از قلم:ندیم أختر سلفی مدنی
داعی اسلامک دعوہ سینٹر,حوطہ سدیر,سعودی عرب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں آٹھ لاکھ سے زائد مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ بھاگ کر ارتداد کی راہ پر چل پڑی ہیں، اس رپورٹ کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے، خون منجمد ہوگیا، آنکھیں پتھرا گئیں، آخر ایسا کیوں ہورہا ہے مسلم لڑکیوں کے ساتھ ؟ کون ہیں اس کے ذمہ دار؟ کن کی لاپرواہی کے نتیجے میں یہ لڑکیاں اپنے صاف ستھرے دین، اپنے حقیقی خالق ومالک ، اپنے سماج ، رشتہ دار او راپنے والدین سے فرار ہوکر ارتداد کی زندگی جینے پر مجبور ہیں؟
یہ سوال آخر کس سے پوچھا جانا چاہئے ؟ اور اس کا جواب کون دے گا؟ یہ سوال تو سب سے پہلے اس کے والدین ، رشتہ دار اور سماج سے ہونا چاہئے، یہ خطرناک قدم اٹھانے کا موقع ان لڑکیوں کو کیوں دیا گیا اور غلطی کہاں پر پائی جارہی ہے؟ تو جان لیجئے کہ اس کفریہ اور غلیظ حرکت کا سب سے پہلا اور سب سےبڑا سبب دینِ اسلام سے دوری اور انحراف ہے جس کی دہائی دے کر ہم میں کا ہر شخص افسوس اور شرمندگی کا اظہار کرتا ہے۔
یہ بات ہر ایک کو اپنے پلو سے باندھ لینی چاہئے کہ دینی تعلیم سے دوری اختیار کرنا رسوائی اور ذلت کو دعوت دینا ہے، دنیاوی تعلیم کے ذریعہ کوئی شخص بلندی کے جس مقام کو بھی چھولےوہ دین کی بنیادی تعلیمات سے دور رہ کر اللہ کے نزدیک عزت اور مقام نہیں پاسکتا ، وہ دنیا وآخرت کی ذلت سے محفوظ نہیں رہ سکتا، جو اس عظیم اور مقدس دین کی بنیادی تعلیمات کو سیکھے بغیر صرف مال کی ہوس میں دنیاوی تعلیم اور اونچی ڈگریوں کی طرف لپکتے ہیں، یا پیسے کی لالچ میں شب وروز صرف اپنے کام کی دُھن میں لگ کر نہ خود دین سیکھتے اور نہ اپنی اولاد کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، انہیں اس دنیا میں عزت اور وقار کی توقع نہیں رکھنی چاہئے، انہیں کسی وقت بھی ذلت ورسوائی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
دور ِ نبوی ، دورِ صحابہ اور دورِ تابعین کی خوبصورتی ، دین پرستی اور رب شناسی کو نظر انداز کرکے ہم اپنے سماج کو کبھی خوبصورت نہیں بناسکتے، دین کی بنیادی تعلیمات سے دور رہنے کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ، ان میں کا ہر فرد دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف تھا، وہ پورے جذبے اور شوق کے ساتھ پہلے رب کی پہچان اور اس کے دین کی عظمت کو اپنے سینوں میں جگہ دیتے پھر دنیا میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے، تاکہ دین کے خلاف آنے والے کسی بھی طوفان کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کرسکیں، وہ دنیا کو دین پر ترجیح دینے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتے تھے۔
مذکورہ تینوں سماج(دور ِ نبوی ، دورِ صحابہ اور دورِ تابعین ) میں آپ کو شاید ہی آج کی طرح کوئی پیشہ ور ڈاکٹر ، انجینئر اور دنیاوی علوم کے ماہر مل جائیں، لیکن ایک شخص بھی ایسا نہ ملے گا جو اپنے رب کو ، اس کے رسولﷺ کو ، ان کے حقوق کو اور دین ِ اسلام کی عظمت اور اس کے مقام کو نہ پہچانتا ہو، تینوں دور کے مسلمانوں نے اپنے بچوں کو بھی اس سے کبھی غافل نہیں رکھا ، ان کے پاس یہی تو ایک عظیم سرمایہ تھا جس کے ذریعہ انہوں نے پوری دنیا کو اپنے زیر نگیں کرلیا ، وہ دنیاوی علوم کے ماہر نہ تھے ، ان کے پاس دنیاوی علوم کی اونچی ڈگریاں نہ تھیں لیکن دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو انہوں نے اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ۔
لیکن آپ اور آپ کے بچے دین کی بنیادی تعلیمات سے کیوں دور رہنا چاہتے ہیں ؟ کون سی مجبوری نے آپ کو اور آپ کی اولاد کو دین کی بنیادی تعلیمات سے دور رکھا ہے؟ صرف دنیاوی علوم کی طرف ان کا رُجحان کیوں ہے؟ کون سی چیز ہے جس نے آ پ کو اور آپ کی اولاد کو علماء کی مجلسوں سے کنارہ کشی پر مجبور کیا ہے؟ آج کا مزدور طبقہ اور دنیاوی ڈگریوں کے پیچھے بھاگنے والا نوجوان اگر ایسے ہی دین سیکھنے سے بھاگتا رہا تو انہیں اپنے لئے اور اپنی قوم کے لئے کوئی بھی ناپسندیدہ خبر سننے اور مغلوبیت کے منحوس سایہ میں جینے کے لئے تیار رہنا چاہئے، اگر آپ لوگوں نے دین سے دور رہنے کی کوشش کی تو ارتداد کا جو منحوس سایہ اُن لڑکیوں اور نہ جانے کتنے لڑکوں پر پڑا ہے وہ آپ پر اور آپ کے بچوں پر بھی پڑسکتا ہے، دین ایک مضبوط ہتھیار ہے جس کے بغیر کسی بھی سازش ، حوادث اور طوفانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، آج اسلام اور اس کے ماننے والوں کے خلاف فضا بن رہی ہے کل اس کی قوت میں اور اضافہ ہوجائےگا اگر دین سیکھنے سے ہم اسی طرح جی چُراتے رہے۔
دینی مجالس سے دور رہنے کے جو حیلے اور بہانے تراشے جاتے ہیں ذرا ان پر بھی غور کرتے ہیں : “ذرا مشغولیت زیادہ ہے، بہت تھک گیا ہوں، آج طبیعت ذرا سُست ہے، کھانا بنانا ہے، بیوی سے بات کرناہے ، پیسے نہیں کمائیں گے تو بچوں کی پرورش کیسے کریں گے؟ اوور ڈیوٹی نہ کریں گے تو اتنی معمولی آمدنی میں گزارا کیسے ہوگا، آج ذرا مہمان آئے ہوئے ہیں، ذرا دوستوں کے ساتھ میٹنگ ہے آج، آج بھارت اور پاکستان کا میچ ہے ، ورلڈ کپ کے میچوں کو دیکھنا ہے ہر سال تھوڑی نا آتا ہے، دوکان کی ڈیوٹی سخت ہے ، کفیل کے انڈر میں ہیں، اس طرح کے اور نہ جانے کتنے بہانے ہیں ان کے پاس دینی مجالس سے دور رہنے کے لئے!! ذرا سوچئے!یہ حیلے اور بہانے کیا کسی مسلمان کے ہوسکتے ہیں؟ کیا کوئی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کا دعویٰ کرنے والا اس طرح کے بہانے اپنی زبان سے نکال سکتا ہے؟
علماء کی مجلسوں اور دینی پروگرام سے دور کرنے کے لئے جو اس وقت کی بہت بڑی رکاوٹ ہے وہ موبائل اور انٹر نیٹ ہے، کیا امیر اور کیا غریب سب کے پاس موبائل اور انٹر نیٹ ہے جو ہر وقت اس کے پاس ہوتا ہے، یہی موبائل اور انٹرنٹ نے ہر گھاٹ کا پانی پلا رکھا ہے ہمارے نوجوانوں کو، جو اسی موبائل اور انٹرنٹ کے ذریعہ ہر غیر دینی محفل میں شریک ہوتے ہیں لیکن ان کے پاس دینی محفل میں شریک ہونے اور دین سیکھنے کے لئے وقت نہیں، اسے بدبختی نہیں کہیں گے تو اورکیا کہیں گے؟ان گنت دین کے دشمنوں کو ان نوجوانوں نے تو خود ہی اپنے پاس پال رکھا ہے، انہیں باہر کے دشمنوں کی کیا ضرورت ہے؟
اس لئے اللہ کے واسطے اپنے بچوں کو سنبھالئے، انہیں دینی تعلیم سے آراستہ کیجئے، انہیں ارتداد اور جہنم سے بچائیے، ورنہ یہ اپنے ساتھ آپ کو بھی لے ڈوبیں گے اور قوم کے لئے بھی رسوائی کا سامان بنیں گے۔