✍️__ندیم اختر سلفی، سعودیہ عربیہ
ڈالی ہے میں نے پیکر انسانیت میں روح بے روح و بے نگاہ تھا انساں مرے بغیر
بلا شبہ دین اسلام انسان وحیوان ہر جاندار کے لیے رحمت والا دین ہے،زمین پر بسنے والی ہر مخلوق کے لیے اس کی رحمت عام ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”رحم کرنے والوں پر رحمن رحم فرمائے گا ، تم اہلِ زمین پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا-“(ابوداؤد ح:4941، ترمذی ح:1924)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہان والوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے-“(107)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے احسان کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: “اور سلوک واحسان کرو، اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔”(البقرة: 195)
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ احسان کو واجب کیا ہے، سو جب تم قتل کرو تو اس میں بھی اچھا ئی کے ساتھ قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، چاہیے کہ ذبح کرنے والا اپنی چھری کو تیز کرلے اور اپنے جانور کو راحت پہنچائے۔”(مصنف عبد الرزاق ح:8604، مسلم ح: 1955 باب: الأمر بإحسان الذبح والقتل، أبو داود ح: 2814 بروایت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ)۔
پچھلی امتوں میں سے ایک زانیہ کو اللہ نے معاف کردیا، سبب تھا کہ اس نے ایک سخت پیاسے کتے کو پانی پلایا، اور ایک دوسری عورت عذاب کا شکار ہوئی کیونکہ اس نے ایک بلّی کو باندھ رکھا تھا، نہ اسے کھانا دیتی اور نہ اسے باہر چھوڑتی تاکہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے- (صحیح بخاری ح:3467،3482)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”اللہ کے بندو!نماز کی حفاظت کرو، اور (ان كا خيال ركھو) جو تمہارے ماتحت ہیں-” (ابوداؤد: 5156)
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کر، واور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو، اور رشتہ داروں سے، اور یتیموں سے،اور مسکینوں سے،اور قرابت دار ہمسایہ سے، اور اجنبی ہمسایہ سے، اور پہلو کے ساتھی سے،اور راہ کے مسافر سے، اور ان سے جن کے مالک تمہارے ہاتھ ہیں (یعنی غلام ولونڈی)،یقیناً اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا-“(النساء: 36)
اس سلسلہ میں کتاب وسنت میں بے شمار دلائل ہیں، نیز تاریخ کے اوراق بھی مسلمانوں کے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں، جس کی نظیر کسی دوسرے دین میں نہیں ملتی، ہمارا دین دینِ احسان ہےجو ہر چیز کو شامل ہے، یہ دین لوگوں کو تاریکی سے روشنی کی طرف، انسانوں کی غلامی اور بندگی سے اللہ کی بندگی کی طرف ، اور ادیان باطلہ کے ظلم وجور سے نکال کر عدلِ اسلام کے سایہ میں لانے کے لیے آیا ہے۔
اسی اسلام کے ذریعہ اللہ نے ہمیں عزت دی جیسا کہ امیرا لمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: “ہم وہ قوم ہیں جنہیں اللہ نے اسلام کے ذریعہ عزت دی ، تو جب بھی ہم غیرِ اسلام میں عزت تلاش کریں گے اللہ ہمیں رسوا کردےگا-” (المستدرک للحاکم 1/130، علامہ البانی نے اسے “سلسلہ الأحادیث الصحیحۃ ” 1/117میں صحیح کہا ہے )
جو بھی بھلائی ہے وہ اسی دین میں ہے تو پھر کیوں ہم اسلامی پہچان سے ہٹ کر انسانیت پر فخر محسوس کرتے ہیں اور غیروں کے لئے اپنی ساری کوشش اور جذبے کو انسانیت کے لیے قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ انسانی عمل ہے، یہ انسانیت کے نام پر ہے، یہ کیوں نہیں کہتے کہ یہ اسلامی عمل ہے، یہ اسلام کے نام پر ہے، اس خیر کا راستہ اسلام نے ہمیں دکھایا ہے وغیرہ، پھر ہم اپنی تنظیموں کا نام انسانیت کے نام پر کیوں رکھتے ہیں اسلام کے نام پر کیوں نہیں؟ بلا شبہ اس طرح کی نسبت سے اسلام کی شان میں کمی ہوتی ہے اور دعوت اسلام کے بہت سارے گوشوں کو چھوڑنے اور غیروں تک نہ پہنچانے کاہم خود ہی سبب بن جاتے ہیں جن میں سے ایک اہم گوشہ عام بشریت کے لیے اسلام کی رحمت بھی ہے۔
اس لیے ہمیں اسلام پر فخر کرنا چاہیے کیونکہ یہی دین انسانیت ہے، اسے دینِ انسانیت نہیں کہا جاسکتا جس میں کفر وشرک کی دعوت ہو، جو نظامِ الہی کے خلاف دنیاوی نظام کو فیصل مانے، جو عوام کو بے گھر کردے، عوام کا خون بہائے، جو املاك وجائداد کو برباد کردے، یہ تو انسانیت کے خلاف ہے،اور اسے انسانی حقوق کے ادارے نہیں کہا جاسکتا جہاں خودحقوق انسانی کی پامالی ہوتی ہے، جہاں انسانوں کے بنائے ہوئے نظام ِانسانیت کو اس کا حقیقی مقام نہیں دلاسکتے، یہ ادارے انسانیت کو دھوکہ دنیے کے لیے بنائے گئے ہیں، کیوں کہ اس کے سب سے زیادہ شکار انسانیت کے اصلی علم بردار ہی ہیں۔
اصل انسانیت تو وہ ہے جو اسلام لے کر آیا ایک ایسے وقت میں جب انسانیت پر تاریکی کے بادل پوری طرح چھائے ہوئے تھے، انسانیت گمراہی کے عمیق غار میں اوندھے منہ گری ہوئی تھی، جہاں پہ طاقت ور طبقہ کمزروں کو نگل رہا تھا، سرمایہ داروں کی نگاہوں میں غریبوں کی کوئی قیمت نہ تھی، ایسے حالات میں اللہ نے اسلام کے ذریعہ انہیں تاریکی سے نکال کر روشنی كی طرف، جہالت سے نكال كر علم كی طرف، شرک سے نكال كر توحید كی طرف اور ظلم وجور سے نکال کر عدل ومساوات كی طرف گامزن كیا۔
آج بھی انسانیت کی اصلاح اور اس کا حقیقی مقام اسی راستے سے مل سکتا ہے جس سے پہلے اصلاح ہوئی تھی، اس لیے ہم اپنا انتساب اسلام ہی كی طرف کریں اور اسی پر ناز کریں، اور اسی میں انسانیت کی ترقی کا راز تلاش کریں۔
یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ میں پہلے انسان بننا چاہتا ہوں، یہ محض اپنے آپ کو دھوکا دنیا ہے کہ میں پہلے انسان ہوں کیونکہ محض انسانیت نہ کوئی مذہب ہے اور نہ ہی زندگی کا کوئی دستور ہے، انسان میں حُسن ، نکھار، پاکیزگی، عالی اخلاق، جذبہٴ عبادت اور انسانیت کا درد تبھی آئے گا جب وہ مذہب سے جُڑا ہو جو اسلام کے سوا کوئی دوسرا کوئی دین نہیں دے سکتا۔
انسانوں پر آنے والے مصائب میں اگر مسلمان انسانوں کے دُکھ، درد اور غم میں سہارا بنتے ہیں تو یہ انسانیت کے نام پر نہیں بلکہ اس دین کے نام پر اور اس سے لگاؤ کے نتیجے میں ہے جس نے ان کے دلوں میں انسانیت کا یہ جذبہ پیدا کیا، اسلام کے بغیر ان کے اندر یہ انسانیت کہاں سے آئی ؟ کس نے انہیں بتایا کہ ایک دوسرے کی مدد کرو، مصیبت میں ایک دوسرے کا ساتھ دو، غریبوں اور محتاجوں پر رحم کرو، یتیموں اور بیواؤں کا سہارا بنو،کسی پر ظلم نہ کرو، کسی کو مت ستاؤ،کیا انسان کو ان ساری خوبیوں کا پہلے سے ہی پتہ تھا ؟ شرم وحیا، کرم وسخاوت، صدق ووفا، امانت ودیانتداری، حلم وبردباری، تواضع وانکساری جیسے سنہرے اوصاف انسان کے اندر کس نے پیدا کیے؟ یقیناً یہ صرف دین اسلام کا ہی کرشمہ ہے ورنہ وہ تو اس دین سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھا ، ظلم وسرکشی ، تہذیب وتمدن سے عاری اور بے حیائی کے عمیق غار میں گرا پڑا تھا۔
تو پھر اس صورت میں ہم کیوں رحمت کے ان تمام گوشوں کو انسانیت کی طرف منسوب کریں، دین اسلام کی طرف کیوں نہ کریں؟ ہمیں غیر مسلموں کو یہ بتانا ہے کہ ایک مسلمان کے اندر پیدا ہونے والی ساری بھلائیوں کا سرچشمہ اسلام ہی ہے، اور اسی دین نے اس کے اندر انسانیت کا یہ ولولہ پیدا کیا ہے ۔
ایک غیر مسلم کے اندر بھی جب انسانیت کا درد اٹھتا ہے اور کسی کے دُکھ درد میں شریک ہوتا ہے، کسی مظلوم کے لیے آواز اٹھاتا ہے، کسی مظلوم کا سہار بنتا ہے ، کسی غریب کی مدد کرتا ہے تو انسانیت کا یہ درد اس کے دل میں کیسے پیدا ہوا؟ یقیناً یہ اس فطرت کا اثر اور نتیجہ ہوتا ہے جس پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے جسے دبایا توجاسکتا لیکن مٹایا نہیں جاسکتا، یا پھر مسلمانوں کے ساتھ بود وباش یا اسلام کے بہت سارے پہلؤوں کو جاننے کے نتیجے میں انسانیت کے لیے اس کے دل میں جذبہ اُمڈتا ہے۔ تو پھر بتایا جائے کہ دین اسلام کے علاوہ دنیا کا کون سا دین ہے جو انسانیت کے درد کا مداوا بن سکتا ہے؟
روڈ پر چلنے والا ایک مسلمان ڈرائیور اگر دوسروں کی تکلیف کا خیال رکھتا ہے تو یہ انسانیت کے لیے نہیں بلکہ اس کا یہ عمل اس دین کا ثمرہ ہوتا ہے جس نے اسے ناحق کسی کو تکلیف دینے سے روکا ہے اور چلنے کے آداب سکھائے ہیں۔
ایک مسلمان اپنے غیر مسلم پڑوسی کی مدد کرتا ہے، مصیبت میں اس کے کام آتا ہے، حُسن جوار کا کردار ادا کرتا ہے، تو یہ انسانیت کے نام پر نہیں، یا ہم وطن ہونے کے نام پر نہیں، بلکہ اس دین کے نام پر جس نے اسے اس خیر کی تعلیم دی ہے، اگر وہ اپنے عمل کو انسانیت کے نام پر کرتا ہےتو یہ اس کی بہت بڑی بھول اور اسلام کے ساتھ ناانصافی ہے، کیونکہ اس خیر کا جذبہ اس کے دل میں کس نے پیدا کیا؟ یقیناً اسلام نے۔
مسلمانوں کی طرف سے سماج و ملک اور عَالم میں ہونے والی ساری بھلائیوں کا کریڈٹ ہم انسانیت کو کیوں دینا چاہتے ہیں اسلام کو کیوں نہیں…؟؟ ہم غیر مسلموں کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ صرف اسلام ہی انسانیت کا درد رکھتا ہے، اسلام ہی انسانیت کے عروج کا ضامن ہے، صر ف اسلام ہی انسانوں کا سچا ہمدرد ہے، اگر ہم ایسے ہی اپنی ساری کوششیں انسانیت کے نام کرتے رہیں تو غیر مسلموں کو اسلام کی حقانیت کا کیسے پتہ چلے گا؟ پھر ہر کوئی تو یہی کہتا رہے گا کہ میرا مذہب انسانیت ہے اسلام نہیں، مجھے پہلے انسان بننا ہے مسلمان نہیں!!۔
انسانی اقدار کا سب سے اعلیٰ مقام اپنے رب کی بندگی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، اور جس کے ضمن میں کائنات کی ساری چیزیں اس کے ماتحت کردی گئی ہیں، اگر یہی بندگی اور غلامی اس انسان کے اندر باقی نہ رہے تو انسانیت کُجا وہ ایک اچھا انسان بھی کہلانے کا مستحق نہیں، یہی وجہ ہے کہ جہاں اسلامی معاشرت نہیں، جو سماج و ملک اسلامی تمّدن وثقافت سے خالی ہے وہاں انسانیت کا کیا مقام ہے ہم اپنی آنکھوں سے شب وروز اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں:
زندگی کی کہانی بے اثر ہوجائے گی ہم نہ ہوں گے تو یہ دنیا در بدر ہوجائے گی
بھوكے کو کھانا کھلانا، ننگے کو کپڑا پہنانا، بے کس کی مدد کرنا، یتیموں اور بیواؤں کا سہارا بننا، کسی کو گالی نہ دنیا، کسی کا مال ہڑپ نہ کرنا، کسی کو دھوکہ نہ دینا اگر یہ سارے انسانیت کے اوصاف ہیں تو کہنے دیجئے کہ انسانیت کے ان صفتوں کا خالق اسلام ہی ہے، اسی نے ہمیں یہ سارے صفات سکھائے ہیں، ہمیں اسلام کے نام پر اور اس کے پرچم تلے ہی یہ سارے کام انجام دینا چاہئے، انسانیت کے نام پر نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرمادیجیے کہ بالیقین میری نماز، اور میری ساری عبادت، اور میرا جینا، اور میرا مرنا، یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے، جو سارے جہان کا مالک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں اللہ کا پہلا فرماں بردار بندہ ہوں- “الأنعام: 162)
***