تراوش ِ قلم:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
الحمد للہ رب العالمین ‘و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین ‘أما بعد
حضرت عیسی علیہ و علی نبینا علیہ الصلاۃ و السلام انبیاء کرام میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں ،اللہ تعالی نے اپنی قدرت کا شاہکار بناکر اور معجزانہ انداز میں آپ کو دنیا میں بھیجا،آپ کی زندگی شروع ہی سے غیر معمولی رہی ،اللہ تبارک و تعالی نے معجزانہ طورپر بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور پھر زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا‘جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ‘بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا)(النساء:۱۵۷)(ترجمہ ٔ آیت:اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسی بن مریم کو قتل کردیا ‘حالانکہ نہ تو انہوں نے اسےقتل کیا‘نہ سولی پر چڑھایا‘بلکہ ان کے لئے ان(عیسی)کا شبیہ بنادیاگیا تھا‘یقین جانو کہ حضرت عیسی (علیہ السلام)کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں‘انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بہ جز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے ‘اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا ہے‘بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا ہےاور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے)اور دوبارہ قرب ِ قیامت میں آپ دنیا میں تشریف لائیں گے‘جیسا کہ قرآن کریم اور فرمان ِ نبوی سے ثابت ہے‘جیسا کہ ارشاد ہے(( وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا ، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلَ الخِنْزِيرَ ، وَيَضَعَ الجِزْيَةَ ، وَيَفِيضَ المَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا . ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ : وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ : ( وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ، وَيَوْمَ القِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا ) ))(بخاری رقم:۳۴۴۸‘مسلم رقم:۱۵۵)ترجمہ :قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘قریب ہے کہ حضرت عیسی تم میں عادل و منصف بن کر اتریں گے ‘چنانچہ صلیب توڑ دیں گے‘خنزیر کو مار ڈالیں گے‘ٹیکس ختم کردیں گے‘مال کی اس قدر بہتات کردیں گے کہ کوئی لینے والا نہیں ہوگا‘یہاں تک کہ ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہوگا ‘پھر حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ تم اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو((( وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ، وَيَوْمَ القِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدً)) ۔حضرت عیسی ؑ کی زندگی نہایت سبق آموز اور عبرت انگیز ہے۔اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر الگ الگ اسلوب و اندازمیں آپ کی شخصیت کا تذکرہ فرمایا ہے۔عجیب تماشا یہ ہے کہ آپ کے ماننے والوں نےآپ کی اتباع کے نام پر آپ کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک کیاہے اور آپ کی جانب اور آپ کی ماں حضرت مریم کی جانب بہت سی غیر ضروری اور لایعنی و مشرکانہ باتوں کو منسوب کردیا ہے اورایسے عقائد ونظریات کو ان کے ناموں کے ساتھ چسپاں کردیا ہے کہ جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے‘اور نے ہی یہ عیسائیت کی تعلیمات سے میل کھاتے ہیں
کرسمس ڈے کی حقیقت:
در حقیقت کرسمس(Christmas) دو الفاظ Christ اور Massکا مرکب ہے۔ Christمسیح کو کہتے ہیں اور Mass سےاجتماع، اکٹھا ہونااور عبادت کرنا۔ مراد ہے، مسیح کے لیے اکٹھا ہونا، مسیحی اجتماع یامیلاد مسیح یا میلاد ِ مسیح کے موقعے پر عبادت بجالانا۔
’’بڑا دن‘‘ بھی کرسمس کا مروجہ نام ہے۔ یہ دن ولادت مسیح علیہ السلام کے سلسلہ میں منایا جاتا ہے۔ چونکہ عیسائیوں کے لیے یہ ایک اہم اور مقدس دن مانا جاتا ہے، اس لیے اسے بڑا دن بھی کہا جاتا ہے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیسائی اسے 25 دسمبر کو، مشرقی آرتھوڈوکس کلیسائی 6جنوری کو اور ارمینیا کلیسائی 19جنوری کو مناتے ہیں۔ کرسمس کا بطور تہوار 25 دسمبر کو منانے کا ذکر پہلی مرتبہ 325ء کو شاہِ قسطنطین کے عہد میں ملتا ہے‘اس سے پہلے اس عید کا کوئی تصور تھا اور نہ ہی یہ منائی جاتی تھی ‘ہاں یہ بات ضرور ہے کہ صحیح طور پر معلوم نہیں کہ اولین کلیسائیں بڑا دن مناتی تھیں یانہیں۔
4صدیوں تک 25دسمبر تاریخ ولادت عیسی نہیں سمجھی جاتی تھی۔ 530ء میں سیتھیا کا ایک ڈایونیس اکسیگز نامی راہب جو منجّم(ستاروں کا علم رکھنے والا) بھی تھا، تاریخ ولادت عیسی کی تحقیق اور تعین کے لیے مقرر ہوا۔ اور اُس نے حضرت مسیح ۔علیہ السلام۔ کی ولادت 25دسمبر مقرر کی کیونکہ مسیح علیہ السلام سے پانچ صدی قبل 25دسمبر مقدس تاریخ تھی۔ بہت سے سورج دیوتا اُسی تاریخ پر یا اُس سے ایک دو دن بعد پیدا ہونا تسلیم کیے جا چکے تھے۔ چنانچہ راہب نے آفتاب پرست اقوام میں عیسائیت کو مقبول بنانے کے لیے حضرت عیسیٰ ؑکی تاریخ ولادت 25دسمبر مقرر کر دی۔
قرآن مجید کی سورت مریم کا مطالعہ کیجئے ‘آپ کو پتہ چلے گا کہ جب حضرت مریم کو دردزہ محسوس ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت کی کہ کھجوروں کے تنے کو ہلائیں، تاکہ ان پر تازہ پکی کھجوریں گریں اور وہ اس کو کھائیں‘اللہ تعالی نے فرمایا : وَهُزِّي إِلَيْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيًّا(مریم:۲۵)(ترجمہ:اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا‘یہ تیرے سامنے تروتازہ پکی کھجوریں گرادے گا)اور ہوا یہ کہ اللہ تعالی نے حضرت مریم کے پاؤں تلے ‘پینے کے لئے پانی کا اور کھانے کے لئے ایک سوکھے ہوئے درخت میں پکی ہوئی تازہ کھجوروں کا انتظام کردیا ۔
آج بھی آپ ان ممالک کا جائزہ لے لیں جہاں کھجوریں پیدا ہوتی ہیں‘آپ کو معلوم ہوگا کہ موسم ِ گرما میں ہی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں‘موسم ِ سرما میں نہیں ‘خود فلسطین میں موسم گرما کے وسط یعنی جولائی، اگست میں ہی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں‘اور یہ بھی واضح ہے کہ ۲۵ دسمبر تمام ممالک میں موسم ِ سرما ہوا کرتا ہے ‘فلسطین جو حضرت عیسی ۔علیہ السلام ۔ کی جائے پیدائش ہے‘وہاں بھی دسمبر میں سخت کڑاکے کی سردی پڑتی ہے۔ اس سے بھی یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسی کی ولادت جولائی یا اگست کی کسی تاریخ میں ہوئی ہوگی‘ اور 25دسمبر کی تاریخ یکسر غلط اور افسانہ ہی قرار پائے گا۔(دیکھئے:مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ: از :چودھری غلام رسول چیمہ ص ۴۳۷)جبکہ استاذ عزت علی طہطاوی نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کو ماہ ِ اگست یا ستمبر کی کسی تاریخ میں ہی ہونا قرین ِ قیاس قرار دیا ہے (دیکھئے:النصرانیۃ و الإسلام ص ۲۴۱۔۲۴۴)
مذکورہ بالا حوالہ سے یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ 25دسمبر عیسی ۔علیہ السلام ۔ کی تاریخ ِ ولادت نہیں قرار دی جا سکتی ہے ‘ اب اگر کوئی ۲۵ دسمبر ہی کو یوم ِ پیدائش ہونے کی ضد کرے تو اس کی عقل پر ماتم ہی جا سکتا ہے ‘اس کے سوا کچھ نہیں ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرسمس ڈے کی مناسبت سے ہم عیسائیوں کو مبارک باد دے سکتے ہیں ‘تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ :
(۱)چاپلوسی سے ہی سہی ان کی عید پر انہیں مبارک باد نہیں دی جا سکتی ہے ‘کیوں کہ اللہ کے احکامات میں تبادلہ نہیں ہوا کرتا ہے(کہ آپ ہمیں مبارک بادی دیجئے اور ہم آپ کو)اور نہ ہی مجاملت و مداہنت اختیار کی جاسکتی ہے‘کیوں کہ بتوں کی تعظیم قطعی کسی بھی صورت میں جائز و روا نہیں ‘اللہ تعالی نے فرمایا:(ودوا لو تدهن فيدهنون}(سورہ ٔ ن:۹)ترجمہ ٔ آیت:وہ تو چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں)اس لئے حق کے باب میں مداہنت ‘مجاملت‘چاپلوسی‘حکمت تبلیغ اور کار ِ نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے
(۲)انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس امر پر غور فرمائیں کہ جب حضرت عیسی ۔علیہ السلام کی تاریخ پیدائش کی تعیین ہی درست نہیں ہے ‘تو مبارک بادی کا تو کوئی تصور ہی نہیں ہے ‘جب خود عیسائی از آں دم تا ایں دم حضرت عیسی ۔علیہ السلام ۔ پر اتاری گئی انجیل کی حفاظت نہیں کرسکے تو تاریخ پیدائش کا تعین کیوں کر کرسکتے ہیں؟اور جب تاریخ ہی محفوظ نہیں کرسکے تو انہیں عید منانے کا جواز کیوں کر حاصل ہوسکتا ہے؟
ذرا سوچنے کی بات ہے کہ حضرت عیسی۔علیہ السلام۔ کی تاریخ ولادت پر شدید اختلاف ہے ‘لہذاکسی ایک تاریخ کو بالجزم آپ کی تاریخِ ولادت قرار نہیں دی جا سکتی ہے ‘اور نہ ہی مسلمانوں کے یہاں اور نہ ہی عیسائیوں کے یہاں کسی ایک تاریخ پر اتفاق ہوسکا ہے
(۳)ذرااس امر پر بھی غور فرمائیں کہ جب جب میلاد مسیح کا تذکرہ ہوا کرتا ہے ‘آپ کے اللہ کا بیٹا ہونے کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے ‘اور اللہ تعالی نے انتہائی شدید لہجے اور کرخت انداز میں اس کی نکیر فرمائی ہے ‘فرمایا: (وقالوا اتخذ الرحمن ولدا، لقد جئتم شيئا إدّا، تكاد السماوات يتفطرن منه وتنشق اﻷرض وتخر الجبال هدّا)(مریم:۸۸۔۹۰)ترجمہ:ان کا قول تو یہ ہے کہ اللہ رحمن نے بھی اولاد اختیار کی ہے ‘یقینا تم بہت بری اور بھاری چیز لائے ہو‘قریب ہے کہ اس قول کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزے ریزہ ہوجائیں
ذرا تصور کیجئے اور ایک لحظہ کے لئے تامل کیجئے کہ کیا انہیں مبارکبادی پیش کرکے ان کے کفر و شرک میں ہم شریک نہیں ہوں گے ؟کیا انہیں مبارکباد دے کر ہم ان کے اس باطل عقیدے کے اقرار و اعتراف کاجرمِ عظیم نہیں کریں گے ؟(اگر ہم انہیں مبارکباد پیش کریں گے)ذرا اندازہ کیجئے کہ جو صلیب بناکر زندگی بھر یہ شرک کرتے رہے ‘خود حضرت عیسی علیہ السلام اسے توڑیں گے اور اس غلط عقیدے کی تردید فرمائیں گے
(۴)کرسمس ڈے کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرنا باتفاق تمام صحابہ اور جمیع أئمہ مسالک ِ اربعہ حرام اور ناجائز ہے
چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے (اجتنبوا أعداء الله في عيدهم)(ترجمہ: الله كے دشمنوں سے انکے تہوار میں اجتناب کرو.(سنن بيهقی حدیث نمبر(18862)
حضرت عبد اللہ بن عمرو(رضی اللہ عنہ ) فرمایا کرتے تھے: (من مر ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك حشر معهم يوم القيامة:)(دیکھئے :اقتضاء۱ الصراط المستقیم :۱ ۲۰۰‘سنن بیہقی: حدیث نمبر( 18863)اسنادہ صحیح )ترجمہ:غیر مسلموں کی سر زمین میں رہنے والا مسلمان ان کے نوروز(New Year) اور ان کی عید کو ان کی طرح منائے اور اسی رویّے پر اس کی موت ہو تو قیامت کے دن وہ ان غیر مسلموں کے ساتھ ہی اُٹھایا جائے گا‘‘
اللہ اکبر !کس قدر صریح الفاظ ہیں کہ جس میں شک کی ایک رتی کے برابر بھی گنجائش نہیں پائی جاتی ہے کہ ان کے اعیاد و مہرجانات میں شرکت کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے
ابو القاسم ہبۃ اللہ طبری مسلک شافعی کے معتبر فقیہ مانے جاتے ہیں ‘آپ ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:,,مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی عیدوں میں شرکت کریں کیونکہ وہ برائی اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ اور جب اہلِ ایمان اہلِ کفر کے ایسے تہوار میں شرکت کرتے ہیں تو کفر کے اس تہوار کو پسند کرنے والے اور اس سے متاثر ہونے والے کی طرح ہی ہیں۔اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ان اہل ایمان پر الله کا عذاب نہ نازل ہو جائے کیونکہ جب الله کا عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔”( احکام اہل الذمۃ:3؍1249)
امام مالک کے شاگردِ رشید مشہور مالکی فقیہ عبدالرحمٰن بن القاسم رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:,,کیا ان کشتیوں میں سوار ہونا جائز ہے جن میں عیسائی اپنی عیدوں کے دن سوار ہوتے ہیں۔تو آپ رحمته اللہ نے اس وجہ سے اسے مکروہ جانا کہ کہیں ان پر الله کا عذاب نہ اُتر آئے کیونکہ ایسے مواقع پر وہ مل کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں‘‘( المدخل لابن الحاج:2؍47)
مشہور حنفی فقیہ ابو حفص کبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر کوئی شخص پچاس سال الله کی عبادت کرے پھر مشرکین کی عید آئے تو وہ اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے کسی مشرک کو ایک انڈہ ہی تحفہ دے دے تو اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال ضائع ہو گئے۔”(البحرالرقائق شرح کنز الدقائق: 8؍555؛الدر المختار: 6؍754)
امام اہل سنت ‘امام احمد بن حنبل۔رحمہ اللہ ۔ جب سے پوچھا گیا:
“جس شخص کی بیوی عیسائی ہو تو کیا اپنی بیوی کو عیسائیوں کی عید یا چرچ میں جانے کی اجازت دے سکتا ہے ؟تو آپ نے فرمایا:وہ اسے اجازت نہ دے کیونکہ الله نے گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔”( المغنی لابن قدامہ:9؍364 ؛الشرح الکبیر علیٰ متن المقنع:10؍625)
شیخ الإسلام علامہ ابنِ تیمیہ نے اس مسئلہ میں یوں رقم طراز ہیں:
,,موسم سرما میں دسمبر کی 24تاریخ کو لوگ بہت سے کام کرتے ہیں۔عیسائیوں کے خیال میں یہ دن حضرت عیسیٰ۔علیہ السلام ۔ کی پیدائش کا دن ہے۔اس میں جتنے بھی کام کئے جاتے ہیں مثلاًآگ روشن کرنا، خاص قسم کے کھانے تیار کرنا اور موم بتیاں وغیرہ جلانا سب کے سب مکروہ کام ہیں۔اس دن کو عید سمجھنا عیسائیوں کا عقیدہ ہے ۔اسلام میں اس کی کوئی اصلیت نہیں اورعیسائیوں کی اس عید میں شامل ہونا جائز نہیں ‘‘(اقتضاء الصراط المستقیم : 1؍478)
شیخ الإسلام کے شاگرد ِ رشید علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کفار کو انکے کسی تہوار پر وہی شخص مبارکباد دیتا ہے جسکے ہاں دین إسلام کی کوئی قدر وقیمت نہیں اور نہ ہی اسے اپنے کئے کی قباحت کا اندازہ ہے_ [أحكام أهل الذمة (۱؍۱۶۱]
مختلف شافعی فقہاء۔رحمہم اللہ۔ کا کہنا ہے کہ:‘‘جو کفار کی عید میں شامل ہو، اسے سزا دی جائے‘‘(دیکھئے:الاقناع:2؍526؛مغنی المحتاج:5؍526)مذکورہ تمام نقولات سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے اور دو دو چار کی طرح واضح کہ اجلہ صحابہ ٔ کرام اور مسالک ِ اربعہ‘اور معتبر علمائے اسلام کے یہاں بھی کرسمس ڈے کی شناعت و قباحت طشت از بام ہے
(۵)کسی بھی مسلمان کے لئے قطعی جائز نہیں ہے کہ مشرکوں کی عیدوں میں شرکت کرے ‘اللہ تعالی کے قول ((والذين لايشهدون الزور)(الفرقان:۷۲)سے ابو العالیہ ‘طاؤس‘امام ربیع بن أنس ‘ضحاک اور ابن سیرین جیسے معتبر علمائے سلف نے مشرکوں کی عید مراد لیا ہے (دیکھئے:تفسیر ابن کثیر:۳؍۲۰۹۷)
آج مجھے بڑا تعجب ہوا ‘جب ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ مبارکبادی پیش کر رہے ہیں اہل کلیسا کو ‘گوکہ کوئی شخص از راہ ِ مذاق ہی مبارکباد پیش کرے ‘قطعی جائز نہیں ہے ‘لہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے امور سے اجتناب کریں