ڈ اکٹرجمیل جالبی کے تحقیقی سرو کار

                                                                                    ڈاکٹرعبدالرزاق زیادی              

                                                                        جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔67

E-mail: arziyadi@gmail.com, Mobile No.: 09911589715

تحقیق عربی الاصل لفظ ہے اور اس کے لفظی معنی حقیقت کی تلاش یا حقائق کی بازیافت کے ہیں۔ لیکن اصطلاحِ ادب میں اس کا اطلاق صرف ان تحریروں پرہوتا ہے جن میں کسی خاص موضوع یا مسئلے پر اس کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ کن رائے دی جاتی ہے اور پھر اس کی مدد سے قاری کے لیے اس کی اصل تک پہنچنا ممکن ہوپاتا ہے۔ دیگر اصناف ادب کی طرح  ماہرین علم و فن نے اپنے اپنے اعتبار سے اس کی بھی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ مثلاً بقول مالک رام’تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ہے ح ق ق،جس کے معنی ہیں کھرے کھوٹے کی چھان بین یا کسی بات کی تصدیق کرنا۔دوسرے لفظوں میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے علم و ادب میں کھرے کو کھوٹے سے، مغز کو چھلکے سے، حق کو باطل سے الگ کریں۔ انگریزی لفظ ریسرچ کے بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں۔‘1؎

اسی طرح جمیل جالبی تحقیق کے اغراض و مقاصد، دائرہ کار، نوعیت اور اس سے برآمد ہونے والے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

حقیق کے معنی ہیں کسی مسئلے یا کسی بات کی کھوج لگا کراس طور پر اس کی تہ تک پہنچنا کہ وہ مسئلہ یا وہ بات اصل شکل اور حقیقی روپ میں پوری طرح سامنے آجائے۔یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اصل بات یا مسئلہ کیا ہے اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ایسا کیوں ہے۔ تحقیق خواہ ادب یا سائنس کی ہو یا زندگی کے کسی بھی شعبے کی، اس کی نوعیت اور اس کی منزل یہی ہوتی ہے۔تحقیق کا کام سچ کو جھوٹ سے، صحیح کو غلط سے الگ کرکے اصل حقیقت کودریافت کرنا ہے۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ تحقیق کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد جو رائے قائم کی جائے یا جو لائحہ عمل مقرر کیا جائے گا وہ بھی صحیح و درست ہوگا

مذکورہ بالا بیانات سے واضح ہو گیا کہ تحقیق دراصل کسی شئے کواس کی اصلی شکل میں دیکھنے کا نام ہے یا پھر دوسرے لفظوں میں ہم اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی بھی واقعے یا شئے کے بارے میں ہم نے پہلے سے جو کچھ سن رکھا ہے یا اس کے بارے میں پڑھ رکھا ہے اس کو جانچنے اور پرکھنے کے بعد ایک نتیجے پر پہنچنا ہی دراصل’تحقیق یا ریسرچ‘ہے۔ اس کا دائرہ صرف ادب وآرٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں دیگر علوم و فنون اور سائنس بھی شامل ہیں۔

اردومیں تحقیق یا ادبی تحقیق کی ایک باقاعدہ اور مستحکم روایت موجود ہے۔گرچہ اس کے ابتدائی نقو ش تنقید، تاریخ اور سوانح عمری کی طرح شعرا ئے اردو کے قدیم تذکروں سے ہی ملنے شروع ہو جاتے ہیں مگر حقیقی معنی میں اس کے بنیاد گزار سر سید، حالی، شبلی اور ان کے بعض معاصرین ہیں۔ اردو میں تحقیق کے عروج وارتقا کا زمانہ بیسویں صدی ہے بلکہ اسی صدی میں اس کو ایک منفرد شعبۂ علم کا درجہ ملا اور اس کے لیے اصول و ضوابط بھی منضبط ہوئے۔ حالانکہ اس سے قبل تحقیق و تنقید نہ صرف ایک ہی سکے کے دو پہلوتصور کیے جاتے تھے بلکہ سرسید، حالی،شبلی اور آزاد جیسے اہم مصنفین کی تصنیفات کا مقصد بھی امر واقعہ کی تحقیق ہی تھا۔ مگربعد میں جب تحقیق او ر تنقید دو الگ الگ خانوں میں بٹ گئے اور دونوں کے لیے علیحدہ علیحدہ اصول و ضوابط بھی وضع کیے گئے تو خودوہ کتابیں بھی تحقیقی سے تنقیدی ہو گئیں جن کی اساس تحقیق پرتھی اوران کے مصنفین کو محققین کے بجائے ناقدین کہا جانے لگا۔یہ سلسلہ انیسویں صدی کے آواخر تک جاری و ساری رہا۔ جب بیسویں صدی کاآغاز ہوا اور کچھ خاص ا صول و ضوابط کے ساتھ تحقیق کو باقاعدہ ایک شعبۂ علم کی حیثیت حاصل ہو ئی تو ناقدین ومصنفین کی ایک بڑی تعداد نہ صرف تحقیق کی جانب متوجہ ہوئی بلکہ اس نے اسی کو اپنی جولان گاہ بھی بنایا اور بہت سے غیرمعمولی تحقیقی کارنامے بھی انجام دیے۔ ان محققین و مصنفین میں بطور خا ص جن کا نام لیا جا سکتا ہے ان میں مولوی عبد الحق، حافظ محمود شیرانی، مسعو حسن رضوی ادیب، نصیرالدین ہاشمی، محی الدین قادری زور، امتیاز علی خاں عرشی،قاضی عبدالودود، عبدالستار صدیقی، مختار الدین احمد، مالک رام، رشید حسن خاں، گیان چند جین، نذیر احمد، عابد رضا بیدار، تنویر احمد علوی، نثار احمد فاروقی، محمدحسن، مشفق خواجہ،انصار اللہ نظر، حنیف نقوی، خلیق انجم، سیدہ جعفر اور جمیل جالبی وغیرہ قابل ِ ذکر ہیں۔

جمیل جالبی کا نام آتے ہی ہمارے ذہن میں ایک ایسے محقق، ناقد، مترجم اور دانشور کا تصور اُبھرتاہے جس کے کا رنامے مختلف علوم وفنون اور شعبہ ہائے علم و ادب میں بکھرے پڑے ہیں۔تحقیق ہو یا تنقید،ترجمہ نگاری ہویا لسانیات، قاموس سازی ہو یا اصطلاحات سازی یا پھر کوئی اور شعبہء علم و فن ہر ایک میں جمیل جالبی کے کارنامے نہ صرف بڑے اہم اوروقیع ہیں بلکہ ان کادائرہ بھی کافی و سیع ہے۔جمیل جالبی کا یہ کمال ہی ہے کہ انھوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھا یا اس کا حق اداکردیا۔مگر ان کے ان تمام کارناموں میں تحقیقی کارنامے اور تمام حیثیتوں میں تحقیقی حیثیت سب سے زیادہ اہم اور مہتم بالشان ہے۔ بلکہ اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کی جو بھی تحقیقی خدمات ہیں وہ ا س قد ر وقیع اور غیر معمولی ہیں کہ ان کی بدولت اردو تحقیق میں بھی ان کو ایک خاص حیثیت حاصل ہےاوربقول انور سدید”وہ اس مقام امتیاز پر نہ صرف عرصے تک فائزرہیں گے بلکہ اردو ادب کے ہر تذکرے میں ان کا نام بھی سر بر آوردہ محققوں کے ساتھ زندہ رہے گا۔“

جمیل جالبی کے ادبی سفر کا آغازمضمون نگاری اورترجمہ نگاری سے ہوتا ہے۔ لیکن تخلیق و ترجمہ کے ساتھ ابتدائی عمر سے ہی ان کا رجحان تحقیق و تنقید کی طرف بھی تھا۔ پھر بعد میں انھوں نے نہ صرف تحقیق کو اپنا محبوب میدان بنا لیا بلکہ خود کو اس کے لیے وقف بھی کر دیا۔ آج سے نصف صدی قبل جب انھوں نے میدان تحقیق میں قدم رکھا تو اس وقت مولوی عبدا لحق، حافظ محمود شیرانی،مولوی محمد شفیع، قاضی عبد الودود اور مولانا امتیاز علی خاں عرشی جیسے نامور مصنفین اور صف اول کے محققین اردو تحقیق کے اُفق پر درخشاں ستاروں کے مانند چمک رہے تھے اور جہاں ایک طرف تحقیق میں دکن،پنجاب اور دبستانِ دہلی کے خدو خال نمایاں ہو رہے تھے وہیں وسری طرف تحقیق اور تدوینِ متن کے نئے نئے اصول و ضوابط بھی مرتب ہو رہے تھے۔ ویسے میں جمیل جالبی کا تحقیق کے میدان میں قدم رکھنا اور اپنی شناخت قائم کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر باوجود اس کے انھوں نے پورےعزم واستقلال کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھا اور ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے جو نہ صرف ان کے لیے باعث شناخت بنے بلکہ خود میدانِ تحقیق کے آفتاب و ماہتاب نے بھی ان کو جھک کے سلام کیا اور آج پوری علمی وا دبی دنیا ان کے ان کارناموں کو حد درجہ عقیدت و احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔

تحقیقی میدان میں جمیل جالبی کو اس مقام و مرتبے پر فائز کرنے کا سہرا خود ان کے عزم واستقلال، محنت و لگن اور جہدِ مسلسل کے سر جاتا ہے۔انھوں نے اپنی زندگی کے بیش بہا اوقات اور اپنی عمرِ عزیز کا ایک لمبا عرصہ اردو زبان و اد ب کی تلاش و تحقیق اور اس کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے میں لگا دیا۔ جمیل جالبی نے جب میدان ِتحقیق میں قدم رکھا تواس وقت تحقیق کے جو اصولوں و ضوابط،طریق کار اورموضوعات و مسائل تھے ان پر ہی انھوں نے اکتفا نہیں کیابلکہ یہاں پر بھی اپنی تلاش و تحقیق اور تجربات و بازیافت کا سلسلہ جاری رکھا۔ نیز انھوں نے خود اپنے عہدکے اہل علم کے کارناموں کو بھی من وعن نہ قبول کرتے ہوئے ان کو ردو قبول کی سطح پر مختلف اصول وضوابط کی کسوٹی پر پرکھا اور ان پر تحقیقی و تنقیدی رائے کا اظہار بھی کیا۔ پھر بعد میں انھیں مطالعات کی روشنی میں انھوں نے اپنے لیے تحقیق کے میدان میں انفرادیت کی راہ بھی متعین کی۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی رقمطراز ہیں:

ڈاکٹر جمیل جالبی نے ان تمام اہل علم کے کام بطور نمونہ سامنے رکھا اور ان کے وضع کیے ہوئے رہنما اصولوں کو ردو قبول کرنے کی کسوٹی پر پرکھ کر اپنے لیے نہ صرف انفرادی راستہ متعین کیا بلکہ منزل اور ہدف کا بھی تعین کرنے کی کوشش کی۔ میانہ روی اختیار کرتے ہوئے نہ صرف افراط و تفریط سے اجتناب کیا بلکہ پائے ثبات میں بھی لغزش نہ آنے دی۔بطور کُلی دیکھاجائے تو ان کی تحقیق اپنے موضوع کے تنوع کے باوجود انفرادی مطالعے سے اجتماعی مطالعے کی طرف بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق وہ اپنے طریق کار میں پنجاب کے دبستان تحقیق سے زیادہ قریب ہیں۔ وہ دبستان تحقیق جس کے سرخیل حافظ محمود شیرانی، ڈاکٹر مولوی محمد شفیع، ڈاکٹر پروفیسر محمد اقبال اور ڈاکٹر سید عبدا للہ تھے اور جس کے حلقہء اثر میں ڈاکٹر عبدا للہ چغتائی، مالک رام، ڈاکٹر وحید قریشی، مشفق خواجہ اور خود ڈاکٹر جمیل جالبی شامل ہیں۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے ادبی تحقیق میں اس سارے گروہ سے اپنی انفرادیت جس پہلو سے قائم رکھی وہ ان کے ہاں موضوعات کا انتخاب ہے۔ جالبی صاحب نے انفرادی تحقیق کے لیے عموماً جن موضوعات کو چنا وہ بے حد منفرد اور مشکل ہونے کے سبب نہ صرف ان کے لیے چیلنج بنے بلکہ ان سے عہد ہ برآ ہونا ایک لحاظ سے انکی پختہ کاری کی علامت بھی بن گیا۔“

گوہر نوشاہی کے اس اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمیل جالبی نے اپنے عہد کے تحقیقی کارناموں سے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ وہ ان کے لیے تحقیق کے میدان میں انفرادی راہ متعین کرنے میں معاون و مدد گار بھی ثابت ہوئے۔نیز انھوں نے اپنی تحقیقی انفرادیت کی اساس ضوعات کے انتخاب پر رکھی۔ان موضوعات میں نئے نئے مواد کی دریافت،دریافت شدہ متن کی تصحیح و جانچ پرکھ اور مصنف کی شخصیت کا تعین یعنی سوانحی تفصیلات کی فراہمی وغیرہ ان کے یہاں اہم قرار پائے۔ ان موضوعات و مسائل کی تلاش وتحقیق اور ان کی بازیافت میں جمیل جالبی نے برسوں تک شبانہ روز محنت و جاں سوزی سے کام لیا اور ایک تحقیق کار کے لیے بنائے ہوئے حافظ محمود شیرانی کے اصولوں میں حزم و احتیاط، تفحص و تلاش، محنت و عر ق ریزی اور وابستگی و انہماک وغیرہ کواپنے لیے زاد راہ بنائے رکھا۔ انھیں کاوشوں کے نتیجے میں ان کے وہ کارنامے سامنے آ ئے جو آگے چل کر مرجع و مصدر ثابت ہوئے۔ جمیل جالبی کے تحقیقی کارناموں میں ’تاریخ ادب اردو‘ کی ترتیب و تصنیف کے ساتھ ساتھ دیوان ِ حسن شوقی،دیوان نصرتی اور مثنوی کدم راؤ پدم راؤکی ترتیب و تدوین بھی اہم ہیں اور ان میں سے بیشتر کا تعلق دکنیات سے ہے۔

یوں تو اردو زبان وادب کا ایک بڑا سرمایہ دکنیات پر مشتمل ہے اور ہر عہد میں اس سے متعلق نئی نئی تحقیقات بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ مگر باوجود اس کے وہ ایک زمانے تک محققین کی توجہ خاص سے محروم رہا۔بیسویں صدی کے اوائل میں پہلی بار اس جانب توجہ دی گئی اور نہ صرف اردو ادب کے بہت سے نادر و نایاب شہ پارے تلاش و تحقیق کے بعد سامنے آئے بلکہ اردو ادب کی تاریخ نگاری میں بھی کئی بڑی اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ دکنی ادب کی تحقیق و تلاش کرنے والے محققین میں مولوی عبدالحق، محی الدین قادری زور، حکیم شمس اللہ قادری، عبدالقادر سروری، نصیرالدین ہاشمی، سید محمد میر سعادت علی رضوی، عبدالمجید صدیقی، سید ہ جعفر، محمد علی اثر اور جمیل جالبی وغیرہ کے نام قابل ِ ذکر ہیں۔ا گرچہ ان محققین کے زیادہ ترکارنامے جمع و ترتیب اور تدوینِ متن سے متعلق ہیں مگرپھر بھی ان کی تحقیقی حیثیت کوئی کم نہیں بلکہ اسی کی بدولت بہت سے قدیم ادب محفوظ کر لیے گئے۔دکنی ادب کی تحقیق و تدوین کا فریضہ انجام دینے والے بیشتر مصنفینیا تو خود دکن کے تھے یا پھر ان کا تعلق کسی نہ کسی طور پر حیدر آبا د یا جامعہ عثمانیہ سے رہا تھا۔ مگر دکن سے دور یعنی شمال میں رہ کر جن لوگوں نے دکنی ادب کی ترتیب و تدوینیا اس کی تحقیق کامرحلہ سر کرنے کی سعی کی ان میں جمیل جالبی کا نام سر فہرست ہے۔کیونکہ انھوں نے دکن سے دور رہ کروہ کار نمایاں انجام دیے جو خود اہل دکن اور یہاں کے محققین کے لیے راستے کا پتھر بنے ہوئے تھے۔ ذیل میں جمیل جالبی کی ان تحقیقی خدمات یعنی دیوان ِ حسن شوقی،دیوان نصرتی اور مثنوی کدم راؤ پدم راؤکیترتیب و تدوین اور تاریخ وادب اردو کی ترتیب و تصنیف کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جاتا ہے:

دیوان ِ حسن شوقی:

’دیوان ِ حسن شوقی‘کی ترتیب و تدوین جمیل جالبی کا پہلا تحقیقی کارنامہ ہے۔ یہ کتاب194صفحات پرمشتمل ہے۔ جمیل جالبی نے اسے انجمن ترقی اردو کراچی کی بعض اہم بیاضوں کی مدد سے ترتیب دے کر ایک مبسوط مقدمہ اور ضروری فرہنگ و حواشی کے ساتھ پہلی بار1971میں شائع کیا۔اس سے قبل نہ شوقی کی غزلیات منظبط تھیں اور نہ ہی ا س کے دیوان کاکوئی مخطوطہ کسی کتب خانے کے ذخیرہء کتب میں نگاہ سے گزرا تھا۔ جالبی صاحب نے مختلف بیاضوں سے، جن کا کافی ذخیرہ انجمن ترقی اردو (پاکستان) کے کتب خانہء خا ص میں موجود ہے، ایک ایک غزل بلکہ ایک ایک شعر حاصل کرکے31سالم غزلیں،دو مثنویاں ’فتح نامہ نظام شاہ‘ اور’میز بانی نامہ‘ اور ایک نظم دیوانِ شوقی میں جمع کردی ہے۔ اگر چہ اس سے قبل بابائے اردو مولوی عبدالحق شوقی کی دو مثنویاں اور تین غزلیں اور پھر بعد میں مولوی سخاوت مرزا اور حسینی شاہد کی کاوشوں سے آٹھ غزلیں سامنے آچکی تھیں مگر ان سے بھی حسن شوقی کی وہ شناخت سامنے نہ آسکی تھی جو جمیل جالبی کی محنت شاقہ اور مسلسل کاوشوں کی بدولت منظر عام پر آئی۔جمیل جالبی نے محض کلام ِحسن شوقی کو، جو کہ مختلف بیاضوں میں بکھرے پڑے تھے، ان کو یکجا کرنے کے لیے اپنی زندگی کے دو قیمتی سال انجمن ترقی اردو، کراچی کے کتب خانہئ خاص میں صرف کر دیے۔اس دیدہ ریزی اور جاں سوزی کے ساتھ انھوں نے اس کو ترتیب دیا اور ایک طویل مقدمے کے ساتھ کتابی شکل میں شائع بھی کیا۔

’دیوان ِ حسن شوقی‘ میں شامل جمیل جالبی کا مقدمہ کافی مطول و مبسوط اور عالمانہ ہے۔ یہ مقدمہ کوئی68صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں جمیل جالبی نے وہ تمام معلو مات بہم پہنچانے کی کوشش کی ہے جو انھیں حسن شوقی سے متعلق فراہم ہو ئی تھیں۔حسن شوقی کی پیدائش کب ہوئی، اس نے اپنی زندگی کس ڈھب سے گزاری اور اس کا انتقال کب اور کہاں ہوا ان تمام کے بارے میں اگرچہ اس میں بہت زیادہ معلومات نہیں مگر اس کی شاعری،اس کے عہد کے بادشاہوں اور ان کے حالات زندگی پر بالتفصیل گفتگو موجو د ہے۔اسی طرح مقدمے میں حسن شوقی کی مثنویوں، غزلوں اور دیگر کلا م پرجالبی کا تبصرہ اورتجزیہ حد درجہ قابل تحسین اور کار آمدہے۔

دیوانِ حسن شوقی کی ترتیب و تدوین میں جمیل جالبی نے جہاں اپنے پیش رو محققین کی تحقیقات سے اخذو استفادہ کیاہے وہیں قدم قدم پر انھوں نے ان سے اختلافات بھی روا رکھے ہیں۔مثلاًمثنوی ’فتح نامہ نظام شاہ‘کی ترتیب کے وقت جمیل جالبی کے پاس اس کے دو نسخے تھے۔ اس سے قبل ان پر مولوی عبدالحق اپنی رائے دے چکے تھے اوران کے نزدیک نسخہء اول درست تھا جبکہ نسخہء ثانی کے اشعار کوانھوں نے الحاقی قرار دیا تھا۔ لیکن عبدا لحق کی اس رائے کے برخلاف جمیل جالبی نسخہئ ثانی کو بھی صحیح تسلیم کرتے ہیں اور  اپنے اس دعوے کییہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے شاعر کی نامکمل مثنوی تکمیل کو پہنچتی ہے۔ جمیل جالبی نے پہلی بار بڑی محنت اورچھان بین کے بعد مثنوی ’فتح نامہ نظام شاہ‘ کے دونوں نسخوں کے اشعار کو سمیٹ کر انھیں ان کی جگہ پر رکھا اور اُسے اس کی مکمل شکل دی۔

اسی طرح اس دیوان میں حسن شوقی کی دوسری مثنوی’میز بانی نامہ‘ ہے۔فتح نامہ نظام شاہ کے مقابلے میںیہ مثنوی فکری و فنی اعتبار سے نہ صرف زیادہ اہم ہے بلکہ اس میں شوقی کا اسلوبِ سخن بھی زیادہ نکھرا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس مثنوی میں سلطان محمد عادل شاہ(1038-1068) کی شادی کا ذکر بڑی خوبصورتی سے بیان ہواہے۔ لیکن اس کی شادی کس خاتون سے ہوتی ہے اس میں اس کا ذکرموجود نہیں۔ لہذا اس خاتون کے تعلق سے محققین دوخانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مولوی عبدا لحق، محی الدین قادری زور، نصیرا لدین ہاشمی اور حسینی وغیرہ کے نزدیک سلطان کی شادی وزیر اعظم کی صاحبزادی کے ساتھ ہوتی ہے جبکہ اس کے برخلاف جمیل جالبی کے یہاں سلطان محمد عادل شاہ کی شادی نواب مظفر علی خاں کی بیٹی کے ساتھ ہوتی ہے۔اس حوالے سے انھوں نے ایسی دلیلیں پیش کی ہیں جن سے ا نکار کی کسی کے پاس کوئی گنجائش نہیں رہتی۔مثلاًاپنی اس بات کی تائید میں انھوں نے خود میزبانی نامہ سے یہ اقتباس نقل کیا ہے کہ”در بیان مہمانی کردن سلطان محمد عادل شاہ راو دادن جہیز دختر نواب مظفر خاں“۔یقینا جالبی صاحب کییہ دلیل نہ صرف قاری کو اپنا قائل بنا لیتی ہے بلکہ اس سے ماقبل محققین کی مکمل تردید بھی ہو جاتی ہے۔

دیوانِ حسن شوقی کی تحقیق و تلاش اور ترتیب و تدوین کے ضمن میں جمیل جالبی کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ انھوں نے شوقی کے ساتھ ساتھ اس عہد کے کچھ اور دیگر شعرا کو بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو یا تو پردہ خفا میں تھے یا قدیم شعری روایت کی تعمیر و تنظیم میں  ابھی ان کو کوئی موزوں مقا م نہیں مل سکا تھا۔ان شعرامیں محمود، فیروز، اشرف، تائب، رحیمی، قریشی اور یوسف وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس تعلق سے جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ خود حسن شوقی نے اپنے اشعار میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے ان شعرا سے نہ صرف کسب فیض کیا تھا اور ان کے مزاج کو اپنایا تھا بلکہ ان کے رنگ میں غزلیں بھی کہی تھیں۔

دیوانِ حسن شوقی کی ترتیب و اشاعت سے ادبی تحقیق کے سرمائے میں جہاں ایک گراں قدر اضافہ ہوا وہیں اس سے ادب کی تاریخی حیثیت میں بھی ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوئی۔ اس کے ذریعہ جمیل جالبی نے دکن میں اردو کی شعری روایت میں رائج اس غلط فہمی کا بھی ازالہ کیا ہے جس کے تحت ایک زمانے تک نصرتی اور ولی کودو علیحدہ علیحدہ روایتوں کا پاسدار سمجھاجا رہا تھا۔ اس کے ذریعہ جمیل جالبی نے نہ صرف اس رشتے کوتلاش کر نے کی سعی کی ہے جو انھیں ایک ہی روایت کے پاسدار بنائے بلکہ اس درمیانی کڑی کو بھی ڈھونڈ نکالا ہے جو اس سلسلے کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے۔ڈاکٹر وحید قریشی اس حوالے سے رقمطراز ہیں:

”کتاب کا دیباچہ اس نئی دریافت کی لسانی اور ادبی حیثیت متعین ہی نہیں کرتا بلکہ تاریخ ادب میں دکنی روایت کی کڑیاں بھی اردو شاعری کے بعد کے ادوار سے ملاتا ہے۔نصرتی سے لے کر ولی تک شاعری کی جو روایت پروان چڑھی ہے اس کے بارے میں نقادوں میں خاصی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ولی کو عموماً اس حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ ایک صبح بیدار ہوئے اور انھوں نے طے کیا کہ آئندہ سے فارسی اثرات کو قبول کرتے ہوئے شعر کہا کریں گے۔ جالبی صاحب ولی کو دکنی روایت سے الگ کرکے دیکھنے کے قائل نہیں، انھوں نے نصرتی سے لے کر ولی تک کی دکنی شاعری میں جس طرح فارسی روایت کے انجذاب کا عمل ہوتا رہا ہے اس کا سراغ لگا کر ادبی روایت کے تلسلسل کی نشاندہی کی ہے۔اسی اعتبار سے وہ حسن شوقی کے کلام کو ایسا ”درمیانی پل“ قرار دیتے ہیں جس کے بغیر روایت تک نہیں پہنچا جا سکتا۔“

جمیل جالبی نے اس کے لیے بطور ثبوت دیوان حسن شوقی سے متعدد مثالیں پیش کی ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ا س کا انداز سخن اور رنگ سخن اسی طرح پرکشش اور حسین ہے جس طرح کہ اس سے قبل نصرتی کا تھا۔یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنے والے شعرا نے اس کی پیروی کی اور اس کی زمینوں میں اپنی غزلیں بھی کہیں۔ اس طرح حسن شوقی کی بدولت شعری روایت کا وہ تسلسل جو نصرتی سے چلا آرہا تھا وہ ولی دکنی تک آپہنچتا ہے۔اگر درمیان میں حسن شوقی نہ ہوتا تو شایدیہ سلسلہ بھی ٹوٹ جاتا۔ شعری روایت کے اس تلسلسل کے علاوہ اس کے ذریعے جمیل جالبی نے کچھ اور بھی نتائج اخذ کیے ہیں۔ذیل کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

(1)”جیسے دسویں صد ی ہجری کی قدیم غزل پر محمود، فیروز اور خیالی کا سایہ پڑتا نظر آتاہے، اسی طرح نصف  سے زیادہ گیارہویں صدی ہجری تک حسن شوقی کا اثر واضح طور پر نظر آتاہے اور پھر یہ اپنا رنگ دوسرے رنگوں میں ملا کر خود ہماری نظروں سے اوجھل ہوتا ہے۔“

(2)”حسن شوقی کی زبان اس زمانے کے دکن کی عام بول چال کی زبان ہے۔ اس میں ان تمام بولیوں اور زبانوں کے اثرات کی ایک کھچڑی سی پکتی دکھائی دیتی ہے جو آئندہ زمانے میں ایک جان ہو کر اُردو کی معیاری شکل متعین کرتے ہیں۔ زبان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان اپنے ارتقا کی اس ترکیبی منزل میں ہے جہاں سے اردو حروف علت کا موجودہ نظا م پروان چڑھنے لگا۔ اس کی سب سے واضح شکل صیغہء ماضی کے افعال میں ملتی ہے۔“

اس طرح دیوان حسن شوقی کی تدوین و اشاعت سے جہاں اردو کے ادبی سرمائے میں ایک بڑ اضافہ ہو ا وہیں اس کی بدولت ادبی تاریخ سے متعلق بہت سی ان غلط فہمیوں کا بھی ازالہ ہوا جو سالہا سال سے چلی آرہی تھیں۔نیز اسی کے ذریعے ہمیں اس بات کا بھی علم ہوا کہ حسن شوقی اردو کا وہ غیر معمولی شاعر ہے جس کی شاعر ی کے اثرات اردو کی شعری روایت پر بہت دور پااور دیر پا مرتب ہوئے اورولی جیسے عظیم و مستند شاعرنے بھی اس سے اثرات قبول کیےاور خود کو اس کا مقلدٹھہرایا؎

برجا ہے اگر جگ میں ولی پھر کے دجے بار

رکھ شوق میرے شعر کا شوقی حسن آوے

دیوانِ نصرتی:

’دیوانِ حسن شوقی‘ کی تلاش و تحقیق کے بعد جمیل جالبی کے تحقیقی کارناموں میں’دیوانِ نصرتی‘کی ترتیب و تدوین قابل ذکر ہے۔ جمیل جالبی نے اسے مرتب کر کے پہلی با ر 1972ء میں مطبع قوسین لاہو ر سے شائع کیا۔ نصرتی دکن کے ان شعرا میں سے ایک ہے جس کی شعری حیثیت ہرعہد میں مسلم رہی۔ خود وہ اپنے دور کامعرو ف و ممتاز شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ دربار بیجاپور کا ملک الشعرا بھی تھا۔ لیکن باوجود اس کے ابھی تک اس کا پورا کلام منظر عام پر نہیں آسکا تھا۔اس کی دو مثنویاں ’علی نامہ‘ اور’گلشن عشق‘ہی لوگو ں میں معروف تھیں اور ان ہی کے بدولت لوگ اسے ایک با کمال شاعر کے طور پر جانتے تھے۔ان دو مثنویوں کے علاوہ نصرتی کا بقیہ کلا م گوشہء گمنامی میں مدفون تھے مگرجمیل جالبی نے انھیں بڑی محنت ولگن اورتلاش و جستجو کے بعد دریافت کیا اوراسے منظرعام پرلایا۔ جمیل جالبی کلام نصرتی کی ترتیب و تدوین کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”تاریخ ادب اردو“ پر تن تنہا کام کرتے ہوئے جب میں سینکڑوں بیاضوں اور مخطوطات کے جنگل سے گزرا تو مجھے اکثر ملانصرتی کا کلام بھی ملتا رہا جسے میں دوسرے شعرا کے نایاب کلام کی طرح جمع کرتا رہا۔ ”تاریخ ادب اردو“ میں نصرتی پر لکھتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ریزہ ریزہ کر کے میرے پاس نصرتی کا اتنا کلام جمع ہو گیا ہے کہ اب نصرتی اوراس کے بارے میں رائے قائم کرنا آسان ہے۔ نصرتی کا یہی وہ نادر و نایاب کلام ہے جسے ترتیب دے کر اب دیوان ِ نصرتی کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے۔“

اس طرح جمیل جالبی نے نصرتی کے کلامِ ریزہ ریزہ کویکجاکر کے شائع کیا۔ اس دیوان میں ایک مبسوط و مطول مقدمہ کے علاوہ’تاریخ اسکندری‘ بھی شا مل ہے۔اس کے علاوہ اس میں قصیدہ ئ چرخیہ،گھوڑا مانگنے کی درخواست بادشاہ سے، پھر ایک اور قصیدہ، ایک ہجو، 23غزلیں،28 رباعیاں،3 قطعات، 2 مخمسے اورآخر میں ایک فارسیغزل؎

زپنجہء من چاک گریباں گلہ دارد

از گریہء من گوشہء داماں گلہ دارد

بھی شامل ہے۔نیزان تمام کے آخر میں بارہ صفحات پر مشتمل فرہنگ دیوانِ نصرتی بھی موجود ہے۔ دیوانِ نصرتی میں شامل جمیل جالبی کا مقدمہ بے حد اہم اور معلومات افز اہے۔ اس میں جہاں نصرتی کے کلامِ اور بالخصوص اس کی غزل گوئی پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے وہیں اس کی زندگی کے بہت سے اہم گوشوں مثلاً اس کی تصانیف، آباء واجداد، سنین پیدائش و وفات سے بھی پردہ اُٹھایا گیاہے۔اس کےعلاوہ اس میں نمونۂ کلام اور شاعری پر تنقیدی بحث بھی موجود ہے۔حالانکہ جمیل جالبی کی اس تحقیق سے قبل نصرتی کے بارے بہت کم معلومات دستیاب تھیں۔گرچہ مولوی عبدالحق اور دیگر محققین کی تحقیقات پہلے سامنے آچکی تھیں مگر ان میں سے بیشتر کا تعلق صرف اس کی دو مثنویوں ”گلشن عشق“ اور ”علی نامہ“ سے ہی تھا۔محمد علی اثر اپنے ایک مضمون”ڈاکٹر جمیل جالبی اور دکنی ادب کی تحقیق“ میں لکھتے ہیں:

”گلشن عشق“ کو مولوی عبدالحق اور سید محمد نے علی الترتیب 1952ء میں انجمن ترقی اردو کراچی سے اور 1957ء میں سالار جنگ پبلشنگ کمیٹی حیدر آباد نے شائع کیا تھا۔ جب کہ اس کی معرکۃ الآر اء رزمیہ مثنوی ”علی نامہ“ کو عبدالمجید صدیقی نے 1959ء میں مرتب کر کے سالار جنگ پبلشنگ کمیٹی حیدر آباد سے شائع کیا۔ نصرتی کے عنوان سے مولوی عبدالحق کی مرتبہ کتاب 1944ء میں دہلی سے منظر عام پر آئی ہے۔“

اس طرح نصرتی پرگرچہ مولوی عبدالحق کی کتاب 1944ءمیں ہی منظر عام پر آچکی تھی مگر وہ اس قدر معلومات افزا نہیں تھی کہ وہ اس کی سوانح و شخصیت کو جاننے کے لیے کافی ہوتی۔ جمیل جالبی نے پہلی بار اپنے مقدمے میں نصرتی کو ایک خاص تاریخی پس منظر میں پیش کیا اور اس خلا کو دور کیا جو ایک زمانے سے تاریخ ادب اردو میں چلا آرہا تھا۔اس حوالے سے افسر صدیقی امروہوی لکھتے ہیں:

”مرتب نے نصرتی کا کلام یکجا کرنے سے قبل اس کے سوانح حیات میں نام و نسب، دربار رسی، اخلاق و عادات، دوست احباب اور وفات کا قطعہء تاریخ پیش کر کے ایک ایسے باکمال شاعر کے کارناموں کو حیات جاودانی بخشی ہے جن سے تاریخ ادب کے صفحات ابھی تک خالی تھے اور جن کی اشاعت کے بعدوہ خلا پر ہوگیا جو حسن شوقی اور ولی کے درمیان واقع تھا۔“10؎

اس مقدمے میں جمیل جالبی نے نصرتی کے سوانحی کوائف اور حالات زندگی کے علاوہ اس کی مختلف شاعرانہ حیثیتوں کا بھی جائزہ لیا ہے۔نصرتی کی مشہور مثنویاں ًگلشن عشق، علی نامہ، تاریخِ اسکندری پر بھی ان کی سیر حاصل گفتگو موجود ہے۔ جمیل جالبی نے اپنے اس مقدمے میں نصرتی کے قصائد اور ان کی قصیدہ نگاری پر ایک تحقیق و تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔اس سے قبل نصرتی کی شناخت ایک مثنویگو سے زیادہ نہ تھی مگر جمیل جالبی نے اس کی ایک ایک غزل کو تلاش کر کے اس کی اس بحیثیت کو بھی قائم کرنے کی سعی ہے۔نیز اس میں جالبی صاحب نے نصرتی کے ان اثرات کو بھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے بعد کے شعرا یا شعری روایت پر مرتب ہوئے اور پھر وہ  ایک مضبوط و مستحکم شکل میں ولی اورنگ آبادی تک پہنچے۔چنانچہ غلام مصطفی خاں اپنے ایک مضمون ”تاریخ ادب اردو کا ایک جائزہ“ میں لکھتے ہیں:

نصرتی نے اپنے دور کی شاعری پر دو گہرے اثرات چھوڑے۔پہلا اثر تو یہ تھا کہ اس نے زبان و بیان پرا یک ایسا معیار قائم کیا جہاں تک دکنی شاعری اب تک نہیں پہنچی دوسرا اثر یہ تھا کہ اس نے ہیئت اور مواد کے گہرے رشتے کو واضح کیا اور اپنی شاعری میں ایک نئے فنی توازن کو قائم کیا۔“11؎

اس طرح ”دیوا ن نصرتی“ کی ترتیب و تدوین اردو زبان و ادب کے لیے ایک نہایت ہی اہم اور غیر معمولی تحقیقی کارنامہ ثابت ہوئی۔اگر اس جانب جمیل جالبی نے توجہ نہ کی ہوتی تو شاید ہم اس عظیم خزانۂ ادب سے محروم ہو جاتے اور ملانصرتی جیسا عظیم شاعر،جس کوملک الشعراء کا خطاب ملا، جس نے بزمیہ و رزمیہ ہر دو قسم کی مثنویاں لکھ کر اپنی شاعرانہ عظمت کا لوہا منوایا اور جس کی شعری روایت پر چل کر ولی، ولی دکنی بنا، محض ایک مثنوی گو شاعر کی حیثیت سے تاریخ کا حصہ بن جاتا اور اس کو کبھی بھی وہ مقام و مرتبہ نہ حاصل ہوتاجو”دیوان ِ نصرتی“کے منظرعام پر آنے کے بعد اس کے حق میں آیا۔بلاشبہ اسے جمیل جالبی کی خدا داد صلاحیتوں اوران کی محنت و ریاضت کا نتیجہ ہی کہا جا سکتا ہے۔

مثنوی کدم راؤ پدم راؤ:

اب تک کی تحقیق کے مطابق اردو کی سب سے قدیم اور پہلی مثنوی ”کدم راؤ پدم راؤ“ ہے۔ یہ بھی ایک زمانے تک کوشہء گمنامی میں پڑی رہی۔ اس کا منظرِعام پر آنے کا قصہ بھی بڑا طویل اور عجیب وغریب ہے۔ مختصریہ کہ یہ ایک علم دوست اور کتاب فروش کے ہاتھوں مشہور محقق نصیرا لدین ہاشمی تک پہنچی۔انھوں نے اس کا سر سری جائزہ لیا اور اس کا تعارف کراتے ہوئے ایک مختصر مضمون بعنوان”بہمنی عہد کا ایک دکنی شاعر“ رسالہ ”معارف“ اعظم گڑھ میں اکتوبر1932ء میں شائع کرایا۔ پھر جب یہ مثنوی مولوی عبدالحق تک پہنچی تووہ اسے اس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر تفصیلی مقدمے کے ساتھ شائع کرانا چاہتے تھے مگر عدیم الفرصتی نے ان کو یہ موقع نہ دیا۔ بعد کے کئی محققین نے بھی اس جانب توجہ دی مگر وہ بھی اس مشکل کام کو کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔شاید اس کی وجہ اس میں موجود لسانی مشکل پسندی رہی ہو۔ کیونکہ اس کی زبان میں اجنبیت کے احساس کے ساتھ ساتھ غیر مانوس عربی و فارسی الفاظ کا بکثرت استعمال بھی ہے جو کہ شمالی ہندکے محققین و مصنفین کے لیے مشکل کا باعث تو تھا ہی خود اہلِ دکن کے لیے بھی لو ہے کے چنے چبانے سے کم نہ تھا۔لیکن باوجود اس کے جمیل جالبی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور آخرکار ان کی کاوشوں سے مثنوی ”کدم راؤ پدم راؤ“ معرض وجود میں آئی۔اس کی ترتیب وتدوین کی راہ میں درپیش مسائل ومشکلات کا ذکرکرتے ہوئےمشفق خواجہ لکھتے ہیں:

”اس مثنو ی کو مرتب کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ایک تو اس کا مخصوص اور نا معین رسم الخط جس میں ایک ہی جیسی آوازوں کے لیے حروف کی مختلف صورتیں استعمال کی گئی تھیں۔پھر زبان اجنبی، اس حد تک اجنبی کہ بادی النظرمیںیہ اردو کی قدیم صورت کی بجائے ایک غیر زبان معلوم ہوتی ہے۔ شعری تصانیف کے متن کی تصحیح میں علم عروض سے بڑی مد د ملتی ہے۔ لیکن زیر نظر مثنوی میں شاہنامہ فردوسی کی معروف بحر کے استعمال کے باوجود متعدد مصرعوں کی صحیح صورت کو سمجھنا خاصا مشکل ہے۔کیونکہ بیشتر عربی فارسی الفاظ کا تلفظ وہ نہیں جس سے اہل اردو مانوس ہیں۔ بہر حال ان مشکلات پر قابو پانا ہر شخص کے بس کی بات نہیں تھی۔خوشیکی بات ہے کہ اب اس ہفت خواں کو طے کر لیا گیاہے اور ڈاکٹر جمیل جالبی کی کوشش سے یہ مثنوی شائع ہو گئی ہے۔“12؎

چونکہ جمیل جالبی میں تحقیق و تنقیدکے ساتھ ساتھ لسانیاتی شعوربھی بدرجہء اتم موجو د تھا اورعربی و فارسی کے علاوہ قدیم اردو سے بھی انھوں نے خود کو واقفیت بہم پہنچا لی تھی،جیسا کہ قدیم اردو کی لغت اور دکنی و گجراتی ادب پر ان کے بڑے بڑے کارنامے موجود ہیں، اس لیے ان کی اس علمیت و واقفیت کی بدولت ہییہ مثنوی منظر عام پر آسکی۔

جمیل جالبی نےاپنی جیتوڑ کوششوں کے بعد دیوانِ حسن شوقیاوردیوان نصرتی کی طرح مثنوی ”کدم راؤ پدم راؤ“ کو بھی ایک مفصل مقدمے کے ساتھ شائع کیا۔ اس مقدمے میں مثنوی کا زمانہء تصنیف، حالات ِ مصنف، موضوع ِ مثنوی، املا او رلسانی خصوصیات پر تفصیلی گفتگو موجود ہے۔کتاب کے آخر میں جالبی صاحب نے ایک جامع فرہنگ بھی شامل کیا ہے جس سے قاری کے لیے مثنوی میں مستعمل دکنی لفظیات کے موجودہ معانی کی تفھیم میں بڑی سہولت ہوگئی ہے۔اس کے علاوہ دو ضمیمے بھی شامل کتاب ہیں جن میں سے ایک میں سلاطین بہمنی کا اور دوسرے میں ان شخصیات کا تعارف واحوال موجود ہیں جن کا ذکر مثنوی میں آیا ہے۔ مقدمے میں‘جیسا کہ ابھی اوپر ذکر ہوا، جمیل جالبی نے مثنوی ”کدم راؤ پدم راؤ“  کے زمانہئ تصنیف کا تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کی تحقیق کی رو سے یہ مثنوی احمد شاہ ولی بہمنی کے دور حکومت(825-839ھ)میں825ھ سے829ھ کےدرمیان لکھی گئی۔ اس کے برخلاف نصیر الدین ہاشمی اورکچھ دیگر محققین اس بات کے قائل تو ضرور ہیں کہ یہ مثنوی احمدشاہ کے زمانے میں لکھی گئی مگر ان کے نزدیگ اس کا زمانہ تصنیف وہ نہیں ہے جس اوپر ذکر ہوا بلکہ ان کے یہاںیہ مثنوی825سے لے کر867ھ کے درمیان لکھی گئی تھی۔ نصیرا لدین ہاشمی کامندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:

”اب اس امر کی تحقیق کرنی ہے کہ مثنوی کس سنہ میں لکھی گئی۔ اس کے متعلق ہم کو مثنوی سے صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مثنوی علاء الدین بہمنی کے انتقال کے بعدلکھی گئی ہے۔ اور اس کا ولی عہد احمد تھا۔ خاندان بہمنی کے سلسلے سے واضح ہوتاہے کہ سوائے گیارہویں حکمران علاء الدین ہمایوں شاہ کے کوئی اور ایسا حکمران نہیں ہواجس کا لقب علاء الدین ہو اور احمد شاہ اس کے ولی عہد کا نام ہو۔یہ احمد شاہ 825ھ سے 867ھ تک حکمران رہا ہے اس لیے اس مثنوی کی تصنیف بھی اسی زمانے میں قرار دینی چاہئے۔“13؎

جمیل جالبی نے نصیرالدین ہاشمی کے اس بیان کو سرے سے رد نہیں کیا ہے بلکہ اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے انھوں نے مختلف اشعار کے حوالے پیش کیے ہیں۔  چنانچہ ’تذکرہ سلاطین دکن“ کو سامنے رکھ کر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اشعار؎

شہنشہ بڑا شاہ احمد کنوار

پر تپال سنسار کر تار ادھار

 

دھنی تاج کا کون راجہ ابھنگ

کنور شاہ کا شاہ احمد بھجنگ

 

لقب شہ علی آل احمد ولی

ولی تے بہت بدہ تد آگہی

میں جس احمد کا بیان موجود ہے وہ در اصل دو احمد ہیں۔ ایک تو وہ احمد شاہ جو ایک بڑے شہنشاہ کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے اور دوسرے وہ جسے بادشاہ کا کنورکہا گیا ہے اور جس کا لقب احمد ولی بہمنی بتایا گیا ہے۔گویا احمد شاہ(بڑا شہنشہ)احمدخاں (ولی بہمنی)کا بیٹا اورعلاء الدین حسن بہمنی بانیئ سلطنت کا پوتا ہے اور یہ مثنوی احمدخاں ولی بہمنی کے عہد میں ہی لکھی گئی جس کا دورِ حکومت 825ھ سے839 تک رہتا ہے۔

مقدمے میں سنِ تصنیف کے بعد مثنوی کے مصنف کے حوالے سے تحقیق پیش کی گئی ہے۔ چونکہ مثنوی کے ابتدائی و آخری صفحات ندارد ہیں اس لیے اس کے مصنف کے نام کا صحیح علم نہیں ہو پاتا ہے۔ جمیل جالبی کے نزدیگ اس کا نام فخر دیں تھا جبکہ مولوی عبدالحق او ر دیگر محققین نے اس کا نام فخرا لدین بتا یا ہے۔ اس حوالے سے جمیل جالبی نے جو تحقیقی نقطہء نظر پیش کیا ہے وہ زیادہ قابلِ قبول اور نتیجہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ چونکہ شاعر نے اپنا یہ نام خو دبتا یا ہے اس لیے اس کو کوئی اور نام نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی ممکن ہے خواہ وہ قواعد کے اعتبار سے غلط اور موجودہ مروج ناموں سے مختلف ہی کیون نہ ہو۔ اور یہ صرف اس کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ پنجاب کے قدیم شعرا کے یہاں بھی اس طرح کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں۔مثنوی ”کدم راؤ پدم راؤ“ سے یہ اشعار دیکھئے جن میں شاعر نے اپنا نام اور تخلص استعمال کیا ہے:

سنو ئے فخر دیں توں بسر آنکھیا

محمد نبی خاتم انبیا

 

نظامی کہنہار جس یار ہو لے

سنہنار سن نغز گفتار ہوئے

اسی طرح ”پرت نامہ“ کے مصنف فیروز،جس کا نام قطب دین تھا، اپنے نام کا اظہارایک شعر میں کچھ اس طرح کرتاہے:

مجے ناوں ہے قطب دیں قادری

تخلص سو فیروز ہے بیدری

مقدمے میں مصنف کے نام کے بعد جمیل جالبی نے اس کے دربار سے وابستگی یاعد م وابستگی، مثنوی کے اوزان وبحور اور ا س کی کہانی کا قدیم قصوں سے ماخوذ ہونے یا نہ ہونے پر بھی تحقیقی انداز میں گفتگو کی ہے۔ بلکہ ان میں بھی وہ ان محققین سے دو قدم آگے نکل گئے ہیں جن کی حیثیت ا ن کے سامنے اگرچہ پیش روکی تھی مگر وہ تدوین متن اور اس کی جانچ پر کھ میں خود کوکچھ بندھے ٹکے اصولوں ہی کا پابند سمجھتے تھے۔وحید قریشی لکھتے ہیں:

”کتاب کا بنیادی حصہ مثنوی کے متن پر مشتمل ہے جس میں اس روایت کی پابندی کی گئی ہے جس کے سر خیل حافظ محمودشیرانی اور آخر ی اہم رکن ڈاکٹر غلام مصطفی خان ہیں۔گویا مرتب نے متن کی اس ٹکنیک کوا ختیار نہیں کیا جو دکنیات کے لیے ڈاکٹر زور اور ان کے ساتھیوں نے اختیار کی تھی اور جس میں صرف سیاق عبارت تک اپنے آپ کو محدود رکھا جاتا تھا اور اٹکل سے لفظوں کی شناخت ہوتی تھی۔ انھو ں نے قلمی نسخے کے اندازِ کتابت اور املائی خصوصیات کو سباق عبارت کے ساتھ ملا کر دیکھا ہے اور اپنی مساعی کو امکانی حد تک آگے لے گئے ہیں۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ انھوں نے اپنے طریق کو ایک ایک شعر پر منطبق کیا ہے۔“14؎

اس طرح جمیل جالبی نے تحقیقاورتدوین متن کے لیے اپنے بنائے ہوئے اصولوں کے مطابق مثنوی ”کدم راؤپدم راؤ“ کی ترتیب و تدوین کی اور اسے منظر عام پر لا کر ادبی سرمائے میں اضافہ کیا۔ ان کا یہ طریق کار صرف مثنوی ”کدم راؤپدم راؤ“ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ دیوان حسن شوقی اور دیوان نصرتی کی تلاش و تحقیق اور ترتیب و تدوین میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ان تمام کی اشاعت میں جمیل جالبی نے جس قدر اپنے بیش بہا اوقات صرف کیے وہ صرف آپ ہی کر سکتے تھے۔ صرف مثنوی ”کدم راؤپدم راؤ“ کی تلاش و ترتیب میں ان کی زندگی کے بیش قیمت سات سال لگ کئے۔یقینا اس قسم کے تحقیقی کارناموں کے لیے جس قدر تنقیدی شعور، ذوقِ سلیم، محنت شاقہ اور ذہانت و ذکاوت کی ضرورت ہوتی ہے وہ تمام کی تمام جمیل جالبی کے یہا ں بدرجہء اتم موجود تھیں۔

تاریخ ادب ِاردو:

جمیل جالبی کی تمام تر تحقیقی کاوشوں میں’’تاریخ ادبِاردو“کوغیر معمولی اہمیت اور مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ اس کی ترتیب و تصنیف میں انھوں نے نہ صرف اپنی زندگی کا ایک بڑ احصہ صرف کر دیا بلکہ اس کو ان کی مطالعاتی زندگی کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔یوں توجمیل جالبی نے اس کے لکھنے کا آغاز1964-65ءمیں ہی کر دیا تھا مگر زندگی کی دیگر مصروفیات نے انھیں اس قدرگھیر رکھا تھا کہ شبانہ روز محنتوں اور مسلسل کاوشوں کے باوجود بھی وہ اس کام کو اتنی جلدی منظر عام پر نہ لاسکے جتنی جلدی کہ وہ چاہ رہے تھے۔ یہاں تک کہ اس کی پہلی جلد1975ءمیں اوردوسری جلد، جو کہ دو حصوں پر مشتمل ہے،1983ء میں شائع ہوئی اورابھی کچھ سال پہلے اس کی تیسری اور چوتھی جلد یں بھی سامنے آئی ہیں جو کہ حد درجہ ضخیم اور بسیط ہیں۔محض اس کی ابتدائی دو جلدوں کے صفحات کوئی دو ہزار کے قریب ہیں اور ا ن پر گیارہویں صدی عیسوی سے لے کراٹھارہویں صدی کے آخر تک کی اردو زبان و ادب کی داستان موجودہے۔پہلی جلد اردو زبان و ادب کے آغازو ارتقا سے لے کرولی گجراتی اورا ن کے معاصرین کو محیط ہے۔ اس جلد میں جمیل جالبی نے نہ صرف اردو زبان کے آغاز سے بحث کی ہے بلکہ پورے اس عہد کا سیاسی و سماجی، تہذیبی و معاشرتی اور ادبی و لسانی مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔ مشفق خواجہ لکھتے ہی:

”جمیل جالبی نے اردو زبان کی تشکیل کے ابتدائی نقوش کا سراغ لگانے کے بعد ادبی روایت کی مختلف کڑیوں کو ملانااور اس روایت کے پھلنے پھولنے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ اردو ادب مختلف ٹکڑوں میں بٹا ہوا اور مختلف خطوں میں محصورنظر آتا۔ اس تاریخ میں ادب ایک ایسا دھارا ہے جو بدلتے ہوئے حالات کے تحت کہیں آہستہ خرام ہے اور کہیں تیز رو۔ یہ دھارا خطِ مستقیم کی صورت میں نہیں بلکہ مختلف سمتوں میں بہتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور اس کا تسلسل کہیں ختم نہیں ہوتا۔اردو ادب کی تاریخ لکھنے والوں نے ادبی روایت کے تسلسل کو نظر انداز کرکے یہثابت کرنے کی کو شش کی ہے کہ تاریخ ہمیشہ پابند مقامات رہی ہے، اور ہر مقام کی ادبی روایات جدا گانہ ہیں، جمیل جالبی کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اردو ادب کی تاریخ کو ایک ایسا مجمع البحزائر نہیں سمجھا جس کے جزیرے ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔ انھوں نے ادبی روایتکے تلسلسل کا سراغ لگایا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اردو زبان اور ادب کی تاریخ جو مسعود سعد سلمان سے شروع ہوتی ہے اور ولی اور ان کے معاصرین تک پہنچتی ہے، ایک مسلسل سفر سے عبارت ہے۔“15؎

مذکورہ بالا اقتبا س سے واضح ہے کہ جمیل جالبی نے ”تاریخ ادب اردو“ کی جلد اول میں اردو زبان و ادب کے آغازو ارتقا کے بعد مسعود سعد سلمان سے شروع ہو کر ہم تک پہنچنے والے اس ادبی سفر کا،ازابتدا تا ولی اور ان کے معاصرین،مطالعہ بھی پیش کیا ہے۔اس مطالعے میں انھوں نے جن اہم مسائل موضوعات پر اپنی تحقیقی نظرڈالی ہے ان میں امیر خسرو کی خالق باری، مخدوم شاہ حسینی کی معراج العاشقین اور فخر دیں نظامی کی مثنوی کدم راؤ پدم راؤخاص طور پر قابلِ ذکرہیں۔اگرچہ اس سےقبلان پراوراسکےعلاوہ کچھ دیگر دکنی وگجراتی اردو ادب کےمسائل و موضوعات پر مختلف رسائل وجرائد میں تحقیقات سامنے آچکی تھیںیا پھر ان پر کتابیں بھی موجود ہیں مگر ان کی حیثیت وہ نہیں ہے جوجمیل جالبی کی ان تحقیقات کی بدولت سامنے آئی۔اس کے علاوہ جمیل جالبی نے اپنی اس تاریخ نگاری میں ماقبل کی تحقیقات کو بھی در خور اعتنا نہیں سمجھا ہے اور پہلی بار انھوں نے دکن اورگجرات کے ادب کو تاریخی وسیاسی اورسماجی وثقافتی پس منظرمیں ایک مربوط و مسلسل روداد کی شکل میں پش کیاہے۔

”تاریخ ادب اردو“ کی جلد اول کی طرح اس کی دوسری جلد بھی تحقیقی اعتبار سے بے حد اہم اور قابل ِ اعتبار ہے۔یہ جلد سترہویں صدی عیسوی کے آخری تین چا ر دہائیوں سے لے کر کم و بیش پوری اٹھارہویں صدی کو محیط ہے۔ اس میں جمیل جالبی نے جعفر زٹلی سے لے کر میرحسن اوران کے معاصرین تک کا مطالعہ پوری شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جلد اول کی طرح اس میں بھی جمیل جالبی نے بطور تمہید اٹھارہویں صدی کا فکری و سیاسی،تہذیبی و معاشرتی اور ادبی و تہذیبی مطالعہ پیش کیا ہے۔اس ضمن میں انھوں نے اردو شاعر ی کے افکارنظریات اورمحرکات و میلانات پر جو تحقیقی نکات پیش کیے ہیں وہ حد درجہ اہم اور نتیجہ خیز ہیں۔بقول مشفق خواجہ:

”یہ مباحث اتنے فکر انگیز ہیں کہ قدم قدم پر یہ احساس ہوتا ہے کہ لکھنے والے نے موضوع کے کسی پہلو پر سر سری نظر نہیں ڈالی اور وہ اس میں ڈوب کر پاتال تک کی خبر لے آیا ہے۔جمیل جالبی بعض سامنے کی باتوں پر اچھوتے اور نئے پہلو سے روشنی ڈالتے ہیں۔ مثلاً اردو شاعریکے بارے میںیہ بات عموماً کہی جاتی ہے کہ یہ دور ِ زوال کی پیداوار ہے۔ اس سے مراد عموماً یہ ہوتی ہے کہ جو چیزدورِ زوال کی پیدا وار ہوگی وہ زندگی کی بہترین قدروں کی آئینہ داری نہیں کر سکتی۔ جمیل جالبی نے نہایت مدلل انداز سے اس مفروضے کی تردید کی ہے۔“16؎

جمیل جالبی نے جن الفاظ میں اس مفروضے کی تردید کی ہے وہ بھی ملاحظہ ہوں:

”اردو شاعری کے سلسلے میں ایک بات بار بار کہی جاتی ہے کہ یہ دورِ زوا ل کی پیداوار ہے لیکن اس بات کو اگر تاریخی و تہذیبی تناظر میں دیکھا جائے تو اس دور کی فارسی شاعری کو تو دو رِ زوال کی شاعری کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ اُسی تہذیب کی ترجمانی کررہی ہے جو ٹھنڈی ہو کر منجمد ہو رہی ہے۔ اردو زبان و شاعری تو اس دور میں ان نئی انقلابی، سماجی، معاشی، معاشرتی و لسانی تبدیلیوں کے ہر اول دستے کی حیثیت رکھتی ہے جو تیزی کے ساتھ بر عظیم میں پھیلنے والی ہیں۔ فارسی کے زوال کے ساتھ ہی اردو کا رواج وعروج وہ پہلا انقلاب تھا جس کے آئینے میں آنے والے دور کا عکس دیکھا جا سکتا تھا۔ اردو زبان و ادب نے ایک طرف مرنے والی تہذیب کے سارے زندہ عناصر کو اپنے اندر جذب کر کے بر عظیم کی تہذیب کا زندہ حصہ بنا دیا اور اس طرح خود یہ زبان دو عظیم تہذیبوں کا سنگم بن کر نئی تخلیقی قوتوں کے ساتھ، ایک بدیسی زبان پر غالب آگئی۔ اور دوسری دیسی زبانوں کے لیے بھی راستہ صاف کر دیا۔ طبقہ ئ خواص پسِ پشت چلا گیا۔ اور طبقہئ عوام نئے خون اور نئی قوتوں کے ساتھ، اس زبان کے وسیلے سے، اس دور کی تخلیقی سر گرمیوں میں شامل ہو گیا۔ اٹھارہویں صدی عوامی قوتوں کے اُبھرنے کی صدی ہے۔ اگر اردو تحریک میں عوام شریک نہ ہوتے تو اس دورِ زوال میں، جب عظیم مغلیہ سلطنت تیزی سے ٹوٹ رہی تھی۔ اس معاشرے کے تخلیقی جو ہر مردہ ہوجاتے اور انھیں بیدار کرنے میں اتنا طویل عر صہ لگتا کہ وہ آزادی جو1947ء میں حاصل ہوئی، بہت لمبے عرصے کے بعد حاصل ہوئی۔ اس دور میں اُٹھنے والی اس عوامی اردو تحریک نے معاشرے کی تخلیقی روح کو مُردہ ہونے سے بچا لیا، اسی لیےیہ تحریک آگ کی طرح پھیلی اور ملک گیر تحریک بن گئی۔“17؎

’تاریخ ادب اردو‘ کی دوسری جلد، جیسا کہ اوپر ذکر ہوا‘دو حصوں پر مشتمل ہے اور اس میں بھی جمیل جالبی نے قدم قدم پر اپنی تحقیقی سوجھ بوجھ کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ چونکہ ایک ایک حرف اور لفظ کو تحقیقی ثبوت اور پورے وثوق ساتھ لکھنا جمیل جالبی کے مزاج کا حصہ تھا اس لیے اس حصے میں بھی ہر مسئلہ و موضوع کے تحت ان کا تحقیقی شعوربہت واضح ہے۔اس جلد میں شمالی ہند میں اردو شاعری کی ابتدائی روایت، فارسی کے ریختہ گو: بیدل، شاہ گلشن وغیرہ، ولی دکنی کے اثرات، تخلیقی رویے شاعری کی پہلی تحریک:ایہام گوئی، ایہام گو شعرا، رد عمل کی تحریک، رد عمل کے شعرا۔ مظہر جان جاناں، یقین وغیرہ، رد عمل کی تحریک کی توسیع،مرزا محمد رفیع سودا اورمیر محمد ی بیدار وغیرہ کو موضوع بنایا گیا ہےاوران پر بڑی تفصیلی و تحقیقی گفتگو کی ہے۔

تاریخ ادب اردو کی تیسری جلد میں بھی ان کا تحقیقی سروکار واضح ہے۔ ابتدائی دو جلدوں کی طرح اس کی بھی شروعات پیش لفظ کے ساتھ ہوئی ہے۔اس کے بعد تمہید ہے۔ یہ جلد پانچ فصلوں پر مشتمل ہے اورہر فصل کے تحت کئی کئی ابواب بھی موجود ہیں۔آخر کتاب میں ایک اشاریہ بھیہے۔جلد سوم کے پیش لفظ میں جمیل جالبی نے نہ صرف جلد سوم کے مشتملات و مباحث پر اپنی گفتگو مر کوز کی ہے بلکہ اسے ابتدائی دو جلدوں میں بیان داستانِ زبان و ادب سے مربوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ مقدمے میں ایک جگہ لکھے ہیں:

”تاریخ ادب اردو کی تیسری جلد اب آپ کے سامنے ہے۔ جو اپنی جگہ پر مکمل بھی ہے اور پچھلی جلد سے پوری طرح مربوط بھی۔ پہلی جلد آغاز سے ۰۵۷۱ء تک، اردو ادب و زبان کا احاطہ کرتی ہے۔ دوسری جلد اٹھارہویں صدی کا احاطہ کرتی ہے اور یہ تیسری جلد انیسوی صدی کے ادب و زبان کو محیط ہے۔ قارئین کرام اس بات سے ضرور واقف ہوں گے کہ انیسویں صدی تخلیق ِ ادب اور رواجِ زبان کے اعتبار سے اردو کی سب سے بڑی صدی ہے۔“18؎

چونکہ جمیل جالبی انیسویں صدی کو فروغِ اردو زبان اوراس میں تخلیقیت کی وجہ سے گذشتہ تمام صدیوں میں اسے سب سے بڑی صدی تسلیم کرتے ہیں اس لیے انھوں نے اس جلد میں اس پوری صدی کی نظم و نثرکا مطالعہ بڑی تفصیلی اور تحقیقی انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کے مطالعے میں انھوں نے اس عہد کے حالات اور اس کی سیا سی و سماجی زندگی کو ملحوظ رکھا ہے۔ نیز اس دور کے ماحول و معاشرت اور بالخصوص انگریزی دورِ اقتدار کے زیراثر اردو شعرو ادب میں ہونے والی تبدیلیوں پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس جلد میں اردو شاعری۔۔۔محرکات و رجحانات، روایت کا سفر: کشمکش، تبدیلی، درمیانی کڑیاں، معیارسخن، قلندر بخش جرأت، مصحفی، انشاء اللہ خاں انشا، غلام ہمدانی مصحفی، سعادت یا رخان رنگین، اردو نثر:فورٹ ولیم کالج، نوطرز مرصع اور فسانہ عجائب کی درمیانی کڑی، نثر رنگین کا نقطۂ عروج، ناسخ وآتش کا دور، طرزجدید کی تکرار و توسیع، روایت آتش کی توسیع، تکرار اور امتزاج، شاگردانِ آتش میں مثنوی کی منفرد روایت، انیسویں صدی کی دو اہم ادبی و تہذیبی شخصیاتیعنی واجد علی شاہ اور نظیر اکبر آبادی وغیرہ جیسے اہم موضوعات و شخصیات کو زیر بحث لایا گیا ہے اور ان پر بڑی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔

تاریخ ادب اردو کی ابتدائی تین جلدو ں کی طرح اس کی چوتھی جلد بھی کافی ضخیم ہے۔ اس کی بھی ابتدا تمہید سے ہوتی ہے اور  اسے تین فصلوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر فصل کے تحت کئی کئی ابواب اور ذیلی ابواب ہیں۔اس جلد میں غالب، سوانح غالب، اس کی اردو شاعری و فارسی شاعری، اردو نثر نگاری، اس کی اردو و فارسی تصانیف و تالیفات، اردو غزل پر غالب کے اثرات، اس عہد کے دوسرے بڑے شعرا مثلاً شاہ نصیر، شیخ ابراہیم ذوق، مومن خان مومن، بہادر شاہ ظفر، مصطفی خان شیفتہ، چند اور ممتاز شعرا: روایت کی اشاعت، اردو مرثیہ سے متعلق، اردو مرثیے کا نقطہئ عروج، روایت کی تکرار: دوسرے مرثیہ گو، دور جدید کی توسیع: اردو نثر کا تنوع طنز و مزاح کی روایت وغیرہ کو موضوع تحقیق و تنقیدبنایا گیا ہے۔چونکہ یہ جلد بھی دو حصوں پر مشتمل ہے اس لیے اس کے دوسرے حصے کی شروعات انھوں نے سرسید اور ان کے رفقاء سے کی ہے اور اس کا اختتام جدید شعر و ادب کے آغاز وارتقا پر کیا ہے۔اس حصے میں مختلف موضوعات مثلاً اردو کےعناصر خمسہ،اردو داستانیں: تمہید و مطالعہ، داستان اور ناول کا امتزاج: پنڈت رتن ناتھ سرشار، مذہبی تصانیف میں اردو نثر، تذکروں میں اردو نثر، کتب تواریخ میں اردو نثر، اردو نعت گوئی کا نیا رنگ، نئی روایت:محسن کاکوروی وکرامت علی خاں شہیدی، شاعری کے دو روایتی رنگ، انیسویں صدی کا خاتمہ:ا میر مینائی و مرزا داغ دہلوی وغیر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان موضوعات پرگفتگو میں بھی جمیل جالبی کے یہاں تحقیق و تنقید کا حسین امتزاج دیکھا جا سکتاہے۔

بلاشبہ جمیل جالبی نے ان تمام کتابو کی تحقیق و تدوین یا پھر تاریخ نگاری میں ایک ایک مسئلے پر ا ن کے عمیق مطالعے کے بعد کوئی رائے دی ہے۔ا س کے لیے انھوں نے صرف مطبوعہ کتابوں، تذکروں، تاریخوں یا پھرشعروادب سے متعلق تحقیقی و تنقیدی تصانیف کے مطالعے پر ہی اکتفانہیں کیا بلکہ متعدد قلمی بیاضوں اور مخطوطات کا دقت نظر سے مطالعہ کر کے ان سے براہ راست استفادہ بھی کیا اور پھر ان پر کوئی رائے دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی بدولت جمیل جالبی کے تحقیق میں ایک قطعیت اور خود اعتمادی کی شان پیدا ہو گئی ہے۔

ان خصوصیات کے علاوہ جمیل جالبی کی تحریروں میں موجود تحقیق تنقید کا امتزاج بھی ان کی تحقیقات کوانفرادیت عطا کرتا ہے۔ واقعہ بھی یہی ہے کہ کوئی بھی تنقید اس وقت تک معتبر نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس میں تحقیق شامل نہ ہو۔ آج اگر جمیل جالبی کی تحریر وں کو اعتبار کی نظروں سے دیکھا جاتاہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ ان میں تحقیق و تنقید کا لازم ملزوم ہونا بھی ہے۔ اردو ادب کی تاریخ نگاری میں پہلی بار اگر کسی کی تحریریں اس صفت سے متصف نظر آتی ہیں تو وہ ہیں جمیل جالبی کی تحریریں۔ اس کے معترف وہ خود بھی تھے۔چنانچہ اپنے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:

”میری تنقید میں بھی تحقیق شامل ہے۔اس کے علاوہ میری ساری توجہ ”تاریخ ادب اردو“ پر رہی ہے جس میں قدم قدم پر تحقیق کے عمل سے تاریخ کے کام کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ تاریخ ادب اردو اس اعتبار سے بھی قابل ذکر ہے کہ اس میں پہلی بار تحقیق و تنقید کا سماجی و تہذیبی حوالوں کے ساتھ، امتزاج ہوا ہے۔یہ امتزاج اردو میں اس طرح پہلی بار ہوا ہے۔تحقیق کا لفظ اور دائرہ کار میری نظر میں بہت وسیع ہے۔ اس میں داخلی و خارجی دونوں جہتوں سے استفادہ کیا جاتا ہے مثلاً اب اردو ادب کی تاریخ مختلف جزیروں کی تاریخ نہیں رہی ہے بلکہ ایک مربوط اکائی بن گئی ہے۔ گجری ادب اور دکنی ادب کی روایت کو، جس طرح تحقیق سے دریافت کیا گیا ہے، وہ یقیناقابل ِ توجہ ہے۔اسی طرح روایت کے دھارے کو داخلی تحقیق کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ میں تحقیق کو تنقید کے لیے اتنا ہی ضروری سمجھتا ہوں جتنا تنقید کو تحقیق کے لیے۔جب تک یہ دونوں ایک ساتھ نہیں چلیں گی اس وقت تک بڑے نتائج بر آمد نہیں ہوں ے۔“19؎

یقینا جمیل جالبی کی تاریخ نگاری یا پھر ان کی تحقیقی خدمات کو آج اگر کوئی حیثیت حاصل ہے تو اس کے بہت سے اسباب میں سے ایک بڑا سبب ان کی تحریروں میں تحقیق و تنقید کا لاز م و ملزوم ہونا بھی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی بھی نتیجہ،نتیجہ تو ہو سکتا ہے لیکن قابل اعتباریا نتیجہ خیزنہیں ہو سکتا اور ادبی تاریخ نگاری میں تو اس کی ضرورت و اہمیت اور بھی دو چند ہو جاتی ہے۔

غرض یہ کہ جمیل جالبی اردو کے ایک ایسےعظیم محقق وناقد ہیں جن کےادبی کارناموں اوربالخصوص تحقیقی خدمات کو ایک خاص معیارواعتبار حاصل ہےاور پوری علمی وادبی دنیا ان کو بنظراستحسان دیکھتی ہے۔ تحقیق میں اگرچہ کسی کی بات حرف آخر نہیں ہوتی مگر پھر بھی قارئین میں جمیل جالبی کی تحریروں کو جو اہمیت و وقعت حاصل ہے وہ،باستثنائے چند محققین کے،کم ہی لوگوں کےحصے میں آئی۔ انھوں نے جس تحقیقی انہماک،جانفشانی اورچھان بین کے بعد ادب و تحقیق کےان بھاری بھر کم پتھروں کو اٹھانےاوربرسوں سےچلی آرہی ادبی گتھیوں کو سلجھانے میں کامیابی حاصل کی ہے اس کی مثال وہ آپ ہیں۔دیگر علمی و ادبی کارناموں سے قطع نظر محض ادبی تاریخ نگاری میں جمیل جالبی کے یہاں جو تحقیقی و تنقیدی سروکار دیکھنے کو ملتا ہے وہ اس قدراہم اورغیر معمولی ہےکہ اگر وہ اس کےعلاوہ ادب میں کچھ اورنہ کرتےاوران کا کوئی دوسراContributionنہ ہوتا تو بھی ان کا نام ادبی تاریخ کے باب میں ہمیشہ روشن رہتا۔

حواشی:

1۔     ”اردو میں تحقیق“ مشمولہ’اردو میں اصول تحقیق‘،اردو اکادمی،پاکستان،ص:234

2۔      ادبی تحقیق، جمیل جالبی، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،دہلی1996ء  ص:11

3۔     انور سدید۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی تنقید،  ماہنامہ دائرے، کراچی(مدیر: حسنین کاظمی) گوشہء جمیل جالبی،1992ء   ص:45

4۔     گوہر نوشاہی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کا انداز ِتحقیق  مشمولہ جمیل جالبییا اردو ادب کی تاریخ،  ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،2015 ء ص: 503

5۔     وحیدقریشی۔ دیوانِ حسن شوقی مشمولہ جمیل جالبییا اردو ادب کی تاریخ،  ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،2015 ء  ص:526-27

6۔     یضاً،  ص: 527

7۔     یضاً،  ص: 527

8۔     جمیل جالبی۔دیوانِ نصرتی، مطبع قوسین، لاہور،  1972ء  ص:4

9۔     محمد علی اثر۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اور دکنی ادب کی تحقیق مشمولہ ارمغان، کراچی  جمیل جالبی نمبر، شمارہ اپریل تا جون 1996ء  ص: 109

10۔    صدیقی، افسر۔ دیوان نصرتی مشمولہ جمیل جالبییا اردو ادب کی تاریخ مرتبہ خاور جمیل، نئی دہلی:  ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، 2015ء  ص:36

11۔    غلام مصطفی خاں۔ تاریخ ادب اردو کا ایک جائزہ مشمولہ ڈاکٹر جمیل جالبی: ایک مطالعہ، مرتبہ گوہر نوشاہی،، دہلی،1993 ءص: 315

12۔    مشفق خواجہ۔ مثنوی کدم راؤ پدم راؤ مشمولہ جمیل جالبییا اردو ادب کی تاریخ مرتبہ خاور جمیل، نئی دہلی: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،  ص:514

13۔    نصیرالدین ہاشمی۔دکن میں اردو،  قومی کونسل برائے فروغ اردو، نئی دہلی2016ء  ص:60

14۔    وحید قریشی۔ کدم راؤ پدم راؤ  ممشمولہ جمیل جالبییا اردو ادب کی تاریخ مرتبہ خاور جمیل، نئی دہلی: ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،  ص:254-55

15۔    مشفق خواجہ۔ اردو ادب کی پہلی تاریخ،ماہنامہ دائرے، کراچی(مدیر: حسنین کاظمی) گوشہء جمیل جالبی،1992ء   ص:35

16۔    ایضا، ص:36

17۔    جمیل جالبی۔تاریخ ادب اردو، جلد دوم، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،2007، ص:26-27

18۔    جمیل جالبی۔تاریخ ادب اردو، جلد دوم ، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،2007، ص:15

19۔    گوہر نوشاہی۔ اردو تحقیق پر ایک مباحثہ مشمولہ جمیل جالبییا اردو ادب کی تاریخ،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،2015ء ص: 545-46

 

٭     ٭     ٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *