✍️ ندیم أختر سلفی
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین ۔أما بعد
پہلی بات: عوام سے پہلے خواص کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام کی طرف منسوب کسی بھی جماعت پر کلام اور اس سے دور رہنے کا مطلب افراد جماعت کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں، بلکہ اس جماعت کے اصول و ضوابط اور اس کی عقدی اور منہجی خرابیوں کو واضح کرنا مقصود ہوتا ہے، کسی بھی جماعت کو اس کے افراد کے چشمے دیکھنا ہی غلط ہے، کیونکہ حق کی پہچان افراد اور شخصیات سے نہیں بلکہ کتاب وسنت پر مبنی اصول و ضوابط اور اقوال سے ہوتی ہے، ہم اکثر حق و باطل کو پہچاننے میں یہی بنیادی غلطی کر جاتے ہیں کہ شخصیات کو بیچ میں لے آتے ہیں، اور پھر اس طرح لوگ شخصیت پرستی اور جذبات میں آکر حق سے دور ہوجاتے ہیں.
ہر جماعت میں کچھ نام ایسے ہوتے ہیں جن کا قد اس جماعت میں اتنا بڑا ہوتا ہے کہ گویا کہ اس کا وجود ہی اس جماعت کی حقانیت کے لئے کافی ہے، جب کہ اسلام نے پیغمبر، خلفاء راشدین اور عام صحابہ کے سوا کسی بھی شخص کو یہ مقام نہیں دیا، تو پھر ان جماعتوں نے اپنی اپنی شخصیات کو اس مقام تک کیوں پہنچایا اور انہیں حق کی پہچان کیوں بنادیا؟
دوسری بات: کسی بھی جماعت کے خلاف بولنے کا مقصد اسلام میں فرقہ بازی اور گروہ بندی سے روکنا اور ڈرانا ہوتا ہے جسے اس جماعت کے افراد سرے سے بھول جاتے ہیں، آپ نصوص کتاب وسنت کو اٹھاکر دیکھ لیں کہیں بھی فرقے بازی اور جتھے بندی کی تعریف نہیں بلکہ مذمت کی گئی ہے، پھر یہ فرقے کیوں گھڑے گئے؟ قرآن و حدیث کے رہتے ہوئے کیوں اپنے اصول و ضوابط بنائے گئے؟ بعض مفاہیم میں اختلاف کے با وجود صحابہ کرام میں گروہ بندی کیوں نہیں ہوئی؟ کیونکہ وہ گروہ بندی کی خطرناکی کو سمجھتے تھے، اگر جماعتوں کے یہ اصول قرآن وحدیث سے ثابت ہوتے تو مختلف جماعتیں کبھی نہ بنتیں اور کوئی بھی جماعت دوسری جماعت کو گمراہ اور باطل کے نظریے سے کبھی نہیں دیکھتی، اس کا صاف مطلب ہے کہ ان میں سے کوئی بھی راہِ راست پر نہیں، انہیں فوراً توبہ کرنا چاہئے اور ان کی نقاب کشائی کرنے والوں کا احسان مند ہونا چاہئے.
یہ بات کہنے میں کوئی تامل اور ملال نہیں کہ دورِ اول سے لے کر اب تک جتنی بھی جماعتیں بنی ہیں یا تو شخصیات کے نام پر یا اپنے بنائے ہوئے عقائد اور ضوابطِ سلوک واخلاق کے نام پر ہیں، پھر ایسی صورت میں ان جماعتوں کا اصل اسلام سے منحرف ہونا تعجب کی بات نہیں، بلکہ ایسی جماعتوں کا منحرف ہونا طے ہے اور یہ بات اللہ کی طرف سے پہلے ہی بتادی گئی ہے (دیکھئے سورہ آل عمران آیت نمبر: 103، 107)
کسی بھی جماعت کے انحراف کو بیان کرنا، ان کے افکار و نظریات کو دلائل کی روشنی میں کنڈم کرنا کوئی نئی چیز نہیں، سلف(پرانے بزرگان دین) کی کتابوں کو پڑھیں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ وہ کس شدت کے ساتھ جماعت ہی نہیں بلکہ افراد جماعت پر بھی انکار کرتے اور اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے تھے، کیا اُس دور کی منحرف جماعتیں اور ان کے افراد اللہ اور اس کے رسول کا نام نہیں لیتے تھے؟ کیا وہ ظاہری شعائر اسلام نماز وروزہ اور حج کی پابندی نہیں کرتے تھے؟ اس کے باوجود سلف نے اس قسم کی ظاہری چیزوں کا خیال نہیں رکھا اور برابر ان کی گمراہیوں کو واضح کرتے رہے تاکہ عوام ان کے ظاہری صلاح و تقویٰ سے دھوکہ نہ کھائے، لیکن آج جیسے ہی کسی جماعت یا کسی فرد کی غلطیوں کو بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو فوراً یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں جماعت کی تو یہ خوبی ہے اور وہ خوبی ہے، فلاں شخص تو بڑا اللہ والا ہے، صوم و صلاۃ کا پابند ہے، کئی کتابوں کا مصنف ہے، ہر سال حج و عمرہ کو جاتے ہیں، اس کے عقیدت مند ہزاروں اور لاکھوں میں ہیں اور پوری دنیا میں اس کی للہیت کا چرچا ہوتا ہے!!!
یہی وہ اندھی تقلید اور شخصیت پرستی ہے جس نے جماعتوں کو اپنے افکار و نظریات کا جائزہ لینے اور اپنی گمراہیوں کی اصلاح سے روک رکھا ہے، اسلام کے عقائد و نظریات اور اس کے اصول و مبادی سورج کی طرح صاف و شفاف اور چمکنے والے ہیں، ان کی روشنی میں ہی اپنی راہ کو متعین کرنا چاہئے نہ کہ شخصیت پرستی کی راہ کو ہی کامیابی اور رضائے الہی کا ذریعہ سمجھنا چاہئے.
ہمیں اُن علماء کا احسان مند ہونا چاہئے جو ہماری غلطیوں کو پورے اخلاص کے ساتھ بغیر کسی تعصب اور کسی ملامت گر کی پرواہ کئے بغیر واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں.