از قلم:مامون رشید بن ہارون رشید سلفی۔
رمضان المبارک کا عظیم مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہے، رمضان کی فضیلت اس کی اہمیت اور مقام و مرتبہ کسی سے مخفی نہیں ہے، ہر فرد اپنے اپنے طور پر اس کی رحمتوں برکتوں اور نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کی کوشش کر رہا ہے، جس کو جس قدر توفیق ملتی ہے وہ اس خزانہ ثواب سے جیب وداماں بھرنے میں کامیاب ہوتا ہے جب کہ کچھ ظالم اور بدحظ وبدنصیب ایسے بھی ہیں جو مواقع ملنے اور فرصتیں میسر ہونے کے باوجود بھی خالی ہاتھ رہنے اور عاقبت کے خسران وخذلان کو ترجیح دیتے ہیں۔۔۔اعاذنا اللہ من طریقہم
حصول ثواب کے بہت سارے راستے ہیں جو کتاب و سنت صحیحہ میں بصراحت مذکور ہیں انہیں میں سے ایک تلاوت قرآن بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:”جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی خسارہ میں نہ ہوگی، تاکہ ان کو ان کی اجرتیں پوری دے اور ان کو اپنے فضل سے زیادہ دے بیشک وہ بڑا بخشنے والا قدر دان ہے”۔(سورہ فاطر آیت 29-30)
حضرت انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ لوگوں میں سے کچھ افراد اللہ والے ہوتے ہیں۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا:’’ قرآن والے ،وہی اللہ والے اور اس کے خاص بندے ہیں۔‘‘(رواہ ابن ماجہ 215 وصححہ الالبانی رحمہ اللّٰہ)
قرآن والے یعنی قرآن پڑھنے والے،دن رات اس کی تلاوت میں غرق رہنے والے،اسے یاد کرنے والے، احادیث رسول ﷺ کے ذریعے اس کا فہم حاصل کرنے والے، اس پر عمل کرنے والے، اور اس کی تبلیغ کرنے والے، یہ سب قرآن والوں میں شامل ہیں۔قرآن کے ساتھ تعلق رکھنے والے اللہ کے خاص بندے اور اس کے مقرب ہیں، یہ بہت بڑا شرف ہے کہ اللہ نے انہیں اپنا قرار دیا ہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:” جسے اس بات کی خوشی ہو کہ اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت کرے تو وہ مصحف کی تلاوت کرے” (أخرجه البيهقي في شعب الإيمان 2/890 وحسنه الألباني في صحيح الجامع)
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قرآن کریم(صحت کے ساتھ) پڑھنے میں ماہر (قیامت کے دن)معزز نیکوکار فرشتوں کے ساتھ ہوگا۔اور جو شخص اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے پڑھنے میں مشقت ہوتی ہے ،اس کے لئے دگنا اجر ہے۔ (رواہ مسلم فی الصحیح 1862)
ابو امامہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن کی تلاوت کیا کرو کیونکہ قرآن بروز قیامت قارئ قرآن کا سفارشی بن کر آئے گا”(أخرجه مسلم في الصحيح 804)
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اس مومن کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے نارنگی کی سی ہے اس کی خوشبوبھی عمدہ ہے اور اس کا ذائقہ بھی خوشگوار ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرتا کھجور کی سی ہے اس کی خوشبو نہیں ہوتی جبکہ اس کا ذائقہ شیریں ہوتا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے نیاز بو (ریحانہ)جیسی ہے اس کی خوشبو عمدہ ہے اور ذائقہ کڑوا ہے اور اس منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اندرائن کی طرح ہے جس کی خوشبو بھی نہیں ہوتی اور اس کا ذائقہ (بھی سخت ) کڑوا ہے۔(متفق علیہ)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی،اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی ، میں نہیں کہتا ‘ الم ‘ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے”۔(رواہ الترمذی 2910 وصححہ الالبانی)
اور چونکہ زمان ومکان کے اعتبار سے عبادات کے ثواب میں تفاوت ہوتا ہے لہذٰا اگر کوئی رمضان کے مہینے میں تلاوت قرآن کا اہتمام کرتا ہے تو یقیناً اسے دوسرے مہینوں کے بنسبت زیادہ اجر و ثواب سے نوازا جائے گا…
قارئین کرام اس تحریر سے میرا مقصد تلاوت قرآن کی فضیلت بیان کرنا نہیں ہے کیونکہ یہ مسلم ومعلوم شئ ہے بلکہ یہ ذکر کرنا مقصود ہے کہ سلف صالحین کس درجہ اہتمام کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے آئیے سلف صالحین اور ائمہ کرام کے واقعات واقوال کی روشنی میں اس چیز کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمارے اندر بھی جذبہ پیدا ہو اور ہم بھی قرآن کو ہر آن اپنے سینوں سے لگائے رکھیں۔
حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں: اگر تمہارے دل پاک صاف ہوں تو تم کبھی قرآن کی تلاوت سے سیراب نہیں ہوگے”
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے قرآن مجید حفظ کر لیا، پھر میں نے ایک ہی رات میں اس کی تلاوت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے خطرہ ہے کہ طویل وقت گزرنے پر تم کو اکتاہٹ پیش آجائے گی۔ اس لیے ایک مہینے میں (پورے) قرآن کی تلاوت کیا کرو۔‘‘ میں نے کہا: مجھے اپنی طاقت اور جوانی سے فائدہ اٹھا لینے دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’پھر دس دن میں( پورا) قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘ میں نے کہا: مجھے اپنی طاقت اور جوانی سے فائدہ اٹھانے دیں۔ فرمایا: ’’پھر سات دن میں( پورا) قرآن پڑھ لیا کرو۔‘‘ میں نے کہا: مجھے اپنی طاقت اور جوانی سے (مزید) فائدہ اٹھانے دیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ( میری درخواست قبول کرنے سے ) انکار فرمادیا۔۔۔(سنن ابن ماجہ1346 وصححه شعيب الأرنؤوط في تخريج المسند 6516) بعض روایات میں قرآن ختم کرنے کا کم از کم دورانیہ تین دن بیان کیا گیا ہے۔۔۔یہ حتمی نہیں ہے کہ تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کرنا ممنوع ہے کیونکہ سلف صالحین کے تعامل سے پتا چلتا ہے کہ وہ تین دن سے کم میں بھی پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے لہٰذا اگر کوئی بلا اکتاہٹ اور تھکان کے، اپنی ذمہ داریوں میں خلل ڈالے بغیر مداومت کے ساتھ ایک دن میں بھی ایک سے زائد بار قرآن پڑھ سکتا ہے تو پڑھے ان شاء اللّٰہ کوئی حرج نہیں ہے۔۔
عبد الرحمن بن عثمان تیمی بیان کرتے ہیں:” ایک مرتبہ میں نے ارادہ کیا کہ آج رات میں ہی مقام ابراہیم پر نماز ادا کروں گا چنانچہ میں سب سے پہلے وہاں پہنچ گیا، میں نماز پڑھ ہی رہا تھا کہ کسی نے میری پیٹھ پر ہاتھ رکھا، میں نے دیکھا تو وہ عثمان رضی اللّٰہ عنہ تھے آپ ان دنوں خلیفہ تھے تو میں ایک جانب ہٹ گیا پھر آپ کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہی رہے یہاں تک کہ ایک ہی رکعت میں پورے قرآن کی تلاوت کر گئے، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: ائے امیر المومنین آپ نے ایک ہی رکعت پڑھی ہے تو آپ نے فرمایا ہاں یہ میری وتر کی نماز تھی۔( الزهد لابن المبارك1276، السنن الكبرى البيهقي4783 صحیح)
سلیمان بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ عشاء کے بعد کھڑے ہوئے اور ایک ہی رکعت میں پورا قرآن تلاوت کر ڈالے، نا ہی آپ نے اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نا ہی اس کے بعد( الزھد لابن المبارک 1175 صحیح)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”اور جن لوگوں نے ہفتے میں ایک بار قرآن ختم کیا وہ بہت ہیں جیسا کہ یہ (صحابہ میں سے) عثمان بن عفان، عبد اللہ بن مسعود، زید بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم اور تابعین کی ایک جماعت جیسے عبد الرحمن بن یزید، علقمہ اور ابراہیم وغیرہم رحمہم اللّٰہ سے مروی ہے” التبيان فی آداب حملۃ القرآن ص 61)
امام ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہ ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھ لیا کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء 2/445، تھذیب تاريخ دمشق لابن عساكر3/359)
ابو المہلب بیان کرتے ہیں: تمیم داری رضی اللہ تعالی عنہ ہر سات دن میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے۔(طبقات ابن سعد 3/500 )
حارث بن یزید بیان کرتے ہیں کہ سلیم بن عمر ( قاضی مصر، مشہور واعظ وعابد، جنہیں کثرت عبادت کی وجہ سے ناسک کہا جاتا تھا) ہر رات تین مرتبہ قرآن ختم کرتے تھے۔۔۔(سیر اعلام النبلاء 4/132)
ابوخلدہ خالد بن دینار نے کہا میں نے ابو العالیہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے: ہم لوگ غلام تھے، ہم میں سے بعض ٹیکس دیا کرتے تھے اور بعض اپنے مالک کی خدمت کیا کرتے تھے، اور ساتھ ساتھ ایک ہی رات میں قرآن ختم کیا کرتے تھے، چنانچہ یہ چیز ہمارے لیے مشقت کا باعث بننے لگی یہاں تک ہم آپس میں شکایت کرنے لگے،پھر ہم اللہ کے رسول ﷺ کے صحابہ سے ملے، تو ان لوگوں نے ہمیں سکھایا کہ ہم ہر ہفتے میں ایک بار قرآن ختم کریں، اس کے بعد ہم نماز بھی پڑھتے تھے اور سوتے بھی تھے اور ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی تھی۔(طبقات ابن سعد 7/113، سیر اعلام النبلاء 4/209)
عبدالملک بن ابی سلیمان سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ہر دو رات میں قرآن ختم کرتے تھے۔(الزھد للامام احمد 2370)
امام یزید بن ہارون رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ منصور بن زاذان ہر دن دو مرتبہ قرآن ختم کرتے اور پوری رات نماز پڑھتے تھے، آپ رحمہ اللہ اپنے عمامہ کو آنسوؤں سے بھگا دیتے تھے” (سير أعلام النبلاء 5/441)
امام ذہبی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں:”متعدد سندوں سے روایت کی گئی ہے کہ ابوبکر بن عیاش چالیس سال تک ہر رات دن میں ایک بار قرآن ختم کرتے رہے۔
یحییٰ الیمانی بیان کرتے ہیں کہ جب ابو بکر کی وفات کا وقت قریب آیا تو ان کی بہن رونے لگی تو انہوں نے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو؟اس جگہ کو دیکھو، تمہارے بھائی نے یہاں اٹھارہ ہزار بار قرآن ختم کیا ہے۔
کرز بن وبرہ نے اللہ سے دعا کی کہ اسے اتنی طاقت و قوت ملے کہ وہ ہر دن رات میں تین بار پورے قرآن کی تلاوت کر سکے، چنانچہ وہ روزانہ قراء کی ایک جماعت کی موجودگی میں تین بار قرآن ختم کرتے تھے۔”(سیر اعلام النبلاء6/85،الإصابة في تمييز الصحابة 5/661.)
سید التابعین سعید بن مسیب ہر دو رات میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے.(تحفة الأحوذي 8/219)
معروف تابعی سعید بن جبیر فرماتے ہیں کہ انہوں نے خود اپنے گھر میں ایک رکعت میں پورے قرآن کی تلاوت کی۔(شذرات الذهب 1/108)
ثابت البنانی کے تعلق سے امام شعبہ بن الحجاج فرماتے ہیں کہ وہ ہر دن ایک بار قرآن ختم کرتے تھے۔۔۔(حلیۃ الاولیاء2/219)
امیر المومنین فی الحدیث یحییٰ بن سعید القطان کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: یحیی بن سعید بیس سال تک ہر رات پورے قرآن کی تلاوت کرتے رہے”(سیر اعلام النبلاء 9/179)
امام مالک کے شاگرد امام عبد الرحمن بن القاسم کے بارے میں اسد بن الفرات کہتے ہیں کہ آپ ہر رات دن میں دو دو بار قرآن ختم کرتے تھے لیکن جب میں ان کے پاس حصول علم کے لیے گیا تو انہوں نے میری وجہ سے ایک بار قرآن ختم کرنا ترک کر دیا علم کی احیاء کے غرض سے”(سیر اعلام النبلاء9/121)
امام ذہبی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:”امام ربیع بن سلیمان فرماتے ہیں کہ امام شافعی ہر رمضان میں ساٹھ بار قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے”(سیر اعلام النبلاء 10/35، مناقب الشافعی للرازی ص127)
امام حمیدی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں:”امام شافعی رحمہ اللّٰہ ہر دن ایک بار پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے”(تھذیب اسماء اللغات للنووی1/54)
امام اہل سنت احمد بن حنبل کے بارے میں جعفر بن ابی ہاشم بیان کرتے ہیں:میں نے امام احمد کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ایک رات پورے قرآن کی تلاوت کی اور اس میں صبر کے مقامات کو گنا تو 90 سے کچھ زائد تھے۔(مناقب الامام احمد ص 358)
امام بخاری کے استاذ امام علی ابن المدینی بشر الحافی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ بشر نے اپنی قبر خودی اور اس میں پورے قرآن کی تلاوت کی، ان کا روزانہ کا ورد ثلث القرآن تھا”(سیر اعلام النبلاء 8/360)
علی بن المدینی فرماتے ہیں: امام عبد الرحمن بن مہدی کا روزانہ کا ورد آدھا قرآن تھا.(سیر اعلام النبلاء 9/203)
عطاء بن السائب کے بارے میں امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:”ثقۃ ثقۃ، نیک آدمی ہیں، جنہوں نے ان سے شروع شروع میں سنا ان کی روایت صحیح ہے، وہ ہر رات پورا قرآن ختم کیا کرتے تھے”
ابو بکر محمد بن جعفر کتانی کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں:”کہا جاتا ہے کہ کتانی نے دوران طواف (مختلف مواقع پر) بارہ ہزار بار قرآن ختم کیا، وہ اولیاء میں سے تھے”(سیر اعلام النبلاء 14/535)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ نے قلعہ کے اندر قید کے دوران اسی یا اکیاسی بار قرآن ختم کیا آخری بار اقتربت الساعۃ کی آخری آیت”إن المتقين في جنات نعيم في مقعد صدق عند مليك مقتدر” تک تلاوت کر پائے تھے کہ وفات پا گئے چنانچہ بقیہ حصہ کو آپ کی وفات کے بعد آپ پر تلاوت کیا گیا،اس وقت آپ کو چادر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔(العقود الدرية في مناقب شيخ الإسلام ابن تيمية لابن عبد الهادي ص368)
امام نووی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: امام ابو داؤد نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ معروف تابعی مجاہد رحمہ اللّٰہ مغرب اور عشاء کے مابین پورے قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔(التبیان فی آداب حملۃ القرآن ص 60)
اپنے وقت کے مشہور عابد وزاہد ابن الکاتب ابو علی الحسن بن احمد مصری دن میں چار مرتبہ اور رات میں چار مرتبہ قرآن ختم کرتے تھے۔(طبقات الصوفية للأزدي 1/292،عمدة القاري 20/60)
امام عینی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: میں نے ایک حافظ کو دیکھا کہ انہوں نے لیلۃ القدر میں وتر کی نماز میں تین بار قرآن ختم کیا، اس نے ایک رکعت میں ایک بار قرآن ختم کیا” (عمدة القاري 16/7)
عبد الرحمن بن هبة اللہ ملحانی یمانی بڑے سریع القراءت قاری تھے انہوں نے ٹھنڈی کے موسم میں ایک دن میں تین بار پورے قرآن کی اور ایک بار ثلث القرآن کی تلاوت کی۔(الضوء اللامع 2/394)
امام نووی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اتنے ہیں کہ بوجہ کثرت ان کا شمار مشکل ہے۔(التبيان في آداب حملة القرآن ص60)
فقیہ العصر امام ابن عثیمین رحمہ اللّٰہ ماہ رمضان میں ہر تین دن میں ایک بار اور غیر رمضان میں ہر پندرہ دن میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے۔(الثمين من أخبار الشيخ ابن عثيمين ص22)
عہد قریب کے جلیل القدر مفسر مؤلف اضواء البیان امام محمد الامین شنقیطی کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی ایک رات میں پورے قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔(https://youtu.be/asBsqINO1fMhttps://youtu.be/asBsqINO1fM)
امام نووی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: روزانہ تلاوت کے سلسلے میں اپنے احوال، فہم اور ذمہ داریوں کے اعتبار سے سلف کے مختلف عادات و اطوار تھے چنانچہ ان میں سے بعض لوگ ایک ماہ میں ایک بار قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے، کچھ لوگ بیس دن میں، کچھ دس دن میں، بعض بلکہ اکثر سات دن میں، بہت سارے لوگ تین دن میں، بہت سارے ہر دن اور رات میں، بعض لوگ ہر رات، کچھ رات دن میں تین بار، کچھ آٹھ بار اور یہ (ایک رات دن میں قرآن پڑھنے کی) سب سے زیادہ تعداد ہے جو ہم تک پہنچی ہے، پسندیدہ موقف یہ ہے کہ ایک آدمی زیادہ سے زیادہ اتنی تلاوت کرے جس پر اس کے لئے مداومت برتنا ممکن ہو، اور اسی مقدار کو عادت بنائے جس کے تعلق سے اسے غالب گمان ہو کہ وہ نشاط وغیر نشاط کی حالت میں اس پر دوام بقرار رکھ سکتا ہے۔۔۔ یہ اس صورت میں ہے کہ جب اس کے ذمے کوئی عمومی یا خصوصی عمل نہ ہو جو زیادہ قرآن کی تلاوت سے متاثر ہوتا ہو، اگر اس کے ذمے عام لوگوں سے متعلق کوئی کام ہو جیسے تدریس یا اس جیسی کوئی ذمہ داری تو وہ اپنے لئے اسی قدر روٹنگ بنائے جس پر وہ نشاط وغیر نشاط کی حالت میں عمل کر سکتا ہو-(شرح صحیح مسلم للنووی8/42)
امام ابن حجر رحمہ اللّٰہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد-کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ فجر کی نماز میں سورہ نحل يوسف ھود یونس اور سورہ إسراء کی تلاوت کرتے تھے- فرماتے ہیں: حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ کبھی کبھار اللہ تعالیٰ مختصر وقت میں اس قدر برکت عطا کر دیتا ہے کہ اس میں بہت زیادہ کام ہو جاتا ہے۔(الصلاة وحكم تاركها لابن القيم 1/187، فتح الباري 6/455)
اور امام عینی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح مکان اور جگہ کو لپیٹ دیتا ہے(یعنی مختصر کر دیتا ہے اس طور پر کہ کم وقت میں بہت لمبی مسافت طے کر لی جاتی ہے) اسی طرح اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے وقت کو بھی سمیٹ دیتا ہے۔(اس طور پر کہ کم وقت میں بہت زیادہ تلاوت وغیرہ کام کر لئے جاتے ہیں) (عمدة القاري 19/28)
قارئین کرام سلف صالحین کے ان خوبصورت اور حیرت انگیز آثار کی روشنی میں ہر مؤمن کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ کتاب اللہ کی تلاوت کر سکے اور حتی المقدور اس مبارک مہینے کی سعادتوں سے بہرہ مند ہو سکے تاکہ قیامت کے دن کسی قسم کی شرمندگی اور افسوس کا احساس نہ ہو اور امن وسلامتی کے ساتھ خوشی خوشی جنت الفردوس میں داخل ہو جائے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔