگا؟جس قسم کی دشنام طرازیاں کی گئی ہیں؛ان کا کیا بنے گا ؟
کیا کسان اور کسان نیتا اتنے بھولے بن کر اس واپسی پر خوشی و مسرت کے شادیانے بجائیں گے ؟یا ان بہروپیوں کے اصل چہرے سمجھنے کی کوشش کر ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کا خاتمہ کریں گے؛یہ دیکھنے کے لائق ہوگا؛اور اس پر بر وقت کوئی تبصرہ کرنا(شاید)قبل از وقت ہوگا؛کیوں کہ ابھی وزیر ِ اعظم کے بل واپسی والے اعلان کے بعد بھی کسانوں کے نیتاؤں نے یہ اعلان کیا ہے کہ جب تک سنسد میں بل واپسی کا بل پاس نہیں کیا جاتا ہے اور جب تک وزیر ِ اعظم سنسد میں معافی نہیں مانگتے؛تب تک یہ تحریک جاری رہے گی؛ضرورت ہے کہ اس تحریک کو جاری رکھا جائے اور مگر مچھ کے آنسو بہانے والے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے ؛اور دوبارہ ایسے گھڑیال صفت لوگوں کو بر سر ِ اقتدار نہ آنے دینے کا عزم کیا جانا چاہئے؛تاکہ ایسی کوئی سازش رچنے کی ہمت نہ کر سکیں
ایک سوال اب بھی باقی ہے
زرعی قانون تو واپس ہوگئے؛بہت اچھی بات ہے,ہم پوری قوم کی طرف سے شکریہ ادا کرتے ہیں,آپ کے اس فیصلہ کو سو بار سراہتے ہیں,اور خوب خوب سراہتے ہیں,مگر ابھی بھی ایک سوال انتہائی شد و مد کے ساتھ اٹھایا جا رہا ہے(اور اٹھایا جانا چاہئے)اور پورا ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورا عالم پوچھتا ہے کہ جناب ِ وزیر ِ اعظم صاحب!زرعی قوانین تو آپ نے معافی مانگ کر واپس لےلئے(اور اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا)؛اور اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا؛اور سب نے آپ کی ہمت کی داد دی,مگر سی اے اے(CAA) کب واپس کیا جائے گا ؛جس کے خلاف پورے ملک میں (کیا طلبہ کیا طالبات؟کیا مرد کیا زن ؟کیا چھوٹا کیا بڑا؛کیا پڑھا لکھا اور کیا امی اور ان پڑھ )سب نے احتجاجی مظاہرے کئے؟دھرنے دئے؛جلسے جلوس کئے؛صدائے احتجاج بلند کی؛تحریکیں چلائیں,حتی کہ خواتین نے سردی اور گرمی,بھوک و پیاس اور دکھ تکلیف کی پرواہ کئے بغیر ایک تحریک چھیڑی بلکہ عظیم تحریک چھیڑی؛ایسی تحریک جس میں کتنے لوگوں کی جانیں گئیں؛کتنے لوگ مارے گئے؛کتنے افراد کی آنکھیں تلف ہوئیں؛ہاتھ ٹوٹے؛پاؤں کٹے,نوکریاں گئیں؛مگر سی اے اے (CAA)کے خلاف اپنی تحریک جاری رکھی؛تاہم وزیر ِ اعظم کی آفس کی طرف سے کوئی بیان اب تک نہیں آیا؛مگر تحریک بپا کئے رہے مگر ہماری حکومت گونگی بہری بنی رہی؛اور اس کے کان میں جوں تک نہیں رینگ سکی ۔
چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر ِ اعظم صاحب بہت جلد ہی سی اے اے(CAA) کو بھی واپس لیں گے اور قوم و ملت سے ویسے ہی معافی مانگیں گے جس طرح کسان بل کے لانے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے پوری قوم سے معافی مانگی ہے۔
رہے نام اللہ کا