کافروں کی موت پر خوشی کا اظہار

 

?صریرِ خامہ :عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

الحمد للہ و کفی و الصلاۃ و السلام  الأتمان الأکملان علی محمد المصطفی و علی آلہ و صحبہ و من اھتدی۔۔ أما بعد

۱۶ نومبر ۲۰۱۷ء کو امی عائشہ ۔رضی اللہ عنہا ۔ پر بھونکنے والا ایک انتہائی ظالم‘فاسق ‘اور اسلام دشمنی میں پیش پیش رہنے والا مردو دِ زمانہ اور ملعون ِ وقت ‘آج بروز جمعہ ۳۰/اپریل ۲۰۲۱ء واصل ِ جہنم ہوا ‘جو امی عائشہ  اورحضرت فاطمہ ۔رضی اللہ عنہما۔جیسی شخصیات پر اپنے ٹی وی ڈبیٹ پر نیز اسلام کے خلاف خوب بھونکا کرتا تھا‘اور عجیب اتفاق  ہے کہ امی عائشہ ۔رضی اللہ عنہا۔ کی وفات ۱۷ رمضان الباکرک۵۸ھ کو ہوئی اور یہ مردود ِ زمانہ بھی ۱۷ رمضان کو ہی اپنے کیفر ِ کردار کو پہنچا‘جب سے اس کے ہلاک ہونے کی خبرآئی ہے‘کچھ لوگ اخلاقیات کی تعلیم دے رہے ہیں‘کچھ لوگ خوشیاں منارہے ہیں‘اور مسرت آمیز کلمات لکھ رہے ہیں‘کچھ ایسے بھی ہیں جو بین بین کا طریقہ اختیار کر رہے ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کافروں،ظالموں،فاسقوں،بدعتیوں اور مشرکوں کی موت پر خوشی منائی جا سکتی ہے ؟

ظاہر سی بات ہے کہ ایسا مردود جس نے اسلام دشمنی کو اپنا اٹھنا بیٹھنا،اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہو،اس کی موت پر تو خوشی ہی منائی جائے گی،مسرت کے شادیانے تو بجیں گے ہی،اور اس میں کوئی حرج نہیں ،بلکہ عین ِ شان ِ اسلام ہے آئیے ذیل کی سطور میں اسلاف کے نقوش ِ عمل ملاحظہ کرتے ہیں :

(۱)نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا: ابو قتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس سے جنازے کو لے کر گزرا گیا تو آپ ﷺنے فرمایا: (اس نے آرام پا لیا یا لوگوں نے اس سے آرام پا لیا) تو صحابۂ کرام نے عرض کیا: کس نے آرام پایا اور کس سے آرام پایا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (يَستريحُ منه العبادُ والبِلادُ والشَّجرُ والدَّوابُّ) (مومن شخص دنیا کے رنج و تکلیف سے آرام پا جاتا ہے اور بدکار شخص سے لوگ، شہر، درخت اور جانور آرام پاتے ہیں)(بخاری رقم ۶۱۴۷،مسلم رقم ۹۵۰)

مشہور ِ شارح صحیح بخاری علامہ بدر الدین عینی۔رحمہ اللہ۔اس حدیث کی شرح میں یوں رقم طراز ہیں:

,,اگر یہ کہا جائے کہ فوت شدگان کے بارے میں برے کلمات کا استعمال کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؛ حالانکہ صحیح حدیث زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فوت شدگان کو برا بھلا نہیں کہنا بلکہ ان کا ذکر صرف اچھے الفاظ میں ہی کرنا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ فوت شدگان کو برے الفاظ سے یاد کرنے کی ممانعت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو منافق، کافر، اعلانیہ گناہ یا بدعت کرنے والے نہیں ہوتے؛ کیونکہ ان لوگوں کی برائیوں کو دوسروں کو بچانے کے لیے ذکر کرنا حرام نہیں ہے ، اس کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ لوگ ان کے راستے پر چلنے سے خبردار بھی رہیں گے‘‘(عمدة القار شرح صحيح البخاری ۸/۱۹۵)

صحیح مسلم کے مشہور و معروف شارح امام نووی۔رحمہ اللہ۔اس حدیث کی شرح میں یوں فرماتےہیں:

،،حدیث(مذکور) کا معنی ہے کہ: فوت ہونے والے لوگوں کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو خود راحت پاتے ہیں، اور دوسری وہ قسم جن کے جانے سے لوگوں کو راحت ملتی ہے۔ فاجر آدمی سے لوگوں کے راحت پانے کا مطلب یہ ہے کہ: لوگ فاجروں کی اذیت رسانی سے محفوظ ہو جاتے ہیں، فاجروں کی اذیت رسانی کئی طرح سے ہوتی ہے، مثلاً: لوگوں پر ظلم کرنا، گناہوں کا ارتکاب کرنا، اگر لوگ انہیں گناہوں سے روکیں تو تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، یا ممکن ہے کہ انہیں روکنے کی بنا پر نقصان اٹھانا پڑے، اور اگر لوگ انہیں روکتے نہیں تو گناہ گار بنتے ہیں۔

جانور اس طرح سے راحت پاتے ہیں کہ ظالم لوگ انہیں مارتے ہیں، ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ لادتے ہیں، اور بسا اوقات انہیں بھوکا بھی رکھتے ہیں، جانوروں کو ایذا رسانی کے مزید طریقے بھی ہو سکتے ہیں۔

زمین اور درختوں کو داودی۔رحمہ اللہ۔کے مطابق راحت اس طرح ملتی ہے کہ فاجروں کی موجودگی میں بارشیں نہیں برستیں، جبکہ مالکی فقیہ الباجی کہتے ہیں کہ: فاجر لوگ انہیں پانی لگنے سے رکاوٹ ڈالتے ہیں ، انہیں پانی نہیں لگاتے‘‘(شرح مسلم ۷/۲۰۔۲۱)

کافروں اور ظالموں کی موت پر تو چرند و پرند و دیگر حیوانات و انسان بھی راحت محسوس کرتے ہیں تو ہم ایسا محسوس کیوں نہ کریں ، وہ خوشی محسوس کرتے ہیں تو ہم تو من باب اولی خوشیاں منانے کے روا دار ہیں

(۲) ابو جہل کے قتل کی اطلاع پاکر رسول ِ گرامی ﷺ نے خوشیاں منائیں،حتی کہ آپﷺ نے ابو جہل کے سر کو تن سے جدا دیکھ کر دو رکعت نماز ادا فرمائی (دیکھئے:سیرۃ ابن ہشام ۲ /۲۲۷‘نیز دیکھئے:ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۳۹۱)ایک روایت کے مطابق نبی ٔ کریمﷺنے ابو جہل کی ہلاکت اور اس کے کیفر ِ کردار تک پہنچنے کی خبر سن کر اللہ کا شکر ادا فرمایا (دیکھئے:مسند أحمد ۶/۱۲۴،المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ ۵/۲۶۵ رقم:۶۲۳۱،بغیۃ الباحث (۶۸۴)

(۳)حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جب مسیلمہ کذاب کی ہلاکت کی خبر ملی تو آپ رضی اللہ عنہ نے سجدہ ٔ شکر ادا فرمایا (إعلام الموقعین ۲/۲۹۶)

(۴)حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک خارجی شخص جس کا نام “المخدٍج” تھا، کے قتل ہونے پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے سجدہ کیا تھا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘امیر المومنین علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف جہاد کیا، آپ نے خارجیوں سے قتال کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کیں، پھر ان کے قتل ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا، نیز جب خارجیوں کے سر غنہ ذو الثدیہ کو مقتولین میں دیکھا تو اللہ تعالی کے لیے سجدہ شکر بھی کیا۔

لیکن جنگ جمل اور صفین میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوشی کا اظہار نہیں کیا، بلکہ آپ کو انتہائی تکلیف ہوئی اور جو کچھ بھی ہوا اس پر پشیمان بھی ہوئے، اس وقت آپ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث بھی ذکر نہیں کی بلکہ یہاں تک کہا کہ میں نے اپنے اجتہاد سے ان کے خلاف تلوار اٹھائی‘‘

( دیکھئے:مجموع الفتاوى:۲۰/۳۹۵ )

(5)ابن سعد نے اپنی طبقات کبری میں حضرت امام  ابو حنیفہ سے آپ کے استاد گرامی امام حماد کا قول نقل فرمایا ہے  ،فرماتے ہیں:میں نے إبراہیم کوحجاج کی موت کی خبر سنائی تو آپ سجدہ ریز ہوگئے،میں نے انہیں دیکھا کہ فرطِ مسرت میں رو رہے ہیں(دیکھئے:طبقات ۶/۲۸۰)

(6)امام بشر بن الحارث العرروف بہ:بشر الحافی بڑے بزرگ گزرے ہیں،جب آپ کو بشر مریسی (گمراہ و گمراہ کن)کی ہلاکت کی خبر ملی ،آپ ۔رحمہ اللہ۔ اس وقت بازار میں تھے،مارے خوشی فرمانے لگے :اگر بازار سجدہ کرنے کی جگہ ہوتا اور شہرت و نام طلبی کا اگر خوف نہ ہوتا تو سجدہ ٔ شکر ادا کرتا،فرمانے لگے :اللہ کا شکر ہے جس نے اسے موت کے گھاٹ اتارا (دیکھئے : شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ و الجماعۃ  ۳۳/۱۱  تحقیق حسن الزہیری‘تاریخ بغداد ۷/۶۶‘لسان المیزان ۲/۳۰۸)

(۷)امام احمد بن حنبل ۔رحمہ اللہ ۔سے پوچھا گیا :ابن ابی دؤاد اور ان کے ساتھیوں پر جب مصیبت نازل ہوتی ہے ،تو کیا اس وقت خوشی کا اظہار کرنے پر گناہ ملے گا ؟فرمایا:ایسے میں کس کو خوشی حاصل نہ ہوگی(کون ہے جو اس بات خوش نہ ہوگا؟)(السنۃ از خلال ۵/۱۲۱)

(۸)سلمہ بن شبیب فرماتے ہیں کہ میں امام عبد الرزاق صنعانی کے پاس موجود تھا کہ عبد المجید کی ہلاکت و وفات کی خبر ملی،تو پ فرمانے لگے : (الحمدُ للهِ الذي أراحَ أُمَّةَ محمَّدٍ مِن عَبدِ المجيدِ)(ترجمہ:اللہ تعالی کا بے پناہ شکرو احسان ہے جس نے عبد المجید سے امت محمدیہ کو آرام پہنچادیا[دیکھئے:سير أعلام النبلاء:۹/۴۳۵)،واضح ہو کہ عبد المجید بن عبد العزیز بن ابی رواد پکا مرجی ء تھا ‘بلکہ مذہب ارجاء کا سر غنہ مانا جاتا تھا)

(۹)وہب القرشی گمراہی و ضلالت کا امام مانا جاتا تھا ،جب امام عبد الرحمن بن مہدی کو اس کے ہلاک ہونے کی خبر ملی تو اللہ کا شکر ادا فرمایا ،اور کہنے لگے : (الحمدُ للهِ الذي أراحَ المُسلِمينَ منه). [لسان الميزان لابن حجر:۸/۴۰۲)(اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمام مسلمانوں کو اس(کی موت)سے راحت بخشی )

(۱۰)حافظ ابن کثیر ۔رحمہ اللہ نے ایک بدعتی شیعہ (حسن بن صافی بن بزدن ترکی) کی ہلاکت کے موقعے پر فرمایا تھا:

(أراحَ اللهُ المُسلِمينَ منه في هذِه السَّنةِ في ذِي الحِجَّةِ منها، ودُفِن بدارِه، ثم نُقِل إلى مَقابرِ قُرَيشٍ؛ فللهِ الحمدُ والمِنَّةِ)!(البدایۃ و النہایۃ ۱۲/۳۳۸ )ترجمہ:ماہ ِ ذی الحجہ میں اس سال اس آدمی سے اللہ نے مسلمانوں کو راحت بخشی،وہ اپنے گھر ہی مدفون ہوا ،پھر اسے قریش کے قبرستان میں منتقل کردیا گیا ‘پس اللہ کا شکر و احسان ہے ‘اور جب وہ مرا تو اہل سنت نے خوشیاں منائیں ،اور اللہ کا شکر بجالایا

نوٹ(۱):حسن بن صافی بن بزدن ترکی کا تعلق ان بڑے امیروں میں سے تھا جو  ملکی سطح پر اثر و رسوخ رکھتے تھے، تاہم یہ شخص متعصب درجے کا خبیث رافضی تھا، اور رافضیوں کی حد درجہ طرف داری کرتا تھا،یہ رافضی اسی کی ناک تلے پھل پھول رہے تھے، یہاں تک کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس شخص سے ماہ ذو الحجہ میں نجات دی اور مسلمانوں نے چین و اطمینان کی سانس لی، اسے اسی کے گھر میں دفن کیا گیا جسے بعد میں قریش کے قبرستان میں منتقل کر دیا گیا ، اس پر اللہ کا ہی شکر ہے اور اسی کی تعریف ہے،جس وقت وہ مرا تو اہل سنت اس کے مرنے پر بہت زیادہ خوش ہوئے، انہوں نے اعلانیہ طور پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا، سب کے سب مسلمان بلا استثنا اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے

نوٹ۲:یہ واقعہ حافظ ابن کثیر نے ۵۶۸ھ میں وفات پانے والے لوگوں کے ضمن میں ذکر فرمایا ہے

(۱۱)جس وقت بدعتی اور گمراہ ابن ابو دؤاد کو آدھے دھڑ کا فالج ہوا تو اہل سنت نے خوشی کا اظہار کیا، حتی کہ ابن شراعہ بصری نے اس بارے میں اشعار بھی پڑھے تھے:

أفَلَتْ نُجُومُ سُعودِك ابنَ دُوَادِ … وَبَدتْ نُحُوسُكَ في جميع إيَادِ

(ابن دواد) تمہاری بلندی کا تارا اب غروب ہو گیا ہے، اور لوگوں میں ہر طرف تمہاری نحوست عیاں ہونے شروع ہو چکی ہے۔

فَرِحَتْ بمَصْرَعِكَ البَرِيَّةُ كُلُّها … مَن كَان منها مُوقناً بمعَادِ

تمہارے بستر مرگ پر جانے سے وہ ساری مخلوقات خوشیاں منا رہی ہیں۔ جسے  آخرت کے دن پر ایمان ہے

لم يَبْقَ منكَ سِوَى خَيَالٍ لامِعٍ … فوق الفِرَاشِ مُمَهَّداً بوِسادِ

اب بستر مرگ پر بھی تیری صرف خام خیالی ہی باقی ہے، جس میں حرارت یا برودت کچھ بھی باقی نہیں ہے۔

وَخَبتْ لَدَى الخلفاء نارٌ بَعْدَمَا … قد كنت تَقْدحُهَا بكُلِّ زِنادِ

حکمرانوں کے یہاں اب تمہاری بھڑکائی ہوئی آگ بجھ جائے گی جسے تو ہر موقع پر بھڑکاتا رہتا تھا۔

(دیکھے:تاريخ بغداد۴/۱۵۵)

(۱۲)خطیب بغدادی ۔رحمہ اللہ ۔نے عبید اللہ بن عبد اللہ بن الحسین ابو القاسم الحفاف جو کہ ابن نقیب کے نام سے مشہور تھے ان کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھا ہےکہ:

‘‘میں نے ان سے حدیث لکھی ہے، ان کی سنی ہوئی احادیث بالکل صحیح تھیں، آپ عقیدے میں بہت پختہ تھے، مجھے ان کے بارے میں یہ بات پہنچی کہ جس وقت رافضیوں کا سرغنہ ابن المعلم فوت ہوا تو انہوں نے خصوصی طو ر پر مبارکبادی کی محفل کا انعقاد کیا، اور کہنے لگے: اب مجھے کوئی پروا نہیں ہے کہ مجھے جس وقت مرضی موت آ جائے؛ کیونکہ میں نے ابن المعلم رافضی کو مرتے دیکھ لیا ہے‘‘۔

(تاريخ بغداد۱۰/۳۸۲)

مذکورہ بالا تمام نقولات سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ کسی کافر،ظالم،فاسق،بدعتی ،گمراہ،گمراہ کن  مشرک و بدعتی کی موت پر خوشی کا اظہار عین ِ منہج ِ اسلام ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ ہمارے اسلاف ِ کرام کا طریقہ رہا ہے ،اللہ ہمیں اسلاف کے نقش ِ قدم پر چلنے کی توفیق ارزانی فرمائے ،آمین یا رب العالمین۔

(نوٹ:اس مضمون کی تیاری میں (الإسلام سوال و جواب سے) خصوصی  مدد لی گئی ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *