حسد کی آگ

از:۔عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

(مدیر برقی مجلہ ارمغان ِ سلام)

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد

آج ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں,مختلف قسم کی گندگیوں,بیماریوں,خامیوں,خرابیوں سے گزر رہا ہے,ان میں ایک گندگی حسد کی گندگی ہے,یہ گندگی ایسی ہے,جس نے اپنے بدبودار دلدل میں اچھے اچھوں کو پھانس لیا ہے,اور اس کی آگ عوام تو عوام خواص کو بھی جلائے جا رہی ہے
یہ آگ اتنی خطرناک حد تک منتشر ہوچکی ہے,جس کی تپش دور سے محسوس کی جا سکتی ہے
ایک انسان اچھا کھا پی رہا ہے,دوسرا جل رہا ہے,ایک بندہ اچھی گاڑی پر چل رہا ہے,دوسرا حسد فرما رہا ہے,ایک آدمی کی اچھی نوکری ہے,دوسرا جلنے پر مجبور ہے,ایک شخص اچھا یا برا لکھنے لگ گیا,دوسرا آدمی جلنے لگا,ایک شخص اچھا مکان تعمیر کر لیتا ہے,دوسرا آدمی حسد و غیبت میں اپنے ۲۴ گھنٹے صرف کرنے لگتا ہے,ایک آدمی کچھ نئے قسم کے پروگرام پیش کرتا ہے,دوسرا آدمی اس قدر جل جل جاتا ہے کہ انسان اس آگ کی تپش سے جلنے لگتا ہے؛اور اول فول بکنے پر مجبور ہوجاتا ہے,اپنا ذہنی توازن تک کھوبیٹھتا ہے,ایک طالب علم کو اچھے مدرسے میں داخلہ مل جاتا ہے,دوسرا طالب علم جلنے لگتا ہے,ایک لڑکے کو بہتر یونیورسیٹی میں داخلہ مل جاتا ہے,دوسرا جل کر خوار ہوجاتا ہے,ایک آدمی نے کوئی اچھا مدرسہ قائم کر لیا,وہ ادارہ بہتر چلنے لگا ,دوسرا جل کر خوار ہونے لگا ۔
اسی حسد کی آگ نے ابلیس کو مقربین کے دائرے سے راندہ ٔ درگاہ کر ذلیل و خوار کر دیاتھا,اس لئے بعض سلف سے منقول ہے(الحسد أول ذنب عصي الله به في السماء وأول ذنب عصي الله به في الأرض)(دیکھئے:الجامع لأحکام القرآن از قرطبی:۵؍۲۵۰)(آسمان میں سے سب سے پہلے کی جانے والی معصیت حسد ہے,اور زمین میں بھی کی جانے والی سب سے پہلی معصیت حسد ہی ہے)
ابلیس لعین کو حضرت آدم سے حسد ہوا اور جنت سے نکلوانے کی تدبیر میں لگ گیا,آج کچھ نام نہاد مسلمان بھی اسی ڈگر پر چل پڑے, کوئی نعمت اگر کسی کو مل جاتی ہے,دوسرا جلن و بھنن میں ایسا راکھ ہوجاتا ہے کہ الأمان و الحفیظ ۔حالانکہ اسے معلوم ہونا چاہئےکہ ایک حاسد کو سوائے حسد کے کچھ حاصل ہونے والا نہیں,ہاں وہ اپنے بدن کو جلائے گا,دماغ کی بتی گل کرے گا,اور جل بھن کر راکھ ہوتا رہے گا,بالکل ویسے ہی جیسے ابلیس ملعون ِ دربار ہوا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اسے ملعون قرار دیا گیا۔
ایک حسد کرنے والا بھول جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے دیا ہے,اس پر جلنے,بھننے,اور حسد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا, اگر کوئی اچھی گاڑی میں چل رہا ہے تو اللہ نے اسے دیا ہے,یہ نعمت بھی ہوسکتی ہے,اور بسا اوقات زحمت بھی,ایک انسان اگر عمل خیر کر رہا ہے تو بلاشبہ اسے اللہ نے توفیق سے نوازا ہوا ہے,جس سے توفیق سلب کر لی جاتی ہے,وہ کچھ نہیں کر پاتا,پھر وہ جلتا رہتا ہے,ایک انسان اگر اچھے کپڑے پہنتا ہے تو اللہ نے اسے عطا کیا ہوا ,پھر جلن کیوں؟حسد کیوں؟,اللہ کی دی ہوئی نعمت پر اعتراض ؟عجیب ہے ابن آدم ؟
جب اللہ نے دیا ہے تو اس سے جلنا,حسد کرنا,در حقیقت اللہ پر (نعوذ باللہ)اعتراض کرنا ہے,اسی لئے بعض حکماء فرماتے ہیں کہ ایک حسد کرنے والا اللہ تعالی سے پانچ امور کی بنیاد پر اعلان جنگ کرتا ہے
۱۔ہر نعمت اسے بری لگتی ہے جو محسود پر ظاہر ہوتی ہے
۲۔اللہ تعالی کی تقسیم پر وہ ناراض ہوتا ہے,گویا زبانِ حال سے کہتا ہے(میرے مولا!ایسی تقسیم تونے کیوں کی)(نعوذ باللہ)
۳۔اللہ تعالی کے امر کی مخالفت کرتا ہے,اللہ تعالی اپنا فضل جس پر چاہتا ہے,نچھاور کرتا ہے,مگر حاسد اللہ کے فضل کا انکار کرتا ہے
۴۔وہ اللہ تعالی کے اولیاء سے جنگ کرتا ہے,یا اس کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتا ہے,اور اللہ کی ملی نعمت کے ختم ہونے کی تمنا کرتا ہے
۵۔ایک حاسد اپنے جانی دشمن (ابلیس) کی بھی مدد کرتا ہے(دیکھئے:تفسیر قرطبی ,تفسیر سورہ الفلق)
امام حسن بصری ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:(ما رأيت ظالمـًا أشبه بمظلوم من الحسود، نَفَسٌ دائم، وهَمٌّ لازم، وقلبٌ هائم)(دیکھئے:تفسیر قرطبی:۵؍۲۵۱,العقد الفرید:۲؍۱۷۰)(ترجمہ:کوئی بھی ظالم حاسد سے زیادہ مظلوم میں نے نہیں دیکھا,لمبی سانس,ہمیشہ مغموم,دل پریشان اور بلاشبہ حاسد اللہ تعالی کے ساتھ بے ادبی سے پیش آتا ہے)
امام حاتم الأصم رحمه الله کہتے ہیں: ’’میں نے دیکھا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں، پھر میں نے الله سبحانه وتعالیٰ کے اس فرمان کو دیکھا:

(نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّعِيۡشَتَهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا)(الزخرف:۳۲) (ترجمہ:دنیا کی زندگی میں ان کی معیشت کے سامان کو ہم نے تقسیم کیا ہے),پھر میں نے حسد کرنا چھوڑ دیا اس لیے کہ یہ الله تعالیٰ کی تقسیم پر اعتراض کرنا ہے۔‘‘)مختصرمنهاج القاصدين ص۲۸)
کیا اسے نہیں معلوم کہ یہ یہودیوں کی عادتِ سیئہ تھی,رب کریم نے فرمایا(أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا)(النساء:۵۴)(ترجمہ : یا یہ لوگوں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انھیں اپنے فضل سے دے رکھا ہے۔ پس ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت عطا کی تھی اور انھیں بڑی سلطنت بھی بخشی تھی)
نبی ٔ کریمﷺکو نبوت ملی,حسد شروع ہوگیا, یہودیوں کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ ہم میں سے نبی کیوں مبعوث نہیں کئے گئے؟حضرت ابراہیم کو اللہ نے کتاب و حکمت سے کیا نوازا ,جل جل کر راکھ ہوگئے,بعینہ آج کے اس دور ِ پر فتن میں یہی کچھ ہورہا ہے
حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی دعوت و تبلیغ کا کام کرے تو حسد و جلن,اور اس پر الزام در الزام ,کہ فلاں آدمی شہرت طلبی کے لئے یہ کام کر رہا ہے,ریا و نمود کے لئے انجام دیا جا رہا ,اورایک دوسرے کی تحقیر و توہین کے لئے اتنی محنت کر رہا ہے, فلاں دعوتی کام ریا و نمود کے لئے انجام دے رہا ہے,نبی ٔ اکرمﷺنے حضرت اسامہ کو جو کچھ فرمایا تھا,ہمارے لئے تازیانہ ٔ عبرت ہے,فرمایا:( ألا شَقَقْتَ عن قلبِهِ حتى تَعلَمَ من أجلِ ذَلِكَ قالَها أمْ لا؟ مَنْ لكَ بِلا إلهَ إِلّا اللهُ يومَ القيامةِ)(صحیح الجامع رقم:۲۶۵۴)(تم نے اس دل کو کیوں نہیں پھاڑ کر دیکھ لیا تھا تاکہ تمہیں پتہ چل جاتا کہ اس نے اسی وجہ سے کہا یا نہیں ,لا إلہ إلا اللہ کے ساتھ قیامت کے دن تمہارا کیا ہوگا؟)
اللہ اکبر ! نبی ٔ کریمﷺ کی یہ سرزنش ,اس عظیم شخصیت کو جنہیں دنیا حب ابن حب رسول اللہﷺکے عنوان سے معنون کرتی ہے۰
اور اس امر پر کہ تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کیا ,تم اس کے لا الہ الا اللہ کا جواب اللہ کے یہاں کیسے دوگے اور کیا دوگے؟
بعض روایت میں آتا ہے کہ حضرت اسامہ ۔رضی اللہ عنہ۔اپنے اس عمل سے اتنے پریشان اور نادم تھے کہ فرمایا کرتے تھے:(کاش میں اس دن کےہ بعد اسلام قبول کیا ہوتا)(دیکھئے:ابود داؤد رقم:۲۶۴۳)
آج ہم کس دھڑلے سے نیتوں پر شک کرتے ہیں,دلوں کے حال پر حکم لگانے سے قطعی گریز نہیں کرتے,اور ذرہ بربار نہیں سوچتے کہ اگر اللہ نے اس تعلق سے پوچھ لیا کہ تم نے یہ تو کہہ دیا کہ فلاں آدمی شہرت و نام وری کے لئے فلاں کام کیا تھا,کیا تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا؟کیا تم نیتوں پر واقف تھے؟
کب کس نے کس کے دل کو پھاڑ کر دیکھ لیا کہ کون کس نیت سے کون عمل کر رہا ہے؟,اس طرح کی خباثتوں کے اظہار سے پہلے بندۂ مؤمن کو اپنے احوال پر غور کرنا چاہئے,کہ دلوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے,بندہ کو اس میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں ہے,اللہ جانتا ہے کہ کون کس نیت سے لکھ رہا ہے,پڑھ رہا ہے,بول رہا ہے,نیت ایک قلبی عمل ہے,جس پر حملہ بولنا اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے,امام بخاری جب صحیح بخاری لکھ رہے تھے,انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کی کتابِ صحیح پر اس قدر لوگ حسد و کینہ اور بغض و عداوت سے پیش آئیں گے, اور دوسرے لوگوں کو کیا پتہ تھا کہ بخاری کو یہ مقام و مرتبہ حاصل ہوجائے گا,خود امام بخاری تک کو یہ پتہ نہیں تھا کہ آپ۔رحمہ اللہ۔ کی کتاب کو یہ مقام حاصل ہوجائے گا ,کہ لوگ انہیں اور ان کی کتاب کو معتوب گرداننا شروع کر دیں گے
تاہم امام بخاری ۔رحمہ اللہ۔نے نیت والی حدیث(إنَّما الأعمالُ بالنِّيّاتِ)(بخاری رقم(۱)من حدیث عمر ۔رضی اللہ عنہ۔) کو پہلی حدیث بناکر یہ واضح فرمادیا تھا کہ توفیق نیت کے بقدر ملتی ہے(اس حدیثِ نیت کے بہت سارے فوائد اوربھی ہیں),بندہ ٔ مؤمن کو کام کرتے رہنا چاہئے,رب کریم کب اور کس کو اور کیسے مقام و مرتبہ عنایت فرما دے گا,کسی کے بس کا روگ نہیں ,اور نہ ہی اسے کوئی چھین سکتا ہے ۔
ایک جلنے والا بندہ ٔ مؤمن اپنے وقت سے پہلے بوڑھا ہوجاتا ہے,اس کے چہرے پر جھریاں پڑنا شروع ہوجاتی ہیں,اس کے چہرے کی رونق ختم ہوجاتی ہے,اس کی زندگی میں برکت نہیں رہ جاتی ہے,کیوں کہ حسد کی آگ اسے جلا کر راکھ کردیتی ہے,اس کے چہرے کی رونق اڑا دی جاتی ہے,اسی لئے بعض لوگوں کو اپنی عمر کے آخری پڑاؤ میں بھی جوان جیسا دیکھ کر کسی نے پوچھ لیا,کہ اس ترو تازگی کا راز کیا ہے, تو فرمایاکہ میرا جسد حسد سے خالی تھا(نقل ما معناہ)
اسی لئے بعض حکماء کہتے ہیں(صحۃ الجسد من قلۃ الحسد)(جسمانی صحت کا راز قلت حسد میں مضمر ہے)
اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے پیارے حبیبﷺکو حسد سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی,فرمایا(قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ۝ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ۝ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ۝ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ۝ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَد)( آپ کہہ دیجیے کہ میں صبح کے رب کی پناہ میں آتا ہوں، ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے، اور گرہوں میں پھونکنے والیوں (یا والوں) کے شر سے، اور حسد کرنے والے کی برائی سے جب وہ حسد کرے)
اللہ تعالی نے حسد کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی,جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسد کل کا کل شر ہے,برائی ہے,خامی و خرابی ہے؛اور اس میں مبتلا انسان شریر النفس ہے,خبیث الباطن ہے,اور لا شعوری طور پر اپنا نقصان کرتاہے,جس کا احساس نہیں ہوتا ہے,کیوں کہ اس کا احساس مرچکا ہوتا ہے,اس کا ضمیر شہر ِخموشاں میں سو رہا ہوتا ہے
اسی لئے سماحۃ الشیخ ابن باز۔رحمہ اللہ۔ نے ایک بار کسی کے جواب میں فرمایا تھا:(حسد کرنے والا سب سے پہلے اپنا نقصان کرتا ہے,پھر دوسرے کا,بایں طور کہ وہ خود ہفتوں ہفتے اس غم و اندوہ میں رہتا ہےکہ فلاں کو اللہ کی طرف سے ملی ہوئی نعمت کا نقصان کیسے ہو(انتہی ملخصا,تفصیل کے لئے دیکھئے: https://binbaz.org.sa/fatwas/1928/و)
سبحان اللہ! ایک حسد کرنے والا واقعی پہلے اپنا نقصان کرتا ہے,اور ہفتوں ہفتے اس غم میں مبتلا رہتا ہے کہ فلاں کو یہ نعمت کیسے مل گئی؛فلاں کو اس بات کی توفیق کیسے مل گئی؟وغیرہ
مجھے کیوں نہیں ملی؟ہم اب کیا کریں؟ پھر وہ اس کی مضرت رسانی کے منحوس تدبیریں کرنے لگتا ہے۔
امام جاحظ نے اس حسد کے مضرات و اثرات ِ بد کے تعلق سے جو کچھ کہا ہے,آب زر سے لکھنے کے قابل ہے,فرمایا (الحسد -أبقاك الله- داء ينهك الجسد، ويفسد الودَّ، علاجه عسر، وصاحبه ضجر، وهو باب غامض، وأمر متعذر، فما ظهر منه فلا يداوى، وما بطن منه فمداويه في عناء)(الرسائل:۳؍۳۔۴)نیز فرمایا:()
اسی لئے نبی ٔ کریمﷺحسد سے خود کو بچانے اور اپنے امور دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے,آپ ﷺ کا ارشاد ِ گرامی ہے(،،اسْتَعِیْنُوْا عَلیٰ اِنْجَاحِ حَوَائَجِکُمْ بِالْکِتْمَانِ، فَإِنَّ کُلَّ ذِیْ نِعْمَةٍ مَحْسُوْدٌ‘‘( ترجمہ: ’’اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے رازداری سے کام لو، کیوں کہ ہر نعمت سے سرفراز کیا جانے والا شخص حسد کیا جاتا ہے,,)(معجم طبرانی صغیر رقم:۱۱۸۶,سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ رقم:۱۴۵۳,صحیح الجامع رقم:۹۴۳)
حسد سے معاشرہ کی باہمی محبت الفت تار تار ہوجاتی ہے,آپسی پیار و دلار داغ داغ ہوجاتا ہے,ایک دوسرے کے تئیں ہمدردی پاش پاش ہوکر رہ جاتی ہے,نبی ٔ کریمﷺ نے اسی رف اشارہ فرمایا تھا:(دب إليكم داء الأمم: الحسد والبغضاء هي الحالقة ، لا أقول: تحلق الشعر، ولكن تحلق الدين، والذي نفسي بيده لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا، أفلا أنبئكم بما يثبت ذاكم لكم؟ أفشوا السلام بينكم)(ترمذی رقم:۲۵۱۰,مسند احمد رقم:۱۳۱۰,صحیح الترغیب رقم:۲۸۸۸,تخریج شرح السنۃ (تحقیق ارناؤط) رقم:۳۳۰۱)(ترجمہ: تمھارے اندر پہلی امتوں کا ایک مرض در آیا ہے، اور وہ حسد اور بغض کی بیماری ہے۔ یہ مونڈنے والی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سر کا بال مونڈنے والی ہے، لیکن یہ دین کو مونڈنے والی ہے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم لوگ جنت میں اس وقت تک داخل نہیں ہوگے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو۔ کیا میں تمھیں ایسی بات نہ بتاؤں جس کے کرنے سے تمھارے درمیان محبت پیدا ہوجائے؟ آپس میں سلام کو پھیلاؤ‘‘)
اور انتہائی واضح اور دو ٹوک لفظوں میں نبی ٔ کریمﷺ نے بیان فرمادیا کہ مومن کے دل میں حسد و جلن کی کوئی جگہ نہیں,ایمان و حسد ایک ساتھ جمع ہونا ویسے ہی ہے جیسے آگ اور پانی ,فرمایا آپﷺنے 🙁 ’’لَا يَجْتَمِعَانِ فِي النَّارِ مُسْلِمٌ قَتَلَ كَافِرًا، ثُمَّ سَدَّدَ وَقَارَبَ، وَلَا يَجْتَمِعَانِ فِي جَوْفِ مُؤْمِنٍ غُبَارٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَفَيْحُ جَهَنَّمَ، وَلَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ الْإِيمَانُ وَالْحَسَدُ‘‘(نسائی رقم:۳۱۰۹و صححہ الألبانی فی السراج المنیر:۱؍۵۵۰,صحیح الجامع رقم:۷۶۲۰)(ترجمہ: ’’جس کسی مسلمان نے کسی کافر کو قتل کردیا اور پھر وہ راہِ صواب پر قائم رہے اور میانہ روی اختیار کرے تو وہ دونوں یعنی مومن قاتل اور کافر مقتول جہنم میں اکٹھا نہیں ہو سکتے، اور مومن کے پیٹ میں اللہ کے راستے کا گرد و غبار اور جہنم کی حرارت اکٹھا نہیں ہو سکتی، اور کسی بندے کے دل میں ایمان و حسد جمع نہیں ہو سکتے)
اسی حسد نے ابلیس کو راندہ ٔ درگاہ کیا ,حضرت آدم کی پیدائش پر حسد کیا,اللہ تعالی نے راندہ ٔ درگاہ فرمادیا,( قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ۖ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ)(ص ۷۶)
حسد انسان کو دائمی بیمار بناکر چھوڑتی ہے,اور پھر انسان اس بیماری میں مبتلا ہوکر آپسی چپقلش,رسہ کشی,عناد,دشمنی,عداوت,اور بغض و نفرت پر اتر جاتا ہے,نبی کریمﷺ نے فرمایا:( ’إِذَا فُتِحَتْ عَلَيْكُمْ فَارِسُ وَالرُّومُ، أَيُّ قَوْمٍ أَنْتُمْ؟ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ نَقُولُ كَمَا أَمَرَنَا اللَّهُ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ، تَتَنَافَسُونَ،ثُمَّ تَتَحَاسَدُونَ، ثُمَّ تَتَدَابَرُونَ، ثُمَّ تَتَبَاغَضُونَ، أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ، ثُمَّ تَنْطَلِقُونَ فِي مَسَاكِينِ الْمُهَاجِرِينَ، فَتَجْعَلُونَ بَعْضَهُمْ عَلَى رِقَابِ بَعْضٍ‘‘([مسلم رقم: ۲۹۶۲,، ابن ماجہ رقم: ۳۹۹۶,صحیح الجامع:۶۹۷,صحیح ابن حبان رقم:۶۶۸۸,)(ترجمہ: ’’جب تم پر فارس اور روم کے خزانے کھول دیئے جائیں گے تو تم کس طرح کی قوم ہوگے؟ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم وہی کہیں گے جس کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کیا تم اس کے برعکس ہوگے یا اسی طرح ہوگے؟ تم لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کروگے پھر ایک دوسرے سے حسد کروگے پھر ایک دوسرے سے منہ موڑوگے پھر ایک دوسرے سے بغض رکھوگے۔ یا ایسا ہی کچھ فرمایا۔ پھر مسکین مہاجرین کے پاس جاؤگے پھر ان میں سے کچھ لوگوں کو دوسروں کی گردنوں پر مسلط کروگے‘‘)
حسد کی آگ اس قدر خطرناک ہوتی ہے کہ انسان قتل و خون ریزی,سفاکیت و بربریت پر اتر آتا ہے,حضرت آدم کے ان دو بیٹوں کے احوال کا مطالعہ کر لیجئے,یہ حقیقت طشت از بام ہو جائے گی﴿وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ۞ لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ۞ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ ۞ فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۞﴾(ترجمہ: ’’اور آپ ان کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ بلا کم و کاست حق کے ساتھ سنادیں جب دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی نہیں قبول کی گئی، اس نے کہا: میں تجھے قتل کر دوں گا، اس نے کہا: بے شک اللہ متقیوں کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ اگر تو قتل کرنے کے لیے میری طرف ہاتھ پھیلائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرا اور اپنا گناہ اپنے سر لے لےاور جہنمیوں میں شامل ہو جا، اور ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر ابھارا اور اس نے اسے قتل کر دیا اور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔‘‘ [المائدہ: ۲۷ تا۳۰)
ایک حاسد کو یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا یہ حسد انسانی جان کے قتل کا سبب بھی ہو سکتا ہے,حضرت سہل بن حنیف کے واقعہ پر انتہائی سنجیدگی سے غور کیجئے,نبی ٔ کریمﷺنے کیسی حسین تعلیم اور سنہرا درس دیا(عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَسَارُوا مَعَهُ نَحْوَ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِشِعْبِ الْخَرَّارِ مِنَ الْجُحْفَةِ، اغْتَسَلَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، وَكَانَ رَجُلًا أَبْيَضَ، حَسَنَ الْجِسْمِ وَالْجِلْدِ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ أَخُو بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ وَهُوَ يَغْتَسِلُ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ، وَلَا جِلْدَ مُخَبَّأَةٍ!! فَلُبِطَ بِسَهْل، فَأُتِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَلْ لَكَ فِي سَهْلٍ؟ وَاللهِ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ، وَمَا يُفِيقُ، قَالَ: «هَلْ تَتَّهِمُونَ فِيهِ مِنْ أَحَدٍ؟»، قَالُوا: نَظَرَ إِلَيْهِ عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ، فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامِرًا، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: «عَلَامَ يَقْتُلُ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ ؟ هَلَّا إِذَا رَأَيْتَ مَا يُعْجِبُكَ بَرَّكْتَ؟»، ثُمَّ قَالَ لَهُ: «اغْتَسِلْ لَهُ»، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَمِرْفَقَيْهِ وَرُكْبَتَيْهِ، وَأَطْرَافَ رِجْلَيْهِ، وَدَاخِلَةَ إِزَارِهِ فِي قَدَحٍ، ثُمَّ صُبَّ ذَلِكَ الْمَاءُ عَلَيْهِ، يَصُبُّهُ رَجُلٌ عَلَى رَأْسِهِ وَظَهْرِهِ مِنْ خَلْفِهِ، يُكْفِئُ الْقَدَحَ وَرَاءَهُ، فَفَعَلَ بِهِ ذَلِكَ، فَرَاحَ سَهْلٌ مَعَ النَّاسِ، لَيْسَ بِهِ بَأْسٌ» رواه أحمد في “المسند”)(صحیح ابن ماجہ رقم:۲۸۴۴,سنن کبری نسائی رقم:۷۶۱۷,مسند احمد رقم ۱۵۹۸۰)
اللہ اکبر! ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کسی نیک اور اچھے کام کو دیکھ کر ہم ماشاء اللہ ,تبارک اللہ کہہ دیں,برکت کی دعا دے دیں,کچھ نہیں کر سکتے تو خاموش ہی رہ جائیں
آپ کے جلنے سے وہ کام رک جائے گا,اگر رک گیا تو آپ کس قدر خطرہ مول رہے ہیں,کبھی تامل فرمایا,
حسد ایک آگ ہے,جس کی تپش انتہائی سخت ہے,ایک گند ہے,جس کی بدبو انتہائی خطرناک ہے,اس سے ہمیں بچنے کی ضرورت ہے,لوگوں کو بچانے کی ضرورت ہے,اور اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم میں کیسی کیسی برائیاں اور خامیاں ہیں,کہیں اللہ ہمارا مؤاخذہ نہ فرمالے,اور وہ اس خوش فہمی میں ہو کہ ہم تو وقت سے سب بڑے پارسا ہیں,زمانے کے سب سے بڑے متقی ہیں,کیوں کہ (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَىٰ)(النجم:۳۲)اس آیت کے پیش نگاہ متعدد علماء نے کہا ہے کہ(ﺇﻳﺎﻙ ﺃﻥ ﺗﺪﺧﻞ ﻓﻲ ﻧﻮﺍﻳﺎ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻓﻼ ﻳﻌﻠﻢ ﻣﺎﻓﻲ ﺍﻟﻘﻠﻮﺏ ﺇﻻ ﻋﻼﻡ ﺍﻟﻐﻴﻮب)(ترجمہ:لوگوں کی نیتوں پر دخل اندازی سے بچو,کیوں کہ دلوں کا حال علام الغیوب(اللہ)کے علاوہ کوئی نہیں جانتا )
اسی لئے نبی ٔ کریمﷺ سے جب پوچھا گیا کہ سب سے بہتر آدمی کون ہے تو آپﷺ نے فرمایا: (كلُّ مخْمومِ القلبِ، صدُوقُ اللسانِ. قالُوا: ( صدُوقُ اللِّسانِ ( نعرفُه، فما مخمومُ القلبِ ؟ قال: هو التقيُّ النقيُّ، لا إِثمَ فِيه، ولا بَغْيَ، ولا غِلَّ، ولا حَسَدَ (سلسلہ صحیحہ رقم:۹۴۸,صحیح ابن ماجہ رقم:۳۴۱۶,)( ترجمہ:وہ پرہیز گار صاف ستھرا (دل)، جس میں کوئی گناہ نہ ہو، کوئی ظلم و زیادتی نہ ہو، کوئی خیانت نہ ہو اور نہ کسی طرح کا حسد ہو۔) اور نبی ٔ کریمﷺنے اپنے دل کو پاک ,صاف,نظیف اور حسد و جلن سے دور رکھنے کی تاکید فرمائی ہے( ’’لَا تَحَاسَدُوا، وَلَاتَنَاجَشُوا، وَلَا تَبَاغَضُوا، وَلَاتَدَابَرُوا، وَلَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ؛ لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا – وَيُشِيرُ إِلَى صَدْرِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ – بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ؛ دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ‘‘(مسلم رقم:۲۵۶۴,)(ترجمہ: ’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، آپس میں ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے کو پیٹھ نہ دکھاؤیعنی قطع تعلقی نہ کرو، تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے، اللہ کے بندے بن کر آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اس کو ذلیل کرتا ہے، نہ اس کی تحقیر کرتا ہے۔ تقویٰ یہاں ہے (اور آپ نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ فرمایا) آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت و آبرو حرام ہے۔
حسد کے مراتب و درجات :
حسد کے کئی درجے ہیں۔
(۱) ایک، دوسروں کی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا ,اس کے لئے سازشیں کرنا,اس کے خلاف گندی حرکتیں کرنا,حرام اور ناجائز امور کا سہارا لے کر اس کے خلاف تدبیریں اپنانا,اور یہ خباثت ِ باطنی,گستاخی ٔ دین کی انتہائی اور خساست و رذالت کی ساری حدوں کو پار کرنے کے مترادف ہے,عام طور پر حاسدوں میں یہی چیز نمایاں دیکھی جاتی ہے,بطور خاص اگر عہدے,مناصب,اور جاہ کی بات ہو یا انا کا مسئلہ آجائے
(۲)حسد کرنے والا محسود پر ہونے والی نعمتوں کی بارش کے ختم ہونے کی تمنا کرے,گوکہ اسے یہ حاصل نہ ہوسکے,گوکہ دوسرے کو ہی مل جائے,یہ بھی انتہائی درجے کی خباثت ِ باطنی کی دلیل ہے,مگر پہلے مرتبہ سے کچھ کم ۔
(۳)حاسد اپنے اندر دوسرے کی ملی ہوئی نعمت پر پر حسد تو کرتا ہے,اس کے ختم ہوجانے کی تمنا بھی رکھتا ہے,چاہے اسے ملے یا دوسرے کو ,مگر اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرتا ہے کہ یہ برائی مجھ سے ختم ہوجائے,اگر کوئی ایسا کر لیتا ہے تو کم سے کم اخروی عذاب سے تو ضرور بچ جائے گا
(۴)کسی کو ملی نعمت کے ختم ہونے کی تمنا کسی سبب ِ شرعی کی بنیاد پر کرنا,جیسے کوئی ظالم اپنے اوپر اللہ کی نعمت سے ظلم کرنے لگ جائے,اسے حسد ِ مذموم نہیں کہا جا سکتا ہے
(۵)انسان دوسرے کو ملی نعمت کے ختم ہونے کی تمنا نہ کرے,تاہم اسے پانے کی خواہش ضرور کرے,اگر مل جائے تو راحت و اطمینان کی سانس لے,اور اگر اگر مل سکے تو اس کے ختم ہونے کی تمنا کرنے لگ جائے ,یہاں تک کہ دونوں برابر ہوجائیں
(۶)کسی کو ملی نعمت کی طرح خود کو مل جانے کی تمنا کرے,اگر مل جائے تو بہتر,ورنہ اللہ کی قسمت پر راضی بہ رضا رہے,تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
اللہ ہمیں اپنی نیتیں درست کرنے,نیک اعمال کرنے,اپنے قلوب صاف کرنے کی توفیق بخشے,آمین یا رب العالمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *