نبی سے مسخرہ کرنے والوں کے لئے اللہ کافی ہے

از قلم:شیخ ندیم أختر سلفی مدنی
اسلامک دعوہ سینٹر ,حوطہ سدیر ,سعودی عرب 

بے شک آپ ﷺ سے محبت ، آپ کی اتباع واطاعت،  آپ کی مدد ، آپ کا اور آپ کی سنتوں کا دفاع  ایسی ضروری چیزوں میں سے ہے جن کے بغیر  کسی بندے کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا، اسی طرح آپ کی شان کو گھٹانا، آپ کا  یا شریعت کے کسی حکم کا مذاق اڑاناجُرم عظیم  اور اتنا بڑا گناہ ہے جو لعنت اور سزا کو واجب قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمْ اللَّهُ فِي الدُّنْيَاوَالآخِرَةِوَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًامُهِينًا﴾ ( سورۃ الأحزاب:57)(جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر  دنیا وآخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے، اور ان کے لئے نہایت رسوا کن عذاب ہے)۔

یقیناً آپ پوری انسانیت کے لئے آئیڈیل ہیں، بلند اخلاق کے لئے مثال ہیں، ہر کامل اور فاضل  صفت آپ کے وجود میں موجود ہے، اللہ نے آپ میں ایسے خصائص وفضائل  اور خوبیوں کو  جمع کیا ہے  جو آپ کو سب سے ممتاز کرتا ہے۔

ان ساری خوبیوں ، بلند مقام اور دوستوں سے پہلے دشمنوں کی شہادت کے باوجود آپ کی بعثت سے لے کر اب تک اعداء ملت آپ کا مذاق اڑاتے، آپ کو تکلیف دیتے اور آپ کی شان ِ عالی میں گستاخی کرتے آرہے ہیں، دوسرے نبیوں کی طرح آپ کا بھی مذاق اڑایا گیا، آپ کو تکلیف دی گئی۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿يَاحَسْرَةًعَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُون﴾ (سورہ یس:20)((ایسے) بندوں پر افسوس! کبھی بھی کوئی رسول ان کے پاس نہیں آیا جس کی ہنسی انہوں نے نہ اڑائی ہو)۔

آپ کو  مجنون  اور جادوگر کہا گیا،کاہن اور شاعر کہا گیا، سجدے کی حالت میں آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑیوں کو ڈالا گیا، آپ کو تکلیف اور گالی دینے کےلئے مکہ اور طائف کے  نادانوں اور احمقوں کو آپ کے خلاف اُکسایا گیا، پتھروں سے آپ کے قدم مبارک خون آلود کئے گئے، آ پ کے روشن چہرے کو زخمی کیا گیا، آپ کے دانت مبارک توڑے گئے، آپ اور آپ کے گھر والوں کو بدنام کرنے کے لئے آپ   پر کیچڑ اچھالا  گیا، کئی مرتبہ آپ کے قتل کی سازش کی گئی، لیکن ہر موقع پر اللہ نے آپ کی حفاظت کی  ، آپ کو سہارا دیا اور آپ کا مذاق اڑانے والے اور ایذا دینے والوں کو اللہ نے رسوا کیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّاكَفَينَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾(سورۃ الحجر:95)(آپ کا جو لوگ مذاق اڑاتے ہیں  ان کی سزا کے لئے ہم  کافی ہیں)،  اور اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ﴿إِنَّ شَانِئَكَ هُوَالأَبْتَرُ﴾(سورۃ الکوثر:3)(یقیناً آپ کا دشمن ہی لاوارث  اور بے نام ونشان ہے)۔

 

اعداء ملت نے جب جب آپ کا مذاق اڑایا، آپ کی شان میں گستاخی کی کوشش کی آپ کی شہرت میں مزید اضافہ ہوا اور دین کو پھیلنے کا سبب بنا۔

تاریخ نے اب تک یہی  گواہی دی ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم   کی شان میں جس نے بھی گستاخی کی جرأت کی ، جس نے بھی آپ کا مذاق اڑایا اللہ نے اسے ذلیل اور ہلاک کردیا، خود اس کے گھر میں اسے نشان ِ ذلت اور عبرت  بنادیا ، اس کی جڑ کو کاٹ دیا، کہاں گئی یہود ونصاری ٰ کی خباثت  اور ان کی سازش؟ بغض و کینہ اور حسد سے بھرے ہوئے مشرکین کہاں گئے؟ منافقوں کے مکر وفریب کا انجام کیا ہوا؟  اور کیا حشر ہوا ان تمام دشمنانِ ملت کا جو  ہر وقت آپ کو اور اسلام  کو  نقصان پہنچانے، آپ کو جھوٹا بنانے  ، آپ کی عزت سے کھیلنے، آپ کو تکلیف دینے اور آپ کا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کا مذاق اڑانے کے لئے انتظار میں رہتے تھے؟  کیا ان میں سے کسی کی بھی آہٹ سنائی دیتی ہے؟ گزری ہوئی تاریخ کو یاد کریں یہ سب کے سب مٹادئے گئے، یہ سب کے سب اس وقت جہنم کا ایندھن ہیں، اب ان کا نام لینے والا کوئی نہیں،  اور یہ سبق ہے بعد والوں کے لئے کہ  جو  ان کی روش اختیار کرے گا اس کے ساتھ بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔

ساری دشمنی کے باوجود  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکر پوری شان وشوکت کے ساتھ  اب بھی باقی ہے ،  اور آپ کا لایا ہوا دین اب تک  غالب  اور محفوظ ہے، آپ کی  معطر سیرت   قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے لئے باقی رہے گی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّانَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّكْرَوَإِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ﴾( سورۃ الحجر:9)(ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے  اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں)۔

ایک ایسے وقت میں جب نبی ﷺکی شان میں گستاخی کی جارہی ہو، شریعت پر کیچڑ اچھالا جارہا ہو، اہل اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہو تو اگر مسلمان واقعی اپنے نبی کی مدد اور دشمنانِ دین کو رسوا کرنا چاہتا ہے  تو لازم ہے کہ وہ نبی کا طریقہ سیکھے، اسے اپنی زندگی میں نافذ کرے، اسے پھیلائے اور اس کی دعوت دے۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:” عليكم بسُنتي وسُنةُ الخلفاءِ الراشدينِ المهديينِ من بعدي، تمسكوا بها وعَضْوا عليها بالنواجِذ“(سنن الترمذي: 2676، سنن أبي داود:4607، صحيح ابن حبان:5، ابن ماجہ :43،44)(تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس پر قائم رہنا اور اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا)۔

ایسے دشمنوں کے لئے  تو اللہ کافی ہے ہی ، لیکن جب ایسے حالات آئیں  تو ہماری ذمہ داری کیا ہونی چاہئے،  ایسے وقت میں ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ نبیﷺ کی پاکیزہ سیرت  اور زندگی کا مطالعہ کرے، آپ کے علم کی نشر واشاعت اور آپ کی سنتوں کو زندہ کرے، آپ کے طریقے کی طرف لوگوں کو بلائے، آپ کے بلند اخلاق وآداب کو اپنائے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔

لیکن افسوس تو اس بات پر ہے کہ اسلام کے خلاف سازش اور نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کے باوجود بہت سارے مسلمان  اب بھی نبی کی سیرت سے غافل ہیں، وہ اپنے نبی  اور مسیحا کو صحیح سے نہیں پہنچانتے، آپ کی پیروی سے دور بھاگتے ہیں، بلکہ فرائض اور واجبات کو بھی چھوڑ دیتے ہیں، نمازوں کو ضائع کرتے ہیں، مَن  اور خواہشات کے پیچھے  چلتے ہیں ، حرام اور مشکوک چیزوں کا استعمال کرتے ہیں، اس طرح تو نبی کی نصرت  اور تائید نہیں ہوسکتی، جب اپنے ہی نبی کی سنتوں کے خلاف چلیں گے تو دشمنان ِ دین کو موقع کیوں نہ ملے گا،  کیا ہم مزید نبی کی شان میں گستاخی کا انتظار کر رہے ہیں؟ کیا ہم بار بار دشمنان ِ دین کو اسلام پر حملے  اور اس کے خلاف سازش کرنے کا موقع دیتے رہیں گے؟

یاد رکھیں ! نبی ﷺ کی سنتوں سے بھاگنا، نبی کی اطاعت سے جی چُرانا محبتِ رسول کی سچی علامت ہرگز نہیں، جو نبی سے سچی محبت کرتا ہے  وہ نبی کے فرمان کے سامنے اپنے سر کو جھکا دیتا ہے، سنت ِ رسول پر خواہشات کو قربان کرنے  اور نبی کا دفاع کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔

ﷺ۔۔۔ﷺ۔ﷺ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *