از :۔ محمد احسان بن سراج الدین فیضی
(چنئی)
الحمد لله القائل: {وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ} وأشهد ألا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله القائل: ((حبب إلي من دنياكم الطيب والنساء)),صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
یقینا اللہ تعالیٰ نے مردوں کو قوام بنایا ھے اور میاں بیوی ایک دوسرے سے بیحد محبت ومودت کرتے ھیں ،اور یہ محبت فطری محبت ھوتی ھے جو ھرمخلص میاں بیوی کے درمیان ھوتی ھے ۔فرمان ربانی ۔وجعل بینکم مودة ورحمة،اور میاں بیوی کے درمیان رب العالمین نے محبت و الفت پیدا کیا ،نیز میاں بیوی ایک دوسرے سے سکون قلب حاصل کرتے ہیں۔جوسکون عیش وآرام پیسے اور مال ودولت سے بھی نھیں خرید سکتے ۔۔ومن آياته أن خلق لكم من أنفسكم ازواجا لتسكنوا إليها وجعل بينكم مودة ورحمة..سورة الروم /آيه رقم ٢١
اور اسکی نشانیوں میں سے ھے کہ تمہاری ھی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پاؤ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ھمدرد ی قائم کردی ،مطلب یہ ھیکہ مرد بیوی سے بے پناہ پیار کرتاھے ٹھیک ایسے ھی بیوی اپنے شوہر نامدار سے بھی خوب پیار سے پیش آتی ہےاس پر اپنی جان تک چھڑکنے کو تیار ہوجاتی ہے؛یہ بات یقین کی حد تک کہی جا سکتی ہے کہ ایسی محبت جو زن و شو کے درمیان ھوتی ھے دنیا میں کسی بھی دو شخصوں کے درمیان نھیں ھوتی ،اور ھر شوھر اپنی بیوی کو ہر طرح کی سہولت اور آسانی فراھم کرتا ہے,اس کے لئے شبانہ روز محنتیں کرتا ہے,کماتا ہے,دوڑ دھوپ کرتا ہے,اور اس کے آسائش کے لئے سعی ٔ بلیغ کرتا ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرا ر دیا؛فرمایا:( هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ)(سورہ ٔ البقرہ:۱۸۷) کہ جس طرح انسان کے تن سے لباس جدا نھیں ھوسکتا ھے ،بعینہ میاں بیوی ایک دوسرے سے کٹ کر جدا نھیں ہوسکتے ہیں ایک دوسرے سے محبت و الفت اور شفقت ہمیشہ جڑی رہتی ہے ۔۔شوہر کو تکلیف ہو تو بیوی بے چین اور پریشان ہوجاتی ہے۔۔بیوی اگر بیمار ھوتو شوہر ھر طرح کی قربانیاں دینے کے لئے تیار رھتا ہے اور علاج ومعالجہ کے لئے جتنا جتن وکوشش ھوتی ھے کرتا ہے اور اپنی بساط بھر کوشش کرتا ہے؛اس میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا ہے
یوں تو زندگی میں محبتوں کی آزمائش کے لئے کئی موڑ آتے ہیں؛جن سے زن و شو کو گزرنا پڑتا ہے؛لیکن ایک شوھر اور بیوی کے درمیان محبت اور ھمدرد ی کا امتحان اس وقت انتہائی شدید اور قوی ھوتا ھے جب بیوی کا جگر خراب ھوجائے ،اور شوھر کو جگر دینے کی ضرورت پڑ جائے ۔اسی طرح بیوی کی محبت و الفت کا امتحان اس وقت ھوتاھے جب شوھر کی ایک کڈنی خراب ہوجائے اور اپنی ایک کڈنی دینے کی بات آجائے ۔۔۔یقینا دنیا میں بہت سارے ایسے بھی شوھر ملیں گے جو جھوٹی محبت کا ھمیشہ دم بھرتے ھیں اور محبت کہیں اور ہوتی ہے اور جتاتا کہیں اور ہے؛یا محبت میں اخلاص نھیں رھتا ھے ،اور اپنی بیوی کے سامنے شیخیاں بگھاڑتا پھرے گا ’’تیری محبت کی خاطر چاندتارے توڑ کر لاسکتاھوں,, اور ,,تیرے لئے جان وجگر دے سکتاھوں ؛کبھی آزما لینا,, ۔لیکن جب عین آزمائش کی گھڑی آتی ھے تو ایسے شوھر پیچھے ہٹنے لگتے ھیں ۔۔اور جھوٹی محبت کی قلعی کھل جاتی ھے ۔لیکن اس دنیا میں بہت سارے ایسے بھی شوھر ھیں جو ماشاءاللہ اپنی شریک حیات کے لئے جان کی بازی بھی لگا دیتے ہیں
اس قسم کا؛ایک تازہ ترین واقعہ میں شیر کرنا چاھتا ھوں :میرا ایک مخلص شاگرد یا دوست کہہ لیجئے جو انتہائی دیندار ہیں,شہر چنئی کے میری مسجد کے محلے میں رہائش پژیر ہیں؛ ماشا اللہ سنت کے پابند ہیں,سلف صالحین کے عقیدہ پر گامزن ہیں ؛متبع کتاب و سنت ہیں؛نمازوں میں ہمیشہ پہلی صف میں رہتے ہیں,اکثر وبیشتر فجر کی اذان بھی دیتے ہیں؛جنہیں ہم رفیق محمد عمران صاحب کے نام سے موسوم کرتے ہیں,موصوف ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتے ہیں ،کرایہ کے مکان پر رہتے ہیں,۔مزدوری,اور شبانہ روز محنت و مشقت کرکے روزی روٹی کا بند و بست کرتے ہیں؛کچھ دنوں سے آپ کی اہلیہ کی طبیعت موزوں نہیں تھی, ڈاکٹروں کو دکھلایا ۔تو اطباء نے کہا کہ جگر ختم ھوچکا ھے ۔۔اسکو کسی کا جگر چاہئے,سرجری کرکے فٹ کرسکتے ہیں ۔اب عمران بھائی کے امتحان کا وقت آن پہنچا تھا کہ اپنی شریک حیات کو اپنا جگر کاٹ کر دے دیں تاکہ اللہ کی مشیت سے اس کی زندگی بچائی جا سکے, ۔ڈاکٹروں ۲۲ لاکھ روپے کا خرچ بتلایا؛موصوف کے ہاتھ سے طوطے اڑ گئے؛حواس باختہ ہوگئے کہ مجھ جیسا غریب آدمی اتنی موٹی رقم کہاں سے لائے گا؟کیسے لائے گا؛
موصوف نے مجھ سے اس بات کا تذکرہ کیا ۔۔اور مجھ جو ہوسکا مدد کیا ۔اپنے ہاتھ سے لکھ کر جمعیت اہل حدیث چنئی سے مدد کا مطالبہ کیا,الحمدللہ جمعیت یہاں کی بہت فعال ہے؛فقراء و مساکین کے تعاون و مدد کے لئے ہمہ دم تیار اور بر سر پیکار رہتی ہے؛جمعیت نے توصیہ لکھ کر دیا اور اھل ثروت واصحاب خیر سے مدد کا مطالبہ کیا ۔۔یقینا اللہ تعالی کا فرمان حق اور سچ ہے((ومن يتوكل على الله فهو حسبه))،کہ جوشخص رب پر بھروسہ کرتا تو اللہ تعالیٰ اسکے لئے کافی ھوتا اور رزق اور سبیل ایسی جگہ سے پیدا کردیتا ھے جہاں بندوں کا گمان بھی نھیں پہنچتا ھے ۔۔۔اللہ تعالیٰ نے سبیل پیدا کیا ۔تقریبا پندرہ لاکھ سی ایم(CM) فنڈ سے علاج ومعالجہ کے لئے ملا اور سات لاکھ کے قریب چنئ کے اصحاب خیر ومحسنین کی طرف سے,الحمد اللہ اسکے بعد دونوں کے آپریشن کا مرحلہ آیا یہ سرجری بہت بڑا بھی تھا اورسریس بھی ،چونکہ عمران صاحب کا آپریشن کرکے انکے جگر کو کاٹ کر انکی اہلیہ کے خراب جگر کو نکال کر فٹ کرنا تھا , یہ آپریشن 21/نومبر 2021کو رات کے وقت ھوا ۔۔ماھرین اطباء کی ایک ٹیم نے آپریشن کیا ،اور تقریبا دس گھنٹے لگ گئے دونوں کے آپریشن میں ۔۔الحمدللہ آپریشن کا میاب ھوا۔۔ بہت دیر بعد جب شوہر کو ہوش آیا؛تو سب سے پہلے پوچھتے ہیں کہ میری بیوی کی حالت کیسی ھے ؟بچے کیسے ھیں ۔۔؟جواب دیتے ھیں کہ سب ٹھیک ہے اور ڈاکٹر وں نے بتلایا کے انکی اہلیہ کو ہوش آنے میں چھ دن لگیں گے اسلئے مسجدوں میں دعاء کریں، الحمد اللہ دعائیں کی گئیں اور انکی اہلیہ کو بھی جلد افاقہ ہوگیا ۔۔۔دونوں ایڈمٹ ہیں مزید شفایابی کے لئے دعاء کریں ،یہ ھے ایک وفادار شوھر کی کہانی
مولانا نعمت اللہ عمری -حفظہ اللہ۔ فرماتے ہیں:(( میاں بیوی کے درمیان پائی جانے والی الفت ومحبت اور جاں نثاری کی یہ ایک زبردست مثال ہے، جو آپ کے ایک مصلی اور کتاب وسنت کے پابند دوست نے اپنی رفیقۂ حیات کی خاطر پیش کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جلد از جلد صحت و شفاء اور تندرستی عطا فرمائے اور ہر سرتاج اور شوہر نامدار کو اپنی بیویوں کے حق میں ایسا ہی وفا دار بنائے اور موصوف کی رفیقۂ حیات کو ان کے لئے رفیقۂ آخرت بھی بنائے آمین۔
طویل عرصہ ہوا، علاقے میں بھی اسی طرح کی ایک مثالی قربانی اور جاں نثاری کا واقعہ موضع پربت پور (دیوپور)(گریڈیہہ,جھارکھنڈ) میں بھی پیش آیا تھا، جس میں شوہر کی کڈنی فیل ہو گئی تھی، ویلور میں علاج ہوا، کڈنی کی قیمت اتنی تھی کہ اسے خریدنا اس کے بس کی بات نہ رہ گئی تھی، ایسے سنگین اور آزمائشی وقت میں مریض کی رفیقۂ حیات نے اپنی کڈنی اپنے سرتاج کے سپرد، حوالے اور منتقل کرنے کی رضامندی ظاہر کی اور پھر باقاعدہ موصوف کی بیوی کو بھی ویلور سی ایم سی اسپتال پہنچایاگیا، کڈنی ٹرانسفر آپریشن ہوا، دونوں کے آپریشن کامیاب رہے، آج وہ دونوں اطمینان وسکون کی زندگی گزار رہے ہیں، اللہ تعالیٰ مزید دونوں کو حیات تازہ اور صحت مند زندگی سے سرفراز فرمائے آمین۔
بھائیوں نے بھی آپس میں اس طرح کی جاں نثاری اور قربانی پیش کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا ہے، مادر علمی جامعہ دارالسلام عمر آباد میں شیخ التفسیر حضرت مولانا سید عبد الکبیر صاحب عمری رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند جناب مولانا محمد ندیم الحق صاحب عمری مدنی رحمہ اللہ کی کڈنی ناکام ہو جانے کی صورت میں موصوف کے چھوٹے بھائی نے اپنی کڈنی دے دی، آپریشن کامیاب رہا اور صحت و شفاء سے سرفراز ہو کر کئی سال تک فرائض تدریس انجام دیتے رہے اور اسی دوران ناچیز نے شیخ ندیم الحق صاحب عمری مدنی رحمہ اللہ سے سبق پڑھا ہے اور اب وہ دنیائے فانی سے دار البقاء کی طرف کوچ کر گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان دونوں کو دونوں جہانوں میں سرخروئی عطا فرمائے آمین۔
ایک دہائی قبل جھوم پورہ(اڈیشا) میں ایک غریب باپ نے اپنے لختِ جگر کی جان بچانے کے لئے اپنی کڈنی عنایت کر دیا، حیدرآباد میں علاج ہوا، آپریشن کامیاب رہا اور دونوں کافی عرصہ تک زندگی سے شاد کام ہو کر کچھ ہی عرصہ پہلے چند برسوں کی تقدیم و تاخیر کے ساتھ دونوں نے اپنی جانیں جان آفریں کے حوالے کر دیں، اللہ تعالیٰ دونوں کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے آمین۔
بات دراصل یہ ہے کہ آج کی مادہ پرستی اور فلمی دنیا میں یہ چیزیں صرف لفظوں، نغموں اور گیتوں میں سننے کو ملیں گی، لیکن مسلم معاشرے میں اور حقیقی الفت ومحبت کے موجودہ عالم میں آج بھی اس کی مثالیں زندہ اور موجود ہیں۔
ارباب ثروت، دولت مندوں اور عیش و عشرت کے خسروانوں کو جب کڈنی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ساگ سبزی، پٹل اور بیگن کی طرح خرید لیتے ہیں، لیکن غریبوں کی سوسائٹی اور طبقے میں یہی قربانیاں اور جاں نثاریاں ہیں جو حیات انسانی کو دراز کرتی ہیں اور انسانیت کو تقویت پہنچاتی ہیں))۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سبق آموزی کی توفیق بخشے آمین؛اور وفادار شوہر بنائے