از قلم: محمد جرجیس کریمی
الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد
دنیا میں سماجی و معاشی ظلم و استحصال کا شکار ایک طبقہ عورتوں کا ہے، بلکہ عورتوںکے ساتھ امتیازی سلوک ایک مصیبت کی شکل میں ہمیشہ سے مسلط رہا ہے۔ بعض قدیم مذاہب نے عورت کو روح سے عاری مخلوق اور تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ موجودہ دور میں عورت کو محض جنسی کھلونا سمجھا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک میں خواتین کی قدر نہیں ہے۔ تمام سماجی طبقات معاشروں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اپنے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خطرے سے دو چار ہیں۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ پوری دنیا میں خواتین قتل کی جاری ہیں۔ ان کی عزت و آبرولوٹی جارہی ہے۔ انھیں ٹارچر کیا جارہا ہے اور وہ جنسی حملوں کی شکار ہیں۔ رپورٹ میں بوسنیا، روانڈامیکسیکو کے حوالے سے یہ بات کہی گئی ہے۔ عام طور پر تنازعوں کے دوران خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود دنیا کی حکومتیں عورتوں کے خلاف جرائم اور ان کے حقوق کی پامالیوں کو روکنے کے سلسلے میں خاموش ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں بھی خواتین معاشرتی رسوم و رواج کی بیڑیوں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ کبھی اسے غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے تو کبھی گھریلو تشدد یا اس پر تیزاب پھینک کر جلا دیا جاتا ہے۔ کبھی خواتین کو اغوا کرکے اجتماعی عصمت دری کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ عورت مختلف پہلوئوں سے ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ لیکن دنیا کی حکومتیں اس کے خاتمہ کے لیے سنجیدہ اور متحرک نہیں ہیں۔ ۱؎
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں وہاں کی خواتین اوسطاً ۱۲ گھنٹے کام کرتی ہیں جبکہ مردوں کے لیے اوسطاًدس گھنٹے کام کے اوقات ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ان سے زیادہ کام لینے کے باوجود مردوں سے کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔
عورتوں کا مالی استحصال صرف چین ہی میں نہیں ہوتا بلکہ پوری دنیا میں ان کا یہی حال ہے۔ وہ ہر جگہ زرعی شعبہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہیں بلکہ دنیا کے ہر تیسرے گھر میں خانگی اخراجات عورتیں چلاتی ہیں اور غذائی اجناس کے پیدا کرنے میں ان کا قابل لحاظ حصہ ہے۔ یہی کھانا بناتی اور کھلاتی بھی ہیں اور اکثر عورتیں سب سے اخیر میں اور سب سے کم کھاتی ہیں۔ وہ پہلے اپنے شوہراور بچوں کو کھلاتی ہیں اور آخر میں جو بچ جاتا ہے وہ خود کھاتی ہیں۔عورتیں مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں ہر طرح سے نظر انداز کی جاتی ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۵ سال سے زائد عمر کی سات سو چھتیس ملین خواتین یعنی تین میں سے ایک خاتون اپنوں یا غیروں کی طرف سے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ۱۵ سے ۲۴ سال کی عمر کی ۱۶ فیصد خواتین نے تشدد کا سامنا کیا۔ روزانہ ۱۴۷ خواتین اپنے قریبی رشتہ اداروں کے ذریعہ قتل ہوئی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ۳۷ فی صد اور ترقی پذیر ممالک میں ۲۲ فی صد خواتین اپنے قریبی متعلقین کے ذریعہ قتل یا تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔۲؎
سسرال والوں کی طرف سے عورتوں پر ظلم و جبر بھی ایک تلخ حقیقت ہے بلکہ ہندوستانی اس سلسلے میں کچھ زیادہ ہی آگے ہیں۔ گذشتہ دہائیوں کے مقابلے میں رواں سالوں میں ان میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔ ۲۰۱۹ء کے دوران میں ہندوستانی عورتوں پر ظلم وزیادتی کی چار لاکھ پانچ ہزار آٹھ سو اکسٹھ واقعات رونما ہوئے جو ۲۰۱۸ء کے مقابلے میں سات اعشاریہ تین فیصد زیادہ ہیں۔ ان میں اکثریت تیس فیصد شوہر اور قریبی رشتہ داروں کی طرف سے زیادتی کے واقعات پیش آئے۔ باقی اغوا اور چھیڑ خانی کے واقعات ہیں۔۳؎ اس طرح ان کا اغوا بھی اسی تناسب سے ہورہا ہے۔۲۰۰۱ء میں چودہ ہزار چھ سو چھیالیس، ۲۰۰۶ء میں سترہ ہزار چار سو چودہ، ۲۰۰۷ء میں بیس ہزار سولہ، ۲۰۰۸ء میں بائیس ہزار ایک سو انیس، ۲۰۰۹ء میں پچیس ہزار سات سو اکیس اور ۲۰۱۰ء میں انتیس ہزار سات سو پچانوے عورتوں کا اغوا کیا گیا جبکہ ۲۰۱۹ء میں چوراسی ہزار نو سو اکیس عورتوں کااغوا کیا گیا۔
ایک دوسری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گھریلو تشدد کی وجہ سے ملک میں یومیہ ۵۹ خواتین خودکشی کرلیتی ہیں۔یہاں ہر گھنٹہ عصمت دری کے ۲ واقعات اور ہر گھنٹے جہیز کے لیے ایک عورت قتل کردی جاتی ہے۔فی الجملہ ہر گھنٹہ خواتین کے ساتھ تشدد کے ۱۷ واقعات پیش آتے ہیں۔
ہندوستان میں ۲۰۱۴ء میں ۳ لاکھ ۳۹ ہزار چار سو ستاون واقعات صرف خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے تھے۔ جبکہ ۲۰۱۵ء میں ۳ لاکھ ۲۶ ہزار دو سو تینتالیس واقعات رونما ہوئے اور ۲۰۱۶ء میں ۳ لاکھ ۳۸ ہزار ۹ سو چون جرائم کے واقعات ہوئے۔ ۲۰۱۶ء میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی تعداد ۳۳۸۹۵۴ تک جا پہنچی۔ ان میں سسرال والوں کے ظلم کی شکار خواتین کی تعداد ۱۱۵۳۷۸ ہے اور ان کے خلاف چھیڑ خانی کے واقعات ۸۴۴۷۶ ہوئے اور اغوا کے ۶۴۵۱۹ معاملے درج ہوئے۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ زنا بالجبر کے ۳۸۹۴۷ واقعات رونما ہوئے۔۲۰۱۹ء اور ۲۰۱۸ء کی تفصیلات سابقہ سطور میں گذر چکی ہیں۔۴؎
عورتوں پر ظلم و ستم کا ارتکاب دنیا کے ہر خطے میں ہورہا ہے لیکن جہیز کے لیے ان کے قتل کی لعنت ’سارک‘ ممالک میں خصوصاً ہندوستان میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ ۱۹۹۸ء کے دوران ملک میں چار ہزار نو سو پچاس خواتین کو جہیزکے لالچ میں مار دیا گیا جبکہ ۲۰۱۲ء میں آٹھ ہزار دو سو تینتیس اور ۲۰۱۳ء میں آٹھ ہزار تراسی خواتین کو جہیز کے لالچ میں قتل کردیا گیا۔ یہاں ہر نوے منٹ پر ایک خاتون کو جہیز کے لیے قتل کردیا جاتا ہے۔۵؎
مجموعی طور پر عورتوں کے قتل کے واقعات میں چالیس سے پچاس فی صد جہیز کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ رجحان ۲۰۱۱ سے۲۰۱۶ء تک کا ہے۔ ۶؎
ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں لڑکیوں کی شرح پیدائش ایک کروڑ پچاس لاکھ سالانہ ہے۔ ان میں سے ایک تہائی یعنی پچاس لاکھ بچیاں اپنی عمر کی ۱۵ویں سالگرہ سے پہلے ہی مار دی جاتی ہیں۔ان اموات میں سے ایک تہائی اموات ان کی زندگی کے پہلے سال ہی واقع ہوتی ہیں اور اس کا سبب بچیوں کے درمیان تفریق و امتیاز ہے۔
رحم مادر میں بچیوں کو مارڈالنا(اسقاط حمل) بھی اس سلسلے کی ایک ہولناک حقیقت ہے۔ ۱۹۸۴ء میں چالیس ہزار لڑکیوں کو پیدائش سے پہلے مار دیا گیا۔ ایک مخصوص اسپتال میں اسقاط حمل کے دس ہزار واقعات میں صرف ایک ایسا تھا جو لڑکے کی وجہ سے کیا گیا۔ باقی تمام صورتوں میں حمل گرائے جانے کی وجہ ماں کی پیٹ میں پل رہی بچی تھی۔ لندن کی ایک میڈیکل جرنل لنسٹ(Lencet)نے ایک مطالعاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ہندوستان میں سالانہ پانچ لاکھ بچیوں کو پیدائش کے حق سے محروم کردیا جاتا ہے اور گذشتہ بیس برسوں کے دوران تقریباً ایک کروڑ مادہ جنین کو تلف کردیا گیا گویا انھیں بیٹیاں بننے سے پہلے ہی رحم مادر میں درگور کردیا گیا۔۷؎
امریکہ میں ایک سرکاری سروے رپورٹ کے مطابق پچھلے برسوں کے مقابلے میں زنا بالجبر اور اقدام زنا بالجبر کے واقعات میں تقریباً ساٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ وہاں پر سالانہ جنسی زیادتی کی تعداد ۲ لاکھ سے زائد ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ میں طرفین کی رضامندی سے قائم کیے گئے جنسی تعلقات جرائم میں شمار نہیں ہوتے۔ امریکہ میں ہر ڈھائی منٹ میں کوئی نہ کوئی عورت جبری عصمت دری کا شکار بنتی ہے اور ۸۰ فیصد لڑکیاں ۲۰ سال کی عمر تک کبھی نہ کبھی جبری عصمت دری کا شکار ہوچکی ہوتی ہیں۔ دس لاکھ کمسن بچیاں ہر سال زنا بالرضا سے حاملہ ہوتی ہیں جن میں تقریباً آدھی تعداداسقاط کراتی ہیں۔
روس میں اقوام متحدہ کی طرف سے ایک شائع شدہ رپورٹ کے مطابق ہر چھ منٹ پر ایک عورت زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہے۔ ان میں ہر چوتھی ۱۸ سال سے کم عمر کی لڑکی ہوتی ہے۔۸؎
چین میں عورتوں پر جنسی حملوں اور تشدد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ یہاں گھریلو تشدد کے ۷ئ۲۴ فی صد واقعات ۲۰۰۶ء تا ۲۰۱۰ء کے درمیان رونما ہوئے۔
ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ ’’وومن بزنس اینڈ دی لا-۲۰۱۹ئ‘‘کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۱۸۷ ممالک کے مشاہدے کے بعد مرد عورت کے درمیان مکمل مساوات صرف ۶ ممالک میں پائی گئی ہے۔ امریکہ کی راجدھانی واشنگٹن میں قائم اس ادارے نے اس سال تک مالی و قانونی عدم مساوات اور نقل و حرکت کی آزادی، زچگی، گھریلو تشدد اور اثاثہ جات کے انتظام کے حقوق سے متعلق مختلف پہلوئوں کا مشاہدہ کیا۔ ورلڈ بینک نے صرف بلجیم، ڈنمارک، فرانس، لیٹوویا، لیگزم برگ اور سوئیڈن کو ایسے ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جہاں ان تمام پہلوئوں پر دونوں صنفوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ ان کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ عالمی سطح پر مردوں کو ملنے والے حقوق میں سے خواتین کو صرف ۷۵ فیصد حقوق ہی مل پاتے ہیں۔ دیگر معاملات میں ان سے امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ مختلف علاقوں میں مرد و خواتین کے درمیان منقسم حقوق کی اوسط تعداد میں واضح فرق دیکھنے میں آرہا ہے۔ یورپ اور وسط ایشیا میںاوسط تعداد چوراسی اعشاریہ سات فیصد تھی جبکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں یہ تعداد سینتالیس اعشاریہ تین فیصد تک گرگئی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ۷۵ئ۸۳ تعداد کے ساتھ امریکہ جیسے ملک کا شمار اس فہرست میں شامل پہلے ۵۰ ممالک میں بھی نہیں ہوتا ۔ واضح رہے کہ ہندوستان صنفی مساوات کے معاملہ میں ۳۷ ویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ بینک کی قائم مقام صدر کرسٹالینا جارجیوا (Kristalina Georgieva) کہتی ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ صنفی مساوات قائم کرنے کے لیے صرف قوانین میں تبدیلی کافی نہیںہے بلکہ ان قوانین کو بامقصد طریقے سے نافذ کرنیکی ضرورت ہے اور اس کے لیے سیاسی طور پر مصمم ارادے، معاشرے کے اندر خواتین و مردوں کی قیادت اور معاشرے میں رچے بسے ثقافتی معمولات اور رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔۹؎
تھامسن رائٹرس فائونڈیشن کی طرف سے جاری کیے گئے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے تئیں جنسی تشدد، ہیومن اسمگلنگ (بردہ فروشی) اور جنسی کاروبار میں ڈھکیلے جانے کی بنیاد پر ہندوستان کوخواتین کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک قرار دیا گیاہے۔جہاں سب سے زیادہ جنسی زیادتی اور جبری مشقت کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ افغانستان ، کانگو اور شام دوسرے اور تیسرے نمبر پر جبکہ صومالیہ چوتھے اور سعودی عرب پانچویں مقام پر ہیں۔ اس سروے میں خواتین کے تئیں جنسی تشدد کے خطروں کے لحاظ سے واحد مغربی ملک امریکہ ہے۔
یہ سروے رپورٹ ۲۰۰۷ء تا ۲۰۱۶ء دس سا ل کا احاطہ کرتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں تراسی فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ۱۰؎
مغربی ممالک میں بنیادی حقوق ، انسانی حقوق، مساوی حقوق، حقوق نسواں اورآزادیٔ نسواں کا خوب غلغلہ بلند ہوا اور بعض پہلوؤں سے عورتوں کو مغربی ممالک میں حقوق مل بھی گئے لیکن اس کے باوجود عورتوں کی مظلومیت ختم نہیں ہوسکی۔ تحریک آزادی نسواں کی وجہ سے خواتین جب مردوں کے برابر کھڑی ہوئیں تو دونوں کی رفیقانہ حیثیت بری طرح متاثر ہوئی اور اب وہ دونوں حریفانہ جذبات میں مبتلا ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ مردوں کو فطری طور پر تمام انسانی سماجوں میں تفوق اور تسلط حاصل ہے۔ چنانچہ مغربی دنیا میں بھی مردوں نے عورتوں کی برابری کو دل سے قبول نہیں کیا اور مختلف پہلوئوں سے عورتوں کو ذہنی، جسمانی اور معاشرتی طور پر زد و کوب اور تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔
ماہرین سماجیات نے خواتین پر تشدد کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں۔ جسمانی جیسے مارپیٹ، جنسی یعنی بہ جبر جنسی تعلقات قائم کرنا، مالی یعنی عورتوں کی کمائی پر مردوں کا قبضہ، سماجی یعنی عورتوں کی تذلیل و تحقیر کرنا، جذباتی یعنی فریق مخالف کو مشتعل کرنے کے لیے غصہ دلانا یا رنج و غم میں مبتلا کرنا اور نفسیاتی یعنی ڈرانا دھمکانا۔ ان تمام صورتوں سے مغربی دنیا خصوصاً اور پورے عالم میںعموماً عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کثرت سے رونما ہونے لگے۔ مجموعی طور پر دنیا کی ایک تہائی خواتین گھریلو تشدد کاشکار ہوتی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پوری دنیا میں قتل ہونے والی عورتوں میں سے چالیس فی صد ایسی خواتین ہیں جن کے قتل کرنے والے ان کے شوہر یا بوائے فرینڈ ہیں۔ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی دنیامیں خواتین پر ظلم و تشدد کے خاتمہ کے ضمن میں مختلف کوششیں ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود عورتوں پر ظلم و تشدد کے واقعات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔
یورپی ممالک میں گھریلو تشدد کی خراب صورت حال کے مد نظر ۲۰۰۲ء میں کونسل آف یوروپ نے گھریلو تشدد کو پبلک ہیلتھ ایمرجنسی ڈکلیر کردیا تھا۔ بیس سال کا عرصہ گذر جانے کے بعد اب کیا صورت حال ہوگی اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ پوری دنیا میںگھریلو تشدد کے جتنے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں ان میں ایک تہائی تعداد امریکہ اور برطانیہ کی ہوتی ہے۔ ۲۰۰۲ء میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں ہر سال تیرہ لاکھ عورتیں اپنے رفقاء (شوہر یا پارٹنر) کے ذریعہ جسمانی تشدد اور ایذا رسانی کا شکار ہوتی ہیں۔
۱۹۹۹ء میں ۳۵ ممالک میں کرائے گئے ایک سروے سے واضح ہوتاہے کہ ۵۲ فیصد خواتین زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے رفیق حیات کی جانب سے تشدد کاشکار ہوئی ہیں۔۱۰؎
بر صغیر ہندوستان اور پاکستان میں عورتوں کی حالت بہت بہتر نہیں ہے۔ پاکستان میں نوے فیصد عورتیں اپنے گھروں میں جسمانی، جنسی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کاشکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں ستر فیصد شادی شدہ عورتیں پندرہ سے انچاس سال کی عمر میں گھریلو تشدد کاشکار ہوتی ہیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں یومیہ چودہ خواتین اپنے شوہروں کے ہاتھوں موت کا شکار ہوتی ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق ہر تین منٹ میں ایک عورت مجرمانہ فعل کا شکار ہوتی ہے اور ہر چھ گھنٹے میں ایک شادی شدہ عورت کی پٹائی سے موت ہوجاتی ہے یا اسے زندہ جلا دیا جاتاہے یا خود کشی پر مجبور ہوتی ہے۔۱۱؎
خلاصہ بحث یہ کہ موجودہ دور میں خواتین مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں ہر طرح کے ظلم و استحصال کی شکار ہیں اور نیم غلامی کی زندگی گذار رہی ہیں۔
قحبہ گری کا پیشہ بھی بنیادی طور پر عورتوں کے ذریعے چلتا ہے۔ہندوستان میں ۲۰ لاکھ خواتین قحبہ گری سے جڑی ہیں۔ یہاں قحبہ گری قانوناً ناجائز نہیں ہے۔ ملک میں قحبہ گری کے کچھ مخصوص مذہبی، سماجی اور قبائلی طریقے بھی رائج ہیں۔ ان میں دیوداس، بچاڑا قبیلہ، پوروا اور واڈیا گائوں جیسے قحبہ گری صورتیں کافی مشہور ہیں۔ذیل میں اس کی تھوڑی تفصیل درج کی جاتی ہے۔
دیوداسی کا لفظی مطلب خدا کی باندی ہے، قدیم زمانے جوان عورتوں کو مقامی دیوتائوں سے شادی کردی جاتی تھی۔ یہ عورتیںمندر کی پوجاکے علاوہ رقص و سرود میں مہارت رکھتی تھیں۔ اس وجہ سے دیوداسیوں کو راجا، مہاراجا حتی کہ ادنی سطح پر راجواڑوں سے بیاہا جاتایا بغیر شادی انھیں ان لوگوں کے حرم میں جگہ ملتی اور آرام و سکون سے زندگی گذارتی ۔ ملک میں انگریزوں کی حکمرانی سے مقامی حکمرانوں کی حکمرانی ختم ہوگئی اس لیے یہ عورتیں قحبہ گری پر مجبور ہوگئیں۔ ۱۹۸۸ء میں اس نظام کے خلاف قانونی انسدادکے باوجود آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور کرناٹک میں ہزاروں خواتین اس نظام میں پھنسی ہوئی ہیں۔ پورے جنوب میں ان دیوداسیوں کی تعداد اور ان کی حالت زار کا اندازہ صرف اس سے کیا جاسکتا ہے کہ۱۹۹۰ء کے ایک جائزے کے مطابق ریاست کرناٹک کے ضلع بیل گام میں چار ہزار آٹھ سو دیوداسیاں اور بیجاپور میں آٹھ ہزار دیوداسیاں جن کی ایک قابل لحاظ تعداد کو چوری چھپے پیشہ کرانے کے لیے ممبئی کے قحبہ خانوں میں بھیج دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے جائزے کے مطابق کرناٹک اور مہاراشٹر میںان دیوداسیوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔ ان دیوداسیوں سے پیشہ کرانے میں سبکدوش سرکاری افسروں کا بھی ایک گروہ شامل ہے۔۱۲؎
ہندو دھرم میں عورت اور مرد کی شادی اسلام کی طرح سماجی معاہدہ نہیں ہوتی بلکہ ہندوروایت میں یہ کنیا دان ہوتا ہے۔ گئودان کی طرح کنیا(لڑکی) بھی دان یعنی خیرات میں دے دی جاتی ہے اور ظاہر ہے جو چیز دان میں دے دی جائے وہ پھر واپس نہیں لی جاتی۔ چنانچہ شوہر کی وفات یا طلاق کی صورت میں لڑکی اپنے میکے باپ بھائی کے یہاں واپس نہیں جاتی پھر تو وہ زندگی بھر سسرال کی غلام بن کر رہے۔ میکے یا سسرال یا باپ بھائی اور شوہر کی جائداد سے اس کا حصہ نہیں اسی بنا پر وہ شوہر کی وفات یا اس کی علاحدگی کی صورت میں وہ نیم غلامی کی زندگی ہی بسر کرسکتی ہے۔ ہندو سماج میں بیوہ کی اس حالت زار نے اس کے لیے ستی کی ضرورت کو پیدا کیا مگر حکومت نے اس کے انسداد کے قوانین بنائے جس کی وجہ سے اس میں کمی آئی مگر بالکلیہ ختم نہیں ہوئی۔ دوسری طرف جو بیوائیں ستی کی لعنت سے بچ جائیں وہ کاشی و متھرا کے آشرموں میں پناہ لینے پر مجبورہوتی ہیں۔ یہ بیوائیں جو نیم فاقہ کشی اور نیم غلامی میں بسر کرتی ہیں۔ بندرابن میں تین تین گھنٹے بھجن گانے کے بعد انھیں دو روپے اور ایک کپ غلہ ملتا ہے۔و اضح رہے کہ بندران بن میں ان بیوائوں کی تعداد سولہ ہزار اور بنارس (کاشی) میں سولہ ہزارسے زائد ہے۔۱۳؎
بن چاڑا قبیلہ و دیگر قبائل میں جسم فروشی کا کار و بار عام ہے۔ اس قبیلے میں بطور خاص خاندان کی سب سے بڑی لڑکی کو بچپن سے قحبہ گری کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس قبیح رواج کو اجاگر کرنے کے لیے کئی ڈاکومنٹری فلمیں بن چکی ہیں۔ ۲۰۰۴ء میں میسٹل براہے نے ہائی وے کارٹیسن (شاہراروں کی رقاصائیں) نامی ایک ڈاکومنٹری تیار کیاتھا۔۱۴؎
نٹ پوروا: یہ ریاست اترپردیش کے ہردوئی ضلع کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ اس کی آبادی بے حد غریب اور نٹ قبیلے سے ہیں۔ جو اسی پر چلنے اور دیگر کرتب بازیوں سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ گردش دوران کے تحت یہ قبیلہ بھی قحبہ گری سے وابستہ ہے۔
راڈیا گاوں: یہ گائوں پورے بھارت میں قحبہ گری کے میدان میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ شمالی گجرات میں واقع ہے۔ یہاں گھر میں کسی لڑکی کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے کیونکہ اسے خاندان کے لیے ایک اور ذریعہ روزگار تصور کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ لڑکیوں کو قحبہ گری کے لیے تیار کرتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں بارہ برس کی عمر میں اس کاروبار کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لڑکے دلالوں اور بچولیوں کا کام انجام دیتے ہیں۔۱۴؎
حواشی و مراجع:
۱- قومی آواز، ۷؍ مارچ ۱۹۹۵ئ، چھبیس سال پہلے دنیا میں عورتوں کی جو صورت حال تھی آج بھی ہو بہو وہ قائم ہے۔ اگر ظاہری طور پر کہیں ترقی اور بہتری آئی ہے تو اس اعتبار سے عورتوں پر مظالم کے نئے نئے طریقے ایجاد کرلیے گئے ہیں۔
تازہ اعداد و شمار کے لیے دیکھئے: Worldhealthorganization violence against women, 9 March 2021
۲- https//www.unwomen.org/enwath-do/ending
violence against woment/factsandfigures
۳- National crime records bureau Ministry of Home Affairs 2019
۴- National crime records bureau Ministry of Home Affairs 2019
۵- National crime records bureau Ministry of Home Affairs 2013
۶- حوالہ سابق، ۲۰۱۶ء
۷- ماہنامہ افکارِ ملّی، نئی دہلی،قاسم رسول الیاس، ہندوستان-لڑکیوں کا مقتل، فروری ۲۰۰۶ء
۸- ہفت روزہ، ایشیا ، لاہور، ۱-۷ ستمبر ۲۰۰۵ء
۹- وومن بزنس اینڈ دی لا،۲۰۲۱ء و ۲۰۱۹،(Women business and the law) دیکھئے : انٹرنیٹ مذکورہ عنوان کے ذیل میں
۱۰- تھامسن رائٹرز فائونڈیشن کرائم اگینسٹ وومن، ۲۰۱۸ء
۱۱- گھریلو تشداور اسلام، ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی، مرکزی مکتبہ اسلامی، پبلشرز
۱۱- Forewerd on who Multicountry study on women’s death and domestic violence againes the women
www.nationalvolenceagainstwomensurvay2000
۱۲- دی ہندوستان ٹائمس، نئی دہلی، ۲۱؍ مئی ۱۹۹۹ئ، زیر عنوانDevdasis being forced into prostituion
۱۳- دی ہندوستان ٹائمس، نئی دہلی، ۱۴؍ فروری ۲۰۰۰ئ، ملاحظہ ہو: ارادھناکا لیا کا مضمون Left to his mercy the sing his praise to …. their existence، دی ہندوستان ٹائمس، نئی دہلی ۱۷؍فروری ۲۰۰۰ئ، ملاحظہ ہو: سبھا مووی چٹر جی کا مضمون ، وائی بنگال وومن مائگریٹ ٹو ورینداون
۱۴- وکی پیڈیا، بھارت میں قحبہ گری کا نظام