از قلم:✒️ از قلم: محمد فهد الله بن محمد سعود عالم
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ادیب و بلیغ نے کیا ہی خوب فرمایا “قد ينعم الله بالبلوى وإن عظمت-و يبتلى الله بعض القوم بالنعم”
مصیبت چاہے جتنی بھی بڑی ہو کبھی کبھار اللہ تعالٰی اسے نعمت میں بدل دیتے ہے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ لوگوں کو نعمتیں عطا کرکے آزمائش میں ڈال دیتے ہے۔
📌 محترم قارئین: انسان مرد ہو یا عورت،امیر ہو یا غریب ہر طبقہ انسانی کو مصائب و مشکلات سے دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔جس طرح کے ناگفتہ بہ حالات لاک ڈاؤن میں رونما ہوئے۔ اس کی وجہ سے کئی لوگوں کی کمر ٹوٹ گئی،کسی کو مالی طور پر خسارہ اٹھانا پڑا، تو کوئی ذہنی دباؤ میں ملوث ہوکر دم توڑ گیا۔لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کبھی یہ تصور تک نہیں کیا تھا کہ مستقبل میں ایسی بڑی آزمائش بھی آسکتی ہے۔بہر کیف حالات ایسے پیش آئے کہ کئی انسانی شعبوں پر کافی اثر پڑا اور وہ بکھر گئے۔ قدر الله وما شاء فعل
چاہیں حالات جو بھی ہوں ایک مسلم و مومن بندے کو چاہیئے کہ وہ ان آفتوں سے محفوظ رہنے کیلئے رب کریم سے خصوصی دعائیں کرے اور ڈٹ کر مقابلہ کرے اور اپنی تمام تر مشکلات کا حل اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ سے طلب کرے،تبھی جا کر ناممکن چیز ممکن میں تبدیل ہو پائيگی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہیکہ انسان کبھی خوش رہتا ہے تو کبھی غمگین کیونکہ اللہ تعالی کی یہ سنت رہی ہیں۔”فإن مع العسر يسرا“پس یقینا تنگی کے ساتھ آسانی ہے یہ رب تعالی کا نظام رہا ہے کہ اگر بندے آفتوں اور مصیبتوں کے وقت صابر و شاکر رہتے ہیں تو اللہ تعالی اپنے بندوں کو ان مصائب و مشاکل کے بعد فلاح و بہبود سے نوازتا ہے۔بس ہمیں ہر مشکل گھڑی میں مشکل کشا اللہ رب العالمین سے سوال کرنا ہوگا۔ اسی سے امیدیں وابستہ رکھنی ہوگی تبھی جا کر ہماری پریشانی و آزمائش باآسانی رفع دفع ہو پائيں گیں۔
قارئین :ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ہر انسان مصیبتوں اور آزمائشوں سے گھرا ہوا ہے۔ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو بھی بڑی بڑی آفتیں آئیں لیکن انہوں نے ثبات قدمی و عمل پیہم کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی سے رفع کرب کی امید رکھی۔اپنی بلاؤں کو لوگوں کے سامنے رکھنے کے بجائے اللہ کے سامنے رکھا جو غنى و حمید ہے۔سلف میں سے کسی نے کہا کہ” لا تسأل الناس،سل من أنت له “۔بس اگر مسلمانان عالم نے مومنانہ زندگی اختیار کرلی اور ہر خوشی و غمی کے موقع پر تقدیرے الٰہی سے راضی ہوگئے تو وہ دن دور نہیں کہ ہمیں اللہ دین اور دنیا دونوں میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار فرمائے۔مشکلات کا سامنا کرنا ایک مومن مجاہد کی پہچان ہوتی ہے۔آپ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کو پڑھیں جو خلیل اللہ تھے۔اللّٰہ نے آپ کے متعلق فرمایا” إِنَّ إِبۡرَ ٰهِیمَ كَانَ أُمَّةࣰ قَانِتࣰا لِّلَّهِ حَنِیفࣰ ا(سورة النحل:١٢٠)۔جب انہیں آگ میں ڈالا جارہا تھا تو ان کا ایمان و یقین صرف اور صرف اللہ پر تھا۔ جس کی وجہ سے وہ آگ ٹھنڈی پڑ گئی۔اقبال نے کیا ہی خوب کہا!!
آج بھی ہو جو ابراھیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
🕯️ قارئین گرامی: گر ہم اسلاف کرام رحمهم الله کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ہمیں یہ بات بخوبی معلوم ہوگی کہ اسلاف کرام مصیبتوں پر رنج و غم کرنے کے بجائے اسکا ڈٹ کر مقابلہ کرتے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ ہمارے لئے اسوہ و نمونہ ہیں۔ آپ جب اپنے رفیق ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ تو اس مشکل ترین وقت میں آپ نے اپنے ساتھی سے کہا” لَا تَحۡزَنۡ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَنَ ا(سورة التوبة: ٤٠) تم غم نہ کروں اللّٰہ ہمارے ساتھ ہیں۔
اور جب انسان زندگی کے مشاکل و مصائب کو دیکھ کر مایوس ہو جاتا ہے۔تو اس کی زندگی کا ہر لمحہ نا خوشگوار گزرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے ایسی مایوسی کو گمراہ و دین بیزار لوگوں کی صفت گردانا ہے۔رب دو جہاں نے فرمایا: ومن يقنط من ربه إلا الضالون. اور گمراہ لوگ ہی اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوتے ہیں۔عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے” لا تنال الغرر إلا بركوب الغرر “کہ بلندی خطرناک مراحل سے گزرنے کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔تو ہمیں معلوم ہوا کہ حالات سے بیزار و مایوس ہونے والا شخص اصل میں دین سے بیزار ہوتا ہے اور حالات سے لڑنے والا انسان ہی اصل مومن و مجاھد ہوتا ہے۔
۔آج لوگ لاک ڈاؤن کے خستہ حالات سے گھبرا گئے،اپنے ایمان کو کمزور کر بیٹھے۔کیا رب کائنات نے ہمیں یہ نہیں فرمایا“وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ:اور ہم ضرور تمہیں ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے”۔ جب ہمیں یہ پتا ہیکہ زندگی میں ایسے نازک موڑ آئیں گے۔ تو لاک ڈاؤن ہو یا کورونا جیسی مہلک بیماری۔جس طرح کی بھی آزمائش و آلام کیوں نہ ہو! ہمیں گھبرانا نہیں ہے۔بلکہ ڈنکے کی چوٹ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہوگا۔اور بے صبرا نہیں ہونا ہے۔کیونکہ ہم توحید پرست و متبع سنت کے دعوےدار و فرمابردار ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اسی آیت کے ٹکڑے کے بعد ارشاد فرمایا” وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ (سورۃ البقرۃ:۱۵٦)۔اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے! کہ جب انہیں مصیبت پہنچتی ہے۔تو وہ کہتے ہیں: یقینا ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔
قارئین محترم: ہم مسلمانان عالم توحید دیگر تمام مذاہب باطلہ کے لئے اسوہ اور نمونہ ہیں۔ آپ غور کریں! کتنے ایسے ادیان ضالہ ہیں۔ جن کے بڑے سے بڑے ماننے والے ایمان باللہ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا نہ کر پائے اور خودکشی جیسے عظیم گناہ کے مرتکب ہو گئے۔لیکن الحمدللہ ثم الحمدللہ مسلمانوں میں یہ جرم و گناہ بہت کم پایا جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے اندر ایمانی تعلیمات کی روح پھونک دی ہے۔ اور جب کبھی مسلمان تنازع و اختلاف کا شکار ہوتے ہیں تو”فردوه إلى الله”پر عمل گیر ہوتے ہیں۔اسی وجہ سے دین اسلام سراپا دین رحمت ہے۔ یہ ساری دنیا کے لوگوں کے لئے نمونہ ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:
نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
قارئین عظام: انسانی زندگی میں گوناگوں مشکلات آتی ہی رہتی ہیں۔ کوئی مالی طور پر پریشان رہتا ہے، تو کوئی دماغی طور پر پریشان رہتا ہے۔ تو کوئی زندگی کو ہی مشکل سمجھ بیٹھتا ہے۔ تو کوئی زمانہ کی برق رفتاری کو دیکھ کر مستقبل کو مشکل سمجھ جاتا ہے۔ چاہے جو بھی ہو حالات میں اتاڑ چڑھاؤ ہونا زندگی کا حصہ ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نا گفتہ موڑ آئے لیکن آپ نے اللہ سے التجائیں کی،ایمان و یقین رکھا۔جس کی وجہ سے بڑی سی بڑی آزمائش آسان و سہل ہوگئی۔ اگر آپ کی خانگی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آپ کو قریش مکہ نے نا زیبا و برے القاب سے پکارا،تو کبھی آپ كو دعوت دین کی راہ میں لہولہان کیا گیا۔ لیکن آپ نے ہر مشکل گھڑی میں اللہ سے وابستگی رکھی۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج دین مسلمان دنیا کے چپے چپے میں بشكر الله موجود ہیں۔اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو خلق قرآن کے مسئلہ میں نظر بند کیا گیا۔اور حاکِم وقت نے طرح طرح کے ظلم و جور کیے لیکن آپ اپنے موقف پر اٹل رہے۔اور اپنی بے مثال علمی خدمات پر”إمام أهل السنة”سے نوازے گئے۔تو ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر ہم بھی اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلے اور مشکلات کا سامنا کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ ہم پر بھی اپنی خاص مدد و نصرت فرمائے گے۔
»مشکلات کا سامنا کرنا یہ مؤمنانہ صفت ہے۔ اور انبیاء کرام کا طریقہ زندگی کا اصل ہے۔ اگر آپ انبیاء کرام کے نقوش اوراق کا مطالعہ کرتے ہیں۔تو معلوم ہوگا کہ ہر نبی کی زندگی مشکل مرحلوں سے گزری ہوئی نظر آئيگی۔اگر آپ ایوب علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگی کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ آپ کئی سالوں تک چیچک جیسی بیماری میں مبتلا رہے۔آپ کے سارے قریبی لوگ آپ کو چھوڑ کر الگ تھلگ رہنے لگے سوائے آپ کی بیوی کے۔اس مشکل گھڑی میں آپ نے بارگاہِ الٰہی میں عبادات کا سلسلہ رواں دواں رکھا اور بالآخر آپ کو شفا یابی نصیب ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے متعلق فرمایا:وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ۔(۸۳)فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ۔۔۔۔الخ الآية۔۔ترجمہ: اور ایوب کو یاد کرو! جب انہوں نے اپنے رب سے دعا کی مجھے تکلیف لاحق ہوئی ہے۔اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔تو ہم نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور جو ان کو تکلیف پہونچی وہ دور کردی اور انہیں بال بچے بھی عطا فرمائے۔(تفسیر ابن کثیر- سورۃ الانبیاء:۸۳)
» خلاصہ تحریر یہ ہے کہ جس ترقی یافتہ دور سے ہم گزر رہے ہیں۔یہ دور بڑا ہی پر فتن و آزمائش کا دور ہے۔ آئے دن نت نئی چیزیں دیکھنے اور پڑھنے کو ملتی ہیں۔ بس ہمیں اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر راضی و شاکر ہوجانا چاہیے۔ اور جب کبھی بھی مشکلات و مصائب سے دوچار ہونا پڑے۔ تو اس حدیث کو اپنی نظروں کے سامنے رکھیں!! صحیح مسلم کی حدیث ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا” إِنْ أَصَابَتْهُ سَرَّاءُ شَكَرَ فَكَانَ خَيْراً لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خيْراً لَهُ. (رواه مسلم:۲۹۹۹) اگر مومن کو خوشی پہونچتی ہیں تو وہ شکر کرتا ہے وہ اس کیلئے بہتر ہے۔اور اگر اسے تکلیف پہونچتی ہیں تو وہ صبر کرتا ہے اور وہ اس کیلئے بہتر ہے۔
۔اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ رب العالمین ہم تمام کی پریشانیوں کو دور کردے اور ساری دنیا کے لوگوں کو کورونا مہماری سے نجات دے۔ آمین یا رب العالمین
۔۔۔۔۔۔۔۔,۔۔۔۔۔۔۔۔۔,,۔۔۔۔۔۔۔۔۔