مسائل میں اختلاف کے باوجودایک دوسرے کے احترام کی ضرورت
(اسعد اعظمی(جامعہ سلفیہ بنارس
مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے افراد کے درمیان متعدد موضوعات اور مسائل میں نقطہ نظر کا اختلاف پایاہے،اور اسی اختلاف کی وجہ سے الگ الگ جماعتیں اور فرقے بھی وجود میں آتے ہیں۔ان میں سے بہت سارے مسائل میں اختلاف معمولی نوعیت کا بھی ہوتا ہے۔اختلافات کو اگر ختم نہیں کیا جا سکتا تو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔دوسری بات یہ کہ اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرنا،سب وشتم اور طعن وتشنیع سے پرہیز کرنا اورایک دوسرے کو برداشت کرنا بھی ضروری ہے ۔یہی ہمارے دین کی تعلیم ہے۔ہمیں تو یہی سوچنا ہے کہ اپنے اختلافات کے باوجود ہم کیسے ایک دوسرے سے مل کر رہ سکتے ہیں۔ ہمارے دین نے ہماری کیا رہنمائی کی ہے۔ اس سلسلے میں علمائے کرام کی ذمہ داری کیا ہے۔
قرآن پڑھیے، مومن کے اوصاف کیابیان کیے گئے ہیں؟ (أَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ أَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ) مومن کے لیے یہ نرم ہوتے ہیں اور اہل کفر کے لیے سخت ہوتے ہیں۔ مومن کے اوصاف میں یہ ہے کہ مومن وہ ہے جو دوسرے مومن کے لیے نرم رہے اور اہل کفر کے لیے سخت رہے۔ صحابہ کرام کے اوصاف میں بیان کیا گیا (أَشِدَّاء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء بَیْْنَہُم)
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
آج ہماری فولادیت کہاں نظر آتی ہے؟ آپسی مسائل ہوتے ہیں تو ہم بڑے سخت ہوجاتے ہیں۔مسلک کو ہم نے دین کا درجہ دے رکھا ہے۔ مسلک کی تبلیغ کو دین کی تبلیغ سمجھتے ہیں اور مسلک کے دفاع کو دین کا دفاع سمجھتے ہیں۔ ہماری یہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے۔ ہمارے جو اختلافات ہیں بہت معمولی ہیں ۔ پانچ سے سات فی صد مسائل ہی میں اختلاف ہوگا، لیکن یہ پانچ سات فی صد مسائل ہی ہمیشہ غالب رہتے ہیں اور یہ ترانوے چورانوے فیصد جو متفق علیہ مسائل ہیں، جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتاہے۔ کیوں ایسا ہے؟ جب ہمارا اتفاق اتنے مسائل میں ہے اور اختلاف چند مسائل میں تو پھر یہ اختلاف ہی ہمیشہ کیوں غالب رہتا ہے اور یہی ہمارے ذہنوں پر اور ہمارے معاشرے پر کیوں مسلط رہتا ہے؟
اسلامی موضوعات میں کتابوں کے اندر ایک موضوع ہے *’’أدب الخلاف‘‘* یعنی اختلاف کو کیسے برتا جائے، ہم اختلاف کے باوجود کیسے ایک دوسرے سے مل کرکے رہیں، اس موضوع پر جدید دور میں عربی زبان میں بہت کام ہوا ہے، بہت ساری کتابیں أدب الخلاف، أدب الاختلاف فی الاسلام وغیرہ نام سے آچکی ہیں، اردو میں بھی دھیرے دھیرے کام ہورہا ہے۔ ادب الخلاف کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا آپ سے مسئلے مسائل میں اختلاف ہے، اس اختلاف کے باجود ہم ایک دوسرے کو سمجھنے اور جاننے اور دوسرے سے قریب رہنے کی کوشش کریں،ایک دوسرے کاادب و احترام کریں۔ اس کی بڑی ساری مثالیں دے دے کر علماء نے سمجھایا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
*حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ، دونوں جلیل القدر صحابی ہیں۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دونوں کے درمیان سو سے زیادہ مسائل میں اختلاف تھا، غور کریں،سو سے زیادہ مسائل میں اختلاف تھا، لیکن کیا دونوں ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے؟ دونوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے تھے؟ نہیں، ان حضرات کی سوانح میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے تھے: ’’کنیف ملیء علما وفقھا آثرت بہ اھل القادسیۃ‘‘، عبد اللہ بن مسعود علم وفقہ کا پٹارہ ہیں، یہ علم وفقہ کی گٹھری ہیں، اس گٹھری کو میں اہل قادسیہ کے حوالے کرتا ہوں۔* سوچیے سو مسئلہ میں اختلاف لیکن اس کے باوجود تعریف کررہے ہیں۔ *ادھر دوسری طرف عبد اللہ بن مسعود کا حال یہ تھا کہ حضرت عمر کے انتقال کے بعدکہا کرتے تھے کہ’’رحم اللہ عمر، کان للاسلام حصنا حصینا…‘‘ اللہ رحم کرے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر، یہ اسلام کا ایک مضبوط قلعہ تھے ، اب وہ قلعہ منہدم ہوگیا۔*
*امام احمد بن حنبل اور علی بن مدینی دونوں کا ایک مرتبہ کسی مسئلہ کو لے کر آپس میں اختلاف ہوا ، علی بن مدینی امام احمد بن حنبل کے پاس ایک سواری سے آئے تھے اور سواری سے اتر نے کے بعد اس مسئلہ پر بحث ومباحثہ ہوا اور راوی کہتے ہیں کہ آوازیں بلند ہوگئیں، تیز تیز آواز میں بحث ہونے لگی۔ لیکن جب بحث ختم ہوئی اورعلی بن مدینی جانے لگے تو امام احمد بن حنبل نے اٹھ کر ان کی سواری کی لگام پکڑ لی اور ان کو سواری پر بیٹھایا۔ غور کیجیے ابھی مناظرہ ہوا، اور دیکھیے احترام کا یہ عالم۔*
یہ تو ماضی بعید کی بات تھی، *ماضی قریب میں مولانا ثناء اللہ امرتسری ایک مشہور عالم گذرے ہیں، بہت بڑے مناظر تھے اور ہر مسلک کے لوگ ان کو اپنے مناظرے میں بلاتے تھے۔ انہوں نے قادیانیوں سے مناظرہ کیا، عیسائیوں سے مناظرہ کیا، آریوں سے مناظرہ کیا، جتنے فرق باطلہ تھے سب سے مناظرہ کیا۔ ان کا حال یہ ہوتا تھا کہ جب مناظرہ ختم ہوتا تو چاہے مناظر مخالف حریف کوئی بھی ہو اس کو اپنے یہاں قیام وطعام کی دعوت دیتے تھے ۔ مناظرہ کررہے ہیں، بحث ومباحثہ ہورہا ہے، مخالفت ہورہی ہے، لیکن مناظرہ ختم ہوتا ہے تو اپنے حریف سے کہتے ہیں کہ آپ کو ہمارے یہاں کھانا کھانا ہے اور ہمارے یہاں آج رات قیام کرنا ہے۔*
*مولانا اسماعیل سلفی گجرانوالہ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حجاج کرام کا قافلہ حج کے لیے روانہ ہورہا تھا، حجاج کوروانہ کرنے والے لوگوں کی اسٹیشن پر بھیڑ بھاڑ تھی، نماز کا وقت ہوگیا اور لوگوں نے وہیں ایک طرف ہوکر صف لگالی، لوگوں نے مولانا اسماعیل صاحب کونماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھایا ،مولانا کے مصلی پر کھڑے ہونے کے بعدپیچھے سے ایک صاحب کہتے ہیں کہ مولاناآپ کے پیچھے ہماری نماز نہیں ہوگی ۔ مولانا نے اپنا رومال اٹھایا، کندھے پر رکھا، مصلے سے پیچھے ہٹ گئے اور کہا کہ حضرت آپ نماز پڑھا دیجیے، آپ کے پیچھے میری نماز ہوجائے گی۔ وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور اس نے معافی مانگی اور مولانا ہی سے نماز پڑھوائی۔ ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ کم سے کم اگر ہوتا تو دو جماعت تو فوراً بن جاتی۔ جاؤ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھو، ہم اپنے لوگوں کو لے کر الگ ہورہے ہیں، اور ہاتھا پائی کی نوبت آجاتی تو کوئی بعید یا قابل تعجب نہیں۔*
میرے بھائیو! اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرنا اور ایک دوسرے کو سمجھنا، برتنا ان سب چیزوں کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے اور اس پر غور کرنا چاہیے۔ ایک عالم کسی عالم کی تنقیص کرے یا مسئلے مسائل میں اختلاف کی وجہ سے اس کے پیچھے پڑ جائے ،یہ اس کی شان کے خلاف ہے ۔ بلکہ ایسا تو ایک عام مومن کو بھی زیب نہیں دیتا چہ جائے کہ عالم ایسا کرے۔ *سفیان بن حسین یہ اسلاف میں سے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایاس بن معاویہ کے سامنے ایک آدمی کا ذرا خراب الفاظ میں تذکرہ کیا۔ ایاس بن معاویہ ایک بڑے ہی سنجیدہ اور صاحب فراست انسان تھے۔ ان کے سامنے میں نے کسی کی شکایت کی، غیبت کی۔ ایاس بن معاویہ نے مجھ کو گھور کر دیکھا اور کہا کہ أغزوت الروم؟ کیا تم روم والوں سے جنگ کرچکے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ کہا کہ السند والھند والصین؟ کیا تم سندھ والوں سے ، ہند والوں سے ، چین والوں سے قتال کرچکے ہو؟ لڑائی کرچکے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ کہا کہ سبحان اللہ، رومی تم سے محفوظ ہیں، ہندو سندھ والے تم سے محفوظ ہیں، چین والے تم سے محفوظ ہیں، لیکن تمہارا مسلمان بھائی تم سے محفوظ نہیں ہے۔؟*
میر ے بھائیو۱ ہم اپنے مسلک پر رہیں، ہم اپنے موقف پر رہیں لیکن دوسرے کا احترام کرنا جانیں، دوسرے کو سمجھنا جانیں۔اور پھر یہ بھی سوچیں کہ کچھ مسائل ہمارے ایسے ہیں جن پر غور کرنے کے لیے مسلک ومذہب سے اوپر اٹھنے کی بھی ضرورت ہے، جو مشترک مسائل ہیں، جن میں مسلک اور مذہب کا کوئی معاملہ نہیں، بلکہ انسانیت کے مسائل ہیں۔ مثال کے طور پر صحت وبیمار ی کے مسائل ہیں، یہ منشیات ، یہ گٹکھا تمباکو ، کھینی ،پان مسالہ ..ہمارا نوجوان اس میں لت پت ہے، وہ مسلم ہے کہ غیر مسلم ؟ حنفی ہے کہ اہل حدیث؟ دیوبندی ہے کہ بریلوی ؟شیعہ ہے کہ سنی؟ ۔کیا ان مسائل پر غور کرنے کے لیے ہم اکٹھا نہیں ہوسکتے۔
*ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہم نے اپنے مسجدوں کو بانٹ رکھا ہے، ہم نے اپنے مدرسوں کو بانٹ رکھا ہے، ہم نے اپنی عبادتگاہوں کو بانٹ رکھا ہے، کتابوں کو بانٹ رکھا ہے، پھر اس کے باوجودللچائی نظروں سے دوسروں کی مسجدوں کو تاکتے رہتے ہیں ، اس کے لیے مقدمے دائر ہوتے ہیں، پیسے خرچ کیے جاتے ہیں، مسجدوں میں لڑائیاں ہو تی ہیں ، مسجدوں میں پولیس بلائی جاتی ہے اور سالہا سال تک مقدمے چلتے ہیں اور دل کھول کر پیسہ خرچ کیا جاتاہے۔کیا ایسے کاموں کی کوئی گنجائش ہے؟ کیا ہم اب بھی ہوش کے ناخن لیں گے یابہ دستورغیر ضروری لڑائیوں کے ذریعے اپنے آپ کو کمزور سے کمزور تر کرتے رہیں گے؟
One response to “مسائل میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے احترام کی ضرورت”
ماشاء اللہ