از قلم: ندیم أختر سلفی مدنی
داعی اسلامک دعوہ سینٹر ,حوطہ سدیر,سعودی عرب
ê گزرے ہوئے نیک لوگوں کا یہ حال تھا کہ جب شعبان کا مہینہ آتا تو قرآن کی تلاوت کا زیادہ اہتمام کرتے، رمضان کے روزے پر کمزور اور فقراء ومساکین کو تقویت پہنچانے کی خاطر اپنے مال کی زکاۃ نکالتے، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ: میں نے آپ کو ماہِ شعبان جتنے نفلی روزے کسی دوسرے مہینے کے رکھتے نہیں دیکھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ذَاكَ شَهْرٌ يَغْفَلُ النَّاسُ عَنْهُ، بَيْنَ رَجَبَ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ العَالَمِينَ، عَزَّ وَجَلَّ، فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ) (یہ ایسا مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں، یہ مہینہ وہ ہے کہ جس میں لوگوں کے اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں اور میںیہ چاہتا ہوں کہ میرا عمل ایسی صورت میں اٹھایا جائے کہ میں روزے کی حالت میں ہوں) رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ، وَحَسَّنَهُ الْأَلْبَانِيُّ.
êاس ماہ کے مقام سے ہٹ کر بعض لوگوں نے شعبان کی پندرھویں رات کو جشن وعبادت اور اس کے دن کو رورزہ کے لئے جو خاص کیا ہے وہ بدعات میں سے ہے ، اس عمل پر کوئی صحیح دلیل نہیں جس پر اعتماد کیا جاسکے، اس رات کی فضیلت میں چند ضعیف حدیثیں ہیں جو قابل اعتماد نہیں، اسی طرح اس رات میں خصوصی طور پر نماز کے تعلق سے جو حدیثیں وارد ہیں وہ سب منگھڑت ہیں، جمہور علماء کا جس پر اجماع ہے وہ یہ کہ اس رات کا جشن بدعات میں سے ہےشریعت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں، بلکہ عصرِ صحابہ کے بعد اسے اسلام میں ایجاد کرلیا گیا ہے۔
êنصف ِ شعبان کے متعلق مسند احمد میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (يَطَّلِعُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا لِاثْنَيْنِ مُشَاحِنٍ وَقَاتِلِ نَفْسٍ)(بیشک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو جھانکتے ہیںاور ایک دوسرے سے بغض و عداوت رکھنے والوں اور خود کشی کرنے والے کے علاوہ ساری مخلوق کو بخش دیتے ہیں)(اور سنن ابن ماجہ میں یہ اضافہ ہے)(إِلَّا لِمُشْركٍ، أَوْ مُشَاحِنٍ)(شرک کرنے والے اور باہم بغض و عداوت رکھنے والوں کے علاوہ)، اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیں تو اس میں پندرہ شعبان کو خاص طور پر روزہ رکھنے کی کوئی دلیل نہیں ، مغفرت کو نصف ِ شعبان کے روزے اور اس کی رات کی عبادت سے نہیں جوڑا گیا ہے، بلکہ اسے توحید اور نفس کی صفائی سے جوڑا گیا ہے کہ جو مشرک اور کینہ پرور نہیں ہوگا اللہ اس کے گناہوں کو معاف کردے گا، اور یہ مغفرت شعبان کی صرف اسی رات تک محدود نہیں بلکہ صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہر پیر یعنی سوموار اورجمعرات کو جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں پھر ہر اس بندے کو بخش دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرتا ہو، سوائے ان لوگوں کے جن کے درمیان کینہیا نفرت ہو ، تو کہا جاتا ہے کہ ان کو تب تک رہنے دو جب تک یہ صلح نہ کرلیں، ان کو تب تک رہنے دو جب تک یہ صلح نہ کرلیں،ان کو تب تک رہنے دو جب تک یہ صلح نہ کرلیں۔(مسلم ح:2565 بروایت ابو ہریرہ)