رنگ و نسل میں تنوع کی حکمتیں

از:مولانا محمد جرجیس کریمی
(ادارہ تحقیقاتِ اسلامی علی گڑھ)

دنیا میں انسانوں کے رنگ و نسل میں تنوع کی حکمتوں پر بحث کی جائے تو سب سے پہلے خود کائنات کی وسعتوں کا مطالعہ کرنا مناسب رہے گا۔ جبھی انسانی ذہن کی تنگ دامانیوں کی عقدہ کشائی ہوسکے گی۔ چناں چہ اس کائنات میں بنیادی طور پر دو چیزیں ادراک میں آتی ہیں۔ ایک مادہ ہے اور دوسری چیز زندگی ہے۔ مادہ کی تعریف میں آسمان و زمین کے ساتھ اور ان کے درمیان موجودتمام ستارے، سیارے اور تمام کہکشائیں شامل اور ایک معمولی ذرہ(Atom)بھی، اور زندگی کی تعریف میں سارے بڑے بڑے جان دار بھی شامل ہیں اور ایک جرثونہ (Bacteria) بھی۔

کچھ عرصہ قبل تک ذرہ (Atom) کو مادہ کی سب سے چھوٹی اکائی کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔لیکن جدید سائنسی انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ مادہ کی اس سے بھی چھوٹی اکائی (Unit) موجود ہے۔ اور اس طرح کہ ایٹم پروٹونز(Protons) اور نیوٹرون(Neutrons) سے مل کر بنا ہے۔ اور اس کے ارد گرد الیکٹرون (Electron) کے باد ل ہوتے ہیں اور ایٹم کے مرکزہ ہی میں (Necleus) پروٹان اور نیوٹران کے ساتھ میسون(Meson) نیوٹریمو(Neotrimo) اور انٹی نیوٹریمو(Anti Neotrimo) یعنی ایکسریز اور گاما ریز کے قدرے(Quantas) بھی چھپے ہوتے ہیں جو ایٹم (ذرہ) سے بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔(۱)

قرآن مجید میں ذرہ اور اس سے چھوٹی چیز کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ارشاد ہے:

لَا یَعْزُبُ عَنْہُ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَلَا فِیْ الْأَرْضِ وَلَا أَصْغَرُ مِن ذَلِکَ وَلَا أَکْبَرُ إِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ ۔(سبا:۳)

’’اس سے ذرہ برابر کوئی چیزنہ آسمانوں میںچھپی ہے اور نہ زمین میں، نہ ذرے سے بڑی اور نہ اس سے چھوٹی ،سب کچھ ایک نمایاں دفترمیں درج ہے‘‘۔

یہ کائنات اصغرہے۔ کائنات اکبر کیا ہے؟اس بارے میں سائنس دان کہتے ہیں کہ اس کائنات میں موجود ستاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر ہر ستارہ کا ایک لفظی نام رکھا جائے اور کوئی ان ناموں کو پڑھنا شروع کرے تو تمام ناموںکو دہرانے کے لیے تین سو کھرب سال کی مدت درکار ہوگی۔(۲) ان ستاروں، سیاروں اور کہکشانوں کا قطر، ایک دوسرے کے درمیانی دوری اور ان کی رفتار بھی کچھ معمولی نہیں۔ مثال کے طور پر اری گا ی(Aurigai) ایک تارہ ہے جو سورج سے دو ہزارگنا بڑا ہے، جب کہ سورج خود ہماری زمین سے آٹھ لاکھ گنا بڑا ہے۔ اس کاقطر ایک ارب تہتّرکروڑ میل ہے۔ اگر اس کو سورج کے مقام پر رکھ دیا جائے تو پورے نظام شمسی کے دائرے میں آجائے گا اور یہاں ہر طرف صرف شعلے ہی شعلے ہوںگے۔ یہ تو صرف ایک ستارے کاحجم ہے، جب کہ ایک کہکشاں کے اندر اربوں کھربوں تارے موجود ہوتے ہیں۔ خود ہمار ا نظام شمسی جس کہکشاں کے تحت ہے اس میں منجملہ ایک کھرب تارے موجود ہیں۔ ان کا مجموعی مادہ ایک کھرب سورجوں کے مادہ کے برابر ہے۔ اگر بڑی سے بڑی دوربین سے دیکھا جائے تو آسمان پر تاروں سے زیادہ کہکشاں ہی کہکشاں نظر آئیں گی۔ایم ایم پی کیلیفورنیا کی فصدگاہ میں نصب شدہ دو سو انچ قطر کی دوربین سے وقت واحد میں ایک ارب کہکشان کا مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے۔ قادر مطلق نے ان تمام کہکشاؤں کو قوتِ رفتار بھی عطا کی ہے جیسے کہ ہماری کہکشاںاپنے تمام تاروں کے ساتھ سات لاکھ چھیاسی ہزارکلومیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے شمال کی طرف دوڑ رہی ہے۔ورگو کانسٹلیشن (Virgo constellation) سے پانچ کروڑ نوری سال دورہے ۔ہزاروں کہکشائوں کاایک مجموعہ موجود ہے جو ہماری کہکشاں سے تینتالیس لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آگے چلا جارہا ہے۔تیسرا مجموعہ جو چورانوے کروڑ نوری سال دور ہے،سات کروڑ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے فضائے بسیط میں دوڑ رہا ہے۔ چوتھا مجموعہ جو ہزاروں کہکشائوں پر مشتمل ہے اور جو ہم سے ایک ارب ستر کروڑ نوری سال دور ہے، چودہ کروڑ آٹھ لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دور ہوتا جارہا ہے (۳)۔ فلکی طبیعیات کے ماہر آئن اسٹائن کے نزدیک کائنات کی موجودہ معلوم وسعت۵ ۳؍  ارب نوری سال پر محیط ہے(۴) اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کائنات کی حقیقی وسعت یہی ہے؟ قرآن کہتا ہے کہ یہ تو پہلے آسمان کی وسعت ہے ،جب کہ اللہ تعالی نے سات آسمان تہہ در تہہ پیداکیے ہیں اور آسمانی دنیا کو ستاروں اور سیاروں سے مزین کردیاہے۔ ارشاد ہے:

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقاً۔۔۔وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاء  الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ (الملک۳:۵)

’’ اس نے تہہ در تہہ سات آسمان بنائے۔۔۔۔۔۔۔اور ہم نے دنیا کے آسمان کو عظیم الشان چراغوں (ستاروں، سیاروں، کہکشائوں) سے آراستہ کر دیا۔

حدیث کی صراحت کے مطابق ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کی دوری اتنی ہی ہے جتنی دوری پہلے آسمان کی نظر آتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں صرف مادہ ہی کی تخلیق نہیں کی ہے بلکہ زندگی، یعنی حیات کی بھی تخلیق کی ہے۔ زندگی مادے کی وہ حسین ترتیب ہے جس کا مرتب اللہ تعالیٰ ہی ہو سکتا ہے۔ خواہ ایک چیونٹی کی زندگی ہویا ایک انسان کی زندگی۔ سورئہ ملک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوۃَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝۰ۭ (سورۃ الملک:۲(

’’ اس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا، تا کہ تم لو گوں کو آزماکر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کر نے والا ہے‘‘۔

اللہ نے مادہ اور زندگی کی تخلیق ہی نہیں کی بلکہ اس میں جنس اور تعداد کے اعتبار سے تنوع بھی پیدا کیا۔ جس طرح اس نے مادے کی ایک ہی قسم پیدا نہیں کی بلکہ اس کی طرح طرح کی اقسام پیدا کیں، اسی طرح ہر قسم کو ایک ہی شکل میں پیدا نہیںکیا بلکہ اس میں بھی تنوع پیدا کیا۔ بالکل اسی طرح زندگی بھی اپنے اندررنگارنگی اور تنوع لیے ہوئے ہے۔ کرہ ارض پر ستاسی لاکھ قسم کے جان دار موجود ہیں اور ہر جان دار اَربوں کھربوں کی تعداد میں پایا جاتا ہے ،جن کی شکلیں، قوتیں اور صلاحتیں الگ الگ ہیں۔ مثلاً: انسان کا بنیادی ڈھانچہ ایک ہے، لیکن اربوں انسانوں میں سے کوئی دو انسان بھی بالکلیہ یکساں شکل و صورت اورقوت و صلاحیت کے نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کی شکل و صورت جداگانہ اور صلاحیت و قوت منفردہے۔

کرہ ارض میں تنوع کی مثالیں بہت دل چسپ ہیں۔ دنیا میں نوہزار سات سو اقسام کے پر ندے پائے جاتے ہیں،جب کہ چار لاکھ قسم کے پھول پائے جاتے ہیں۔یعنی چار لاکھ پودے ایسے ہیں جن میں پھول نکلتا ہے، جن کا رنگ، بناوٹ، خوشبو، اورسائز ایک دوسرے سے جدا گانہ ہیں۔صرف گلاب کی سو قسمیں موجود ہیں۔زمین پر تقریبا تین ہزار(دو ہزار آٹھ سو) اقسام کے سانپ موجود ہیں۔ گھوڑوں کی تین سو سے زائد قسمیں پائی جاتی ہیں۔ مچھلیوں کی تین ہزار قسمیں ہیں۔کھجور کی سینکڑوں اقسام ہیں۔ مختلف اجناس غذائیہ،جوار، دھان، باجرہ، مکئی، ،مونگ، گندم وغیرہ کی سینکڑوں قسمیں پائی جاتی ہیں۔بی بی سی کے ایک جائزے کے مطابق پوری دنیامیں صرف دھان کی اَسِّی ہزار قسمیں موجود ہیں جن کی کاشت کی جاتی ہے، اوران سے غذا حاصل کی جاتی ہے۔

دنیا میں موجود تنوع اور رنگارنگی کی تفصیل قرآن میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے۔ارشاد ہے:

وَہُوَ الَّذِیَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاء ً فَأَخْرَجْنَا بِہِ نَبَاتَ کُلِّ شَیْْء ٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْہُ خَضِراً نُّخْرِجُ مِنْہُ حَبّاً مُّتَرَاکِباً وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِہَا قِنْوَانٌ دَانِیَۃٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّیْْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِہاً وَغَیْْرَ مُتَشَابِہٍ انظُرُواْ إِلِی ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَیَنْعِہِ إِنَّ فِیْ ذَلِکُمْ لآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ(الانعام: ۹۹)

’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا،پھر اس کے ذریعے سے ہر قسم کی نباتات اگائی۔ پھر اس سے ہر ے بھرے کھیت اور درخت پیدا کیے۔ پھر ان سے تہہ بر تہہ چڑھے ہوے دانے نکالے، اور کھجور کے شگوفوں سے پھلوں کے گچھے کے گچھے پیدا کیے، جو بوجھ کے مارے جھکے پڑے ہیں، اور انگور، زیتون اور انار کے باغ لگائے جن کے پھل ایک دوسرے سے ملتے جلتے بھی ہیں اورپھر ہر ایک کی خصوصیات جداجدا بھی ہیں۔ یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پھل آنے اورپھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو۔ ان چیزوں میں نشانیاں ہیں،اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں‘‘

وَہُوَ الَّذِیْ مَدَّ الأَرْضَ وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ وَأَنْہَاراً وَمِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِیْہَا زَوْجَیْْنِ اثْنَیْْنِ یُغْشِیْ اللَّیْْلَ النَّہَارَ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ۔وَفِیْ الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاء  وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ فِیْ الأُکُلِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ(الرعد:۳۔۴)

’’اور وہی ہے جس نے یہ زمین پھیلا رکھی ہے ،اس میںپہاڑوں کے کھونٹے گاڑ رکھے ہیں اور دریابہادیے ہیں۔اُسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔اوروہی دن پر رات طاری کرتا ہے ۔ان ساری چیزوں میں بڑی نشانیاں ہیںان لوگوں کے لیے جو غور وفکر سے کام لیتے ہیں۔ اور دیکھو زمین میں الگ الگ خطے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے متصل واقع ہیں۔انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں،کھجور کے درخت ہیں، جن میں سے کچھ اکہرے ہیں اورکچھ دوہرے۔سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے مگر مزے میں ہم کسی کو بہتر بنادیتے ہیں اور کسی کو کم تر۔ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاںہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں‘‘

قرآن مجید میں اس مفہوم کی اور بھی دیگر آیات ہیں جن میں چیزوں کے نوع بہ نوع طور سے پیدا کیے جانے کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ (دیکھیے: سورۃ الانعام ۱۴۱،سورۃ النحل۱۳،۶۹،فاطر۲۷،۲۸ وغیرہ)

انسانوں کے الگ الگ رنگ وروپ اور نسل و خاندان اور قبیلے میں پیدا کیے جانے کی تفصیل بھی قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے۔ارشاد ہے:

یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات:۱۳)

’’اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیداکیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا با خبر ہے‘‘

خالقِ کائنات نے انسان کی تخلیق اور اس سے متعلق مختلف امور میں وحدت اور اشتراک کا معاملہ کیا ہے ۔مثلاً:سارے انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں۔جملہ انسانوں کا مادۂ تخلیق ایک ہے۔ اللہ نے تمام انسانوں کو یکساں توجہ واہتمام سے پیدا کیا ہے۔عہدِ بندگی میں تمام انسان شامل ہیں۔ خلافتِ ارضی تمام انسانوں کو عطا کی گئی ہے اور تمام انسانوں کو یکساں طور پر تکریم وفضیلت بخشی گئی ہے۔ پھر آخر اس وحدت و اشتراک کے با وجود انسانی زندگی میں یہ منظر نامہ کیوں دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں بے شمار قوموں،نسلوں،قبیلوں اور برادریوں کا جال بچھا ہوا ہے۔اس طور پر کہ ہر قوم اپنا جداگانہ شجرۂ نسب اور ہر نسل الگ سلسلۂ آبائی رکھتی ہے۔

دنیا میں نسلوں کے فرق کے ساتھ ان کے رنگ وروپ میں بھی فرق ہے۔ان کی زبانیں الگ الگ ہیں۔غذائی مذاق جداگانہ ہے۔تہذیب،ثقافت،لباس اوررہن سہن مختلف ہے۔کیامناسب بات ہوتی کہ سبھی انسان ایک خاندان سے ہوتے۔ نہ مختلف قوموںاورنسلوں کا جھگڑاہوتااور نہ قبیلے اور ذات برادری کی لڑائیاں ہوتیں۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ زمین کاچپہ چپہ بے شمار انسانی طبقات، قوموں، برادریوںاور نسلوں سے بھراہواہے۔

اس سوال کاجواب آیتِ مذکورہ میں دیاگیاہے۔اللہ رب العزت نے واضح کیاہے کہ انسانی نسل کومختلف قوموںاورقبیلوں میں تقسیم اس لیے کیا گیا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کی پہچان کرسکیں۔چناںچہ تاریخ کے جس دور میں بھی اورزمین کے جس خطے میں بھی کوئی خاندان،قوم اور قبیلہ آباد رہاہے، یاکسی قوم کی حکم رانی رہی ہے،اس کا ریکارڈ موجود ہے۔اس کی تفصیلات کتب ِ تاریخ میںمرقوم ہیں۔ہزاروں اورصدیوں سال پہلے گزرے ہوئے بڑے بڑے علما، فقہا، مفسرین، محدثین، دانش ور، قانون دان،سیاست دان اور حکم رانوں کاشجرۂ نسب بتایا جاسکتاہے۔بہت سی چیزیں تو تاریخ نے محفوظ رکھی ہیںاور کچھ چیزیں مفقودہیں۔علامہ زمخشری رقم طرازہیں:

والمعنی ان الحکمۃ التی من اجلھا رتبکم علی شعوب و قبائل ھي ان یعرف بعضکم نسب بعض فلا  یعتزی الی غیرآبائہ لا ان تتفاخروا  با لآباء والاجداد و تدعوا التفاوت و التفاضل فی الانساب

’’مطلب یہ کہ اللہ تعالی نے جس حکمت کے تئیں تم کو کنبوں اور قبیلوں میںبانٹاہے وہ یہ کہ تم میں کا بعض بعض کے خاندان کی پہچان کر سکے، اور اپنے باپ داداؤں کے علاوہ دوسروں کی طرف اپنا انتساب نہ کرے ۔ یہ مطلب نہیں کہ تم اپنے آباء و اجدادکے حوالے سے آپس میں ایک دوسرے پرفخر جتاؤ، اور خاندان اور نسب کی بنیاد پر ایک دوسرے سے فرق و امتیاز کا دعویٰ کرو، اور ایک دوسرے سے اپنے کو اونچا بتاؤ‘‘

تمدن کی ترقی کے پہلو سے غور کیا جائے تو یہی تعارف اور پہچان تمدن کی ترقی کا سب سے پہلا زینہ ہے۔ سب سے مضبوط عامل یہی ہے، جس کے ذریعے تہذیب اپنی بلندی کے منازل طے کرتی ہے۔ انسانی تمدن کا نقطۂ آغاز انسانوں کا یکجاہونا اور گاؤں وشہر آباد کرنا ہے۔ظاہر ہے کہ یہی گاؤں اور بڑے بڑے شہر تہذیب کو برگ وبار لانے کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔ آج کی دنیا میں قوموں، قبیلوں اور الگ الگ انسانوں کے اختلاف کو بہ نگاہ ِظاہر دیکھا جاسکتاہے۔ اسی کے ساتھ تہذیبوں کی جلوہ گری بھی نظر آتی ہے۔ امریکہ،یوروپ، چین، جاپان،روس اورجنوبی ایشیاکے ممالک اور ہندوستان وغیرہ۔ ہر ملک اپنے الگ تمدنی امتیازات بھی رکھتا ہے اور ایک ملک کے لوگ دوسرے ملکوں میں انسانی خد مات اور بین الاقوامی تجارتوں میں بھی مصروف ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنا ملک چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں کسبِ معاش کے لیے جاتے ہیں ۔دنیا کے ہر ملک کا اپنا حکومتی نظام ہے۔ ہر ملک میں تعلیمی نظام، بڑی بڑی یونی ورسٹیاں اور تحقیقی ادارے سرگرم عمل ہیں ۔ملکوں کا بھی اپنا الگ تشخص قائم ہے اور ان میںکام کرنے والے افراد بھی اپنی علاحدہ شناخت رکھتے ہیں ۔اگر یہ چیز نہ ہوتی اور تعارف و پہچان کی یہ صورت خالق کائنات نے نہ بنائی ہوتی تو افراد کی صلاحیتیں سکڑ جاتیں، ان کے جذبات افسردہ اورپژمردہ اور خواب خفتہ ہوجاتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نسل انسانی کا مختلف نسلوں،قبیلوں اور قوموں میں منقسم ہونے کی بڑی گہری حکمتیں ہیں۔

انسانی معاشرے میں خاندان کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، بلکہ یہ انسانی سماج کے لیے ریڈھ کی ہڈی کے مثل ہے۔ اگر خاندان درست ہو تو معاشرہ بھی درست ہوگا، اور اگر خاندان میں فساد رو نما ہوجائے تو معاشرہ بھی فساد کا شکار ہوجائے گا،کیوںکہ خاندانوں ہی سے معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں جن اقوام نے خاندانی ادارے کو درہم برہم کردیا ہے وہ سائنس اور ٹکنالوجی کی حیرت انگیز ترقیوں کے باوجود اپنی زندگی میں سکون و اطمینان کی دولت سے محروم ہیں، بلکہ یہ چیز انھیں ہلاکت کے گڑھے کی طرف ڈھکیلتی جارہی ہے۔اب سیدھا سا سوال ہے کہ اگر قوموں اور قبیلوں کا الگ الگ تشخص قائم نہ ہوتو خاندان کا یہ ادارہ کیوں کر وجود میں آئے گا، اور افراد خاندان کے درمیان تعلقات میں مضبوطی کیسے پیدا ہوگی اور ایک دوسرے کے حقوق کیوںکر ادا کرسکیں گے۔ ان کی معاشی کفالت ، صلہ رحمی، رشتے داروں کی مشکلات میں ان کی مدد کیسے کی جاسکے گی۔

پھر خاندان اور رشتے داروں کے ان حقوق سے متصل ایک اور معاملہ بھی انتہائی اہم ہے، جوسماجی اور معاشی سطح پردور رس اثرات رکھتا ہے، وہ وراثت کا مسئلہ ہے۔ وراثت کا پورا نظام رشتے اور نسب پر قائم ہے۔وارث اور مورث کے درمیان جتنی قربت ہوتی ہے اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ظاہر بات ہے کہ ان رشتوں کی پہچان اسی طور پر ممکن ہے کہ انسانی آبادی الگ الگ خاندانوں، برادریوں ،قوموں اور قبیلوں میں منقسم ہو،تا کہ ہرشخص اپنے خاندان سے وراثت میں حصہ پائے ۔

وراثت سے ملتا جلتا ایک اور مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے ،جو انسانی سماج میں لازمی ہے ،وہ شادی بیاہ کا مسئلہ ہے۔ سماجی طور پر کچھ خونی رشتے ہوتے ہیں، جن سے نکاح نہیں ہوسکتا۔ انسانی طبیعت اور غیرت اسے گوارا نہیں کرسکتی۔ لہٰذا حلال و حرام رشتوں کی پہچان تبھی ہوگی جب انسانی نسل خاندانوں اور قبیلوں میں منقسم ہوگی۔ چناںچہ دنیا کی تمام تہذیبوں میں شادی بیاہ کے لیے کچھ متعین اصول و ضوابط اور عرف و عادات ہیں اور رشتوں کی تقسیم خاندانی اور سسرالی سلسلوں میںہوتی ہے۔

انسانی معاشرہ اس معنی میں بھی امتیازی شان رکھتا ہے کہ وہ اپنے نسب اور خاندان کی حفاظت کرتا ہے۔ہر بچہ اپنے والدین کے گہوارے میں تربیت پاتا ہے ۔ ہربچے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا حقیقی باپ کون ہے۔ کوئی شخص غیر باپ کی طرف اپنے کو منسوب نہیں کرسکتا۔یہ چیز سماج کی بنیادوں کو ڈھانے اور متعدد پیچیدہ مسائل کو جنم دینے والی ہوتی ہے ۔ اس لیے انسانی نسل کو خاندانوں اور قبیلوں میں منقسم کیا گیا ہے۔

پورے انسانی گروہ میں دو قسم کے لوگ رہے ہیں۔ ایک صالحین، بزرگوں ، انبیاء و رسل کی جماعت اور دوسرا اللہ کے باغی ، سرکش ،بڑے بڑے ظالم بادشاہوں اور حکم رانوںکی جماعت۔ ہر  نیک طینت آدمی اپنا انتساب صالحین ، بزرگوں اور انبیاء و رسولوں کی طرف کرنا چاہتا ہے، اوران سے تعلق اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اگر انسانی نسلوں کو طبقات ، قوموں ، قبیلوں اور مختلف جماعتوں میں تقسیم نہ کیا جاتا تو یہ فرق واضح نہیں ہوتا ،اور صالحین عمدہ کردار والے بزرگ اور نبیوں اور رسولوں کی جماعت سے اظہار محبت کیسے کی جاتی۔ اسی طرح ظالموں ،قاتلوں ،اللہ کے باغیوں اور انسانیت کے دشمنوں سے اظہار برات کی شکل کیا ہوتی۔اسی لیے یہ ضروری ہوا کہ انسانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا جائے۔

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *