ہندوستان میں علمِ حدیث (اب تک کی کاوشوں کا تعارف و جائزہ)

مولانا محمد جرجیس کریمی

’’ہندوستان میں اسلام دو راستوں سے داخل ہوا: خشکی سے اور تری سے۔ خشکی کا راستہ درۂ خیبر کا تھا۔ جہاں سے ترکوں، پٹھانوں اور مغلوں نے چوتھی صدی کے آخر اور پانچویں صدی کے آغاز سے داخل ہونا شروع کیا، لیکن ان سے صدیوں پہلے اہلِ عرب، تاجر اورسودا گر کی حیثیت میں سندھ اور مالا بار سے لے کر گجرات تک بحر ہند کے پورے سواحل پر پھیل چکے تھے۔ وہ اپنے ساتھ اپنا دین، قرآن اور علوم بھی لائے تھے۔ اس سے سالہا سال پہلے کہ اسلام کا کوئی تیغ زن سپاہی، اس سرزمین پر قدم رکھے، یہاں مسلمان عربوں اور عراقیوں کی نوآبادیاں قائم تھیں اور مسجدیں تعمیر اور آباد تھیں۔ یہی مسجدیں اسلام کی ابتدائی درس گاہیں تھیں، جن میں وہ بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول کی آواز بلند کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے عہد سے سواحل ہند پر عربوں کی آمد شروع ہوتی ہے اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہر کلمہ گو کے لب و دہن ’أخبرنا اور حدثا‘ کی خوش بو سے معطر تھے، یعنی صحابہ کرام کا عہد تھا۔ اسلام کا یہ پہلا مجاہد قافلہ تھانہ پر حملہ آور ہورہا تھا، جو ان دنوں ممبئی کے بجائے بحر ہند کا آباد بندرگاہ تھا۔ اس کے بعد بھر وچ (گجرات) اس مقدس بحری عسکر کی دوسری منزل گاہ تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں فوجوں میں دیدار نبوی سے مشرف ہستیوں کی کچھ تعداد یقیناً شامل ہوگی۔ اس لحاظ سے ہندوستان ان خوش قسمت ملکوں میں ہے جن کی خاک صحبت یافتگان نبویؐ کے پاؤں سے لگ کر ہماری آنکھوں کا کحل الجواہر بن چکی ہے۔‘‘

یہ اقتباس علامہ سید سلیمان ندویؒ کی اس تحریر کا ہے جو انھوں نے نوّے سال پہلے ہندوستان میںعلم حدیث کا جائزہ لیتے ہوئے تمہیدی طور پر تحریر کی تھی۔ اس موضوع پر مولانا موصوف کا سلسلۂ مضامین ابتدائی طور پر معارف (اکتوبر۔ نومبر ۱۹۲۸ئ) میں شائع ہوا اور بعد میں یہ مقالات سلیمانی ، جلد دوم کا حصہ بنا۔ انھوں نے ان مضامین میں یہاں کے علم حدیث کے سفر کا جائزہ پیش کیا ہے، جس میں عہد صحابہ سے لے کر ۱۳۴۵ء تک کے محدثین اور علم حدیث سے وابستہ علماء و فضلاء کا تذکرہ ہے۔ جب یہ مضامین معارف میں اشاعت پذیر ہوئے تو ملک اور بیرون ملک علماء و فضلاء نے اس پر مزید تحریروں کا تقاضا کیا۔ اس پر مولانا موصوف تحریر فرماتے ہیں:

’’چوں کہ یہ ایک ایسا مضمون تھا، جس کی معلومات اب تک کہیں یکجا نہ تھیں اور نہ کسی مصنف و مؤرخ نے اس کی طرف توجہ کی تھی، مجھے خود اس کی وسعت کا اتنا علم نہ تھا، مگر جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا، راستہ اور کشادہ اور فراخ معلوم ہوتا گیا، تاہم چوں کہ راستہ دیکھا نہ تھا اور نہ کسی اگلے ہیرو کے نقش قدم کے وہاں نشان تھے، اس لیے ادھر ادھر بھٹکنا ناگزیر تھا۔ سلسلۂ مضمون میں قدم قدم پر تحقیق کی لغزشیں تھیں، مگر خوشی کی بات ہے کہ چند اور اہلِ ذوق بھی ہم سفر مل گئے اور ان کے ٹوکنے سے غلط روی کی اصلاح ہوگئی۔‘‘

علامہ سید سلیمان ندویؒ کی یہ تحریر ’ہندوستان میں علمِ حدیث ‘ کے موضوع پر نقشِ اول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد متعدد علماء و فضلاء نے اس کو موضوعِ بحث بنایا۔ خود علامہ موصوف کے زمانے میں علامہ ابو یحییٰ امام خاں نو شیرواں نے اسی عنوان سے مضامین لکھے، جو معارف میں شائع ہوئے۔ موصوف اپنے مضمون کے آغاز میں رقم طراز ہیں:

’’عرصہ ہوا معارف میں سلسلۃ الذھب بعنوان ’ہندوستان میں علم حدیث‘ حضرت جامع العلوم مولانا سید سلیمان ندوی زید مجدہ نے بامید اجراء ثبت فرمایا تھا۔ ہندوستان بھر کے اصحاب نظر نے اس پر جو کچھ لکھا وہ تمام ملا کر بھی اس فرد یگانہ کے برابر نہ اتر سکا اور ابھی تک معارف کے لبوں پر کسی حریف لے مرد افگن عشق کے لیے بہ صدا مکرر باقی ہے۔‘‘

اب وہ زمانہ ہے کہ ہندوستان میں لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے، مگر تحقیق علوم  کے بجائے تبلیغ مسلک اور مسائل جزئیہ پر ارمان نکلتے ہیں، افسوس کہ اس ترک حنیفیت کی وجہ سے اصل علم ہی دامانِ خیال یار کی طرح چھوٹا جارہا ہے۔ وان الرزیۃ کل الرزیۃ ہے اور جن حلقوں میں ایسی جانب داری کے بغیر یہ ذوق نظر آتا ہے ان میں نہ تو تحقیق خالص ہے، نہ فکر صحیح، بلکہ اپنے مستشرق شیوخ کی پیروی تک ان کی انتہا ہے۔ ایسے ارباب نظر کا ماخذ مہمات کتب نہیں، بلکہ نجومات ہیں جن پر یوں داد سخن لٹتی ہے کہ گویا اکتشاف فرمایا جارہا ہے اور حال یہ ہے کہ قدم قدم پر غلو کرتے ہیں۔۱؎

مولانا نوشہری نے آٹھ (۸) قسطوں میں یہ مضامین لکھے اور ’ہندوستان اور علم حدیث‘ کے موضوع کو آگے بڑھایا۔ ۲؎

اس کے بعد ’ہندوستان میں علوم حدیث کی تالیفات‘ کے عنوان سے کچھ مضامین مولانا ابو سلمہ شفیع احمد البہاری استاد مدرسہ عالیہ کلکتہ کے ماہ نامہ برہان دہلی میں قسط وار شائع ہوئے۔ ۳؎ اس مضمون کی ابتدا میں مولانا موصوف لکھتے ہیں:

’’مولانا محترم سید سلیمان ندویؒ نے ہند میں علمِ حدیث پر مقالات کا ایک سلسلہ لکھا، جو معارف کی کئی اشاعتوں میں شائع ہوا۔ اس سلسلے میں جناب ممدوح نے حضرت ابو حفصؒ سے لے کر موجودہ زمانے تک کے ہندوستانی محدثین کا تذکرہ بسط کے ساتھ فرمایا ہے۔‘‘

لیکن زمین اتنی سنگلاخ تھی کہ مولانا جو ایک ایک دانہ کو چن چن کر خرمن بنانے کے عادی ہیں، عاجز آگئے اور یہ اعتراف کرنا پڑا کہ ’ کئی سال ہوئے جب میں نے ہندوستان میں علم حدیث کا سلسلہ لکھنا شروع کیا تو بکھری ہوئی معلومات کو اکٹھا کرنے اور الجھے ہوئے بیانات کو سلجھانے میں وہ زحمت اٹھانی پڑگئی کہ آخر اس کو ناتمام چھوڑنا پڑا۔‘‘

پھر بھی جو کچھ اور جتنا کچھ لکھا گیا وہ بہت قیمتی تھا، مگر مولانا نے اپنے اس مضمون میں تصانیف و تالیفات کا ذکر نہیں کیا جن سے یہ معلوم ہوسکے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی اپنی تصانیف اور اپنے ماحول کے مطابق حصہ لیا یا نہیں؟ اس لیے  ڈاکٹر زبیر احمد الہٰ آباد یونی ورسٹی نے علوم حدیث پر ہندوستان کی عربی تالیفات کے عنوان سے اپنا (پی ایچ ڈی کا) مقالہ سپرد قلم فرمایا اور یہ فیصلہ دیا کہ ہندوستان کی جغرافیائی و سیاسی دشواریوں اور دقتوں کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس خدمت سے کما ینبغی عہدہ برآ ہوئے‘۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس مضمون میں عہدِ غزنوی سے لے کر ۱۸۵۷ء تک غدر کے پہلے ان پینتالیس (۴۵) چھیالیس (۴۶) مصنفین و مولفین کے اسماء گرامی جمع کیے جنھوں نے عربی زبان میں علمِ حدیث کے متعلق کوئی نہ کوئی کتاب تصنیف کی۔ اس فہرست سے انھوں نے نواب صدیق حسن خاں اور مولانا عبد الحلیم فرنگی محلی وغیرہ اور ان کے معاصرین کو خارج کر دیا۔ اس کے کچھ دنوں بعد جناب مولانا ابو یحییٰ امام خاں صاحب نو شہری کا ایک مضمون اس موضوع پر معارف کے دو نمبروں میں (اکتوبر و نومبر ۱۹۴۵ئ) آیا، جس کے متعلق موصوف نے خود یہ دعویٰ کیا کہ مضمون ایک حیثیت سے گویا اس کا( ڈاکٹر زبید احمد صاحب کے مضمون کا) تکملہ ہے۔

ڈاکٹر موصوف کا مضمون اہم نیز عربی تالیفات یا تصنیفات تک محدود تھا، مگر مولوی صاحب موصوف نے اس تحدید کو ختم کرکے عام کر دیا، یعنی اس میں فارسی، اردو کی بھی ہر طرح کی تصانیف کو شمار کر لیا۔

اس طرح ان کے مضمون میں ایک سو اکتالیس (۱۴۱) مؤلفات اور اڑتالیس (۴۸) مؤلفین کا ذکر آگیا جو باعتبار فن بائیس (۲۲) اقسام پر منقسم ہیں۔ مگر سنہ کی تحدید انھوں نے بھی قائم رکھی اور نواب صدیق حسن خاں کو نہیں چھیڑا۔‘‘۴؎

اس طرح مولانا ابو سلمہ شفیع البہاری نے ہندوستان میں کچھ اور حدیثی تالیفات کا تذکرہ کیا، مگر یہ سلسلہ ابھی ناتمام تھا۔ چنانچہ محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن الاعظمیؒ اس عنوان سے ماہ نامہ برہان دہلی میں ایک استدراک لکھا، جس میں پچاس (۵۰) حدیثی تالیفات کا سراغ لگایا، جو ہندوستانی علماء نے قلم بند کی تھیں۔ مولاناا عظمیؒ رقم طراز ہیں:

’’برہان اگست ستمبر ۔دسمبر ۱۹۵۳ء میں مسطور بالا عنوان کے تحت مولانا ابو سلمہ شفیع احمد بہاری کا مضمون پڑھ کر خیال ہوا کہ اگر چہ مولانا نے تمام تالیفات کے استیعاب کا ارادہ نہیں کیا ہے، تاہم اس سلسلہ کی جن تالیفات کااب تک ذکر نہیں ہوا ہے ان میں سے جن کے نام اس وقت ذہن میں ہیں ان کو بھی پیش کر دیا جائے تو خالی از فائدہ نہیں ہے۔ ذیل کی سطریں اسی خیال کی تکمیل ہیں۔‘‘ ۵؎

’ہندوستان میں علم حدیث ‘ کے جائزہ کے اس سفر کو پروفیسر ڈاکٹر محمد اسحق ڈھاکہ یونی ورسٹی (بنگلہ دیش) نے ایک منزل اور آگے بڑھایا اور انھوں نے ’کنٹری بیوشن آف انڈیا ٹو دی اسٹڈی آف حدیث لٹریچر‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اپنا مقالہ مذکورہ یونی ورسٹی میں جمع کیا۔ یہ کتاب ۱۹۶۴ء میں لاہور سے شائع ہوئی تھی اور اب کم یاب ہوگئی ہے۔ انھوں نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اسلامی ممالک سے ہندوستان کے تعلقات کی ابتدا سے لے کر دار العلوم دیوبند اور مدرسہ مظاہر علوم سہارن پور کے قیام تک برّ عظیم کے مسلمانوں نے علم حدیث کو ترقی دینے کے لیے کیا کیا خدمات انجام دیں اور یہاں کے نام ور محدثین اور علمِ حدیث کے مراکز نے اس علم کے فروغ و اشاعت میں کسی قدر اہم حصہ لیا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا شاہد حسین رزاقی نے کیا ہے۔ یہ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ لاہور سے مطبوع ہے۔ ناچیز کے پیش نظر اس کا طبع سوم (۲۰۱۳ئ) ہے۔ یہ کتاب دوسو چونسٹھ (۲۶۴) صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر محمد اسحاق اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

’’سہولت کے پیش نظر یہ ٍکتاب دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ حصۂ اول ہند میں علمِ حدیث کی کیفیت اور یہاں کے محدثین سے متعلق ہے اور حصہ دوم میں بیرون ہند کے ہندی محدثین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ (مقدمہ، ص ۱۱۔۲۱)

’ہندوستان میں علمِ حدیث‘ کے جائزے کا یہ سفر یہیں نہیں رکتا۔ ان کے بعد اور کئی اہلِ علم نے اس کو آگے بڑھایا۔ انہی میں سے ایک مولانا غازی عزیز ہیں۔ موصوف نے ’ہندوستان میں علماء ومحدثین کی دینی خدمات‘ کے عنوان سے سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ میں مقالہ سپرد قلم فرمایا، جس میں علمِ حدیث پر کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا ہے۔ ۶؎ وہ لکھتے ہیں:

’’بر صغیر ہند میں محدثین اور علم حدیث کی اشاعت کے موضوع پر بہت سے علماء اور محققین نے زور قلم صرف کیا ہے، لیکن اس سلسلے میں اکثر معلومات ناقص ہیں۔ عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ پہلی چھ صدیوں تک بلاد ہند میں حدیث کی تعلیم و تدریس، روایتِ حدیث اور محدثین نیز ان کی تصانیف کا سرے سے کوئی وجود نہیں تھا۔ جن لوگوں نے اس سے قبل محدثین کے وجود کو تسلیم کیا ہے وہ بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اگرچہ فن حدیث ہندوستان میں چھٹی صدی ہجری سے قبل موجود تھا، لیکن اس فن میں علمائے وقت کو کوئی قابلِ لحاظ مقام و مرتبہ حاصل نہ تھا۔ بعض علماء نے تو ہندوستان میں علمِ حدیث کی آمد کو دسویں صدی ہجری کا واقعہ بتایا ہے۔‘‘

اس ناقص تحقیق سے بلادِ ہند کی دینی و علمی تاریخ میں بڑا خلا محسوس ہوتا ہے۔ دراصل اس غلط فہمی کا بڑا سبب خاطر خواہ تتبع و تحقیق کا فقدان ہے۔ پھر جس طرح کہ فقہائے ماوراء النہر کی تصانیف نے ائمۂ احناف کی امہات الکتب کو پیچھے ڈھکیل دیا تھا، اس طرح اولین دور کے ان محدثین اور علماء کے علمی کارناموں(یعنی تصانیف، مدارس اور تلامذہ وغیرہ) کو بھی ہمارے علمائے عجم کے فکری میلان اور ان کے شیوع و رواج نے اس  بری طرح بہا ڈالا کہ اس دور کی تاریخ کے صفحات بالکل کورے نظر آتے ہیں۔

پیش نظر مضمون میں اقالیم سندھ میں علم حدیث کے فروغ کے لیے کی جانے والی ابتدائی چند صدیوں کی تاریخ کا ایک خاکہ پیش کیا جارہا ہے، جو ہندوستان میں علم حدیث کا عہد ذریں کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ ۷؎

’ہندوستان میں علم حدیث کے جائزے‘ کی ایک سنہری کڑی مولانا عبد الرشید عراقی کی وہ تحریر ہے جو انھوں نے ’بر صغیر ہندو پاک میں علم حدیث‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ ان کی یہ کتاب ایک سو گیارہ (۱۱۱) صفحات پر مشتمل ہے۔ فاضل مصنف پیش لفظ میں رقم طراز ہیں:

’’بر صغیر پاک و ہند میں حدیث کی نشر و حدیث اور اس کی ترقی و ترویج علمائے اہلِ حدیث کے ذریعہ بہت زیادہ ہوئی۔ علمائے اہلِ حدیث نے درسِ حدیث کے ذریعہ بھی حدیث کی بہت اشاعت کی اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ علمِ حدیث کو خوب پھیلایا۔ اس کے ساتھ علمائے اہلِ حدیث کا ایک اور کارنامہ ہے کہ بر صغیر میں ایک ایسا گروہ پیدا ہوا جس نے حدیث نبویؐؐ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور یہ نعرہ لگایا کہ ہمیں قرآن ہی کافی ہے، حدیث کی ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ علماء اہلِ حدیث نے اس گروہ کا بھی مقابلہ کیا اور تحریر و تقریر کے ذریعہ اس فرقۂ باطلہ کی تردید کی اور حدیث کی تائید وحمایت اور نصرت و مدافعت میں بے شمار کتابیں لکھیں۔علمائے اہلِ حدیث نے حدیث کی خدمت میں جو کتابیں لکھیں، اس کتاب میں چار سو چھتیس (۴۳۶) کتابوںکا ذکر کیا گیا ہے۔ ۸؎

اس سلسلے کی ایک کڑی ’پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث‘ بھی ہے۔ یہ مولانا ارشاد الحق اثری کی تصنیف ہے جو ایک سو چھیالیس (۱۴۶) صفحات پرمشتمل ہے۔ اس میں انھوں نے بر صغیر میں اسلام کی آمد کی تاریخ بیان کی ہے، پھر چند نمایاں رجالِ حدیث کا تذکرہ فرمایا ہے، جن میں خانوادۂ ولی اللہ دہلوی اور میاں سید نذیر حسین دہلوی کی خدمات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مزید انھوں نے بر صغیر کے چند نمایاں مراکز حدیث کا حوالہ بھی شامل کتاب کیا ہے۔ ۹؎

’ہندوستان میں علمِ حدیث‘ کے جائزے کا موضوع اس وقت تک پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک بر صغیر کے مشہور و معروف تذکرہ نویس و تاریخ نگار مولانا اسحاق بھٹی ؒ کی اس موضوع پر لکھی گئی چند کتابوں کا تذکرہ نہ کیا جائے۔ ان میں قافلۂ حدیث، دبستانِ حدیث، گلستانِ حدیث اور چمنستانِ حدیث خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ ذیل میں ان کتب کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا بھٹی خود اپنی کتابوں کا تعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’اب یہ روداد شوق انگیز ’قافلۂ حدیث‘ کے نام نذر قارئین ہے۔ ترتیب عنوانات کی رو سے ظاہر طور پر روداد چھبیس (۲۶)اصحاب فضل کی نشان دہی کرتا ہے، لیکن اس کے باطن میں جھانکنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں اہلِ علم کی ایک دنیا آباد ہے۔یعنی ان چھبیس (۲۶) کے اسلاف، اساتذہ، تلامذہ، متاثرین، فیض یافتگان، ہم مکتب، ہم جماعت اور دوست و احباب اور مستفیدین کی متعدد قطاریں ہیں جو تا حد نگاہ دکھائی دیتی ہیں۔ بہ الفاظ دیگر ایک شخص کے حالات میں کئی اشخاص کے حالات کی تہیں کھلتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ یہ سلسلہ دور تک چلا گیا ہے۔

یہ کتاب اہلِ حدیث اصحاب علم کی نوع بنوع مساعی کو اجاگر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ان میں سے کس کس بزرگ نے کیا کیا معرکہ آرائیاں کیں اور ان کے فکر و عمل کے حدود نے کس انداز سے کہاں تک وسعت اختیار کی؟تصنیف و تالیف میں یہ حضرات کہاں تک پہنچے؟ تحقیق و کاوش کی کن کن وادیوں میں قدم زن ہوئے؟ درس و تدریس میں کہاں تک رسائی حاصل کی؟ اور وعظ و تبلیغ کے میدانوں میں انھوں نے کیا اثرات چھوڑے؟

یہ کتاب چھ سو پینتالیس (۶۴۵) صفحات پر مشتمل ہے۔

دبستانِ حدیث کے ’حرفے چند‘ میں موصوف رقم طراز ہیں:

’’اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے، کتاب ’دبستان حدیث‘ مکمل ہوئی۔ اس کتاب میں بر صغیر کے ان ساٹھ (۶۰) اہلِ حدیث علمائے کرام کا تذکرہ کیا گیا ہے جنھوں نے نبی ﷺ کی احادیث مبارکہ کی تدریسی یا تصنیفی صورت میں تبلیغ و اشاعت کا اہتمام کیا، یا کسی مدرسے میں طلبا کو کتب حدیث پڑھائیں، یا حدیث کی کسی کتاب کا ترجمہ کیا، یا اس کی شرح لکھی، یا فتویٰ نویسی کی۔‘‘

ان ساٹھ (۶۰) حضرات میں سب سے پہلے حضرت میاں سید نذیر حسین دہلویؒ کے حالات ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں اور یہی سب سے زیادہ صفحات پر محیط ہیں۔ان کے بعد اس کتاب میں حضرت میاں صاحب کے بے شمار شاگردوں میں سے گیارہ (۱۱) ذی مرتبت تلامذہ کا تذکرہ کیا گیا ہے، جن میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی، مولانا عبد الرحمن مبارک پوری اور مولانا محمد بشیر سہوانی شامل ہیں۔

ان حضرات کے علاوہ چوبیس (۲۴) اصحاب فضیلت اور ہیں جو عمر بھر تدریس یا تصنیف کی صورت میں خدمت حدیث میں مصروف رہے۔ ان میں عالی جناب نواب صدیق حسن خان بھوپالی، مولانا عبد القادر لکھنوی، مولانا عطاء اللہ لکھنوی، مولانا محمد یونس دہلوی، مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی، مولانا عبد الحق ہاشمی، مولانا عبد الغفار ضامرانی، مولانا علی محمد سعیدی، مولانا عبد الغفور جہلمی جیسی شخصیات خاص طور سے لائق تذکرہ ہیں۔

خادمین حدیث کی اس رفیع القدر جماعت میں چوبیس (۲۴) محدثین کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ ۱۰؎

یہ کتاب چھ سو چہتر (۶۷۶) صفحات پر محیط ہے۔

مولانا محمد اسحاق بھٹی کی تیسری کتاب ’گلستانِ حدیث‘ ہے۔اس میں بھی علامہ موصوف نے بیس (۲۰) ان علماء ذی وقار کا تذکرہ فرمایا ہے جن کو میاں نذیر حسین محدث دہلویؒ سے شرف تلمذ حاصل ہے۔ ان میں حکیم عبدا للہ جیراج پوری، قاضی طلا محمد پشاوری، مولانا محمد بن ہاشم سامرور سورتی، محمد شبلی جون پوری، مولانا سلامت اللہ جیراج پوری، محمد سعید بنارسی، مولانا تلطف حسین عظیم آبادی، مولانا عبد الاول غزنوی، مولانا محمد ابراہیم چکڑالوی، مولانا عبد السلام مبارک پوری اور مولانا احمد اللہ پرتاپ گڑھی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ چونتیس (۳۴) دیگر علمائے ذی وقار کا تذکرہ شامل ہے، جن میں مولانا محمد یوسف کلکتوی، مولانا سید تقریظ احمد سہسوانی، مولانا عبد الجلیل سامرودی، مولانا غلام احمد حریری، مولانا عبید اللہ مبارک پوری، ڈاکٹر رضاء اللہ مبارک پوری، مولانا صفی الرحمن مبارک پوری، ڈاکٹر مقتدیٰ احسن ازہری  وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ چھبیس(۲۶) باحیات دین علماء اور ان کی حدیثی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

مولانا موصوف کی چوتھی تصنیف ’چمنستان حدیث‘ ہے۔ اس کے بارے میں موصوف ’حرف چند‘ کے ذیل میں فرماتے ہیں: ’اللہ تعالیٰ کا بہ درجہ غایت شکر گزار ہوں کہ اس نے بر صغیر کی رفیع المرتبت شخصیات سے متعلق ’چمنستان حدیث‘ کے نام سے خوانندگان محترم کی خدمت میں کتاب پیش کرنے کی سعادت بخشی۔ اس فقیر کی سابقہ کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی بر صغیر کے اہلِ حدیث علمائے ذی وقار کے حالات کی نقاب کشائی کرتی ہے۔ یہ وہ بوریا نشین اور دروویشان خدا مست ہیں، جنھوں نے زندگی کے ہر موڑ پر اپنے آپ کو قرآن و حدیث کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھا۔ کتاب میں ایک سو (۱۰۰) علماء کرام کے واقعات حیات ضبط تحریر میں لائے گئے ہیں، جن میں پندرہ (۱۵) حضرات کا تعلق براہِ راست حضرت میاں سعید نذیر حسین دہلویؒ سے ہے۔ تینتیس (۳۳) وہ عالی قدر اصحاب علم ہیں جو حضرت میاں صاحب کے شاگردوں کے شاگرد یا ان میں سے کچھ بعد کے اساتذہ گرامی کے دائرۂ شاگردی میں رہے۔ اور باون (۵۲) وہ حضرات جو اللہ کے فضل سے زندہ ہیں اور مختلف مقامات میں تصنیفی و تدریسی خدمات سر انجام دے رہے ہیں، لیکن ان کا سلسلۂ شاگردی بھی آگے چل کر بالآخر حضرت میاں صاحب کے شاگردوں کی لڑی سے ملتا ہے۔ ۱۲؎

مولانا محمد اسحاق بھٹیؒ نے ان کتابوں میں جو اسلوبِ تحریر اختیار فرمایا ہے۔ اس کے بارے میں وہ خود وضاحت فرماتے ہیں:

’’اس میں ہر خادم حدیث کی خدمات کے ساتھ اس کے حالاتِ زندگی بیان کیے گئے ہیں۔ اس کا خاندانی پس منظر معرض تحریر میں لایا گیا ہے، اس کے اساتذہ کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس کی معاشرتی زندگی سے قارئین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے شاگردوں کے ناموں اور ان کی علمی سرگرمیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ نیز اس کی اولاد کے بارے میں بھی معلومات بہم پہنچانے کی سعی کی گئی ہے۔ یعنی اس طرح ہر خادم حدیث کے واقعات حیات حوالہ قرطاس کر دیے گئے ہیں، تاکہ آئندہ کوئی شخص اس موضوع پر لکھنا چاہے تو آسانی سے ضروری کوائف اس کے سامنے آجائیں۔ ۱۳؎ ان کتب کی ایک خاص خصوصیت یہ ہے کہ حضرت میاں نذیر حسن دہلویؒ کے تقریباً پچاس (۵۰) تلامذہ کا تفصیلی تذکرہ شامل ہے، جنھوں نے خدمتِ حدیث میں نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں۔‘‘

اس موضوع پر اس بات کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ یہاں اردو زبان میں مختلف کتب حدیث کے کتنے تراجم ہوئے ہیں؟ اور کس مقدار اور معیار کے ہوئے ہیں؟ چنانچہ اس ضمن میں ایک تحریر مولانا سید محبوب رضوی فہرست ساز کتب خانہ     دار العلوم دیوبند کی قابل ذکر ہے، جو انھوں نے ’اردو میں تراجم حدیث‘ کے عنوان سے قلم بند کی ہے۔ یہ ماہ نامہ برہان دہلی اکتوبر ۱۹۴۲ء میں شائع ہوئی ہے۔ موصوف رقم طراز ہیں:

’’راقم سطور گزشتہ چند سالوں سے اردو تراجم کی ایک تفصیلی فہرست مرتب کر رہا ہے، جو ڈیڑھ سو سال سے اب تک اردو میں ہوئے ہیں۔ اس فہرست کی تقسیم علوم و فنون پر رکھی گئی ہے۔ فہرست کا گو معتدبہ حصہ مرتب ہوچکا ہے، مگر پھر بھی اس میں بہت کچھ کام باقی ہے۔ ذیل میں عنوان ’علم الحدیث‘ کی کتابوں کے ترجمے پیش کیے جا تے ہیں۔ ان تراجم میں بیش تر ترجمے تو وہ ہیں جو اب بہت کم یاب اور نادر ہوچکے ہیں۔ بعض ترجمے تجارتی کتب خانوں میں ملتے ہیں، جن سے بآسانی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔بلحاظ اہمیت بعض کتب کے متعدد ترجمے کیے گئے ہیں۔ اس کی حسب موقع تصریح کر دی گئی ہے۔‘‘

علم الحدیث میں جو کتاب اردو میں سب سے پہلے ترجمہ ہوئی وہ حسن الصغانی کی مشارق الانوار ہے۔ عجیب اتفاق ہے کہ متن حدیث میں بھی یہ پہلی کتاب ہے، جو ہندوستان میں تالیف ہوئی۔ شیخ عبد الحق دہلویؒ کے زمانے تک مشارق الانوار درسِ حدیث میں شامل تھی۔ مشہور مجاہد مولانا خرم علی بلہوری (خلیفہ حضرت سید احمد شہیدؒ) نے ۱۲۴۹ھ میں تحفۃ الاخیار کے نام سے اس کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔

فن حدیث کے متعلقہ فنون کی کتابیں، جو اردو میں ترجمہ ہوئی ہیں، ان کو بھی عنوان ’علم الحدیث‘ کے ذیل میں شامل کر لیا گیا ہے۔ البتہ مضمون کے طویل ہوجانے کے خوف سے چہل حدیث کے متعدد ترجموں کو حذف کر دینا پڑا ہے۔ اگر چہ میں نے حتی الامکان کوشش کی ہے، تاہم بہت ممکن ہے، بعض تراجم کا پتا مجھے نہ چل سکا ہو۔ اس لیے اگر کسی صاحب کی نظر میں علم الحدیث میں کوئی ایسا ترجمہ ہو جس کا ذیل میں ذکر نہیں ہے تو ازراہِ کرم اس سے مجھے مطلع فرمائیں۔ یہ نہ صرف مجھ پر احسان عظیم ہوگا، بلکہ ایک علمی خدمت بھی ہوگی۔ ۱۴؎

موضوعِ بحث پر ایک عربی کاوش مولانا عبد الرحمن الفریوائی کی ’جھود مخلصۃ فی خدمۃ  السنۃ المطھرۃ‘ ہے۔ یہ تقریباً ایک سو پچاس (۱۵۰) صفحات پر مشتمل ہے۔ دار البحوث الاسلامیہ جامعہ سلفیہ بنارس سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں فاضل مصنف نے حدیث کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کی تفصیل بیان کی ہے۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں یہ وضاحت کر دی جائے کہ جب معارف میں حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کا سلسلۂ مضامین شائع ہوا تو اس کے استدراک میں موضوع کو اور آگے بڑھانے کے لیے اسی موضوع پر معارف میں چند اصحاب علم کے اور مضامین شائع ہوئے۔ مولانا ابو یحییٰ امام خان نوشہری کا حوالہ سابقہ سطور میں دیا جاچکا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مضمون مولانا محمد فاروق بہرائچی کا بعنوان ’سلسلہ عالیہ مجددیہ اور علم حدیث‘ شائع ہوا۔ ۱۵؎ ایک دوسرا مضمون مولانا محمد اعجاز حسن خان رئیسی مظفر پور کا بعنوان ’تیموری عہد سے پہلے ہندوستان میں علم حدیث کا رواج‘ شائع ہوا۔ ۱۶؎ ایک اور مضمون مولانا عبید حسن برنی علیگ کا بعنوان ’امام صغانی ہندوستان کے ایک قدیم محدث اور ادیب‘ زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ ۱۷؎ اسی سلسلے کی ایک مختصر تحریر مولانا فضل اللہ مدراسی ناظم جامعہ دار السلام عمرآباد وآکاٹ (تمل ناڈو) کی بعنوان’ مدارس میں علم حدیث‘ شائع ہوئی۔۱۸؎  ایک مضمون ’سلسلۂ شاہ ولی اللہ کی خدمت حدیث‘ ظفر احمد عثمانی شائع ہوا۔ ۱۹؎

کچھ عرصہ کے بعد موضوع زیر بحث پر ایک مضمون مولانا قاضی اطہر مبارک پوری کا بعنوان ’ہندوستان میں علمِ حدیث اموی دور تک‘ شائع ہوا۔ ۲۰؎ یہاں یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ مولانا موصوف کی ایک کتاب ’رجال السند و الہند الی القرن السابع‘ منظر عام پر آچکی ہے، جس میں انھوں نے بہت تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ ابتدائی چند ہجری صدیوں میں بھی ہندوستان میں محدثین اور رواۃ حدیث کا غلغلہ بلند تھا۔ دیبل، منصورہ، ملتان اور لاہور کے مراکز میں علمِ حدیث کی سرگرمیاں جاری تھیں اور بغداد، بصرہ، کوفہ کی طرح یہ شہر علم حدیث کے مرکز تھے، جہاں رواتِ حدیث اور تصنیف کا سلسلہ جاری تھا۔

۲۱۔۲۲؍اپریل ۲۰۰۳ء کو بین الاقوامی یونی ورسٹی (اسلام آباد، پاکستان) میں ’بر صغیر میں علمِ حدیث‘ کے موضوع پر ایک سمینار منعقد ہوا تھا۔ اس کا مجموعہ مقالات سہ ماہی فکرو نظر اسلامی کے خصوصی نمبر اپریل۔ستمبر ۲۰۰۵ء میں بعنوان’بر صغیر میں مطالعۂ حدیث‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں تیرہ (۱۳) مقالات ہیں۔ یہ مجموعہ تین سو تہتر (۳۷۳) صفحات پر مشتمل ہے۔

اس موضوع پر ایک تحریر مولانا محمد مستقیم سلفی کی، مجموعہ مقالات سمینار بعنوان ’علوم الحدیث۔مطالعہ و تعارف‘ علی گڑھ ۱۹۹۹ء میں شائع ہوئی ہے، جس کا عنوان ہے:’علمائے اہلِ حدیث ہند کی خدماتِ حدیث‘۔ اس میں تین سو انیس (۳۱۹) کتبِ حدیث اور ان کے مصنفین کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

موضوع زیر بحث پر ایک کتاب ’ہندوستان اور علم حدیث۔تیرہویں اور چودہویں ہجری میں‘ کے عنوان سے مولانا فیروز اختر ندوی کی مرتب کردہ ہے جو مرکز الشیخ ابی الحسن ندوی، مظفر پور اعظم گڑھ سے طبع ہوئی ہے۔  یہ اصلاً اس موضوع میں جامعہ اسلامہ مظفر پور اعظم میں منعقد ہونے والے سمینار میں پیش کیے جانے والے مقالات کا مجموعہ ہے۔

 

حواشی و مراجع

۱۔     معارف نمبر ۲، جلد ۵۹، فروری ۱۹۴۷ء

۲۔     یہ سلسلۂ مضامین معارف میں شائع ہوئے، دیکھیے فروری مارچ اپریل، نومبر، دسمبر ۱۹۷۴ء اور جنوری ۱۹۴۸ء

۳۔     ماہ نامہ برہان اگست ۱۹۵۳ء

۴۔     مولانا ابو یحییٰ امام خان نو شیرواں اس کے بعد ایک سلسلۂ مضمون لکھا جس میں نواب صدیق حسن خان کی خدمات حدیث کا تذکرہ تفصیل سے کیا گیا(دیکھیے معارف فروری، مارچ، اپریل۔ نومبر ،دسمبر ۱۹۴۷ء اورجنوری ۱۹۴۸ء

۵۔     برہان فروری ۱۹۵۴ء

۶۔     سہ ماہی تحقیقاتِ اسلامی علی گڑھ جولائی ستمبر ۱۹۹۲ء جلد ۱۱؍ شمارہ ۳ اور اکتوبر ۔دسمبر ۱۹۹۲ء جلد دوم، شمارہ ۴۔            ۷۔    حوالۂ سابق

۸۔     بر صغیر پاک و ہند میں علم حدیث، عبد الرشید عراقی، محدثاکیڈمی لاہور، ص ۱۶۔۱۷

۹۔     پاک و ہند میں علمائے اہل حدیث کی خدمات حدیث اور ارشاد الحق اثری، ادارۃ العلوم الاکریہ لاہور، فیصل آباد، ۲۰۰۱ء

۱۰۔    قافلۂ حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مکتبہ قدوسیہ لاہور، ۲۰۰۳ء

۱۱۔    دبستانِ حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مکتبہ قدوسیہ ۲۰۰۸ئ، ص ۹۱

۱۲۔    گلستان حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی

۱۳۔    چمنستان حدیث، مولانا محمد اسحاق بھٹی، الکتاب انٹر نیشنل نئی دہلی، ۲۰۱۵ء

۱۴۔    دبستانِ حدیث ، ص ۲۰

۱۵۔   اردو میں تراجم حدیث، مولانا سید محبوب رضوی، فہرست ساز، کتب خانہ دار العلوم دیوبند، ماہ نامہ برھان دہلی، اکتوبر ۱۹۴۲ئ، ص ۴۴۔۴۵  ۱۶۔ معارف ۶؍ ۲۳، جون ۱۹۲۹ء

۱۷۔    معارف ۴؍ ۲۴، اکتوبر ۱۹۲۹ئ               ۱۸۔     معارف ۱؍ ۲۴ جولائی ۱۹۲۹ء

۱۹۔     معارف ۵؍ ۵۳، جون ۱۹۴۴ء

۲۰۔    معارف جنوری ۱۹۷۳ء

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *