دیارِ شوق کے شائقی

از قلم: عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

دیارِ شوق کے شائقی

(استاذ الأساتذہ فضیلۃ الشیخ عبد الرشید شائقی کی وفات حسرت ِ آیات کے تناظر میں )

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد

اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے ((﴿ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ﴾

نبی ٔ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (إِنَّ اللَّهَ لا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رؤوسًا جُهَّالاً، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا)(بخاری حدیث نمبر:۱۰۰,صحیح مسلم حدیث نمبر:۲۶۷۳)

امام بخاری۔رحمہ اللہ۔درس دے رہے تھے؛طلبہ آپ کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کئے ہوئے تھے کہ امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی کی وفات کی خبر موصول ہوئی,امام بخاری سر پکڑ کر بیٹھ گئے اور پھر سر اٹھایا اور یہ چند اشعار گنگنائے

عَزَاءٌ فَمَا يَصْنَعُ الجَازِعv وَدَمْعُ الْأَسَى أَبَدًا ضَائِعُ

بَكَى النَّاسُ مِنْ قَبْلُ أَحْبَابَهُمv فَهَلْ مِنْهُمُ أَحَدٌ رَاجِعُ

تَدَلَّى ابْنُ عِشْرِينَ فِي قَبْرِہvوَتِسْعُونَ صَاحِبُهَا رَافِعُ

وَلِلْمَرْءِ لَوْ كَانَ يُنْجِي الْفِرَا vرُ فِي الْأَرْضِ مُضْطَرَبٌ واسعُ

يُسلِّمُ مُهْجَتَهُ سَامِحًا vكَمَا مَدَّ رَاحَتَهُ الْبَائِعُ

وَكَيْفَ يُوَقَّي الْفَتَى مَا يَخَافُ vإِذَا كَانَ حَاصِدَهُ الزَّارِعُ

اسی لئے آج میں جبکہ استاد گرامی ۔استاذ الأساتذہ ۔فضیلۃ الشیخ عبد الرشید شائقی ۔رحمہ اللہ۔کی یاد میں چند سطریں لکھنے بیٹھا ہوں,اس تحریر کا آغاز ان چند اشعار سے کر رہا ہوں

سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا ۔۔۔۔ میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا

اک روشنی کی موت مروں گا زمین پر۔۔۔ جینے کا اس جہان میں حق چھوڑ جاؤں گا۔۔۔

روئیں گے میری یاد میں مہر و مہ و نجوم۔۔۔ان آئینوں میں عکس ِ قلق چھوڑ جاؤں گا

وہ اوس کے درخت لگاؤں گا جا بہ جا۔۔۔ ہر بوند میں لہو کی رمق چھوڑ جاؤں گا

گزروں گا شہر سنگ سے جب آئنہ  لیے۔۔چہرے کھلے دریچوں میں فق چھوڑ جاؤں گا

یہ ماہ ِ اکتوبر کی ۱۸ تاریخ  تھی ؛سن ۱۹۷۷ ءکا سال عیسوی تھا ؛جب علاقے کے اعیان و اساطین کو تعلیم و تربیت کے تعلق سے فکر دامن گیر ہوئی ؛اور ضلع دیوگھر کے ایک گاؤں سمر گڑھا میں لوگ جمع ہوئے اور ایک مرکزی ادارے کی داغ بیل ڈالنے کا تاریخ ساز فیصلہ کیا گیا ,جسے اصحاب علم و فضل اورارباب بست و کشاد نےجامعہ محمدیہ کے نام سے موسوم کیا۔

علاقے میں سلفیت دم توڑ رہی تھی,دیوبندیت و بریلویت شباب و عروج پر تھی ,اور ایسے میں فکر دامن گیر ہونا ایک فطری بات تھی؛خاص کر جبکہ اہل حدیث گھرانے کے بچے بریلوی اور دیوبندی مدارس میں اپنی علمی تشنگی بجھاتے تھے ؛اور اپنا مسلک ِ حق  خیر آباد کہہ کر مسلک باطل قبول کر لیا کرتے تھے ؛چنانچہ ضروری تھا کہ ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو خالص  و صافی کتاب و سنت کی تعلیمات کی ترویج و اشاعت میں بھر پور اور اہم رول ادا کرے؛انہی ضروریات کی بنیاد پر علاقہ کا مرکزی ادارہ جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کا  وجود عمل میں آیا اور قرار واقعی اس نے وہ کارہائے نمایاں انجام دئے کہ رہتی دنیا تک انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ؛خطہ کے گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ سے طالبان ِ علوم نبوت دیوانہ وار چلے آئے؛اور تشنگان کی قطاریں لگ گئیں ۔

آج چند سطریں اسی شخصیت کے عنوان سے معنون کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں ؛جس نے اپنا اوڑھنا بچھونا ,نشست و برخاست  سب تعلیم و تربیت بنا لیا تھا اور قسم کھا لیا تھا کہ جو قرض بھی چکانا پڑے گا؛منظور ہے ؛مگر علاقے میں تعلیم و تربیت,اصلاح و تعمیر؛تزکیہ و تطہیر  اور انقلاب و اصلاح   کا فریضہ انجام دینا ہے ؛جامعہ محمدیہ کا قیام عمل میں آگیا ؛تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا؛علاقے کے ہر گاؤں و قریہ سے طلباء کا اژدحام تھا اور جامعہ محمدیہ کی وسیع و عریض بانہیں تھیں؛پھر ہوا یہ کہ  ہر شخص نے اپنے حصے کا فائدہ حاصل کیا ؛ اور خوب خوب حاصل کیا؛جس شخصیت نے یہ تحریک چھیڑی تھی؛وہ عظیم شخصیت حضرت مولانا عبد الرشید صاحب شائقی ۔رحمہ اللہ۔کی تھی ؛جنہیں آج رحمہ اللہ کہتے  اور لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے ؛اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں ۔

کہنے,سننے ,اور دیکھنے کو تو حضرت مولانا  شائقی ۔رحمہ اللہ۔ ایک پاؤں سے معذور تھے,مگر عقل و خرد,ہوش و حواس ,دانش و بینش ,فکر و نظر؛علم و عمل ؛بحث و مناظرہ ؛مناقشہ و مباحثہ ؛تدریس و تعلیم ؛تقریر و تنظیر کے بے تاج بادشاہ اور عقل کل تھے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرشید شائقی ۔رحمہ اللہ۔کو اللہ تعالی نے تصنیف و تالیف کے لئے تو منتخب نہیں فرمایا تھا مگر ہزاروں انشا پردازان ؛قلم کاران اور اصحاب  قرطاس و کاغذکو پیدا کر نے کے لئے ضرور چنا تھا ؛حضرت مولانا شائقی ۔رحمہ اللہ۔ نے کوئی کتاب تالیف تو نہیں  فرمائی  تاہم اس حقیقت سے سر ِ مو انحراف نہیں کیا جا سکتا ہے کہ آپ  کی مساعی و کاوشوں سے  ایک معتد بہ تعداد ایسی پیدا ہوئی ؛ جس نے علمی و قلمی دنیا میں نام پیدا کیا؛آپ کے شاگردوں میں :حضرت مولانا قاری محمد یونس اثری ۔امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث جھارکھنڈ۔؛فضیلۃ الشیخ عبد اللہ بن سلیمان سلفی مدنی؛حضرت مولانا ڈاکٹر نوشاد عالم جیرواوی؛حضرت مولانا طیب مظاہری؛حضرت مولانا محمد قربان اثری ؛جناب ماسٹر یونس تکمیلی ؛حضرت مولانا حفاظت اللہ سلفی؛جناب ڈاکٹر نصیر الدین عمری ؛ فضیلۃ الشیخ نصیر الدین فیضی؛فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد المبین نوشاد فیضی ؛فضیلۃ الشیخ محمد جرجیس کریمی؛فضیلۃ الشیخ نعمت اللہ عمری؛فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد المعید نوشاد سلفی مدنی ؛فضیلۃ الشیخ محمد کلیم انور سعید تیمی مدنی؛فضیلۃ الشیخ اشفاق سجاد سلفی ؛فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الرزاق زیادی ؛فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف عالیاوی ؛فضیلۃ الشیخ محمد طیب حفیظ الدین تیمی اور خاکسار (عبد السلام بن صلاح الدین مدنی)  وغیرہم جیسے سینکڑوں علماء و فضلاء کے اسمائے گرامی جلی حروف میں لکھے اور ذکر کئے جا سکتے ہیں

فضیلۃ الشیخ عبد الرشید شائقی ۔رحمہ اللہ۔نے ایک ایسے ادارے کی داغ بیل ڈالی ؛اور اپنے خون ِ جگر سے سینچا ؛جہاں سے سینکڑوں ایسے سورما پیدا ہوئے ؛ایسے جیالوں نے جنم لیا ؛اور ایسے شاہین صفت صلحاء و علماء ظہور پژیر ہوئے جنہوں نے سلفیت کی ترویج و اشاعت کے لئے بہیترے اداروں کی داغ ڈالی اور امت و ملت کو  اپنے شاہین صفت ولولوں سے خواب ِ غفلت  میں سر مست افراد کو بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔

شوق پرواز کا رکھتے ہو تو شاہین بنو ۔۔۔۔۔یوں تو کوے بھی ہواؤں میں اڑا کرتے ہیں

آپ جامعہ محمدیہ کے محرک اول و بانی؛جامعہ محمدیہ کے اولیں ناظم ؛اور شیخ الجامعہ مقرر کئے گئے ؛یہ الگ سی بات ہے کہ کچھ دنوں کے بعد آں رحمہ اللہ نے خود ہی اس عہدہ ٔ نظامت سے سبکدوشی اختیار فرما لی اور اپنے خلف فضیلۃ الشیخ حضرت مولانا شفاء اللہ فیضی ۔رحمہ اللہ۔کو کرسی ٔ نظامت سونپ دی  ؛پھر جامعہ نے  فیضی ۔رحمہ اللہ۔کی نظامت و قیادت میں جس برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی؛چشم فلک نے دیکھا اور فرش ِ زمین نے اسے محسوس و ملموس کیا

شائقی ۔رحمہ اللہ۔ پر لکھنے والے  آپ کے شناسا,معتقدین ؛تلامذہ ؛شاگردان  اور محبین لکھیں گے؛بولنے والے بولیں گے ؛اور ان کی یاد تازہ دم ہوتی رہے گی ؛چونکہ خاکسار نے بھی  مولانا رحمہ اللہ سے زمانہ ٔ طالب علمی اور ما بعد بھی  خوب خوب خوشہ چینی کی ہے ؛اس لئے کچھ سطریں اسی محبت سے استعارہ لے کر نذر ِ قارئین کر نے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں

شائقی ۔رحمہ اللہ۔سے خاکسار نے  عربی کی پہلی جماعت میں میزان و منشعب کا درس لیا ہے؛اور استفادہ کرنے  کا سنہرا موقعہ حاصل کیا ہے؛یہ بات بلا تردد کہی جا سکتی ہے آپ ایک کامیاب منتظم کے ساتھ ساتھ کامیاب مدرس و مربی تھے؛اور تربیت کیسے کی جاتی ہے؟ کا گر آپ کو بخوبی معلوم تھا ۔رحمہ اللہ رحمۃ الأبرار

اس میں کوئی شک نہیں کہ شائقی ۔رحمہ اللہ۔نے علاقہ کو ایک نئی سمت عطا فرمائی تھی؛تعلیمی میدان میں؛دعوتی میدان میں؛اصلاحی و انقلابی میدان میں؛فکری و نظری میدان میں اور  خطہ کو وہاں تک پہنچا دیا تھا؛جہاں تک باز کی ہی نظر جا سکتی تھی؛اہل باطل سے لوہا لینا کوئی آسان کام نہیں؛مگر جس طرح سے آپ نے ان کے ناطقے بند کئے؛ان کی راہیں مسدود کیں؛ہر جگہ  ارباب ِ باطل کو سرنگوں ہونا پڑا ؛وہ آپ کا ہی حصہ تھا ؛آپ نے جہاں قدم رکھا فاتح و ظافر بن کر چمکے؛جس طرف گئے توحید کا ڈنکا بجاتے چلے گئے؛جہاں قدم رکھ دیا ,اغیار پسپا ہوگئے ؛ اہل باطل پر نظر دوڑا دی؛تو انہیں راستہ تلاشتے حالت خراب ہوگئی ؛اور پسپا ہونا پڑا ؛دیوبندیت کی طرف تاک دیا تو  اس کا پیشاب خطا ہوگیا ؛بریلویت کی طرف آنکھ اٹھا ئی تو ان کے پائجامے گیلے ہوگئے ؛اور منکرین حدیث کی طرف لپک گئے تو ان کے اوسان خطا ہوگئے ؛فرحمہ اللہ رحمۃ المحسنین ۔

جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے ۔۔ اسی مقام سے اب اپنا راستہ ہوگا

شائقی ۔رحمہ اللہ۔علاقے کے لئے بلا شبہ  نعمت ِ غیر مترقبہ تھے ؛سلفیت کی شان تھے  مولانا  شائقی ؛سلفیت کے لئے آن بان شان اور جان تھے شائقی رحمہ اللہ ؛آپ فراغت سے لے کر تا وفات تعلیم و تعلم کے لئے وقف رہے؛بدھی ڈیہہ سے  ڈابھاکیند تک کا روزانہ سفر ؛اور ہ بھی بس کا سفر (جو عام طور پر پر مشقت ہوا کرتا ہے)؛سائیکل  پر سوار ہوکر قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں کا سفر ؛لوگوں  کو تعلیم کے لئے راغب کرنا آپ کا اولین ترجیحات میں شامل تھا ؛تاریخ جھارکھنڈ میں آپ کے حسین و زرین اور ناقابل فراموش مواقف تا دم ِ زیست تاریخ جھارکھنڈ کا حصہ ہیں ؛ان میں سے بعض کا تذکرہ فائدہ سے خالی نہ ہوگا ؛جسے تفصیل مطلوب ہو؛ میری کتاب ((جہود علماء جارکند)کا مطالعہ کرنا چاہئے

دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار۔ رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

(۱)یہ کوئی ۱۹۹۸۔۱۹۹۷ کی بات ہے؛علاقہ ( بالخصوص اضلاع اربعہ:گریڈیہہ؛جامتاڑا؛دیوگھر؛اور دھنباد میں مشہور )کی ایک دیوبندی بستی میں ایک اجلاس منعقد ہوا تھا ؛جس میں بزعم ِ خویش (ایک مناظر ِ اسلام )  بہ حیثیت مقرر مدعو تھے؛مناظر ِ اسلام(بزعمِ خویش) کی تقریر کیا تھی علمائے اہل حدیث کو للکار تھی؛دعوت ِ مناظرہ تھا؛ان کے جذبات کو بر انگیختہ کرنا تھا؛اہالیان ِ خطہ کو مرعوب کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی ؛(عام طور پر موصوف کی تقاریر اسی  کا حصہ ہوا کرتی ہیں)پھر کیا تھا؛مجمع میں آگ لگ گئی افراد اہل حدیث بے کل ہو اٹھے؛مجلس میں مولانا عبد الحمید سلفی موجود تھے؛بعد میں موجودہ امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث جھارکھنڈ حضرت مولانا قاری محمد یونس اثری بھی جائے واردات میں پہنچ گئے ؛اور گیاوی کا دیا گیا چیلنج قبول کر لیا گیا  ؛اب جماعت ِ اہل حدیث کے دو شیر ببر ؛اسٹیج میں تھے؛ گیاوی کی زمین پاؤں کے نیچے سے کھسک گئی؛بغلیں جھانکنے لگے؛حیلے بہانے تراشنے کی سعی ٔ منحوس فرمانے لگے ؛اور عوام الناس کو ورغلانے ؛بہکانے اور تیر و تفنگ پر ابھارنے کی نا مسعود  سازش شروع ہوگئی ؛معاملہ بہت آگے  بڑھ گیا اور جماعت کے ان دونوں شیروں کا محاصرہ کر لیا گیا کہ آپ لوگوں نے جلسہ کے ماحول خراب کر دیا ؛اب جلسہ کے انعقاد  میں جو خرچ آیا ہے؛ادا کرنا پڑے گا ؛وغیرہ وغیرہ

صبح تڑکے ۳ بجے  استاد محترم فضیلۃ الشیخ عبد الستار اثری ۔رحمہ اللہ۔نے اپنے حوصلوں کوصدا دی؛سائیکل کو آواز لگائی ؛ہمت کو پکارا ؛اور  افراد ِ جماعت کو باخبر کرنے نکل پڑے ؛اور ڈابھاکیند میں فجر کی نماز ادا فرمائی؛اور سیدھے مناظر اسلام ؛متکلم ِ جماعت؛مسیحائے قوم؛سلفیت کی شان اور بوڑھے شیر (کبھی جن کا اپنے شباب میں طوطی بولتا تھا) حضرت شائقی ۔رحمہ اللہ۔  کی خدمت میں پہنچ گئے  ؛داستان ِ ستم سنایا ؛سانحہ ٔ خونچکاں بتایا ؛اور بلا تاخیر چل نکلنے کی گزارش کی ؛ تو حضرت شائقی  بلا کسی تاخیر   اور بلا کسی تامل و تردد و تذبذب جھٹ کھڑے ہوئے,پھٹ تیار  اور

میاں میں شیر ہوں شیروں کی غراہٹ نہیں جاتی

کے بمصداق بلا کسی تاخیر سائیکل پر سوار جائے واردات پہنچ گئے؛رن کانپ رہا تھا اور زبان حال سے یہ کہہ رہا تھا کہ

کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے

ادھر بزعم ِ خویش مناظر صاحب  کو  یہ پتہ چل گیا کہ حسب سابق اب بھی جماعت کے سینوں میں بال بھر پور ہیں ؛خوب خوب ہیں؛اور ناطقہ بند کرنے والے ابھی بھی اس دھرتی پر موجود ہیں ؛اور بھر پور انداز میں موجود ہیں ؛تو مناظر مزعوم کی عقل ٹھکانے آئی ؛موصوف کا پیشاب خطا ہوگیا ؛اور اساطین  دیوبندیت نے مناظر  مزعوم کو بھگانے کی ترکیبیں نکالنی شروع کیں,اور بالآخر برقعہ  اوڑھاکر  اور لیڈی چپل پہنا کر کسی  طرح دھنباد اسٹیشن چھوڑا ؛اور اس عہد کے ساتھ کہ دوبارہ علاقے کے طرف اگر میلی نگاہ  سے بھی دیکھا تو آنکھ کی خیر نہیں؛حضرت مولانا شائقی۔رحمہ اللہ۔ نے ثابت کر دیا کہ ہمارے سینوں میں بال ابھی بھی جوان ہیں,؛اگر کسی میں دم ہے تو ٹھہر کر دکھائے؛تاریخ نے یہ واقعہ بھی اپنے سینے میں محفوظ کیا ہوا ہے؛منکڈیہا ماتھاسیر عید گاہ میں جماعت کی میٹنگ ہوئی ؛حضرت شائقی ۔رحمہ اللہ۔شیر ببر کی طرح دھاڑ رہے تھے اور سلفیان ِ خطہ قسمیں دے دے کر آپ کی ناک کے بال ثابت ہو رہے تھے ؛فرحمہ اللہ رحمۃ الأبرار ؛اس وقت آپ بزبان ِ حال کہہ رہے تھے

ہر سو لگیں گے مجھ سے صداقت کے اشتہار ۔۔۔۔ہر سو محبتوں کے سبق چھوڑ جاؤں گا

(۲)کچھ دنوں کے بعد اسی مسئلہ کو لے کر تین اضلاعی (دیوگھر؛جامتاڑا,گریڈیہہ)میٹنگ جامعہ رحمانیہ مدھوپور میں منعقد ہوئی؛جس میں متکلم جماعت حضرت شائقی ۔رحمہ اللہ۔کا کردار کلیدی تھا؛اور آں رحمہ اللہ کے علاوہ شیر ِ جھارکھنڈ حافظ قطب الرحمن فیضی؛فضیلۃ الشیخ محمد طیب مدنی؛فضیلۃ الشیخ قاری محمد یونس اثری؛حضرت مولانا عبد العلیم مدنی؛حضرت مولانا محمد جرجیس سلفی؛حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الحمید سلفی  وغیرہ بہت سارے اساطین و  اعیان ِ جماعت شریک ہوئے تھے؛خاکسار بھی جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے موسم ِ گرما کی تعطیلات گزارنے ملک ِ عزیز میں موجود تھا؛حضرت شائقی ۔رحمہ اللہ۔کو پتہ چلا تو حکم دیا کہ میں بھی اس پروگرام میں شرکت کروں ؛الحمد للہ آپ کے حکم کی تعمیل میں میں بھی اس مشاورتی میٹنگ میں شریک ہوا؛اور حسب حکم کچھ معروضات عرض کرنے کی  سعادت حاصل کی تھی؛بعد میں پتہ چلا کہ میرے بیان سے حضرت شائقی مرحوم کافی متاثر بھی تھے ؛خوش بھی اور مدح سرا بھی ۔

شائقی مرحوم خاکسار کو بہت عزیز رکھتے تھے؛قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ہمیشہ یاد فرمایا کرتے تھے ؛فرحمہ اللہ رحمۃ الصالحین

(۳)حضرت شائقی۔رحمہ اللہ۔ اپنے شاگردوں کی حوصلہ افزائی بھی خوب خوب فرمایا کرتے تھے ؛یہ کوئی ۲۰۰۰ کے پس و پیش کی بات ہوگی ؛خاکسار موسم گرما کی تعطیلات ملک عزیز میں گزار رہا تھا؛خیال ہوا کہ مادر ِ علمی جامعہ محمدیہ کی زیارت کے ساتھ ساتھ اپنے مشفق و مربی  اور پدر صفت اساتذہ کے دیدار و زیارت کا شرف کیوں نہ حاصل کر لیا جائے ؛جامعہ  محمدیہ پہنچا تو استاد محترم حضرت شائقی جماعت ثانیہ کو القراءۃ الرشیدہ کا درس دے رہے تھے ؛آں رحمہ اللہ سے شرف ملاقات کی؛تو آں رحمہ اللہ نے کتاب میری طرف بڑھا دی ؛اور ہزار انکار آپ کے اصرار پر غالب نہ آسکا اور آپ کی موجودگی میں طلبہ کو کتاب پڑھانے کا شرف حاصل ہوا؛اس میں میرا شرف تھا اور استاد گرامی کی طرف سے حوصلہ افزائی اور اپنے شاگرد پر اعتماد و ایقان  ؛بھروسہ اور اذعان ۔

(۴)یہ کوئی ۲۰۰۳۔۲۰۰۴ء کے پس و پیش کی بات ہوگی ؛علاقے کی ایک اہل حدیث بستی میں ملک کے ایک مشہور خطیب کا تقریری پروگرام تھا؛حضرت مولانا عبد الرشید شائقی۔رحمہ اللہ۔کی صدارت تھی؛خطیب موصوف نے اپنی تقریر کے دوران حضرت شائقی رحمہ اللہ کو برے القاب سے یاد کیا؛اور نا زیبا کلمات کہے؛حضرت مولانا کے کانوں میں آواز پہنچی؛ڈائس پر تشریف لائے؛اور اپنے سحر خیز بیان سے خطیب موصوف کی ایسی کلاس لی؛کہ خطیب موصوف کو ڈائس  چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا؛ یہ واقعہ میرے ایک قریبی دوست فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد المعید سلفی مدنی نے بتایا ؛اس سے اندازہ لگانے میں کوئی دقت نہیں ہوگی کہ کچھ لوگوں کو جب اللہ شہرت عطا کر دیتا ہے تو اپنے سامنے سب کو زیرو ہی سمجھتے ہیں؛جنہیں یہ معلوم نہیں رہتا ہے کہ

بہت بلند فضا میں تری پتنگ سہی ۔۔۔۔ مگر یہ سوچ کبھی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے

(۵)یہ کوئی ۲۰۱۶ء ۔۲۰۱۷ء کی بات ہوگی جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کی نشأۃ ثانیہ کے لئے نوجوان علماء کی فولادی طاقتوں نے بھر پور کوششیں فرمائیں؛مگر کچھ دنوں کے بعد جستہ جستہ جذبات سرد پڑ گئے ,تاہم  دوبارہ ۲۰۱۸ء کے اواخر میں ان جذبات نے پھر سے انگڑائیاں لینا شروع کیں؛اور بحمدہ تعالی اس بار کامیابی مل گئی؛مگر اپنے مقاصد میں کہاں تک کامیابی مل سکی؛اسے کسی دوسرے موقعے کے لئے اٹھا رکھتے ہیں؛مگر اس  امر کا  اظہار انتہائی ضروری ہے کہ  جب اس کا تذکرہ حضرت شائقی ۔رحمہ اللہ۔سے کیا گیا تو خوشیوں بلیوں اچھل پڑے؛ حوصلہ افزائی فرمائی ؛اور اس بات کا بھرپور وعدہ فرمایا کہ وہ اس مہم میں ہمارے ساتھ ہیں  اور جس قسم کی مساعدت و معاونت کی ضرورت پڑے گی؛حاضر خدمت ہیں؛ جس سے آپ کے جامعہ محمدیہ سے قلبی والہانہ لگاؤ کا پتہ چلتا ہے؛فرحمہ اللہ رحمۃ الأبرار۔

آہ اب وہ عظیم شخصیت ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ؛وہ بے مثال مربی دار فانی کو چھوڑ کر دار بقا کے لئے رخت ِ سفر باندھ چکے ۔رحمہ اللہ رحمۃ الأبرار

اب ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

واقعی اب ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ؛جماعت اہل حدیث میں ایک عظیم خلا پیدا ہوگیا مناظرہ کا خلا ؛تدریس کا خلا ؛فکر و نظر کا خلا ؛اب ڈھونڈھا کرے زمانہ رخ زیبا لے کر ؛کہاں ملے گی وہ شخصیت ۔

موت  بہر حال بر حق ہے؛ہر نفس کو اس  کاجام پینا ہی ہے؛اس سے کوئی مفر نہیں ؛اور اس پر ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ ہر شخص یہاں سے جانے کے لئے ہی آیا ہے ؛حضرت مولانا شائقی ۔رحمہ اللہ۔کی وفات کی خبر غیر متوقع تو نہ تھی؛کیوں کہ آں رحمہ اللہ ایک عرصہ سے بستر ِ علالت میں دراز تھے,مہینے دو مہینے سے ہوش و حواس بھی  کھو بیٹھے تھے؛۱۱ نومبر ۲۰۲۲ء کو برادرم شیخ اشفاق سجاد سلفی نے مولانا ۔رحمہ اللہ۔کی کچھ تصویریں بھیجی تھیں ؛تصویر دیکھتے ہی یقین سا ہوگیا کہ اب استاد گرامی سے دو بارہ ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکے گا ؛شیخ سے بھی اس بات کا اظہار کیا؛اور کف ِ افسوس ملتا رہ گیا کیوں کہ ابھی جلد ہی  وطن ِ عزیز میں مکمل تین ماہ (۲۲ جون ۲۰۲۲ء ۔۲۲ستمبر ۲۰۲۲ء)کی چھٹی گزار کر آیا ؛اس بیچ میں کئی بار سوچا کہ آپ سے ملاقات ہوجائے؛آپ کے دولت خانے میں حاضری بھی دی؛مگر استاد گرامی سے ملاقات نہ ہوسکی ؛اور اب تو صرف ندامت کے آنسو ہیں؛حسرتیں   اورآہیں رہ گئی ہیں؛افسوس ہی افسوس باقی رہ گیا ہے؛اب آپ اس دنیا کو خیر آباد کہہ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے ہیں؛اور اپنے ہزاروں شاگردان و معتقدین اور مریدین کو الوداع کہہ کر آخرت کے سفر پر روانہ ہو چکے ہیں؛اے اللہ تو ہمارے شیخ پر رحم و کرم کی برکھا برسا؛ان کے گناہوں کو معاف فرما؛ان کی لغزشوں سے صرف نظر فرما؛بشری تقاضوں کے مطابق ان سے صادر گناہوں کو نیکیوں سے بدل دے؛ان کی مساعی و کاوشیں قبول فرما لے؛ان کے جہود کو باریاب کر لے ؛ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

چند گزارشات و تجاویز

اس موقعہ سے (اس سے پہلے بھی خاکسار کئی بار  متعدد علماء و فضلاء کی وفات کے موقعے پر گزارشات و تجاویز پیش کر چکا ہے)چند گزارشات و تجاویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ؛شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

(۱)ابھی چند ماہ قبل ماہ ِ رمضان کی پہلی تاریخ کو جامعہ محمدیہ ڈابھاکیند کے سابق استاد فضیلۃ الشیخ  محمد خالد فیضی  جو سلطان القلم کے نام سے موسوم  تھے؛آپ کی خدمات جگ ظاہر ہیں؛آپ کے تلامذہ ہزاروں کی تعداد میں پورے عالم میں پھیلے اسلام ؛صافی عقیدہ اور سلفی منہج کی ترویج و اشاعت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں؛آپ کی وفات کے بعد خاکسار نے ایک عربی مضمون آپ کی حیات و خدمات پر نذر قارئین کیا تھا؛پھر ایک خاکہ بنا کہ حضرت مولانا کی خدمات و مساعی پر اپنے ارمغان سلام کا ورقی خصوصی   شمارہ شائع کیا جائے؛ارادہ بنا ؛خاکہ عمل میں آیا اور بات خاکہ سے زیادہ نہ بڑھ سکی ؛حضرت سلطان القلم کا جامعہ محمدیہ سے چولی دامن کا ساتھ تھا ؛لہذا ضرورت اس بات کی تھی کہ  جامعہ محمدیہ والے اس بیڑے کو اٹھاتے اور آپ کی حیات و خدمات پر اشاعت ِ خاص کا اہتمام کرتے مگر اس جانب کوئی پہل نہ خاکسار کر سکا ؛اور نہ ہی جامعہ محمدیہ سے منسلک کوئی فرد؛اور نہ آپ کا کوئی شاگرد ۔

(۲)شائقی ۔رحمہ اللہ۔جامعہ محمدیہ کے اول محرک ؛جامعہ محمدیہ کے بانی ؛جامعہ محمدیہ کے اول شیخ الجامعہ ؛جامعہ محمدیہ کے اول صدر المدرسین اور بلا مبالغہ  پورے خطہ میں  تعلیم و تربیت؛تدریس و تفقہ؛اصلاح و انقلاب ,تعمیر و ترقی کے جوت جگانے والے ہیں؛ارباب ِ جامعہ محمدیہ یقینا اس جانب پیش رفت کرنے کے لئے کوشاں ہوں گے؛مگر تجویز پیش کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ارباب ِ جامعہ محمدیہ کو کم از کم ان دونوں شخصیات (حضرت مولانا محمد خالد فیضی اور حضرت مولانا عبد الرشید شائقی )کی حیات و کارنامے پر ایک علمی سیمینار منعقد کرنا چاہئے؛ساتھ ہی آپ دونوں شخصیات۔رحمہما اللہ۔ کی مساعی و خدمات پر  مقالہ جات جمع کرکے منصہ ٔ شہود پر لانے کا جتن کرنا چاہئے

(۳)حضرت مولانا عبد الرشید شائقی ۔رحمہ اللہ۔کی جامعہ سے محبت اٹوٹ و بے مثل تھی؛پوری زندگی آپ نے جامعہ کے لئے وقف فرما دی تھی؛اور سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے جامعہ کے لئے سوچتے رہتے تھے؛لہذا جامعہ میں ایک ہال بنایا جانا چاہئے جسے (شائقی ہال) کے نام سے موسوم کیا جانا چاہئے

(۴)حضرت مولانا شائقی ۔رحمہ اللہ۔ایک لمبی مدت کے لئے جامعہ رحمانیہ مدھوپور کی صدارت کی کرسی پر براجمان رہے؛جس سے حضرت مولانا شائقی کو فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو؛مگر ارباب ِ جامعہ رحمانیہ کو فائدہ ضرور پہنچا ہے؛لہذا  ارباب بست و کشاد کو چاہئے کہ ایک ہال حضرت مولانا کے نام موسوم کیا جائے

(۵)علماء کی بہ کثرت وفات؛ہمارے ذہن و مزاج کا وقتی طور پر متأثر ہونا؛کچھ دیر کے لئے چند آنسو بہا لینا؛کچھ تحریریں لکھ دینا ؛تعزیت کر لینا ؛تعزیتی کلمات کہہ لینا ؛یہ سب تو ہوتا رہتا ہے؛اور ہوتا رہے گا ؛مگر  اب تک ایسی کوئی منظم خاکہ سازی نہیں ہو سکی کہ متوفی کے اہل و عیال ؛بال بچے اور بیوی وغیرہ کے لئے  کوئی خاص بند و بست ہو سکے ؛اس جانب بھی پہل ہونی چاہئے ؛ایک خاص گروپ تشکیل پائے؛کچھ لوگ اس کے لئے آگے آئیں ؛اور جو علماء مریض ہیں یا  پریشان حال ہیں؛یا مصیبت اور دکھ میں مبتلا ہیں ؛اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ؛ان کی معاونت کے لئے ایک خاکہ اور منظم خاکہ بنائیں ؛فند اکٹھا کیا جائے اور زیادہ نہیں ہر عالم اگر ہر ماہ سو سو (۱۰۰) روپئے جمع کرے  تو قطرہ قطرہ دریا شود کے مصداق ایک مدت میں ہمارے پاس ایک بھاری رقم ہوگی ۔ان شاء اللہ۔وقتی طور پر تو یہ عجیب سا لگے گا مگر رفتہ رفتہ اس کی  حقیقت و اہمیت طشت از بام ہوتی جائے گی۔

(۶)مذکورہ اس کام کے لئے ایک صندوق کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے جو ((مشایخ ِ بزرگاں ریلیف))سے موسوم کیا جائے؛اس کے لئے ایک عام  واٹس ایپ گروپ  کی تشکیل ہو؛اور  علمائے کرام کو اس سے جوڑا جائے؛قابل اعتماد لوگوں کو ذمہ دار بنایا جائے ؛مناسب ہو تو اسے سرکاری رجسٹریشن سے بھی سرفراز کیا جائے؛اور معاونت کے لئے مل بیٹھ کر شرائط و ضوابط طے کئے جائیں

(۷)جھارکھنڈ کے جن مدارس میں فضیلت تک کی تعلیم ہے،مولانا کی حیات و خدمات پر مقالے لکھنا

صوبہ ٔ جھارکھنڈ کے جن مدارس و جامعات میں عالمیت,فضیلت تک کی تعلیم کا انتظام ہے؛اور وہاں مقالہ جات لکھنے لکھوانے کا نظم و نسق ہے؛ضروری طور پر حضرت مولانا عبد الرشید شائقی ۔رحمہ اللہ۔کی حیات و خدمات پر ایک آدھ لڑکوں سے مقالہ لکھوائے جائیں

(۸)جھارکھنڈ کے جو طلبہ جھارکھنڈ  کے علاوہ دوسرے صوبہ جات کے مدارس و جامعات میں زیر تعلیم ہیں اور وہاں مقالے لکھنے لکھانے کا نظم و نسق ہے ؛،اپنے مقالے والے سال میں مولانا کی شخصیت کو اپنے مقالے کا عنوان منتخب کریں

_

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *