چوتھا اصول:بچپن سے دینی امور کی تعلیم دینا:
ازقلم: ابوصالح دل محمد سلفی
استاذ جامعہ سلفیہ بنارس
تربیتِ اولاد ایک بہت ہی اہم و حساس اور قابل توجہ عمل ہے ، تربیت کے معاملہ میں والدین کو ہمیشہ حساس اور بیدار رہنا چاہئے۔کیوں کہ اس میں تاخیر و کوتاہی اور کاہلی و سستی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں اولاد کی بر وقت مناسب تربیت کی تعلیم وترغیب دی گئی ہے۔کیوں کہ بڑی عمر کے ہونے کے بعد اولاد کی تربیت ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتی ہے۔
لہذا والدین و سرپرست اور مربی حضرات کو اولاد کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے ان کے بالغ و باشعور اور بڑی عمر کے ہونے کا انتظار نہیں کرنی چاہئے۔بلکہ ابتدائے عمر ہی سے ان کو درست طریقے سے دینی عقائد،اسلامی شعار وغیرہ دینیات واخلاقیات کی بنیادی باتوں کی تعلیم دینی شروع کردینی چاہئے تاکہ دینی امور کی یہ بنیادی تعلیم ان کے ذہن ودماغ میں آغازِ عمر ہی سے نقش اور ذہن نشیں ہوجائیں اور بچپن ہی سے وہ اسلامی عقائد و دینی اخلاق سے متعارف و روشناس ہوجائیں اور اسی پر ان کی کردار سازی و ذہن سازی ہو۔کیوں کہ عمر کے اس مرحلہ میں بچے معصوم وخالی الذہن ہوتے ہیں ، ان کا دل و دماغ اور عقل و فہم سادہ کاغذ کی طرح صاف و شفاف اور بے داغ ہوتاہے ، وہ جو کچھ دیکھتے یا سنتے ہیں اسے اپنالیتے ہیں۔نیز عمر کے اس مرحلہ میں ان کو جوکچھ بتایا یا سیکھا جائے وہ اس کے دل میں نقش ہوجاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام صرف بڑوں ہی کو دین کی تعلیمات دینے پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ مختلف اسلوب اور متعدد طریقوں سے بچوں کو بھی دین کی بنیادی تعلیمات دینے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جو ابھی کم سِن تھے دینی عقیدہ کی بنیادی تعلیم دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” احفَظِ اللهَ يحفَظْك ” اللہ کی(یعنی اسلامی احکام پر عمل کرکے اللہ کے دین کی) حفاظت کرو اللہ تعالی تمہاری (دنیا وآخرت میں) حفاظت فرمائے گا-
” احفَظِ اللهَ تجِدْه تُجاهَك ” (اللہ کے حقوق کا خیال کرکے اور اس کی حدود سے تجاوز نہ کرکے) تم اللہ کی حفاظت کرو اللہ کو تم اپنے سامنے(مددگار) پاؤگے
” إذا سألتَ فاسأَلِ اللهَ “اور جب بھی تم مانگو تو اللہ تعالیٰ ہی سے مانگو-
” وإذا استَعنتَ فاستَعِنْ باللهِ ” اور جب بھی تمہیں مدد مانگنے کی ضرورت پڑے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگو-
” واعلَمْ أنَّ الأمَّةَ لو اجتمَعَت على أن ينفَعوك بشيءٍ لم ينفَعوك إلّا بشيءٍ قد كتَبه اللهُ لك، ولو اجتمَعوا على أن يضُرُّوك بشيءٍٍ لم يضُرُّوك إلّا بشيءٍ قد كتَبَه اللهُ علَيك، رُفِعَت الأقلامُ، وجَفَّت الصُّحُفُ ” اور اچھی طرح اس بات کو ذہن نشیں کر لو کہ اگر دنیا کے تمام لوگ مل جل کر تمہیں کچھ فائدہ پہنچانا چاہیں گے تو تمہیں اتناہی فائدہ پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے حق میں لکھ رکھا ہے۔اور اگر دنیا کے تمام لوگ مل جل کر تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہیں گے تو تمہیں اتناہی نقصان پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھاہے-قلم اٹھا دئے گئے اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں(یعنی نفع و نقصان وغیرہ تمام چیزوں سے متعلق بندوں کی تقدیریں لکھی جاچکی ہیں) (رواہ الترمذی وصححه الإمام الألبانى)
بچپن ہی سے بچوں کو دینی تعلیم و تربیت دینے کا ایک نبوی اسلوب یہ بھی تھا کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام جب بچوں کے پاس سے گذرتےتھے تو ان کو سلام کرتے تھے، تاکہ بچے صغر سنی ہی سے سلام کرنے کےعادی ہوں اور ان کی دینی تربیت ہو۔صحیح بخاری میں ثابت بنانی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت کرتے ہیں: “ أنه مَرَّ على صِبْيانٍ فَسَلَّمَ عليهم وقالَ: كانَ النبيُّ ﷺ يَفْعَلُهُ ” حضرت انس رضی اللہ عنہ کا گذر بچوں کے پاس سے ہوا تو انہوں نے بچوں کو سلام کیا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم(بھی جب بچوں کے پاس سے گذرتے تھے تو انہیں سلام) کیا کرتے تھے-(صحيح بخاري: ٦٢٤٧)
ایک روایت میں بچوں کو نمازکی تربیت کا حکم دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” مُرُوا أولادَكم بالصلاةِ وهم أبناءُ سَبْعِ سِنينَ، واضْرِبوهم عليها وهم أبناءُ عَشْرِ سِنينَ ” تم اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی عمر کے ہوجائیں، اور جب وہ دس سال کی عمر کے ہوجائیں تو (نماز چھوڑنے یا اس میں سستی کرنے پر) انہیں مارو۔(صحیح ابوداؤد: 466 ، صحیح الجامع الصغیر: 5868)
امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کاحکم دینے کی حکمت یہ ہے کہ بچے نماز کا عادی بن جائے۔(شرح السنة2/406)
عہدِ رسالت میں بچوں کو بلوغت سے پہلے ہی نماز کی طرح روزہ کی بھی تربیت دی جاتی تھی تاکہ بچپن ہی سے روزہ کی عملی مشق ہو جائے اور وہ روزہ کے عادی بن جائیں اور بڑے ہونے کے بعد ان کوروزہ رکھنے میں پریشانی نہ ہو چنانچہ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:” كُنّا نَصُومُهُ بَعْدُ، ونُصَوِّمُ صِبْيانَنا، ونَجْعَلُ لهمُ اللُّعْبَةَ مِنَ العِهْنِ، فَإِذا بَكى أحَدُهُمْ على الطَّعامِ أعْطَيْناهُ ذاكَ حتّى يَكونَ عِنْدَ الإفْطارِ” یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں روزہ رکھنے کا حکم دیا تو ہم بھی روزہ رکھتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم بچوں کے کے لئے روئی کی گڑیاں و کھلونے بنادیا کرتے تھے،جب کوئی بچہ کھانے کے لئے روتا تو ہم اس کو وہی کھلونے دے دیتے تھے(اور اس سے اس کا دل بہلاتے تھے) یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا-(بخاري: 1960ومسلم: 1136)
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ اپنے ایک فتوی میں رقمطراز ہیں:” بالغ ہونے تک چھوٹے بچوں پر روزہ فرض تو نہیں ہے لیکن روزہ رکھنے کی استطاعت ہو تو اسے روزہ رکھنے کاحکم دیا جائے گا تاکہ وہ روزہ رکھنے کی مشق و پریکٹس کرے اور اس کا اچھی طرح سے عادی ہوجاے اور بالغ ہونے کے بعد اسے روزہ رکھنے میں آسانی ہو۔اسی مقصد کے حصول کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے بچوں کو بچپن ہی سے روزہ رکھوانے کا اہتمام کرتے تھے۔(مجموع الفتاوی لابن عثیمین: 28819)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بچپن ہی سے بچوں کو قرآن کی تعلیم دینے کارواج تھا چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں:” جَمَعْتُ المُحْكَمَ في عَهْدِ رَسولِ اللَّهِ ﷺ ” میں نے اللہ کے رسول اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (بلوغت سے پہلے) ہی تمام محکم یعنی مفصل سورتوں کو یاد کرلیا تھا(صحيح بخاري: 50 36)
مذکورہ احادیث اور اس معنی و مفہوم کی دوسری حدیثوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولاد کی دینی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو ابتدائے عمر ہی سے دینی امور کی تعلیم دی جائے اور انہیں بچپن ہی سے نماز، روزہ اور تلاوتِ قرآن وغیرہ فرائض وسنن کا منطم طور پر اس طرح عادی بنا دیا جائے کہ بلوغت کے بعد اسلامی احکام پر عمل کرنے میں دشواری نہ ہو بلکہ آسانی ہو ۔ الغرض تربیت اولاد کا چوتھا اہم اصول ” بچپن سے دینی امور کی تعلیم دینا ” ہے۔