از قلم: ابوصالح دل محمد سلفی
جامعہ سلفیہ بنارس
دور حاضر میں مسلمانان ہند سیاسی میدان میں مظلوم و مقہور اور بے چارگی کی زندگی سے دوچار ہیں، اس وقت ان کا کوئی سچا حامی ہے نہ مخلص پرسان حال ، اس بے سہارا قوم کے استحصال کرنے میں چھوٹی بڑی تمام سیاسی پارٹیوں کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ الیکشن کے موقع پر اپنائیت و شفقت اور ہمدردی کی ایکٹنگ کرکے مسلمانوں کو دام فریب میں پھانسنا اور ان کی حمایت حاصل کرنا سیاسی بازیگروں کے لیے ایک عام سی بات بن گئی ہے۔ مسلم ووٹوں سے فتحیاب ہو جانے کے بعد ان کو طاق نیسیاں کی زینت بنا دینا اور ان سے کیے گئے وعدوں اور ان کے مسائل کو سرد خانہ میں ڈال دینا ایک سیاسی چال بن گئی ہے، تعلیمی و اقتصادی، سماجی و سیاسی وغیرہ زندگی کے دیگر شعبوں میں سرکاری مراعات سے محرومی کے سبب مسلم قوم ملک کے تمام صوبوں میں نسبتاً مفلوک الحال اور اپاہج ہوتی جارہی ہے۔ حالات کے تناظر میں اس قوم کا مستقبل ، ماضی اور حال سے زیادہ پر خطر اور مایوس کن نظر آرہا ہے۔ وقفہ وقفہ سے ملک میں ہوئے مسلم کش فساد پر حکومت کا سوتیلا سلوک، میڈیا کی مجرمانہ خاموشی ، لیڈران کا منافقانہ رویہ، ملک کے دشمن عناصر کے سامنے ہندوستانی فورسز کی بے بسی کا ڈرامہ ملک کی جمہوریت کے چہرہ پر ایک ناپاک دھبہ اور تاریخ ہند کا ایک سیاہ باب ہے، جس کی وجہ سے حکومت کے تئیں مسلمانوں کا اعتماد دن بدن متاثر ہوتا جا رہا ہے۔ آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کے اسباب و وجوہات پر غور و خوض کرنے والا ہر باشعور و ہوش مند اور مخلص مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس کی بنیادی اور سب سے بڑی وجہ مسلم قیادت کا فقدان ہے۔ آزاد بھارت میں مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے بعد مسلم قوم ایک اچھی اور با صلاحیت قیادت سے تاہنوز محروم ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے بعد مسلمانوں میں کوئی ایسا رہنما ابھرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جن کو ملکی سطح پر مسلمانوں کا متفقہ قائد بنے کا شرف حاصل ہوا اور انہیں برادران وطن ورارباب اقتدار یہ سمجھتے ہوں کہ فلاں شخص کو مسلمانوں کا مکمل اعتماد حاصل ہے، اور مسلم قوم کے تعلق سے ان کی رائے حرف آخر ہے۔ کچھ مسلم رہنما گرتے پڑتے ایوان اقتدار تک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن انہیں اپنے سیاسی آقاؤں کے ناراض ہونے کا خوف اسی قدر دامن گیر رہا کہ وہ مسلمانوں کی صحیح نمائندگی نہ کر سکے جس کی وجہ سے انہیں ان کی خواہش و تمنا کے مطابق مسلم قوم کا اعتماد حاصل نہیں ہوسکا۔ کبھی کبھار ہماری سماجی وملی اور سیاسی قیادت و سربراہی کی اگر کسی نے ہمت و حوصلہ دکھانے کی کوشش و جرأت بھی کی تو اس کا حشر وانجام نا گفتہ به رہا، یا تو وہ گندی پالیسیوں و سازشوں کا شکار ہو کر گم نامی کی نذر ہوگیا یا ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی سیکولر پارٹی کے قائد بننے کی خواہش و کوشش کرتا ہے تو اس کی شخصیت کو مختلف زاویوں سے ایسی کسوٹی اور پیمانہ پر جانچنے اور پر کھنے کی بات کی جاتی ہے کہ اس پر کوئی انسان پورا اتر ہی نہیں سکتا ہے۔ اور ایک افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلم قائد کی کمزوری پر غیر مسلم سے زیادہ مسلم رہنما ہی نکتہ چینی کرتے ہیں، مسلم قائد کی بار یک سے بار یک خامی اور چھوٹی سے چھوٹی کمزوری کو اس قدر بڑھا چڑھا کر بھیانک و خوفناک انداز میں پیش کرتے ہیں کہ عام مسلمان اس سے بدظن و متنفر ہو جاتے ہیں۔ دراصل انہیں خوف رہتا ہے کہ اگر اس کی قیادت تسلیم کر لی گئی تو ہم کس کام کے رہیں گے۔ الغرض ہندوستانی مسلمانوں کو در پیش سیاسی مسائل و مشکلات کا بنیادی سبب مسلم قیادت کا فقدان ہے۔ مصائب و آلام سے نجات حاصل کرنے ، عزت وسربلندی کی زندگی حاصل کرنے مستقبل کے خدشات سے مسلم قوم کو بچانے ، سیاسی بازیگروں کی سازشی زنجیروں سے آزاد ہونے اور حکمراں کی غداری و بدعہدی اور فریب و دسیسہ کاری کو نا کام کرنے کے لیے مسلم قیادت ناگزیرو شرط لازم اور وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
ہم الحمد للہ مسلمان ہیں ، دین اسلام ہمارا مذہب ہے، شریعت اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں پر امیر ولیڈر کے انتخاب اور اس کی اطاعت کو فرض و واجب اور ضروری قرار دیا ہے اور اس کے با ضابطہ قوانین و ضوابط اور اصول واحکام بیان کئے گئے ہیں ، قرآن وحدیث میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے، نبی کریم علیہ الصلاة والسلام نے ارشاد فرمایا: ” إن أمر عليكم عبد مجدع أسود، يقودكم بكتاب الله فاسمعوا له وأطيعوا” (صحیح مسلم حدیث نمبر : 1838) اگر تمہارے اوپر کوئی کالا کلوٹا ناک کٹا غلام امیر مقرر کردیا جائے جو کتاب اللہ کی روشنی میں تمہاری قیادت کر رہا ہو تو تم اس کی بات مانو اور عمل کرو۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم (النساء : 59) الله کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، پھر ان حاکموں اور امیروں کی جو تم میں سے ہوں۔
مذہب اسلام میں امیر ولیڈر اور حاکم منتخب کرنے پر کس قدر زور دیا گیا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: “إذا خرج ثلاثة في سفر فليؤمروا أحدهم” (سنن ابوداود حدیث نمبر : 2708) اگر تین مسلمان سفر کر رہے ہیں تو وہ اپنا ایک امیر مقرر کر لیں۔
کاش کہ ہم مسلمان اس قیمتی اور اہم اسلامی حکم کی حکمت و مصلحت اور اس کی ضرورت وافادیت کو سمجھتے ہوئے اس کو اپنائے ہوتے اور اس کو بروئے کار لائے ہوتے تو ہم مسلم قیادت کے فقدان کا رونا نہ روتے ، ہمارے اتنے برے نتائج نہ ہوتے اور ہماری یہ درگت نہ ہوتی ، ہم در در کی ٹھو کر نہ کھاتے، غیروں کے فریب کے شکار نہ ہوتے ۔ ضرورت ہے کہ ہم بلا اختلاف مسلک متفقہ طور پر ایک ایسے مخلص سیاسی رہنما و قائد کا انتخاب کریں کہ ان کو ملک کے تمام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو، اور مسلم قوم کے تعلق سے اس کی رائے حتمی و حرف آخر ہو۔ یقیناً اگر ایسا ہو جاتا تو ہم اپنی عظمت رفتہ کو پا لیتے اور اپنا کھویا ہوا مقام و وقار حاصل کر لیتے اور حقیقت میں اس میں محض مسلمانوں ہی کا نہیں بلکہ پورے ملک اور دیش باسیوں کا فائدہ ہوتا۔ اس کے لیے ہمیں ذاتی مفاد کو ملی فائدے کے لیے قربان کرنا ہوگا عصبیت و تنگ نظری سے دوری اختیار کرنی پڑے گی مسلکی اختلاف وذاتی جھگڑا کو اس سے پاک رکھنا ہوگا، وسعت قلبی و سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا ، اور تمام مسلمانوں کومل جل کر اتفاق و اتحاد کے ساتھ ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کرنا ہوگا جس میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر اور ہر فرقہ و مسلک کے نمائندے موجود ہوں اور وہ کسی ایک قوم کے مخلص و ہمدرد شخص کو لیڈر و قائد مقرر کرتے جو ہماری نمائندگی کرتے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق دے، آمین ثم آمین ۔