جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کا قیام اور علاقے میں اسکے دعوتی اثرات

از قلم:فضیلۃ الشیخ محمد طیب مدنی 
(صدر جامعہ رحمانیہ مدھوپور,دیوگھر,جھارکھنڈ)

===================

استاذ الاساتذہ محترم جناب مولانا عبدالرشید شائقی /حفظہ اللہ کی قیادت میں مؤرخہ 18/اکتوبر 1977م کو جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کا قیام عمل میں آیا اور علاقے میں جماعت اہلحدیث کی نشأۃ ثانیہ کی شروعات ہوئی.  جنوبی سنتھال پرگنہ و ضلع گریڈیہ کی تمام اہلحدیث بستیوں نے دامے, درمے, قدمے, سخنے جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کا تعاون کیا.  جامعہ کی آواز پر سب نے لبیک کہا.  جامعہ ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہا.  راقم السطور (محمد طیب مدنی) کامدینہ یونیورسٹی سے 1985م میں تخرج ہوا.  کتاب و سنت کا استحکام اور فتنۂ انکار حدیث کے استیصال کے لئے مولانا شفاء اللہ فیضی و ذمہ داران جامعہ سے تبادلۂ خیال کے بعد جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند سے میں منسلک ہوگیا.

جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند میں میرے انسلاک کے چند سالوں کے بعد مولانا شفاءاللہ فیضی ناظم جامعہ کی طبیعت خراب رہنے لگی, ناظم صاحب کی معاونت کے لئے مولانا عبداللہ مدنی جامعہ کے نائب ناظم منتخب کئے گئے, ناظم صاحب اور مدنی صاحب عموما ساتھ ساتھ رہتے تھے,  کہیں جانا ہوتا تھا تو مدنی صاحب کی گاڑی(بائیک) سے جاتے تھے,  بعد ازاں ناظم صاحب مسلسل بیمار رہنے لگے,  علاج پٹنہ سے چل رہا تھا , ناظم صاحب نے ان حالات میں استعفیٰ دے دیا لیکن قبول نہیں ہوا,  ناظم صاحب جب بہت کمزور ہوگئے تو ایک روز بعد مغرب جامعہ میں مجلس منتظمہ اور اساتذہ کی ایک میٹنگ رکھی گئی, اس میٹنگ میں مولانا محمد خالد فیضی کے علاوہ سب موجود تھے,  میں بھی اس میٹنگ میں شریک ہوا.  اس میٹنگ میں ناظم صاحب نے مولانا محمد جرجیس سلفی کو بلا کر اپنی الماری کی کنجی دی اور کہا کہ اس الماری میں ایک لفافہ ہے اسے نکالئے,مولانا محمد جرجیس سلفی صاحب نے ایک بڑا لفافہ نکال کر ناظم صاحب کے ہاتھ میں تھمایا جسے ناظم صاحب نے لیکر صدر جامعہ جناب حاجی عبدالرزاق صاحب کے حوالے کیا,  اس لفافے میں وہ رقم تھی جو جامعہ کو رابطۃ العالم الاسلامی مکہ مکرمہ سے ملی تھی,  ناظم صاحب نے کہا کہ رقم گن لیجئے,  جسے گنی گئی,  اسی مجلس میں ناظم صاحب نے حساب و کتاب اور ضروری کاغذات بھی منتظمہ کے سامنے پیشِ کردیئے,   لیکن مجلس کے تمام شرکاء نے بالاتفاق تمام چیزوں کو الماری میں رکھ دیا اور چابی ناظم صاحب کو دے دیا.  ناظم صاحب کے انتقال کے بعد مولانا محمد جرجیس سلفی کو جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کا ناظم منتخب کیا گیا.

ارشاد باری تعالیٰ ہے ((وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ انکاثا))  تم لوگ اس عورت کی طرح نہ ہوجاو جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا.(النحل:92)

نیز ارشاد ہے (( یخربون بیوتہم بایدیہم وایدی المؤمنین فاعتبروا یا اولی الابصار))  وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے)  پس اے آنکھوں والے تم لوگ عبرت حاصل کرو.(الحشر:2)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ((اوصیکم بتقوی اللہ والسمع والطاعۃوان کان عبدا  حبشیا)) میں تم کو تقوی و سمع و طاعت کی نصیحت کرتا ہوں اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو. (سنن ابوداؤد :4607. سنن الترمذی : 2676)

نیز اتحاد و اتفاق ہی وہ راہ ہے جس سے کامیابی ممکن ہے.

ارشاد الٰہی ہے :

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا}

تم تمام اللہ کی رسی کومضبوطی سے تھام لو گروہوں میں مت بٹو[آل عمران: 103]

علمائے اہلحدیث جنوبی سنتھال پرگنہ و گریڈیہ , ہمدردان جامعہ اور ابنائے قدیم جامعہ کو قرآن کریم کی مذکورہ آیات کے ٹکڑوں اور حدیث پر غور و فکر کرنے کی دعوت ہے.

مولانا قاری و حافظ عبدالمنان اثری شنکرنگری (ضلع بلرامپور ,یوپی)  نے مؤرخہ 5/مارچ 1968م کو مدرسۃ البلاغ پھلجھریا متصل ڈابھاکیند کے نام جامتاڑا کورٹ میں ایک ایکڑ زمین وقف کرایا,  لیکن کام شروع نہیں ہوسکا,  قاری صاحب نے ماہ اکتوبر 1971م میں مدرسۃ الرشاد کے نام سے مدھوپور میں ایک ادارہ قائم کیا اور مدرسہ کا تعارف بنام : مدرسۃ الرشاد,  احوال و کوائف..  شائع کیا,  مدھوپور میں جامعہ رحمانیہ قائم ہوا تو اردو اور عربی میں جامعہ رحمانیہ کا تعارف شائع ہوا,  مدرسۃ الرشاد مدھوپور اور جامعہ رحمانیہ کے تعارف میں مذکور ہے.

شہر مدھوپور ضلع سنتھال پرگنہ دمکا  کے جنوب میں واقع ہے, اس خطۂ ارض کی دینی و اخلاقی تعمیر میں بڑے بڑے اساطین دین و علم اور اکابر اہل اللہ نے حصہ لیا ہے اور جماعت کو اپنے خون پسینوں سے سینچا ہے جن میں مولانا حکیم عبدالعزیز اعظمی, مولانا عبدالرشید انبالوی, مولانا سید علی حسن گیلانی بہاری,  مولانا عبدالنور دربھنگوی, مولانا الہی بخش پنجابی (تلامذہ شیخ الکل) , حاجی نور محمد (انہی کی زمین پر جامع مسجد اہلحدیث حاجی گلی اور مدرسہ اسلامیہ حاجی گلی مدھوپور واقع ہے,  مسجد کے پچھم میں انکی اور انکی اہلیہ وغیرہ کی قبر ہے جس کی وجہ سے یہ زمین آج بھی خالی ہے) مولانا پیر محمد راولپنڈی پنجابی (بانی مسجد چاند ماری  مدھوپور – واضح رہے کہ فی الحال یہ مسجد بریلویوں کے قبضہ و تصرف میں ہے) حافظ عابد حسین گنگوہی ,مولانا محمد اکرم خان کلکتوی (شاگرد شیخ الکل) حاجی پیر علی آروی بہاری ( بانی محمدی مسجد پتھرچپٹی,  مدھوپور) نور الدین مہاشے وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین خاص طور پر قابل ذکر ہیں.

فخرالمحدثین شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے کسب فیض حاصل کرنے والوں میں سے چھ شخصیات ضلع سنتھال پرگنہ  کے تھے,  وہ نفوس قدسیہ درج ذیل ہیں.

(1)مولانا محمد اسحاق , (2)مولانا علی حسن(3) مولانا تبارک حسین, (4) مولانا محمد ذاکر ,(5) مولانا عبدالستار, (6)مولانا شیر محمد رحہم اللہ.

مولانا حکیم عبدالعزیز اعظمی نے حافظ عابد حسین گنگوہی سے موضع بروٹانڑ میں مناظرہ کیا اور حکیم صاحب فتحیاب ہوئے,  مؤرخہ 10/ دسمبر 1917م کو مدھوپور میں آپ کا انتقال ہوا اور یہیں سپرد خاک ہوئے,  آپ کے والد محترم مولانا اسد اللہ رحمہ اللہ کو مولانا شبلی نعمانی سے اعظم گڑھ میں تقلید پر رد و قدح کا فخر حاصل ہے,  مولانا سید علی حسن گیلانی بہاری نے مدھوپور کو اپنا مسکن بنایا,  انکے لڑکے مولانا عبدالقدوس تھے,  مولانا علی حسن گیلانی جامعہ شمس الہدی السلفیہ دلال پور چلے گئے,  انہوں نے کوٹال پوکھر میں دوسری شادی کی,  انکے لڑکے الطاف الرحمن تقریبا بیس سال قبل مولانا عبدالقدوس کے گھر مدھوپور آئے تھے,  کوٹال پوکھر میں انکا ذاتی مکان ہے,  حاجی پیر علی آروی کے بڑے لڑکے مولانا عبدالحی کی شادی مولانا محمد رفیق ڈابھاکیند کی بہن سے ہوئی تھی,  مولانا محمد اکرم خان وہ پہلا شخص ہے جس نے بنگلہ زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا,  ان سب کا مکان محمدی مسجد کالج روڈ مدھوپور میں آج بھی موجود ہے, بارہ پنساری میں نندومہاشے کا سسرالی رشتہ تھا.

عبدالجبار عرف جیو کا مکان مدھوپور سے متصل نرائن پور اہلحدیث کی بڑی بستی یہیں ہے آج بھی انکا خاندان اس گاؤں میں آباد ہے.  مولانا عبدالرحیم امبھاوی, مولانا محمد یوسف کنڈیلوادہ, مولانا عبدالجبار بہاری, مولانا حکیم عبدالغفار بہاری,  حافظ الہی بخش بانک جمنا,  مولانا محمد ناصر لیٹو,  مولانا محمد اسحاق آمہ تیتریا, حافظ اثیرالدین رگھوناتھپور, مولانا جمال الدین رگھوناتھپور,  مولانا عبدالحفیظ کھگڑا, مولانا محمد رفیق نواہر, مولانا محمد حسین دربھنگوی چانڈیہہ وغیرہم جنوبی سنتھال پرگنہ وگریڈیہہ کے علمائے اہلحدیث کی ایک لمبی لسٹ ہے.

اس علاقے میں کبار علمائے اہلحدیث کا دورہ وقتا فوقتاً ہوتا رہا ہے مثلاً مناظر اسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری, مولانا محمد ابوالقاسم سیف بنارسی,  مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی, مولانا ابو محمد ابراہیم آروی, مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی, مولانا ابوقمر مسعود بنارسی,  مولانا محمد جوناگڑھی, مولانا عبدالروف رحمانی جھنڈانگری,  مولانا محمد داؤد راز دہلوی, مولانا مصلح الدین اعظمی وغیرہم.خاص طور پر قابل ذکر ہیں,,,

راقم : محمد طیب مدنی,  صدر جامعہ رحمانیہ مدھوپور, ضلع دیوگھر, جھارکھنڈ

13/جنوری 2022م.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *