کیا قرآن کریم کو دیکھ کر تراویح یا فرائض وغیرہ میں پڑھ سکتے ہیں ؟

از قلم :فضیلۃ الشیخ یوسف البزلوی

ماہ ِ رمضان کا مبارک ماہ پورے عالم ِ اسلام پر سایہ افگن ہے؛اسلامیانِ عالم اس کے فیوض و برکات سے محظوظ و مستفید ہو رہے ہیں؛قسم قسم کے سوالات ذہن و خیال میں گردش کرتے ہیں,مختلف قسم کے لوگ متعدد سوال کرتے ہیں,کچھ اعتراضات کی بوچھاڑ بھی کرتے ہیں,کچھ جاننا چاہتے ہیں,کچھ ایسے ہیں جو طنزیہ اسلوب بھی اختیار کرتے ہیں؛اور جو قرآن ِ کریم کو دیکھ کر تراویح سناتے ہیں,ان پر طنز و تعریض کے تیر و نشتر چلاتے ہیں,انہیں قرآن دیکھ کر پڑھنا تو نظر آتا ہے,مگر  بعض حفاظ قرآن کے ساتھ جو کھلواڑ کرتے ہیں,انہیں یکسر نظر نہیں آتا ہے,یعلمون ,تعلمون کے علاوہ قرآن کا کوئی بھی لفظ سمجھ میں نہیں آتاانہیں یہ دکھائی نہیں دیتا ہے,کیا یہ قرآن ِ کریم کے ساتھ مذاق اور کھلواڑ نہیں ہے؟کبھی ان سے پوچھنا چاہئے کہ کیا قرآن اس طرح پڑھنا جائز ہے؟کیا نبی ٔ کریمﷺ نے اس طرح قرآن ِ کریم پڑھا؟کیا آپ ﷺ کے سامنے اس طرز ِ مذاق کے ساتھ قرآن پڑھا گیا ؟ نہیں اور ہرگز نہیں اور لاکھ بار ہرگز نہیں ۔

[نوٹ:اس تحریر کی تیاری میں فضیلۃ الشیخ الدکتور محمد یوسف بزلوی ریاضی ۔حفظہ اللہ۔ کی تحریر سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے,بلکہ اگر یہ کہیں تو بیجا نہ  ہوگا کہ یہ تحریر آں حفظہ اللہ کی تحریر ہی ہے,بعض اضافوں کے ساتھ اسے نذر قارئین کیا جا رہا ہے:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی ]

آئیے اس سلسلہ میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا قرآن دیکھ کر پڑھا جا سکتا ہے؟

جمہور  اہل علم کاموقف یہ ہے کہ قرآن کو نفل نمازوں میں (خاص کر تراویح کی نماز میں )دیکھ کر پڑھا جا سکتا ہے اس میں کوئی کوئی حرج نہیں ہے.

آئیے اس سلسلہ میں  اقوال صحابہ,تابعین اور بیانات ِ ائمہ ٔ دین  ملاحظہ کرتے ہیں :

[۱] ام المؤمنین عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔(عن عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها: “أنها كان يؤمها عبدُها ذكوان ويقرأ من المصحف“)(ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں انہیں انکا ایک ذکوان نامی غلام مصحف سے دیکھ کر نماز تراویح پڑھایا کرتا تھا)[بخاری :، كتاب: الأذان، باب: إمامة العبد والمولى 1/ 140 في مقدمة الباب ،امام بخاری نے اسے معلقا بہ جز ذکر فرمایا ہے,ابن ابی شیبہ نے موصولا ذکر فرمایاہے, دیکھئے:المصنف لابن ابی شیبہ123/2 ، السنن الكبرى للبيهقي253/2 واللفظ له ، أخرجه أبو بكر بن أبي داود في كتاب المصاحف 1 / 457 نمبر:794].

[۲]خادم رسول حضرت انس بن مالک ۔رضی اللہ عنہ۔:ثابت بنانی بیان کرتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب نماز پڑھاتے تو انکا غلام انکے پیچھے قرآن پکڑتے رکھتا تھا جب انہیں کہیں غلطی ہوتی تو وہ انہیں کھول کر دیتا تھا۔[المصنف لابن ابی شیبہ 123/2](یہ اثر بہ سند صحیح ثابت ہے,اور علمائے محققین نے اس کی توثیق فرمائی ہے)

[۳]معروف محدث و فقیہ محمد بن شہاب زہری ۔رحمہ اللہ۔:[وسُئِل الإمام الزهريُّ عن رجلٍ يقرأ في رمضان في المصحف، فقال: كان خيارنا يقرءون في المصاحف] [مالك: المدونة1 الکبری از مالک :1/ 288–289 ابن قدامہ کی المغنی:1/335، مقریزی کی: مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر ص233] (ترجمہ:امام زہری رحمہ اللہ سے ایک شخص کے  بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ قرآن کریم سے دیکھ کر پڑھتا ہے  آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ ہم سے بہتر لوگ قرآن سے دیکھ کر پڑھا کرتے تھے)

[۴]امام مالک ۔رحمہ اللہ۔؛امام مالک ۔رحمہ اللہ۔ جو امام دار الہجرہ کے نام سے مشہور ہیں,علمائے اسلام کے یہاں آپ کا پایہ انتہائی بلند و بالا ہے,فرماتے ہیں:[اگر کوئی رمضان کے مہینے میں لوگوں کو نماز پڑھائے اسکے لئے  نفل نماز میں مصحف سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔[المدنۃ الکبری:288/1]

[۵]امام حسن بصری ۔رحمہ اللہ۔امام صاحب مشہور تابعی ہیں,فرماتے ہیں:[نماز میں قرآن مجید پکڑ کر قراءت کرنے میں کوئی حرج نہیں] [مصنف ابن ابی شیبہ338/2]

[۶]امام  احمد بن حنبل ۔رحمہ اللہ۔,امام احمد امام اہل سنت کے نام سےجانے جاتے ہیں,فرماتے ہیں:[ امام اگر کوئی نماز میں کھڑے ہوکر مصحف سے دیکھ کر پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، انہیں پوچھا گیا کہ کیا فرض نماز میں بھی ؟آپ نے رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے نہیں لگتا کہ اس میں کوئی حرج ہے۔[ابن قدامة: المغني 411/1 والبهوتي: دقائق أولي النهى لشرح المنتهى211/1 ،والموسوعة الفقهية الكويتية 33/57]

[۷]ائمہ شوافع اور ائمہ حنابلہ: اس باب میں ائمہ ٔ شوافع اور ائمہ ٔ حنابلہ  فرماتے ہیں:کہ قرآن کریم کو دیکھ کر پڑھنا چاہئے فرض نماز ہو  یا نفل دونوں ہی میں بغیر کسی کراہت کے جائز ہے بلکہ جس شخص کو سورہ فاتحہ یاد نہ ہو اسکے لئے قرآن سے پڑھنا ہی واجب ہے۔ [ دیکھئے:حلية العلماء في معرفة مذاهب الفقهاء؛ للشاشي2/ 89  والمجموع شرح المهذب؛ للنووي 4/ 95 ،  وروضة الطالبين وعمدة المفتين؛ للنووي 1/ 294 وشرح مشكل الوسيط؛ لابن الصلاح 2/ 191  والعزيز شرح الوجيز المعروف بالشرح الكبير؛ للرافعي 2/ 55 ، شرح الزركشي على مختصر الخرقي 2/ 92  وحاشية الروض المربع؛ لابن القاسم 2/ 110  والمغني؛ لابن قدامة1/ 411].

[۸] احناف کے معتمد دو ائمہ  قاضی  ابو یوسف اور امام محمد بن حسن سیبانی ۔رحمہما اللہ ۔ فرماتے ہیں قرآن کو دیکھ  کر پڑھنا نوافل میں جائز ہے اسلئے کہ قرآن سے دیکھ کر پڑھنا بھی عبادت ہے ،  ہاں فرائض میں مکروہ ہے۔[ دیکھئے :المبسوط للسرخسي1/ 201 وبدائع الصنائع في ترتيب الشرائع؛ للكاساني1/ 236  والهداية في شرح بداية المبتدي للمرغناني1/ 63 وبداية المبتدي للمرغناني ص: 19 والاختيار لتعليل المختار للبلدحي1/ 62 ، شرح التلقين للمازري 1/ 682  والذخيرة للقرافي 2/ 408 والجامع لمسائل المدونة لابن يونس3/ 1190].

[۹]علامہ منصور بہوتی حنبلی فرماتے ہیں:( وله -أي المصلِّي- القراءةُ في المصحف ولو حافظًا، والفرض والنفل سواء؛ قاله ابن حامد)(کشاف القناع:1/384)

[۱۰]امام نووی ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں: [ لَوْ قَرَأَ الْقُرْآنَ مِنْ الْمُصْحَفِ لَمْ تَبْطُلْ صَلَاتُهُ، سَوَاءٌ كَانَ يَحْفَظُهُ أَمْ لَا، بَلْ يَجِبُ عَلَيْهِ ذَلِكَ إذَا لَمْ يَحْفَظِ الْفَاتِحَةَ كَمَا سَبَقَ، وَلَوْ قَلَّبَ أَوْرَاقَهُ أَحْيَانًا فِي صَلَاتِهِ لَمْ تَبْطُلْ][الجموع:4/27][ترجمہ: اگر کوئی شخص نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھے  چاہے اسے قران یاد ہو یا نہ ہو اسکی نماز صحیح ہے   اور جسے سورہ فاتحہ یاد نہ ہو اس کے لئے مصحف سے دیکھ کر پڑھنا ضروری ہے ، اور اگر کبھی اسے ورق پلٹنے کی بھی ضرورت پڑے تب بھی نماز فاسد نہیں ہوتی ہے]

[۱۱]امام رازی ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:[ امام رازی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول کہ قرآن سے دیکھ پڑھنا جائز نہیں ہے یہ اس شخص کے لئے جو حافظ قرآن ہو اگر غیرحافظ قرآن ہو اسکی نماز ان سب کے پاس باطل نہیں ہے۔[البحر الرائق شرح كنز الدقائق ج4/ 73]

[۱۲] امام غزالی ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:[ وقد قيل الختمة في المصحف بسبع؛ لأنَّ النَّظر في المصحف أيضًا عبادة][احیاء علوم الدین  1/229]

[۱۳]علامہ بدر الدین عینی  حنفی ۔رحمہ اللہ۔  بخاری میں وارد واقعہ ٔ ذکوان کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:[ من المصحف……. :ظاهره يدل على جواز القراءة من المصحف في الصلاة، وبه قال ابن سيرين والحسن والحكم وعطاء، وكان أنس يصلي وغلام خلفه يمسك له المصحف، وإذا تعايا في آية فتح له المصحف][عمدۃ القاری:5/225],فائدہ کے لئے علامہ عینی کی پوری عبارت نقل کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے,کیوں ہمارے احناف بھائی ہی اس سلسلہ میں زیادہ تشدد سے کام لیتے ہیں,علامہ فرماتے ہیں[إيراد هذا الأثر يدل على أن مراده من الترجمة الجواز وإن كانت الترجمة مطلقة، ووصل هذا ابن أبي شيبة عن وكيع عن هشام ابن عروة عن أبي بكر بن أبي مليكة أن عائشة رضي الله تعالى عنها أعتقت غلاماً عن دبر فكان يؤمها في رمضان في المصحف، وروى أيضاً عن ابن علية عن أيوب سمعت القاسم يقول كان يؤم عائشة عبد يقرأ في المصحف ورواه الشافعي عن عبد المجيد بن عبد العزيز عن ابن جريج أخبرني عبد الله بن عبيد الله بن أبي مليكة أنهم كانوا يأتون عائشة بأعلى الوادي هو وعبيد بن عمير والمسور بن مخرمة وناس كثير فيؤمهم أبو عمر ومولى عائشة وهو يومئذ غلام لم يعتق وكان إمام بني محمد بن أبي بكر وعروة وعند البيهقي من حديث أبي عتبة أحمد بن الفرج الحمصي حدثنا محمد بن حمير حدثنا شعيب بن أبي حمزة عن هشام عن أبيه أن أبا عمرو ذكوان كان عبداً لعائشة فأعتقته وكان يقوم بها شهر رمضان يؤمها وهو عبد، وروى ابن أبي داود في (كتاب المصاحف) من طريق أيوب عن ابن أبي مليكة أن عائشة كان يؤمها غلامها ذكوان في المصحف. وذكوان بالذال المعجمة وكنيته أبو عمرو مات في أيام الحرة أو قتل بها. قوله وهو يومئذ غلام الغلام هو الذي لم يحتلم، ولكن الظاهر أن المراد منه المراهق وهو كالبالغ. قوله من المصحف “ظاهره يدل على جواز القراءة من المصحف في الصلاة”’ وبه قال ابن سيرين والحسن والحكم وعطاء، وكان أنس يصلي وغلام خلفه يمسك له المصحف وإذا تعايا في آية فتح له المصحف، وأجازه مالك في قيام رمضان، وكرهه النخعي وسعيد بن المسيب والشعبي وهو رواية عن الحسن وقال هكذا يفعل النصارى وفي مصنف ابن أبي شيبة وسليمان بن حنظلة ومجاهد بن جبير وحماد وقتادة وقال ابن حزم لا تجوز القراءة من المصحف ولا من غيره لمصل إماما كان أو غيره فإن تعمد ذلك بطلت صلاته وبه قال ابن المسيب والحسن والشعبي وأبو عبد الرحمن السلمي وهو مذهب أبي حنيفة والشافعي. قال صاحب (التوضيح) وهو غريب لم أره عنه قلت القراءة من مصحف في الصلاة مفسدة عند أبي حنيفة لأنه عمل كثير وعند أبي يوسف ومحمد يجوز لأن النظر في المصحف عبادة ولكنه يكره لما فيه من التشبه بأهل الكتاب في هذه الحالة وبه قال الشافعي وأحمد وعند مالك وأحمد في رواية لا تفسد في النفل فقط]

[۱۴]مملکت ِ سعودی عرب کے سابق مفتی ٔ اعظم علامہ ابن باز۔رحمہ اللہ۔فرماتے ہیں:[ علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر اسکی ضرورت پڑے تو مصحف سے دیکھ کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا جائز ہے جیساکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہوتا ہے اگر کوئی شخص فجر کی نماز میں لمبی سورتیں پڑھنا چاھتا ہو اور اسے زیادہ قرآن یاد نہ ہو تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔[مجموع فتاوى ابن باز117/11].والله اعلم]؛نیز فرماتے ہیں:[ اذا دعت الحاجة إلى ذلك لا بأس، مثل التراويح والقيام في رمضان لا حرج، وإذا كان الإنسان يقرأ عن ظهر قلب يكون أخشع إذا تيسر له ذلك، فإذا دعت الحاجة إلى أن يقرأ من مصحف لكونه إماماً أو المرأة ويتهجد بالليل أو الرجل كذلك وهو لا يحفظ فلا حرج في ذلك][دیکھئے: https://binbaz.org.sa/fatwas/8305]

[۱۵]محدث عصر علامہ البانی ۔رحمہ اللہ۔ ,علامہ کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں,دور ِ حاضر میں جب تک کوئی صححہ الألبانی ,ضعفہ الألبانی نہیں کہہ لیتا ,اس کی تحقیق غیر معتبر قرار پاتی ہے,[آں رحمہ اللہ بھی جواز کے قائل ہیں البتہ حفاظ اور علماء کے لئے ایسا کرنا صحیح نہیں ہے بلکہ انہیں چاہئے کہ وہ قرآن ہی سے قرآن کی تلاوت بحالت نماز کریں ایسا کرنا نبی علیہ السلام اور صحابہ سے مروی نہیں  ہے لیکن اگر کسی کو ضرورت پڑے تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ افضل یہی ہے کہ امانت وہی کرے جسے زیادہ قرآن یاد ہو جیساکہ حدیث میں ہے کہ نماز وہی پڑھائے جو تم میں قرآن کا زیادہ عالم ہو۔[سلسلة الهدى والنور 618 ، هل تجوز القراءة من المصحف في الصلاة المكتوبة.؟].(اور یہی بات قرین ّ قیاس اور اقرب الی الصواب ہے,جس میں کسی کو کوئی الجھن نہیں ہونی چاہئے؛علامہ ۔رحمہ اللہ۔ توازن و اعتدال کے اعلی معیار و میزان پر ہے,فرحمہ اللہ رحمۃ الأبرار

[۱۶]فقیہ ِ عصر علامہ ابن عثیمین ۔رحمہ اللہ۔فرماتے ہیں:[قیام رمضان میں قران کو ہاتھ میں لیکر اسے دیکھ کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جبکہ مقتدیوں کی خواہش ہو کہ وہ زیادہ سے زیادہ سننے کی سعادت حاصل کریں جیساکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے۔[فتاوى اللقاء الشهري للعثيمين: 2 ، 329]]

[۱۷]مملکت سعودی عرب کے فقیہ ِ زمن علامہ ابن  جبرین ۔رحمہ اللہ۔جب آں رحمہ اللہ سے اس بابت سوال کیا گیا تو فرمایا:[ لا أرى بأساً في حمل المأموم المصحف خلف الإمام، ومتابعته في القراءة لهذا الغرض، أو للفتح عليه إذا غلط، ويغتفر ما يحصل من حركة القبض وتقليب الأوراق، وترك السنة في قبض اليسار باليمين، كما يغتفر ذلك في حقّ الإمام الذي يحتاج إلى القراءة من المصحف، لعدم حفظه للقرآن، ففائدة متابعة الإمام في المصحف ظاهرة، بحضور القلب لما يسمعه، وبالرقة والخشوع، وبإصلاح الأخطاء التي تقع في القراءة من الأفراد، ومعرفة مواضعها، كما أن بعض الأئمة يكون حافظاً للقرآن فيقرأ في الصلاة عن ظهر قلب، وقد يغلط ولا يكون خلفه من يحفظ القرآن فيحتاج إلى اختيار أحدهم ليتابعه في المصحف، ليفتح عليه إذا ارتج عليه، ولينبهه إذا أخطأ، فلا بأس بذلك إن شاء الله تعالى]

اب آئیے ان حضرات کی اس دلیل کا بھی ایک علمی جائزہ لیتے ہیں,جو اس دلیل کی بنیاد پر قرآن کو بحالت ِ نماز دیکھ کر پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں, ان کی ایک دلیل حضرت  ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث ہے ؛فرماتے ہیں:[“نَهَانَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يُؤَمَّ النَّاسُ فِي الْمُصْحَفِ، وَنَهَانَا أَنْ يَؤُمَّنَا إِلَّا الْمُحْتَلِمُ”.][کتاب المصاحف لابن أبی داؤد  حدیث نمبر:655][ترجمہ: ہمیں امیر المومنین رضی اللہ عنہ مصحف سے دیکھ کر نماز میں امامت کرنے کی صورت میں منع کرتے تھے اور نابالغ کی امامت سے منع کیا]

جب ہم اس حدیث کی استنادی حیثیت پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ  یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، اس لئے کہ اس روایت کی  سند میں ایک راوی بنام  [[نھشل بن سعد نیسابوری]] جو ائمہ ٔ جرح و تعدیل کے یہاں  کذاب اور متروک راوی ہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے انکی احادیث کو منکر کہا ہے۔[دیکھئے:التاريخ الكبير155/8].

امام نسائی رحمہ اللہ انکے بارے میں کہا ہے کہ یہ ثقہ نہیں ہے اور انکی حدیثیں نہ لکھی جائے۔[دیکھئے:تهذيب التهذيب427/10].

جن لوگوں نے دوران نماز قرآن اٹھانے کو ناجائز قرار دیا ہے اور اس چیز کے بھی قائل ہیں کہ اسے نماز فاسد ہوتی ہے انکا یہ کہنا غلط ہے اسلئے کہ نبی ٔ کریمﷺسے ثابت ہے کہ آپ علیہ السلام لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور آپ علیہ السلام  اپنی بیٹی کی بیٹی کو دوران نماز اپنے کندھے پر اٹھاتے تھے۔[رواه البخاري ، حدیث حدیث نمبر:494 ، مسلم 543 ، سنن الدارمي 859/2].

. ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خلاصہ کلام:

قرآن کریم کو پکڑ کر دوران نماز دیکھنے کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے کوئی واضح اور صریح دلیل موجود نہیں ہے اور نبی ﷺ اور صحابہ کا طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ قرآن کریم دوران نماز زبانی پڑھتے تھے اور اس بارے میں یہی افضل بہتر اور زیادہ اجر وثواب اسی میں ہے کہ نبی علیہ السلام کی اتباع کی جائے جیساکہ اللہ کا فرمان ہے کہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔

اور اگر ہر کسی کو اس چیز کی اجازت دی جائے کہ قرآن کو پکڑ کر پڑھ سکتے ہیں تو پہر لوگ غفلت سے کام لیں گے اور اور قرآن کریم زیادہ سے زیادہ یاد کرنے سے غفلت پرتیں گے اور اسے حفاظ وعلماء کی قدر بھی لوگوں کی نظروں میں کم ہوجائے گی جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور فرمان جاری فرمایا کہ لوگوں کی امامت وہ کرے جو قرآن کا زیادہ جاننے والا ہو اسلئے اس بارے میں افضل یہی ہے کہ کسی بھی مسجد میں حافظ قرآن ہی کو رکھا جائے یا کم از کم اس شخص کو امام رکھا جائے جس سے عام لوگوں کے بنسبت زیادہ قرآن یاد ہو اور جتنا بھی وہ نماز میں خاص کر نماز تراویح مین قرآن پڑھے وہی بہتر ہے اسلئے کہ ختم قرآن کرنا واجب لازمی فرض نہیں ہے؛ اسلئے جتنا بھی قرآن پڑھا جائے وہ قرآن پڑھنے والا تجوید قواعد قرآں جاننے والا ہو وہ قراءت کے دوران لحن جلی یا لحن خفی کا مرتکب نہ ہوتا ہو اسلئے کہ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا بہتر نہیں ہے۔

البتہ کسی مسجد یا گھر میں ایسی صورت حال پیش آجائے کہ انہیں حافظ قرآن نہ ملے اور انہیں قرآن سننے کا شوق ہو یا اسی طرح آج کل کے ان وبائی حالات میں مساجد میں جانا کسی حد تک وقتی طور منع ہے ان حالات میں صاحب بیت یا گھر میں جو زیادہ قرآن جاننے والا ہو اسے ہی چاھئے کہ وہ نماز پڑھائے اگر انہیں زیادہ قرآن سننے کا شوق و ذوق ہو اس صورت میں وہ شخص کسی چھوٹے سے مصحف یا موبائل سے قرآن کو پڑھ سکتا ہے یہ صرف جواز کی حد تک جائز ہے ورنہ بہتر افضل اور سنت یہی ہے کہ نمازکے دوران قرآن زبانی ہی پڑھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام کے بارے میں جو اثر گذر گیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنھا کو نماز پڑھاتا تھا اسے صرف جواز پر ہی محمول کیا جائے گا۔

موبائل سے قرآن پڑھنے کو دوران نماز بعض علماء معاصرین نے اجازت دی ہے۔

تنبیہ:بہتر اور افضل یہی ہے کہ قرآن نماز میں زبانی ہی پڑھا جائے البتہ بوقت ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے چونکہ دوران نماز ہاتھ میں قرآن پکڑنا یا موبائل پکڑنے شے خشوع وخضوع میں کمی آسکتی ہے اسلئے ایسا کرنا بہتر نہیں بوقت ضرورت جائز ہے جیساکہ تفصیل گزر گئی۔.    والله اعلم بالصواب.

وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وأصحابه أجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *