غیروں پہ کرم (ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے)

از عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین  و من تبعہم بإحسان إلی یوم الدین  أما بعد

پوری دنیا میں انتہائی بے شرمی و حیائی کے ساتھ ۱۴  فروری کو ویلنٹائن ڈے (یوم ِ تجدید ِ محبت) منایا جاتا ہے؛یہ وہ دن ہے ,جب لوگ ایک دوسرے کو پیام ِ محبت کے ساتھ ,کارڈ,پھول,چاکلیٹ ,ٹافیاں,مٹھائیاں ,بسکٹس وغیرہ ارسال کرکے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں,اور اخلاق سوز عمل انجام دیتے ہیں , یہ  دن کو شادی شدہ جوڑے اور ایک دوسرے سے عشق و پیار کرنے والے لوگ زیادہ منانے ہیں ؛اور اس کی اہمیت ان کے نزدیک کچھ زیادہ ہی ہے ,و لا حول و لا قوۃ إلا باللہ العلی العظیم ۔

ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟

آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ  یہ ویلنٹائن ڈے کیا ہے؟ گوکہ اس تعلق سے کوئی مستند تاریخی بات تو پایہ ٔ ثبوت کو نہیں پہنچتی ہے ؛مگر کہا جاتا ہے کہ ۲۷۹ ء کے ماہ ِ فروری کی ۱۴؍تاریخ کو ایک واقعہ پیش آیا ,بتایا جاتا ہے کہ ’’تیسری صدی عیسوی میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا۔ اس لیے ایک دن ویلن ٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہے کہ ۱۴ فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے اس پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلن ٹائن صاحب کو’شہید ِمحبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یادمیں دن منانا شروع کردیا‘‘

نیز یہ بھی  بتایا جاتا ہے کہ :,, اس دن کا تعلق قدیم بُت پرستوں (رومیوں) کے ایک دیوتا کے مشرکانہ تہوار سے ہے ، یہ تہوار ہر سال فروری کے وسط میں منایا جاتا تھا، اس تہوار میں کنواری لڑکیاں محبت کے خطوط لکھ کر ایک بہت بڑے گلدان میں ڈال دیتی تھیں، اس کے بعد محبت کی اس لاٹری میں سے روم کے نوجوان لڑکے ان لڑکیوں کا انتخاب کرتے جن کے نام کا خط لاٹری میں اُن کے ہاتھ آیا ہوتا، پھر وہ نوجوان لڑکے لڑکیاں شادی سے پہلے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ملاقاتیں کرتے، ویسبٹرز فیملی انسائیکلوپیڈیا کے مطابق عیسائیت کے مذہبی رہنماؤں نے اس مشہور بت پرستانہ رسم کو ختم کرنے کے بجائے اسے عیسائی لبادہ اوڑھانے کے لیے ایک پادری ”سینٹ ویلنٹائن” کے تہوار میں بدل دیا،”سینٹ ویلنٹائن” وہ پادری ہے جسے ”شاہ کلاڈیس” نے اس جرم میں قتل کروادیا تھا کہ وہ ایسے فوجیوں کی خفیہ طور پر شادیاں کروایا کرتا تھا، جنہیں شادیوں کی اجازت نہ تھی، سزا کے دوران قید کے زمانہ میں ویلنٹائن جیلر کی اندھی بیٹی پر عاشق ہو گیا، سزا پر عمل درآمد سے پہلے اپنی محبوبہ کو آخری خط لکھا، جس کے آخر میں دستخط کے طو ر پر ”فرام یور ویلنٹائن” تحریر کیا، یہ طریقہ وقت گزنے کے ساتھ ساتھ رواج پا گیا،بعض لوگ اس دن کو رومیوں کے محبت کے دیوتا ”کیوپڈ” سے متعلق سمجھتے ہیں ، اس کے بارے میں عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ لوگوں کے دلوں میں تیر مارکر انہیں عشق میں مبتلا کرتا ہے ، اُن کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کی ماں ( محبت کی دیوی ”Venus”) کاپسندیدہ پھول گلاب ہے,,

پھر  طوفان ِ بد تمیزی کا وہ دور آیا کہ لوگ شعوری و غیر شعوری طور پر اسے  عید ِ عاشقاں(عید الحب)کے نام سے باقاعدہ انتہائی بے شرمی ؛بے حیائی کے ساتھ منانے لگے؛حد تو  اس وقت ہوجاتی ہے جب لوگ اسے معیوب تک نہیں سمجھتے ہیں بلکہ اس کے منانا فخر و مباہات تصور کرتے ہیں ۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ دن عاشقوں کی عید کے طور پر کیوں منایا جاتا ہے ؟اور سینٹ ویلنٹائن  کون ہے؟اس سے اس کی کیا نسبت ہے ؟آئیے اسے بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں,بک آف نالج کا ایک اقتباس ملاحظہ فرماتے ہیں :

”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین سے کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں(گرل فرینڈ) کے نام اپنی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کوسینٹ ’ویلن ٹائن‘ کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقہ حیات کی تلاش میں تھا۔

سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلن ٹائن ڈے والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیہ کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا,,۔

ویلنٹائن ڈے کی حقیقت :

اب آئیے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اس ڈے(دن)کی کیا حقیقت ہے؟اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟اس کے کیا نقصانات ہیں ؟ اور اس کی کیا کچھ خطرناکیاں ہیں ؟

درج ذیل حقائق کی روشن میں انتہائی سنجیدگی سے غور فرمائیں :۔

(۱)ویلنٹائن ڈے نے اسلامی و دینی صاف و شفاف ؛پاکیزہ و طاہر ؛اور نفیس و نظیف معاشرہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ بد امن اور داغ دار کیا ہے ، اخلاقی قدروں کو تیا پانچہ کر کے رکھ دیا ہے؛اس لئے ہم نے اپنی اس تحریر کو ((غیروں پہ کرم)) کا نام دیا ہے ، اور رشتوں ، تعلقات ، احترام ، انسانیت تمام چیزوں کو پامال کیا ہے ، لال گلاب اور سر خ رنگ اس کی خاص علامت ہے ، پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِ محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے ، بڑے پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس کو منہ بولے دام میں خریدتے ہیں ، منچلوں,جسم و جان سے کھیلواڑ کرنے والوں ,شریعت کا مذاق اڑانے والوں  اور اسلامی تعلیمات کی دھجیاں اڑانے والوں کے لئے باضابطہ  مستقل تفریح کا سامان بن گیا ہے۔

(۲)جھوٹی محبت کا انجام: جھوٹی محبت کا انجام کا اگر جائزہ لینا ہو,اخبارات کی یہ سرخیاں ملاحظہ فرمالیں ,جن سے آپ اچھی طرح سے اندازہ کر سکیں گے کہ جھوٹی محبت ؛لا اساس عشق,بے بنیاد دعوی ٔ عقیدت کے تار و پود کس طرح بکھیرے جاتے ہیں,ملاحظہ فرمائیں :

’’عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا ،, ,,محبت کی شادی کا درد ناک انجام ،, ,,خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل,, ، ,,عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کر دیا,, ، ,,محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند,, ، ,,محبت کی ناکامی پر دو بھائیوں نے خود کشی کر لی,, ، ,,محبت کی ناکامی میں نوجوان ٹرین کے آگے گود گیا,, ، ,,جسم کے دو ٹکڑے,, ، ,,ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کر ڈالا,, ۔

(۳) یہ تہوار خالص عیسائی تہوار ہے : سب سے پہلے آپ یہ سمجھنا چاہئے  کہ یہ تہوار ایک خالص عیسائی تہوار ہے ، جس میں بے حیائی اور فحاشی,بیہودگی و کیمنگی ,عریانی و بے شرمی  کی ہر حد پار کر دی جاتی ہے ، جبکہ اسلام ایک پاکیزہ اور حیا کو فروغ دینے والا مذہب ہے ، جس کی فطرت میں حیا و پاکدامنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے وہ ہرگز اس کی اجازت نہیں دے سکتا ، نبی ٔ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا 🙁 إنَّ لِكُلِّ دينٍ خُلُقًا، وإنَّ خُلُقَ الإسلامِ الحياءُ))(ابن ماجہ  حدیث نمبر:۴۱۸۲,طبرانی حدیث نمبر:۱۰۷۸۰,مؤطا امام مالک حدیث :۳۳۵۹,علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے,دیکھئے :صحیح ابن ماجہ ,اور سلسلہ صحیحہ حدیث نمبر:۹۴۰,)(ترجمہ:بے شک ہر دین کی کوئی خاص خصلت ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خاص خصلت حیا ہے” ۔

بھلا بتائیے جس مذہب کی شناخت و پہچان ہی حیا و شرم ہو؛وہ دین بھلا بے حیائی و شرمی ؛بیہودگی و کمینگی ,فحاشی ,عریانی,اور جنس و موسیقی کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟

اسلامی تہذیب و تمدن وثقافت میں خوشیاں منانا بھی عبادت کا اولین حصہ رہا ہے ، خوشیوں کا اہتمام کرنا ، خود خوش رہنا  اور دوسروں کو خوش رکھنا ، ایک دوسرے سے ہم دردی و محبت و عقیدت رکھنا یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات رہی ہیں ، جس سے کسی باشعور و باغیرت انسان کو انکار نہیں ہے ، لیکن اس کے برعکس اس محبت و عقیدت کو پروان چڑھانے کے لئے ایک دن مقرر کر لینا یہ گمراہی ہے ، اور ہر گمراہی بدعت ہے اور ہر بدعت جہنم کی طرف لے جانے والی ہے ، اور یہ بدعات و خرافات کی شکلیں ہیں جس کی ممانعت آپ ﷺ نے آج سے چودہ سو سال پہلے کر دی تھی ، جیسا کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا 🙁 مَن أحْدَثَ في أمْرِنا هذا ما ليسَ منه فَهو رَدٌّ)(مسلم حدیث نمبر:۱۷۱۸,من حدیث ام المؤمنین عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔)

(۴)یہ عید سر تاسر عیسائیوں کی مشابہت ہے؛اور آپ ﷺ نے اغیار کی مشابہت اور ان کی نقالی سے انتہائی شدید لہجوں میں منع فرمایا ہے؛جیسا کہ آپﷺ کا ارشاد ہے : (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ)(ابو داؤد حدیث نمبر:۴۰۳۱,علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح ابی داؤد میں صحیح قرار دیا ہے,)(ترجمہ:جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے)نیز نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا: (لَتَتَّبِعُنَّ سُنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوْا جُحَرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوھُمْ قُلْنَا یَا رَسُوْلَ اﷲ ِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ فَمَنْ ؟ )(بخاری حدیث نمبر:۷۳۲۰,مسلم حدیث نمبر:۲۶۶۹)(ترجمہ:تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طور وطریقوں کی اس طرح پیروی کروگے جس طرح ایک بالشت دوسری کے برابر ہوتی ہے حتیٰ کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تو تم اس میں بھی ان کے پیچھے لگوگے ۔ہم نے کہا ،یا رسول اﷲ کیا وہ یہودی اور عیسائی ہیں ،آپ[صلی اللہ علیہ وسلم] نے فرمایا ،تو اور کون ہیں؟)

(۵)اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں,یہ تیسری عید کہاں سے آئی؟کس نے لایا؟کس نے اس کو ایجاد کیا؟کیوں ایجاد کیا؟

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ۔رحمہ اللہ ۔کےدو انتہائی عظیم  اقتباس نقل کرنا یہاں مناسب سمجھتا ہوں,جن سے اس طرح کی مصنوعی اعیاد اور جشن ہائے باطلہ پر شاندار  روشنی پڑتی ہے,اور اس طرح کی اعیاد کے قائلین کا شدید رد ہوجاتا ہے,شیخ الإسلام فرماتے ہیں:( الأعياد من جملة الشرع والمنهاج والمناسك التي قال الله سبحانه (عنها): (لكل جعلنا منكم شرعة ومنهاجا) وقال: (لكل أمة جعلنا منسكا هم ناسكوه) كالقبلة والصلاة والصيام، فلا فرق بين مشاركتهم في العيد، وبين مشاركتهم في سائر المناهج؛ فإن الموافقة في جميع العيد موافقة في الكفر، والموافقة في بعض فروعه موافقة في بعض شعب الكفر، بل الأعياد هي من أخص ما تتميز به الشرائع، ومن أظهر ما لها من الشعائر، فالموافقة فيها موافقة في أخص شرائع الكفر وأظهر شعائره، ولا ريب أن الموافقة في هذا قد تنتهي إلى الكفر في الجملة.

وأما مبدؤها فأقل أحواله أن تكون معصية، وإلى هذا الاختصاص أشار النبي صلى الله عليه وسلم بقوله: (إن لكل قوم عيدا وإن هذا عيدنا) وهذا أقبح من مشاركتهم في لبس الزنار (لباس كان خاصاً بأهل الذمة) ونحوه من علاماتهم؛ فإن تلك علامة وضعية ليست من الدين، وإنما الغرض منها مجرد التمييز بين المسلم والكافر، وأما العيد وتوابعه فإنه من الدين الملعون هو وأهله، فالموافقة فيه موافقة فيما يتميزون به من أسباب سخط الله وعقابه.” اقتضاء الصراط المستقيم” (1/207)(ترجمہ: “سالانہ دن منانا ایسا منہج ، مسلک اور شریعت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

( لكل جعلنا منكم شرعة ومنهاجا )

ترجمہ: ہم نے ہر ایک کے لئے شریعت اور منہج بنا دیا ہے۔ المائدۃ/48

اسی طرح فرمایا:

( لكل أمة جعلنا منسكا هم ناسكوه )

ترجمہ: ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا جس پر وہ چلتے ہیں۔ الحج/ 67

جیسے قبلہ، نماز، روزہ وغیرہ، چنانچہ انکے تہواروں میں یا دیگر عبادات میں شرکت کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے، اس لئے کہ کسی ایک تہوار میں انکی موافقت کرنا کفر پر موافقت ہے، اور چند جزئیات میں موافقت کفر کی بعض جزئیات میں موافقت شمار ہوگی، بلکہ تہواروں کی وجہ سے ہی مختلف شریعتوں میں امتیاز ہوتا ہے، اور اسی سے کسی شریعت کےشعائرکا اظہار ہوتا ہے، اس لئے تہواروں میں موافقت کفریہ شریعت اور واضح ترین کفریہ شعیرہ پر موافقت تصور ہوگی، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تہواروں میں موافقت آخر کارخالص کفر تک پہنچا سکتی ہے۔

ابتدائی طور پر تہوار منانے کی کم از کم حیثیت ایک گناہ ہے، اور انہی خصوصی تہواروں کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا: (ہر قوم کیلئے ایک تہوار ہے، اور ہمارا تہوار ہماری عید ہے) چنانچہ “زنار” – اسلامی ریاست میں ذمی لوگوں کیلئے خاص لباس- وغیرہ اُنکی خاص علامات پہننا بد ترین مشابہت ہے؛ اس لئے کہ یہ علامات مسلم حکمرانوں کی طرف سے وضع کی گئی ہیں دین نے مقرر نہیں کیں، جسکا مقصد یہ ہے کہ مسلم اور کافر کے مابین فرق کیا جاسکے، جبکہ تہوار اور اسکے لوازمات ملعون کفار اور ملعون دین سے تعلق رکھتے ہیں، چنانچہ ان کے امتیازی تہواروں میں موافقت کرنا اللہ تعالی کی ناراضگی اور سزا کا موجب بنتے ہیں)

نیز فرماتے ہیں: “(لا يحل للمسلمين أن يتشبهوا بهم في شيء مما يختص بأعيادهم، لا من طعام ولا لباس ولا اغتسال ولا إيقاد نيران، ولا تبطيل عادة من معيشة أو عبادة أو غير ذلك. ولا يحل فعل وليمة ولا الإهداء ولا البيع بما يستعان به على ذلك لأجل ذلك، ولا تمكين الصبيان ونحوهم من اللعب الذي في الأعياد ولا إظهار الزينة.

وبالجملة: ليس لهم أن يخصوا أعيادهم بشيء من شعائرهم، بل يكون يوم عيدهم عند المسلمين كسائر الأيام، لا يخصه المسلمون بشيء من خصائصهم)(مجموع فتاوی :۲۵ ۳۲۹)(ترجمہ: مسلمانوں کیلئے کفار کے ساتھ مشابہت کرنا جائز نہیں کہ انکے مخصوص تہواروں میں کھانا پینا، لباس، نہانا دھونا، چراغاں کرنا جائز نہیں، کسی دن عبادت یا کاروبار سے عام تعطیل وغیرہ کی جائے،اس دن کھانے تیار کرنا، تحفے تحائف دینا، تہوار کے لوازمات کی خرید و فروخت کرنا، تہوار کے دن بچوں کو کھیل کود اور اچھا لباس زیب تن کروانا سب کچھ جائز نہیں ہے۔

الغرض :مسلمانوں کیلئے یہ جائز نہیں کہ وہ کفار کے تہوار کے دن کوئی خاص کام کریں، بلکہ انکے تہوار مسلمانوں کے دیگر ایام کی طرح ہونے چاہئیں، مسلمان اسے کوئی اہمیت نہ دیں)

(۶)عاشقی کو بڑھاوا :ویلنٹائن ڈے کی قباحت اس لئے بھی دو چند ہوجاتی ہے کہ اس سے عاشقی ؛فحاشی اور دیوانگی کو بڑھاوا ملتا ہے,ذرا تصور کیا جائے اور غور کیا جائے کہ اگر کوئی اجنبی مرد (لڑکا)ہماری بہن بیٹیوں کو لال گلاب پیش کرے,ویلنٹائن کی مناسبت سے کوئی پیار بھرا کارڈ پیش کرے,کوئی محبت کا اظہار کرے,کوئی آنکھیں لڑائے,تحائف وغیرہ پیش کرے,کیا ہمیں یہ منظور ہوگا؟قطعی نہیں,کبھی نہیں ,پھر کوئی دوسرے کی بہن بیٹی کے لئے یہ روا کیوں گردانے؟اور بھلا شریعت میں  ایسے امور کی کہاں گنجائش ہو سکتی ہے ؟اس حوالہ سے ایک حدیث ملاحظہ فرما لیا جائے

(عن أبي أمامة رضي الله عنه قال: إن فتى شابًّا أتى النبيَّ صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ائذن لي بالزنا! فأقبل القوم عليه فزجروه، وقالوا: مه مه! فقال: ((ادنه))، فدنا منه قريبًا، قال: فجلس، قال: ((أتحبه لأمك؟))، قال: لا والله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لأمهاتهم))، قال: ((أفتحبه لابنتك؟))، قال: لا والله يا رسول الله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لبناتهم))، قال: ((أفتحبه لأختك))، قال: لا والله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لأخواتهم))، قال: ((أفتحبه لعمتك؟))، قال: لا والله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لعمَّاتهم))، قال: ((أفتحبه لخالتك))، قال: لا والله، جعلني الله فداءك، قال: ((ولا الناس يحبونه لخالاتهم))، قال: فوضع يده عليه، وقال: ((اللهم اغفر ذنبه، وطهر قلبه، وحصِّن فَرْجَه))، فلم يكن بعد – ذلك الفتى – يلتفت إلى شيء(مسند احمد حدیث نمبر:۲۲۲۱۱,شیخ شعیب ارناؤط نے اسے تخریج مسند میں؛علامہ البانی نے اپنی مایہ ٔ ناز کتاب سلسلہ صحیحہ حدیث نمبر (۳۷۰)میں صحیح قرار دیا ہے)(ترجمہ: سیدنا ابو امامہ انصاری ‌رضی ‌اللّٰہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ ایک انصاری نوجوان، نبی کریم صلی ‌اللّٰہ ‌علیہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللّٰہ کے رسول! آپ مجھے زنا کی اجازت دیں، لوگ اس پر پل پڑے اور کہا: خاموش ہو جا، خاموش ہو جاؤ,لیکن آ پ ﷺ نے اس نوجوان سے فرمایا: قریب ہوجا۔ پس وہ آپ ﷺ کے قریب ہوکر بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: کیا تو اپنی ماں کیلئے اس چیز کو پسند کرتا ہے؟ اس نے کہا: اللّٰہ کی قسم! ہرگز نہیں، اللّٰہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی ماؤں کیلئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے,پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا کیا تو اپنی بیٹی کے لئے اس چیز کو پسند کرے گا؟ اس نے کہا: نہیں، اللّٰہ کی قسم! اللّٰہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کر دے، آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اس برائی کو اپنی بیٹیوں کے لئے پسند نہیں کرتے,آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا کیا تو زنا کو اپنی بہن کے لئے پسند کرتا ہے؟ اس نے کہا: اللّٰہ تعالیٰ مجھے آپ پر فدا کرے، میں اپنی بہن کے لیے اس کو کبھی بھی پسند نہیں کروں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے, آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تو اس کو اپنی پھوپھی کے لئے پسند کرے گا؟ اس نے کہا: نہیں، اللّٰہ کی قسم میں اس کو پسند نہیں کروں گا، اللّٰہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر لوگ بھی اپنی پھوپھیوں کے لئے پسند نہیں کرتے,آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تو اس برائی کو اپنی خالہ کے لیے پسند کرے گا؟ اس نے کہا: نہیں، اللّٰہ کی قسم! میں اس کو پسند نہیں کروں گا، اللّٰہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ آپﷺنے فرمایا: تو پھر لوگ بھی اپنی خالاؤں کے لئے اس برائی کو پسند نہیں کرتے،آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا اور اس کے حق میں یہ دعا فرمائی: «اللّٰهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ وَطَهِّرْ قَلْبَهُ، وَحَصِّنْ فَرْجَهُ» اے میرے اللّٰہ! اس کے گناہ بخش دے، اس کے دل کو پاک کر دے اور اس کی شرمگاہ کو محفوظ کر دے۔ اس کے بعد وہ نوجوان کسی چیز کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتا تھا)

اس حدیث کا لفظ لفظ چیخ چیخ کر ہمیں دعوت ِ فکر و تامل دے رہا ہے کہ فواحش و منکرات عام کرنا کس قدر خطرناک ہے,اور اس سے کس طرح بچا جانا ضروری ہے,اور ہمارے معاشرے کی اصلاح و انقلاب کس طرح ممکن ہے ؟

خلاصہ ٔ کلام یہ کہ ویلنٹائن ڈے ایک عیسائی رومانوی,بے حیائی و فحاشی پھیلانے والا خطرناک عمل ہے جس سے اجتناب انتہائی ضروری اور بے حد لازمی و حتمی امر ہے,بلاشبہ یہ بے حیائی کا عالمی دن ہے,جس میں لوگ بے محابا کودے چلے جا رہے ہیں,اور غیر شعوری طور پر بیشمار محرمات کا ارتکاب کئے جارہے ہیں؛اللہ تعالی  ہمیں بے عفت و عصمت بنائے,اغیار کی مشابہت سے دور رکھے,نبوی سنن و کردار اپنانے کی توفیق بخشے ,اور تا دم زیست کتاب و سنت پر کاربند رہنے کی توفیق بخشے,آمین یا رب العالمین ,و صلی اللہ و سلم و بارک علی نبینا محمد و علی آلہ و صحبہ أجمعین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *