تحریر : ابو شیبان ظہیر نیاز سلفی
معہد حلیمہ سعدیہ للبنات , کولہوئی بازار مہراج گنج یوپی
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد
خالق کونین ارشاد فرماتا ہے: ” وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا ٱسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍۢ وَمِن رِّبَاطِ ٱلْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَىْءٍۢ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ” (سورہ الانفال/٦٠) (ترجمہ : اور ان کے لئے اپنی بساط بھر قوت جمع کرکے رکھو ، اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ، جس کے ذریعہ تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں پر رعب ڈال سکو ، اور ان کے ماسوا دوسرے لوگ (چھپے دشمن) جن کو تم نہیں جانتے ، اللہ ان کو جانتا ہے ، اور جو کچھ بھی تم اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہو وہ پورا تمہاری طرف لوٹا دیا جائے گا ، اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا )
اس حکم ربانی کی اولین مخاطب ایک وجود پذیر ریاست تھی جو صدیوں پہلے مدینہ میں پروان چڑھ رہی تھی ، اس میں لفظ ارھاب اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے ، یعنی دفع ظلم کے لئے قوت کا ارتکاز اور اس کا اظہار ۔
یہ امر تحقیق طلب ہے کہ کب اور کیسے لفظ ارھاب دہشت گردی Terrorism کے معنی میں استعمال ہونے لگا ، جس کے لئے سب سے مناسب تعبیر میرے خیال میں خالص قرآنی اصطلاح فساد فی الارض ہی ہو سکتی ہے ۔
یہ امر مختلف فیہ ہے کہ قومیت جغرافیائی حدود سے طے ہوتی ہے یا وحدتِ اعتقاد سے؟ مگر اس میں کوئی دورائے نہیں کہ قوموں ریاستوں اور ملل واجیال کے تحفظ کے لئے دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ ایسی قوت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کے اظہار محض سے ہی اس کے بدخواہ مرعوب ہو جائیں ۔
سیکولر نظریات کے مطابق جغرافیائی حدود سے قوم بنتی ہے اور اعتقادی وحدت سے ملت وجود پاتی ہے ، مختلف ملتیں کسی ایک قومیت کی اجزائے ترکیبی ہوسکتی ہیں ، تہذیب وتمدن اور مذاھب وادیان کا اختلاف قومیت کے منافی نہیں بلکہ اس کا حسن ہے ، جیسے کوئی خوبصورت باغ ، جس میں رنگ برنگے پھول کھلتے ہوں ، طرح طرح کے پھل آتے ہوں ، قسم قسم کے پرندےبھانت بھانت کے نغمے ڈالیوں پر بیٹھے گاتے ہوں۔
سیکولر قومیت میں اکثریتی طبقہ اقتدار اور قومی وسائل پر اپنا پہلا حق سمجھتا ہے اور اپنی ہم وطن اقلیتوں کو محکوم و محروم دیکھنا پسند کرتا ہے ، اسی لئے اکثر نزاعات جنم لیتے رہتے ہیں اور تصادم کی صورتحال پیدا ہوتی رہتی ہے۔
قوموں کا قوموں سے اور ملتوں کا ملتوں سے تصادم کوئی نئی بات نہیں ہے ، قوم کے مقابلے میں قوم کے تحفظ کے لئے کسی اور منصوبے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ملت کے مقابلے میں ملت کی حفاظت کے لئے کسی اور اسٹریٹجی کی ، البتہ دونوں مقامات میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے ، اوروہ یہ کہ سلامت وہی رہتاہے جس کے پاس طاقت ہوتی ہے ۔
یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ دنیا طاقت کے سامنے جھکتی ہے ، اس کو سلام کرتی ہے ، اس کی تابعدار ہوتی ہے ، جبکہ اس کے برعکس کمزور کے سامنے تن جاتی ہے ، اس کے حقوق تلف کرتی ہے ، اسے ستانے کا ، دبانے کا ، بلکہ پیروں تلے روندنے کا بھی کوئی موقع فروگزاشت نہیں کرتی ۔
وطن عزیز بھارت ، انڈیا ، ہندوستان ، جوبھی کہہ لیں ،یہ نام کانوں میں شہد گھولتا ہے ، جب کہیں پردیش میں کوئی ہم سے ہماری قومیت پوچھتا ہے تو اپنے آپ کو بھارتی ، انڈین یا ہندوستانی کہتے ہوئے ہمارا سر فخر سے اونچا اور سینہ چوڑا ہوجاتا ہے۔
ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی ، بودھ ، جین ، پارسی جو بھی دین دھرم یا مذھب ہو آپ کا ، ہندی ، اردو ، پنجابی ، بنگالی ، بھوجپوری ، مراٹھی ، تمل ، تیلگو ، ملیالی ، کنڑا ، جو بھی بھاشا یا زبان ہو آپ کی ، کشمیر سے کنیا کماری تک ہم سب یکساں ہندوستانی ہیں ، رنگوں ، نسلوں ، زبانوں ، تہذیبوں اور مذاھب و ادیان کا یہ تنوع ہی ہماری قومیت کا حسن ہے ۔ اس کی حفاظت ہم سب کا قومی واخلاقی فریضہ ہے ۔
یہ بات کسی ادنیٰ شعور والے شخص سے بھی پوشیدہ نہیں کہ ہمارا پیارا وطن ہندوستان ایک طویل زمانے سے شدید قسم کے داخلی انتشار کا شکار ہے ، خطرے کا سائرن سب نے بہت پہلے ہی سن لیا تھا ، البتہ مرکز انتشار اورخطرے کی نوعیت کا شعور اب تک پختہ نہیں ہوا ہے ۔ مرکز انتشار اور محور تصادم کیا ہے ؟ متصادم قوتیں کونسی ہیں ؟ بظاھر یہ اکثریت و اقلیت کا تصادم ہے ، اکثریت کی سنسکرتی اقلیت کے تمدن و تہذیب سے ، اکثریت کی بھاشا اقلیت کی زبان سے ، اکثریت کا دھرم اقلیت کے دین سے بر سر پیکار نظر آتا ہے ، مگر کیا درحقیقت منظر ایسا ہی ہے ؟ کیا یہ سناتن ہندو دھرم اور اسلام کی جنگ ہے ؟ کیا یہاں ہندو اور مسلمان برسر پیکار ہیں ؟ کیا یہاں ہندو یا مسلمان خطرے میں ہے ؟ نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں اگر کوئی خطرے میں ہے تو وہ ہندوستان کا دستور اوراس کا سیکولرازم ہے ، اگرکوئی بر سرپیکار ہے تو وہ ہےبرہمنی فاشزم بمقابلہ دستورہند و سیکولرازم ، ہندو اور مسلم تو اب بھی یہاں بھائی بھائی ہیں ، فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ہمارا سیکولرازم بہت لاغر اور کمزور ہو چکا ہے ، فاشزم ہمارےقومی نظام کی بنیادوں میں سرایت کرچکا ہے ، پارلیمان ، عدلیہ ، انتظامیہ ، صحافت ، میڈیا سب کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر برہمنی فاشزم بھارت سے سیکولرزم کا خاتمہ چاہتا ہے تو پھر اس کے نشانے پر اسلام اور مسلمان کیوں ہیں ؟
جواب اس کا بہت سادہ سا ہے کہ بھارت میں سیکولرزم کے دفاع کے لئے اگر کوئی کھڑا ہو سکتاہے تو وہ مسلمان ہیں ، اس لئے اگر ایک بار ہندوستان سے مسلمان مٹا دئے گئے تو پھر سیکولرزم کے دفاع کے لئے کھڑا ہونے والا کوئی نہ ہوگا ، دوسری طرف ہشیار برہمن یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ عداوت اسلام سے معنون جنگ میں اسے تمام غیر مسلم ہندوستانی طبقات کا ساتھ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ضرور ملےگا ، اس لئے کہ الکفر ملۃ واحدۃ ، ہر کافرومشرک کے دل میں موحد و مسلم کے لئے نفرت فطری طور پر ہوتی ہی ہے :
“لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا…” الآیہ(سورہ المائدہ/٨٢) ترجمہ : یقیناً ایمان والوں کا سب سے بڑا دشمن یہود اور مشرکین کوہی پاؤ گے۔
ان کا کام بس اس نفرت کو ابھارنا ، پروان چڑھانا اور منصوبہ بند طریقے سے استعمال کرنا ہے ، چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ چھوٹی ، پسماندہ اور اچھوت برادریاں جن کو برہمنیت درحقیقت ہندو تسلیم بھی نہیں کرتی وہ اسلام دشمنی میں پیش پیش ہیں ، سیکولرازم کے نام نہاد علمبردار غیرمسلم لیڈران برہمنیت کے اسی جھانسے کا شکار ہوکر مسلم مخالف عدالتی ، پارلیمانی فیصلوں ، پالیسیوں اور میڈیائی پروپیگنڈوں کی مخالفت سے گریز کرتے ہیں ، حتی کہ اسی چکر میں ملک کی سب سے پرانی اور سب سے بڑی سیکولر سیاسی پارٹی انڈین نیشنل کانگریس نے اپنا وجود تباہ کرلیا ، کئی علاقائی سیکولرسیاسی پارٹیاں بھی اسی راہ پر گامزن ہیں ، مسلم مکت بھارت گویا ان کا مشترکہ خواب ہے ۔
ہائے رے بے بصیرتی ! انہیں ذرا بھی ادراک نہیں کہ مسلم مکت بھارت برہمنیت یعنی منو وادکے چنگل میں ہوگا ، حالانکہ وقفے وقفے سے اس کے نمونے جگ ظاہر بھی ہوتے رہتے ہیں ۔
سیکولرازم کے خلاف برہمنیت کی اس جنگ میں چونکہ مسلمان ہی سب سے پہلے نشانے پر ہیں اس لئے اس کے خلاف سر بکف بھی سب سے پہلے مسلمانوں کو ہی ہونا پڑے گا ، یہ بھارت میں ان کے اپنے وجود کی جنگ ہے ، ساتھ ہی اس بات کی بھی کوشش کرنی ہوگی کہ دیگر برادران وطن بھی اس جنگ کے اصل ہدف کو جلد ازجلد سمجھ لیں ۔
جنگ میں اگر فوج کے بالمقابل کوئی فوج ہو تو صف آرائی اور مقابلے کی منصوبہ بندی آسان ہوتی ہے ، مگر یہاں تو سب کچھ زیر زمین ہے ، زمین کے اوپر کہیں کوئی جنگ سرے سے ہے ہی نہیں ، اس لئے اس کا دفاع بھی اسی طریقے پر کرنا ہوگا ۔
جنگ کوئی بھی ہو ، اس میں فتحیابی کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ، البتہ موجودہ پس منظر میں مطلوب قوت کوئی عسکری قوت نہیں ہے ، پھر یہ کونسی قوت ہے ؟ اس کی ڈیفینیشن قدرے تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
ملی تحفظ کےلئےمطلوب قوت کوئی جادوئی ٹوپی نہیں ہے کہ اسے سر پر رکھا اور بن گئے ناقابلِ شکست ہلک (Hulk) بلکہ اس کی مختلف شکلیں مدارج اور اقسام ہیں ، اس کی تفصیل میں جستہ جستہ بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔
روحانی/ایمانی قوت Spritual Power
رب کریم ارشاد فرماتا ہے : “وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ “ (سورہ آل عمران/١٣٩)(ترجمہ : اور تم کمزور نا پڑو اور رنجیدہ نا ہو ، تمہیں سربلند ہو اگر تم مومن ہو )
ایمان کی دولت سب سے بڑی دولت اور ایمان کی طاقت سب سے بڑی طاقت ہے ، دولت ایمان کی حفاظت کے لئے دنیا بھر کی دولت قربان کرنی پڑ جائے تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے ۔دولت ایمان کی حفاظت کے لئے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا ، خود بھی ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے ، دولت ایمان کی حفاظت کے لئے زرزمین ، گھر خاندان ، رشتے ناطے تو کیا نقد حیات کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑجائے تو یہ ایک اسمارٹ ڈیل ہوگی ۔
قوت ایمان جس کے پاس ہے اس کے پاس تین چیزیں ضرور ہوں گی ، صبر ، شکر ، توکل علی اللہ ۔ صبر مومن کے پاؤں مصائب میں ڈگمگانے نہیں دیتا ، شکر مومن کو فراخی میں مغرور نہیں ہونے دیتا ، توکل علی اللہ مومن کو حالات سے نبرد آزمائی کا ناقابل شکست حوصلہ دیتاہے ۔
یہ حوصلہ بھی بڑی چیز ہے ، حوصلہ نا ہو تو گریٹ کھلی کی جسامت بھی کسی کام کی نہیں ، جدید ترین اسلحہ بھی بغیر حوصلہ کے بس بچوں کا کھلونا ہے ، جبکہ حوصلہ مند شخص زمین پر پڑے بے ضرر تنکے کو بھی خطرناک ہتھیارکی طرح استعمال کرسکتا ہے ، اور یہ حوصلہ مضبوط قوت ایمانی سے پیدا ہوتاہے ۔
ایمانی قوت کی پرورش اور تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ ایمان کو شرک کی غلاظت سے پاک رکھا جائے ، فرائض ونوافل کی ادائیگی ، ذکر واذکار اور تلاوتِ کلام اللہ کااہتمام ایمان کی غذا ہیں ، لہذا ضروری ہے کہ ان چیزوں سے عوام الناس کا مضبوط رشتہ استوار کرنے کی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی جائے ۔
قوت اخلاق Moral Values Power
حفیظ میرٹھی نے کہاہے :
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن ۔۔۔وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
ایک اور شاعر نبی اکرم ﷺ کے بارے میں کہتا ہے :
ظالم سے لیا ظلم کا بدلہ نہ کسی وقت ۔۔۔مارا بھی تو اخلاق کی تلوار سے مارا
تیغ وتفنگ ، شمشیر وسنان اور عسکری ہجوم سے آپ زمینیں فتح کر سکتے ہیں ، جسموں کو غلام بنا سکتےہیں ، مگر آتمائیں جیتنے کے لئے ، ذہنوں کو فتح کرنے کے لئے ، دلوں پر حاکمیت کے لئے تو صرف ایک ہی ہتھیار کارگر ثابت ہو سکتا ہے ، اور وہ ہےعمدہ و اعلیٰ ترین اخلاق ، اگر آپ کانٹوں کے جواب میں پھول ، نفرت کے جواب میں محبت ، عداوت کے جواب میں صداقت ، خیانت کے جواب میں امانت ، ظلم کے جواب میں انصاف ، نفاق کے جواب میں خلوص ، بے وفائی کے جواب میں وفا کا تحفہ پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں تو آپ فاتح عالم بننے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔
ہمیں ہمارے دین اسلام سے کیسی سنہری تعلیم ملی ہے :” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (سورہ المائدہ/٨)(ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ کی خاطر کھڑے ہونے والے بن جاؤ ، انصاف کے گواہ بن کر ، اور کسی قوم سے بغض تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہیں کرو گے ، انصاف کرو ، یہی تقوی سے قریب تر بات ہے ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے)
اگر ہم اسلام کے عمدہ واعلی اخلاقی اصولوں کو اپنا لیں تو پھر ممکن ہے کہ ہمیں کسی دشمن سے لڑنے کی ضرورت ہی باقی نا رہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : “ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ “(سورہ فصلت/٣٤)(ترجمہ : بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں ہو سکتے ، برائی کا جواب بھلائی سے دو ، پھر تم دیکھوگے کہ تمہارا ازلی دشمن بھی تمہارا لنگوٹیا یار بن گیا ہے )
اعلیٰ ترین اخلاقی اصولوں کے لئے سیرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر نظائر اور کہاں مل سکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن حکیم کی شہادت ہے :”اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ“(سورہ القلم/٤)(ترجمہ : بیشک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں)
آپ ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد بتایا ہے :عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : إنما بُعِثْتُ لأُتَمِّمَ مكارمَ و في روايةٍ ( صالحَ ) الأخلاقِ ۔(صحیح الجامع للالبانی/٢٨٣٣)(ترجمہ : ابوھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بیشک مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے نبی بناکر بھیجا گیاہے)
باری تعالی نے آپ ﷺ کی ذات مبارکہ کو ہی مومنوں کے لئے اسوہ اور نمونہ قرار دیا ہے :
“لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا” (سورہ الاحزاب/٢١)(ترجمہ : بیشک تمہارے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)کی ذات گرامی بہترین نمونہ ہے ، ان کے لئے جنہوں نےاللہ اور یوم آخرت سے امید رکھی اور اللہ کو خوب یاد کیا )
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت النبی ﷺ کے بیش بہا اخلاقی نظائر کی روشنی میں ملت اسلامیہ ہند کی اخلاقی تربیت کا ٹھوس اور منضبط خاکہ مرتب کیا جائے ، بلا شبہ یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
قوت تعلیم Education Power
تعلیم وہ ماسٹر کی Master Key ہے جس کی مدد سے دنیاں جہان کےسارے بند دروازے کھولے جاسکتے ہیں ، حیرت کی بات ہے کہ تعلیم و تعلم کی ضرورت واہمیت بیان کرنے کی ضرورت اس امت کے لئے محسوس کی جارہی ہے جس کے قرآن کا پہلا پیغام ہی تعلیم و تدریس کے حوالے سے ہے :
” اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ،الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ “(سورہ العلق/١تا٥) (ترجمہ : پڑھو اپنے اس رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھو اور تمہارا پروردگار بزرگ وبرتر ہے ،جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ، انسان کو وہ سب سکھایا جو وہ نہیں جانتا)
جس کا قرآن مسلسل سوال کر رہا ہے : “قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ.….”الآیۃ (سورہ الزمر/٩)(ترجمہ : کہہ دیجئے کیا علم رکھنے والے اور علم نا رکھنے والے برابر ہو سکتے ہیں ؟)
جس کا قرآن اہل علم اور اہل ایمان کے لئے رفع درجات کے وعدہ ربانی کا مژدہ سناتا ہے:“يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ…..” الآیہ (سورہ المجادلہ/١١)(ترجمہ : اللہ تم میں سے ایمان والوں کے درجے بلند کرتا ہے اور ان لوگوں کے بھی جو علم سے نوازے گئے )
اب اگر ہم ایمان کے ساتھ ساتھ علم کی دولت بھی حاصل کرلیں تو کیا بلندی درجات کا دوہرا استحقاق ہمیں حاصل نہیں ہوگا ؟
تعلیم و تعلم کے میدان میں ملت کے پچھڑاپن کیا کسی سے پوشیدہ ہے ؟ اس کے لئے کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے ؟ علما کو ؟ دانشوران کو ؟ حکومت کو ؟ الزام تو کسی پر بھی عائد کیا جاسکتا ہے ، کٹہرے میں کسی کو بھی کھڑا کیا جاسکتا ہے ، الزامات کا جواب بھی ہر کوئی کچھ نہ کچھ دے ہی دیگا ، ہر کسی کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کے لئے کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا ، اور مسئلہ بھی جوں کا توں باقی رہے گا ، اس لئے الزام در الزام ، صفائی درصفائی کا اب کوئی فائدہ نہیں ، اب موقع ہے مسئلے کاحل تلاش کرنے کا ، ملت کو اس گئی گذری حالت سے باہر نکالنے کی تدبیر کر نے کا ۔
میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم کےباب میں یہ جو دین اور دنیا کی تفریق ہے ، سب سے پہلے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے ، علماء اور دانشوران کے درمیان کی دوری مٹانے کی ضرورت ہے ، ایسا علم دین جس میں دنیا کی کوئی سمجھ ہی نا ہو ، ایسی دانشوری جو فہم دین سے یکسر عاری ہو ، ملی کاز کے لئے دونوں ہی یکساں طور پر غیر مفید بلکہ مضر ہیں ۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص عالم و حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر ، انجینئر ، فلاسفر ، سائنٹسٹ ، پروفیسر ، جج ، وکیل ، آئی ٹی پروفیشنل یا آئی اے ایس ، آئی پی ایس آفیسربھی ہو ؟ کیا ایسا کوئی نصابِ تعلیم ملت کے نونہالوں کے لئے مرتب نہیں کیا جاسکتا جو دین اور دنیا دونوں کوہی خوبصورتی سے سموئے ہوئے ہو ؟ نوودے ودیالے کی طرح کیا ہمارا کوئی اپنا ٹیلینٹ ہنٹ Talent Hunt پروگرام نہیں ہو سکتا؟جس میں کامیاب ہونے والے بچوں کی اور ضرورت ہو تو ان کے ماں باپ کی بھی مالی کفالت کرکے ان کواعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے ؟
حکومت پر انحصار نہ کرتے ہوئے اب ہمیں اپنے نو نہالوں کے لئے خود ہی وسیع پیمانے پر انتظامات کرنے ہوں گے ، ہر شعبہ علم کے اپنے کالج ، اپنی یونیورسٹیاں ، مدارس اور جامعات بنانے ہوں گے ، کیا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا ؟ قائدین ملت اگر خلوص دل کے ساتھ کام کرنے کے لئے آمادہ ہوں تو یہ ناممکن بھی نہیں ہے ۔
وہ کون ساعقدہ ہےجوواہو نہیں سکتا ؟۔۔ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا ؟
افرادی قوت Manpower
جمہوری سیاسی نظام میں افرادی قوت کی اہمیت سے بھلا کون ناواقف ہوگا ؟ اس میں تو سارا کھیل ہی عدد کا ہوتا ہے ، جس کمیونٹی کے جتنے زیادہ افراد ، اس کی اتنی زیادہ ووٹنگ پاور ، اتنا زیادہ سیاسی وزن ۔
افرادی قوت کی اہمیت کا اشاریہ ہماری دینی تعلیمات میں بھی ملتا ہے ، نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے :
عن معقل بن یسار رضی اللہ عنہ قال جاءَ رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ ، فقالَ : إنِّي أصَبتُ امرأةً ذاتَ حسبٍ وجمالٍ ، وإنَّها لا تلِدُ ، أفأتزوَّجُها ، قالَ : لا ثمَّ أتاهُ الثَّانيةَ فنَهاهُ ، ثمَّ أتاهُ الثَّالثةَ ، فقالَ : تزوَّجوا الوَدودَ الولودَ فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأُممَ ۔ (صحیح ابی داؤد للالبانی/٢٠٥٠)(ترجمہ: معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے ایک خاتون کا رشتہ آیا ہے جو حسب ونسب اور حسن و جمال والی ہے ، مگر وہ بچے پیدا نہیں کر سکتی ، کیا میں اس سے شادی کرلوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، پھر وہ دوسری بار آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا ، تیسری مرتبہ پھر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : محبت کرنے والی ، زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورتوں سے شادی کرو ، پس بیشک میں دوسری امتوں کے مقابلےمیں اپنی امت کی کثرت تعداد پر فخر کروں گا)
اس حدیث مبارکہ میں موجود اشاریہ کیا ہماری ملی سیاسی پالیسی نہیں بن سکتا ؟ الزام اور پروپیگنڈہ تو اس حوالے سے بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے ؟ اس میں کسی کو کوئی زندگی بھی نچھاور نہیں کرنی ، بس قدرت کے نظام تخلیق میں دخل اندازی ترک کرنی ہے ، نئی زندگیوں کو دنیا میں خوش گواری کے ساتھ خوش آمدید کہنا ہے ، جو کہ دراصل ہمارے اپنے ہی دلوں کے ٹکڑے ہوں گے ، جو رب ہمیں روٹی کھلاتاہے وہ انہیں بھی ضرور کھلائے گا ، جو مدبر الامور ہمیں وسائل حیات دے رہاہے وہ انہیں بھی ضرور دےگا ، کیا اس میں کسی کو کوئی شبہ ہے ؟ کہیں ایسا نا ہو کہ ہم بروز قیامت ان فرامین باری تعالی کی عملی تکذیب کے مجرم قرار پائیں : “وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا “(سورہ الاسرا/٣١)ترجمہ : اور اپنی اولاد کو بھکمری کے خوف سے نہ مارو ، انہیں ہم روزی دیں گے اور تمہیں بھی ہم ہی کھلاتے ہیں ، ان کو قتل کرنا بلاشبہ بہت بڑا جرم ہے)
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا ، أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا (سورہ المرسلات /٢٥-٢٦)(ترجمہ: اور کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں سب کے لئے کفایت کرنے والی نہیں بنایا )
قوت بازو Muscle power
ایک مسلمان کے لئے دینی اعتبار سے بھی صحت مند ، تندرست و توانا ، طاقتور جسم کی خاص اہمیت ہے :
عَنْ أبي هُريرةَ – رضْيَ اللهُ عنه – قالَ: قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: «المؤمنُ القويُّ خيرٌ وأحبُّ إلى اللهِ مِنَ المؤمنِ الضَّعيفِ وفي كلٍّ خيرٌ. احْرِصْ على ما يَنفعُكَ، واسْتَعنْ باللهِ ولا تَعجزْ. وإنَّ أصابك شيءٌ فلا تقلْ: لو أنِّي فعلتُ كان كذا وكذا، ولكن قُلْ: قدَرُ اللهِ وما شاءَ فَعَل، فإنَّ (لَوْ) تَفتحُ عملَ الشَّيطانِ». رواه مسلم رقم:۲۶۶۴)(ترجمہ : ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : طاقتور مومن کمزور مومن کے مقابلے میں اللہ کے نزدیک زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے ، ہر ایک میں بھلائی ہے ، اپنے لئے نفع بخش چیز کے حریص بنو ، اللہ سے مدد طلب کرتے رہو اور عاجز نا بنو ، اور اگر تمہیں کوئی تکلیف پہونچ جائے تو یوں نا کہو کہ کہ اگر میں نے کوشش کی ہوتی تو ایسا اور ایسا ہوتا ، بلکہ یوں کہو کہ یہ اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر ہے ، اس نے جو چاہا کیا ، بلا شبہ اگر مگر شیطان کے دخل کا دروازہ کھول دیتا ہے )
انفرادی سطح پر ضروری ہے کہ ہر مسلم نوجوان اپنی صحت و تندرستی کا خاص خیال رکھے ، اس کا جسم اس کی جوانی قوم اور ملت کی امانت ہے ، اس کو ضائع کرنے کا اسے کوئی حق نہیں ۔
اجتماعی سطح پر ضروری ہے کہ قوم کے رہنما قوم کے نوجوانوں کے لئے صحت بیداری مہم چلائیں ، حفظان صحت کے اصولوں سے انہیں آگاہ کریں ، ان کے لئے سیلف ڈیفنس آرٹس کی تربیت کے پروگرام مرتب کریں ، یہاں تک کہ ہمارا ایک ایک نوجوان دس دس سماج دشمن عناصر کے دفاع کے لئے کافی ہو ۔
کیا ہمارے پاس اپنا کوئی ایسا Chain of Hospital’s ہےجسے ملی وقومی خدمات کے جذبے کے تحت بنایا گیا ہو ؟ کیا ہمارے پاس مستند ڈاکٹروں کی ایسی منظم ٹیم ہے جو ملی وقومی خدمات کے جذبے کے تحت کام کرتی ہو ؟ کیا ہمارے پاس ایسی فارمیسی ایجنسیاں ہیں جو ملی وقومی خدمات کے مقصد سے مناسب نرخ پر ضروری ادویہ فراہم کرتی ہوں ؟
قوت مال Power of wealth
روپیہ سب کچھ نہیں ہوتا مگر بہت کچھ ضرور ہوتا ہے ، مال و دولت کے بارے میں اسلام کا مزاج تحذیری ہے ، اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : “وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ” (سورۃ الانفال-٢٨)(ترجمہ : اور جان لو کہ بیشک تمہارامال اور تمہاری اولاد فتنہ ہے ، اور بیشک اللہ کے پاس اجر عظیم ہے )
مگر مال کمانے سے اسلام کبھی بھی منع نہیں کرتا بلکہ اس کی ترغیب دیتا ہے فرمان باری تعالی ہے :
“وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ “ (سورہ القصص/٧٧)(ترجمہ : اور جو کچھ اللہ نے تمہیں نوازا ہے اس میں آخرت کے گھر کی جستجو کرو ، اور دنیا سے اپنا حصہ وصول کرنا نہ بھولو ، اور بھلائی کرو ، جیسے کہ اللہ نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے ، اور زمین میں فساد کے خواستگار نہ بنو ، بیشک اللہ فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا )
البتہ اسلام کسب مال میں حلال و حرام کی تمیز کی تلقین کرتا ہے ، فرمان باری تعالی ہے :
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(سورۃالبقرہ-۱۸۸)(ترجمہ : اور آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پرجان بوجھ کر کھالو)
مال واولاد کی کثرت کواللہ نےاپنی خصوصی مدد کی شکل بتایا ہے ، ارشاد فرمایا : وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا۔(سورہ نوح/١٢)(ترجمہ : اور مال و اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد فرمائے گا ، اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور نہریں جاری کرے گا)
سیرت نبوی کا یہ باب خصوصی طور پر ملاحظہ فرمائیں کہ ہجرت مدینہ کے بعد ترجیحی اولیت کے ساتھ نبی اکرمﷺ نے انصار و مہاجرین کا مواخات کروایا ، تاکہ مہاجرین کی باز آباد کاری ہو سکے اور رفتہ رفتہ وہ مالی طور پر خود کفیل ہو جائیں ۔
بھوکے پیٹ عبادت بھی کہاں ہوتی ہے ، اس لئے مسلم قائدین کو چاہئیے کہ مسلم نوجوانوں کے لئے صنعتی و تجارتی تربیت کے پروگرام مرتب کریں ، صنعت وتجارت میں آگے آنے والے نوجوانوں کے لئے سرمایہ فراہمی کا کوئی معقول اور مستقل نظام وضع کریں ، اس طرح بیروزگاری اشاریہ Unemployment Index میں ہماری شرح گھٹے گی ، برسر روزگار ہونے کے سبب ہمارے نوجوان فتنوں سے محفوظ ہوں گے ، بوقت ضرورت قومی خدمات کے لائق ہوں گے ، ہماری ملی خوشحالی میں اضافہ ہوگا ، ملت کا وقار بلند ہوگا ، سکھ قوم کی طرح کیا ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ مسلمان بھکاری کہیں ڈھونڈنے سے بھی نا ملے ؟
سیاسی قوت Political Power
ہم بھارت کے باشندے ہیں جس کا دستور سیکولر اور نظام حکومت پارلیمانی جمہوری ہے ، یہاں سب سے بڑی طاقت ووٹ کی طاقت ہے ، سب سے طاقتور وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ ووٹ بٹورنے کی اہلیت رکھتا ہو ، سیاسی پارٹیاں اسی شخص ، جماعت یاطبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں جو اپنے ووٹ کی قیمت سمجھتا ہو ۔
کثیر رنگی جمہوری نظام میں “اپنی قیادت” کی بات اکثریتی طبقہ کے لئے تو ٹھیک ہو سکتی ہے ، لیکن اقلیتوں کے لئے راہ نجات صرف اور صرف سیکولر قیادت میں ہے ، ایسی سیکولر قیادت جس کا سیکولرازم ذرا بھی مخدوش یا مشتبہ ناہو ۔ میں اپنی قیادت کا مخالف نہیں ہوں ،مگر اسے زیادہ مفید نہیں سمجھتا ، میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ وقت میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی سیاسی پارٹی یا اپنی قیادت کی بجائے ملک گیر پیمانے پر ہر حلقہ انتخاب میں ایک انتخابی مشاورتی کمیٹی Voting Advisery Committee کی ضرورت ہے جو انتخابات میں ہمیں اجتماعی طور پر اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے کی رہنمائی کر سکے اور ہمارے لئے سیکولر قیادتوں سے ، سیاسی پارٹیوں سے مناسب ڈیل کرسکے ، اس طرح سے ممکن ہے کہ ہمارا سیاسی وزن بڑھے اور ہماری سیاسی اچھوت کی حیثیت ختم ہو۔ ہمارے ملی قائدین ہی بتاسکتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے یا نہیں ۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ ۔
قوت ابلاغ و اعلام Media Power
بھارت کی دوسری سب سے بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت ہیں ہم ، اس کے باوجود ہمارے پاس کوئی میڈیا ہاؤس نہیں ، نہ کوئی ڈھنگ کا اخبار ، نہ میگزین ، نہ ٹی وی چینل ، نہ ہی کچھ اور ۔ ان کے پاس اپنے جھوٹ کی ترسیل کے لئے ہزار ذرائع ہیں اور ہمارے پاس اپنے سچ کی تبلیغ کے لئے وہی پرانے گھسے پٹے ذرائع ، ملت میں سرمایہ داروں کی کمی نہیں ہے ، کیا انہیں اس سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لئے آمادہ نہیں کیا جاسکتا ؟ ملت میں ناتو سرمایہ کی کمی ہے اور نہ ہی کام کی اہلیت رکھنے والے ٹیلنٹڈ نوجوانوں کی ، کمی ہے تو بس سنجیدہ کوشش کی ۔
میڈیا کے میدان میں صلاحیت مند اور کام کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں کو خود ہی آگے آکر قدم بڑھانا ہوگا ، میڈیا ہاؤس ، اخبار ، میگزین ، ٹی وی چینل نہ سہی سوشل میڈیا تو ہے ، ہر نوجوان جتنی اور جیسی بھی اہلیت رکھتا ہے ، ملی فلاح و بہبود کے لئےاپنے حصے کا کام ضرور کرے ، جو ماہرین فن ہیں وہ نو آموزگان کی حوصلہ افزائی اور ممکن حد تک تربیت بھی کریں ، پھر ممکن ہے کہ وہ دن بھی جلد ہی آئے جب ہمارے قائدین اپنے نوجوانوں سے ہم قدم ہونے کا حوصلہ جٹا سکیں ، اپنا پاورفل میڈیا ہاؤس بنانے کا خواب جاگتی آنکھوں سے دیکھ سکیں ۔
قوت قانون Power Of Law
آئین ہند تمام ہندوستانی شہریوں کو رنگ و نسل اور دین دھرم کی تفریق کے بغیر یکساں حقوق فراہم کرتا ہے ۔
حقوق کی یافت کے لئے حقوق کا علم ضروری ہے ، ساتھ ہی اس بات علم بھی ضروری ہے کہ ان حقوق کی ضمانت دستور ہند کی کن کن دفعات میں ہے ۔ دستور ہند کی روشنی میں منصفانہ سلوک کی یقین دھانی کے لئے دستور کا نفاذ کرنے والےاداروں میں ہماری موجودگی بھی ضروری ہے ، ہمارے نوجوانوں کو کورٹ ، ایڈ منسٹریشن ، پولیس ڈیپارٹمنٹ ، ہر جگہ مناسب تعداد میں ہونا چاہئے ۔
قائدین ملت ہونہار نوجوانوں کے لئے مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے انتظامات کریں، ہمارے نوجوانوں میں ٹیلینٹ کی کمی ہر گز نہیں ہے ، جو بچے محض دس سال کی عمر میں تیس پاروں کا قرآن مجید حفظ کر لیتے ہوں ان کےلئے کوئی بھی امتحان مشکل کیسے ہو سکتا ہے ؟ ضرورت صرف اورصرف صحیح رہنمائی کی ہے ، پھر زمانہ دیکھے گا کہ ہمارے بچے کیا کیا کمالات دکھاسکتے ہیں ۔آج اس گئی گذری حالت میں بھی ہمارے بچے اپنی محنت سے ہر شعبہ زندگی میں اپنی حاضری درج کروانے میں کامیاب ہو رہے ہیں ۔
ملٹری ، پیراملٹری ، جوڈیشری ، سول سروسز، پولیس ڈیپارٹمنٹ ، ایڈمنسٹریشن ، سنسد ، پارلیمنٹ ، لوکل گورننس میں ہماری نمائندگی کا ہمارے کسی ادارے یا تنظیم کے پاس کوئی اعداد و شمار ہے ؟ نمائندگان کے ناموں کی کوئی فہرست ہے ؟ ان کی ملی مفادات کے تحفظ کے لئے ذہن سازی اور تربیت کا کوئی منصوبہ یا لائحہ عمل ہے ؟ بلکہ ان کا آپس میں اور ہمارے قائدین کا ان سے کوئی ربط ہے بھی یا نہیں ؟
ہمارے قائدین کو شدت سے اس بات کی جد و جہد اور جستجو کرنی چاہئے کہ وہ ایک دن ان سارے سوالوں کاجواب اثبات میں دے سکیں ۔
قوت اتحاد Power Unity
وہ ملت جس کی منفعت اور نقصان ایک ہے ، جس کا نبی اور دین و ایمان ایک ہے ، جس کا حرم پاک ، اللہ اور قرآن بھی ایک ہے ، جس کے پاس دنیا کا سب سے بہتر نظام اخوت ہے ، جس کے پاس دنیا کا سب سے بہتر نظام شریعت ہے ، جس کے دین میں ، اعلی وادنی ، اشرف و ارذل کا کوئی تصور ہی نہیں ، وہ اس قدر ٹکڑوں میں بٹی ہوئی کیوں ہے ؟
کیا ہم نےقرآن مجید کے اس فرمان کو بھلا دیا ؟ “وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ “(آل عمران/١٠٣)(ترجمہ : اور اللہ کی رسی کو ایک ساتھ مضبوطی سے تھام لو اور فرقہ فرقہ نہ بنو ، اور یاد کرو اس وقت کو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، چنانچہ اللہ نے تمہارے دلوں کو باہم جوڑ دیا ، توتم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے ، اور تم جہنم کے گڈھے کے کنارے پر کھڑے تھے ، تو تمہیں اس سے بچالیا ، ایسے ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت پاجاؤ)
کیا نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان بھی اب ہمارے پیش نظر نہیں رہا ؟
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم “ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى ”( البخاری/٦٠١١, مسلم/٢٥٨٦)(ترجمہ : نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مومنوں کی مثال باہمی مودت و رحمت اور لطف وکرم میں ایک جسم کی ہے ، جسم کا کوئی بھی عضو جب تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا بدن اس کے لئے تڑپ اٹھتا ہے ، نیند اڑ جاتی ہے ، بدن کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے)
اسلامی اخوت کی اس زریں تعلیم کا کیا ہوا؟
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول اللہ ﷺ : «لا تَحاسَدُوا، ولا تَناجَشُوا، ولا تَباغَضُوا، ولا تَدابَرُوا، ولا يَبِعْ بَعْضُكُمْ على بَيْعِ بَعْضٍ، وكُونُوا عِبادَ اللهِ إخْوانًا المسْلِمُ أخُو المسْلِمِ، لا يَظْلِمُهُ ولا يَخْذُلُهُ، ولا يَحْقِرُهُ التَّقْوى هاهُنا ويُشِيرُ إلى صَدْرِهِ ثَلاثَ مَرّاتٍ بحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أنْ يَحْقِرَ أخاهُ المسْلِمَ، كُلُّ المسْلِمِ على المسْلِمِ حَرامٌ، دَمُهُ، ومالُهُ، وعِرْضُهُ.» (صحيح مسلم/٢٥٦٤)(ترجمہ : ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، ایک دوسرے کے خلاف بولیاں نہ لگاؤ ، آپس میں بغض نہ رکھو ، آپس میں دوریاں نہ بناؤ ، ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتاہے ، وہ نا اس پر ظلم کرتا ہے ، نا اسے بے آسرا چھوڑتا ہے اور ناہی اس کی تحقیر کرتا ہے ، اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: تقوی یہاں ہے ، آدمی کی برائی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانتا ہے ، مسلمان کی جان مال اور عزت مسلمان کے لئے حرام ہے ۔)
ہمارے قائدین کیا کوئی ایسی راہ نکال سکتے ہیں کہ تمام تر نظریاتی ، فقہی و مسلکی اختلافات کے باوجود ہم کچھ مشترکہ اہداف ومقاصد اور مفادات کے لئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکیں ؟ یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن تو نہیں ہے ۔
تقویت ملت کی یہ وہ جہتیں ہیں جن پر حد درجہ سنجیدگی سے کام کرنا بقائے ملت کے لئے بیحد ضروری ہے ۔