از قلم:عبد المجید بن عبد الوہاب مدنی
اسلامک دعوہ سینٹر,العیون
1۔ شوال اسلامی کیلنڈر کے مطابق سال کا دسواں مہینہ ہے، اس ماہ کی فضیلتوں میں سے ایک یہ ہےکہ اس کا پہلا دن عیدالفطر کا ہوتا ہے اس اعتبار سے یہ دن عالم اسلام میں بسنے والے سارے مسلمانوں کے لئے قومی تہوار اور جشن کا دن ہے، لیکن عید کی حقیقی خوشی دراصل اس وقت ہمیں مبارک ہوگی جب ہم نے اپنی طاقت، وسعت بھر اللہ کی عبادت میں تنہائی کے پل گزارے ہونگے۔
2۔ اس کے پہلے دن سے اشہر حج کی شروعات ہوتی ہے اس ناحیہ سے بھی اس مہینہ کو جانا جاتا ہے۔
شوال سے حج کا مہینہ شروع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے حج کا احرام باندھنا جائز نہیں۔
3۔ ماہ شوال کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزوں کا اہتمام سال بھر کے روزے کے ثواب کو آسان کر دیتا ہے۔ارشاد نبوی ہے:جو شخص رمضان کےبعد ماہ شوال میں چھ روزے رکھ لے تو اللہ تعالی اس کو سارے سال روزے رکھنے کا ثواب عطاء فرما تے ہیں۔ (صحیح مسلم 169)
اس کی شرح اور تفسیر علماء نے کچھ اس طرح بیان کی ہے، الحسنة بعشر امثالها (ایک نیکی کا اجر کم از کم دس گناہ ہے) کے مطابق ایک مہینے (رمضان) کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں, اور اس کے ساتھ شوال کے چھ روزے ملا لئے جائیں جنہیں شش عید روزے کہا جاتا ہے تو کل چھتیس روزے ہوتے ہیں، پھر ان میں ہر روزہ جب دس روزے کے برابر ہوگا، تو چھتیس روزے تین سو ساٹھ روزوں کے برابر ہوجائیں گے، اور چونکہ ایک سال میں 360 دن ہوتے ہیں لہٰذا مذکورہ روزے پورے سال کے روزوں کے برابر ہوئے۔
اس کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ ثوبان رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:”جس نے عید الفطرکے بعد چھ روزے رکھے تواسے پورے سال کے روزوں کاثواب ملے گا، جوایک نیکی کرتاہے اسے دس نیکیوں کاثواب ملتاہے”[سنن ابن ماجہ:ـ رقم(١٧١٥) ابن حبان(928)الدارمي(2/12) واسنادہ صحیح]
اور سنن ابو داؤد کی حدیث ، ١٧١٥ میں یہ الفاظ ہیں ( مِن صامَ سِتَّۃَ اَیامٍ بعدَ الفِطرِ ، کان تمام السَّنَۃِ ) ( جِس نے فطر ( یعنی عید الفِطر ) کے بعد چھ دِن روزے رکھے اُس کا ایک سال پورا ہوا )
رمضان کے بعد شوال میں چھ دن روزے رکھنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بندہ اپنے رب کے لئے اس بات پر شکر گزار ہےکہ اس نے اسے پورے ایک ماہ کے روزے کی توفیق بخشی۔
ان چھ روزوں کے بارے میں علماء کا کہنا ہے کہ عید کے فورا بعد رکھنا ضروری نہیں ہے،بلکہ عید کے ایک دن بعد یاچند دنوں کے بعد مسلسل یا ناغہ کرکے جس طرح بھی سہولت ہو، رکھ سکتے ہیں ،اس معاملے میں وسعت ہے، البتہ شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔
اگر بیماری یا سفر کی وجہ سے کسی شخص پر رمضان کی قضا ہو تو وہ رمضان کی قضا دیے بغیر شوال کے چھ روزے رکھے یا پہلے قضا کرے؟
اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے لیکن جو بات دلیل سے زیادہ قریب لگتی ہے وہ یہ ہے کہ شوال کے روزے رمضان کی قضا کے بعد رکھے جائیں نہ کہ پہلے، شیخ ابن عثيمين رحمه الله اس مسئلہ سے متعلق فرماتے ہیں: سنت یہ ہے کہ شوال کے روزے رمضان کی قضا کے بعد رکھے جائیں نہ کہ پہلے، اور اگر کسی پر قضا باقی تھی پھر بھی اس نے قضا سے پہلے چھ روزے رکھے تو اسے اسکا اجر نہیں ملے گا؛ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جس نے رمضان کے روزے رکھے)، اور جس پر اس میں کچھ باقی ہوں تو اس کے لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ اس نے رمضان کے روزے رکھے؛ بلکہ اس نے رمضان کے کچھ روزے رکھے، اور یہ مسئلہ رمضان کی قضا سے پہلے نفلی روزے رکھنے کے متعلق اختلافی مسئلے پر مبنی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ والے جو نفلی روزے ہیں یعنی شوال کے چھ روزے، انہیں (خاص طور پر) نبی ﷺ نے ایک قید کے ساتھ مقید کیا ہے، اور وہ قید یہ ہے کہ یہ روزے رمضان کے بعد میں رکھے جائیں۔ [شرح الممتع۶/۴۶۶]
واضح رہے یہ روزے مسنون ہیں فرض اور واجب نہیں۔ دیکھیں: [فتاوی اللجنة الدائمة: ١٠/٣٩١ ]
ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ آخر رمضان کے بعد چھ روزوں کے لئے ماہ شوال ہی کو کیوں منتخت کیاگیا؟
اس سلسلے میں علامہ عبدالرؤف المناوی فرماتے ہیں: ان چھ رورزوں کے لئے ماہ شوال کو اس لئے خاص کیا گیا کیونکہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ کھانے پینے کی طرف زیادہ راغب رہا کرتے ہیں کیونکہ وہ ابھی ابھی رمضان کے روزوں سے ہوتے ہیں ،لہٰذاجب کھانے کا شوق وخواہش شدت پر ہو اور اس حالت میں روزہ رکھاجائے تواس کاثواب بھی زیادہ ہوگا”[فیض القدیر:١٦١٦ ]
اور علامہ ابن القیم لکھتے ہیں : بعض اہل علم کا کہناہے کہ رمضان کے روزوں کے حقوق وواجبات میں کچھ نہ کچھ کوتاہی وکمی ہوہی جاتی ہے ،اس لئے شوال کے چھہ روزے مستحب قراردئے گئے ہیں تاکہ ان کوتاہیوں اور کمیوں کی تلافی ہوسکے گویا کہ یہ روزے فرض نمازوں کے بعد والی سنتوں کے قائم مقام ہیں جونمازوں میں واقع کمی وکوتاہی کو دور کرنے کے لئے ہوتی ہیں، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ ماہ شوال ہی کے ساتھ شش عیدی روزوں کی تخصیص کا فائدہ کیاہے۔ [تہذیب سنن أبی داود وایضاح مشکلاتہ:٤٩٠١]
رمضان کے روزے کے بعد شوال کے مہینہ میں چھ روزے مزید رکھنے کی تاکید شریعت میں کیوں ہے؟
علماء اسلام نے اس نکتہ کو احسن طریقہ سے بیان کیا ہے۔
علامہ ابن رجب حنبلی کچھ اس طرح رقم طراز ہیں: رمضان سے پہلے اور رمضان کے بعد سب سے بہتر نفل وہ ہے جو ماہ رمضان کے بالکل قریب ہو، رمضان سے قریب تر ہونے کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزوں کے ساتھ ملا دیا گیا، اور انہیں رمضان کے روزوں کے فورا بعد ہونے کی وجہ سے فرائض کے پہلے وبعد والی سنتوں کا مقام دیا گیا، لہٰذا افضلیت میں یہ فرائض کے ساتھ ملادی گئیں اور یہ فرائض کی کمی پوری کرنے والی ہوں گی اور رمضان سے پہلے اوربعد روزہ رکھنا بھی اسی طرح افضل ہے جس طرح فرض نمازوں کے پہلے وبعد والی سنتیں مطلق نوافل پڑھنے سے بہتر ہیں۔ [لطائف المعارف :١٣٨١]
ٹھیک یہی بات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے چنانچہ آپ حجة اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں: ’’والسر في مشروعيتها أنها بمنزلة السنن الرواتب في الصلاة…‘‘ ”[حجة اللہ البالغة :١٧٦]
یعنی ان چھ روزوں کی مشروعیت کاراز یہ ہے کہ جس طرح نماز کے سنن ونوافل ہوتے ہیں جن سے نمازکافائدہ مکمل ہوتاہے، اسی طرح یہ چھ روزے بھی روزوں کے سنن ونوافل کے قائم مقام ہیں۔
4۔ ماہ شوال کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس ماہ میں شادی کرنا اور رخصتی کرکے دلہن کو اپنے گھر لانا مستحب ہے ، اور اس کو شادی بیاہ کے لئے منحوس سمجھنا بالکل غلط اور جاہلیت کے امور میں سے ہے۔
شوال کے مہینہ کو عرب جاہلیت اپنے مزعومہ عقائد و نظریات کی بنیاد پر منحوس اور بے برکت سمجھتے تھے اور اس میں شادی بیاہ کرنے سے اجتناب کرتے تھے ان کی یہ سوچ تھی کہ اگر اس مہینہ میں شادی یا رخصتی ہو ئی تو مضبوط اور پائیدار نہ ہوگی، حضرت رسول اکرم ﷺ نے ان کے اس اعتقاد کو غلط ثابت کیا اور اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح اسی شوال کے مہینہ میں کیا اور رخصتی بھی اسی مہینہ میں ہوئی، جب لوگ کہتے کہ شوال کے مہینہ میں نکاح کرنے والی دلہنوں کا نصیب کم ہوتا ہے تو اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتیں میرا نکاح شوال میں ہوا اوررخصتی بھی شوال میں ہوئی، تمام ازواج مطہرات میں، مجھ سے زیادہ کس کو آپ ﷺ کا قرب ملا؟
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ وہ کوشش کرتیں کہ ان کے خاندان اور قرابتدار کی خواتین کی رخصتی اسی ماہ میں ہو۔(صحیح مسلم 509)
5۔ شوال کے مہینہ کی اہمیت اس ناحیہ سے بھی جانی جاتی ہے کہ اسی ماہ میں اسلام کا عظیم معرکہ احد پیش آیا اور ابتدائی دور میں کامیابی کے باوجود مسلمانوں کو شکست کھانی پڑی، ستر صحابہ شہید ہوگئے، وجہ؟ تیر انداز صحابہ نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کی اور انہیں یہ دن دیکھنے پڑے۔
ایک غلطی اور اتنی بڑی سزا آج ہم نامعلوم کتنی غلطیاں کرتے ہیں کوئی ہے جو اسے ٹوکے؟
6۔ اس ماہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک سال رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف نہیں کیا اور شوال میں اس کی قضاء کی اور دس دن اعتکاف کیا۔ ( صحیح ابن ماجہ 1843)
شوال کے چھ روزے اور امام ابو حنیفہ رحمہ الله:
شوال کے چھ روزے رکھنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ ہیں، خواہ علیحدہ علیحدہ رکھے جائیں یا لگاتار۔ فتاوی عالمگیر:ص١٠١،المحيط البرهاني في الفقه النعماني:کتاب الصوم،ج٢ص٣٩٣
لیکن ابو یوسف رحمہ اللہ جو کہ امام صاحب کے خاص شاگرد تھے، انہوں نے اپنے استاد کی اس رائے کو قبول نہیں کیا اور ان سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے اجتہاد سے یہ فتوی دیا کہ مکروہ لگاتار روزہ رکھنے میں ہے علیحدہ رکھنے میں نہیں، لیکن متاخرین فقہاء احناف نے مسئلہ میں مزید وسعت اختیار کی اور ہر دو قید کو ختم کردیا اور یہ فتوی دیا کہ جس میں سہولت ہو وہ کریں۔ یہ مسئلہ اسی طرح فقہ حنفی کی مشہور کتاب “بحر الرائق “میں مذکور ہے۔ وَيُكْرَهُ صَوْمُ سِتَّةٍ من شَوَّالٍ عِنْدَ أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى مُتَفَرِّقًا كان أو مُتَتَابِعًا وَعَنْ أبي يُوسُفَ كَرَاهَتُهُ مُتَتَابِعًا لَا مُتَفَرِّقًا لَكِنْ عَامَّةُ الْمُتَأَخِّرِينَ لم يَرَوْا بِهِ بَأْسًا هَكَذَا في الْبَحْرِ الرَّائِقِ
کوئی کہہ سکتا ہے کہ امام صاحب۔رحمہ اللہ۔نے ایسا فتوی آخر کیوں دیا ؟سو اس کا جواب یہ ہے کہ :۔
امام صاحب کا زمانہ قلت حدیث کا تھا، کتابیں غیر مطبوع تھیں اور آپ کو یہ حدیث نہیں پہنچی ، آپ امام وقت تھے اس لئے فتوی دینے میں اجتہاد سے کام لیا، آپ معصوم عن الخطا نہیں تھے، انسان تھے اس لئے غلطی ہو گئی،اور یہ آں رحمہ اللہ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں,بلکہ رفعتِ مرتبت کی بات ہے ,یہ آپ کے لئے عذر ہے کہ آپ نے اجتہاد کیا,ہاں اجتہاد کرنے میں صائب نہ ہونے کی بنیاد پر ایک اجر ان شاءالله آپ کو ضرور ملے گا۔
دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ بعض لوگ شوال کی آٹھویں تاریخ کو غیر ضروری اہمیت دیتے ہیں حتی کہ بعض لوگوں نے تو اسے عید الابرار کے نام سے مشہور کر رکھا ہے، یہ ایک غیر شرعی عمل ہے جس سے بچنے کی از حد ضرورت ہے، شوال کی آٹھویں تاریخ نہ تو عید الابرار ہے اور نہ ہی عید الفجار، شوال کے تمام دنوں کی طرح وہ بھی ایک دن ہے،اور اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے ,نہ کہ کسی خاص تناظر میں, اللہ تعالی بدعات وخرافات سے ہم سب کو بچائے اور سنت پر عمل کی توفیق بخشے ۔