تحریر:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
الحمدُ لله ربِّ العالمين، والصلاة والسلام على سيِّدنا محمدٍ رحمةِ الله للعالمين، وعلى آله وصحبه وتابعيه بإحسانٍ، إلى يوم الدِّين.
اللہ رب العالمین نے ظلمت کدہ ٔ عالم کو بقعہ ٔ نور بنانے کے لئے ختم الرسل ﷺکو خاتم الأنبیاء بناکر مبعوث فرمایا,اور خاتمیتِ رسالت و نبوت کا تاج آپﷺکے سر مبارک پر رکھ دیا؛اور ایسی شریعتِ غراء مطہرہ اور صافی دین دے کر بھیجا جو تمام ادیان کے لئے ناسخ قرار پایا,ایسی کتاب دی جو تمام کتب ِ سماویہ کے لئے میہمن ثابت ہوئی ,اب قیامت تک ایسی کتاب اترے گی,نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی شریعت یا دین ۔
نبی ٔ اکرمﷺ جسے اللہ تعالی نے(الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ)(الأعراف:۱۵۷) کی صفت عطا کر مبعوث فرمایا,اسی امت نے ایسی ایسی رسوم و قیود اپنے گلے کا ہار بنالئے,جو ہندؤوں,غیر مسلموں,کافروں,یہودیوں,اور نصرانیوں سے در آمد شدہ ہیں,ایسی ایسی بدعات ۔ بد قسمتی سے۔ ایجاد کر لی گئیں؛جن کا کوئی تصور دین میں تھا,نہ قرآن میں اس کی تعلیم دی گئی تھی,نہ احادیث ِ رسولﷺ میں ان امور کا کوئی ثبوت تھا, اور نہ عہود ِ صحابہ و تابعین و تبع تابعین میں ایسے اعمال انجام دئے گئےتھے,اور انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسے دین کا حصہ سمجھ لیا گیا یا پھر بعض نام نہاد علماء کی وجہ سے اسے دین کا ضروری حصہ سمجھا دیا گیا اور پھر علامہ اقبال کو کہنا پڑا ؎
وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنودvیہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
ان حضرات پر افسوس ہوتاہے جوبدعات و رسوم کی حقیقت سے آگاہی کے باوجود محض دنیوی اغراض و مقاصد کے حصول اور سیم وزر کی لالچ و طمع میں بدعات وجاہلانہ روایات کو سنت و شریعت کا نام دے کر سیدھے سادھےعوام کو تاریکی کی دلدل میں دھکیل کر فخر محسوس کرتے ہیں, بلکہ ان بدعات و خرافات کو سنت ثابت کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔
جب ہم اپنے گرو نواح پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور ذہن و دماغ عجیب سی کیفیت محسوس کرتا ہے کہ جس معاشرہ میں اسلامی تعلیمات کی حکمرانی ہونی چاہئے,جہاں دینی امور کی بالا دستی قائم رہنی چاہئے,وہاں بدعات و خرافات کارواج ہے، باطل نظریات اور غلط عقائد وافکار کی حکمرانی ہے، اہل باطل ان بدعتوں پر دین کا لیبل لگا کر عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور لوگ نیکی و کار ِ خیر سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ بدعتیں پھیل جاتی ہیں اور معاشرے میں اس کی جڑیں مضبوط سے مضبوط تر ہوجاتی ہیں اور اتنی مضبوط ہوجاتی ہیں کہ انہیں دین کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
انہی بدعات و خرافات میں سے ایک خطر ناک بدعت ماہ ِ ربیع الأول کی ۱۲ تاریخ کو ”عیدمیلاد النبیﷺ“ منانا اور اسے دین کا حصہ سمجھ کر انتہائی تزک و احتشام سے انجام دیناہے، جسے معاشرے کے اکثر افراد دین تصور کرتے ہیں اور عبادت سمجھ کر مناتے ہیں,جلوس نکالے جاتے ہیں،اس میں جلسوں کا اہتمام کیاجاتا ہے، محفل میلاد منعقد کی جاتی ہے,ہر سال اس بدعت میں نمک مرچ لگا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے,اس کے فضائل بیان ہوتے ہیں,اس کی انجام دہی کی ترغیب دی جاتی ہے,اور اس میں ایسے اعمال کئے جاتے ہیں کہ ایک انصاف پسند فرد کے ماتھے سے سردی کے دنوں میں بھی پسینے رواں ہوجاتے ہیں
اس حقیقت سے مجال انکار نہیں کہ اسلام میں نبی ٔ اکرم ﷺ کا مقام انتہائی اونچا ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے(وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ)(الشرح:۴) کوئی دوسرا وہاں تک رسائی نہیں حاصل کرسکتا،بلکہ سوچ بھی نہیں سکتا,یہ بھی ایک مسلمہ اور طے شدہ بات ہے کہ آپﷺکی پیدائش سے دنیا منور ہوئی ہے,کفر و شرک کی ظلمتیں کافور ہوئی ہیں,اور جورو ستم کا خاتمہ ہوا ہے, یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپﷺ کی پیدائش باعث ِ رحمت و برکت ہے,یہ بھی ایک طے شدہ بات ہے کہ نبی ٔ کریمﷺ سے محبت دین کا جزء لا ینفک ہے,جس کے بغیر ایمان نا تمام ہے,جیسا کہ خود نبی ٔ کریمﷺ نے اس کی وضاحت فرمادی ہے (لا يؤْمِنُ أحَدُكم حتى أَكونَ أَحَبَّ إليه مِن ولَدِه ووالِدِه والناسِ أجمعينَ) ([1])نیز یہ بھی مسلم ہے کہ رسول ِ اکرم ﷺ کے حالات سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے اوراس میں مسلمانوں کی کامیابی کا رازبھی مضمر ہے,اللہ تعالی نے فرمایا:( قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ)(یونس :۵۸),نبی ٔ کریم ﷺ کی پیدائش پر خوش ہونا فطری اور طبعی بات ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضور ﷺکی ولادت کی خوشی میں بدعات وخرافات کا سلسلہ شروع کردیا جائے, اعمال ِ بد اور کار ِ شر کے طومار لگادئے جائیں,ایسے امور انجام دئے جائیں جن کا اسلام سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔
ہمیں انتہائی سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ اس مروجہ میلاد کا ثبوت کتاب و سنت میں ہے؟ نبی ٔ اکرمﷺ کی مہر تصدیق اس میں ثبت ہے؟کسی صحابی نے یہ عید منائی؟کسی تابعی یا تبع تابعی نے یہ عمل انجام دیا؟
جی ہاں ,اس مروّجہ میلاد کا اسلام میں کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے؛ بلکہ یہ توچوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہے۔ تیسری صدی تک اِس بدعت کا مسلمانوں میں کہیں رواج نہ تھا؛ نہ کسی صحابی رضى الله تعالى عنه نے اسے انجام دیا,نہ کسی تابعی نے اس عمل کو مستحسن قرار دیا,اور نہ ہی کسی تبع تابعین نے اس کار ِ بد کو سراہا,سب سے پہلے میلاد منانے والے وہ عبیدی رافضی تھے جنہوں نے چوتھی صدی ہجری میں اس بدعت کو ایجاد کیا ([2])
اس کے بعد لوگوں کو اس کی لت لگ گئی اور نت نئے رنگوں کے ساتھ اس بدعت کو سجاسنوار کر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا,اور چھٹی صدی ہجری میں ابو سعید کوکبری(م ۶۳۰ھ)نے تو حد کردی,جب اس نے اسے خوب خوب رواج دیا([3]),بعض حضرات جو بدعت ِ میلاد کو چھٹی صدی ہجری سے جوڑتے ہیں,وہ غلط ہے
اس ظالم اورفضول خرچ بادشاہ (ملک مظفرالدین) نے اپنے زمانے کے علماء کو حکم دیاکہ وہ اپنے اجتہاد پر عمل کریں اور اس میں کسی غیر کے مذہب کی اتباع نہ کریں چنانچہ اس وقت کے شکم پرور علماء نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی,اس سے شاباشی لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی,دنیاوی اغراض و مقاصد کےحصول کے لئے سرتوڑ کوششیں کیں,شاہ کی خوشنودی کی خاطر تعلیمات دین کو پس پشت ڈال دیا,اور ربیع الأول کے مہینے میں عید میلاد النبیﷺ منانا شروع کردیا۔
امام ذہبی۔رحمہ اللہ۔رقم طراز ہیں:,,اس کی فضول خرچی اور اسراف کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر سال میلادالنبی پر تقریباً تین لاکھ روپے خرچ کیا کرتا تھا‘‘([4])
علامہ تاج الدين عمر بن علي اللخمي المشهور بالفاكهاني المالكي رحمه الله فرماتے ہیں: (لا أعلم لهذا المولد أصلاً في كتاب ولا سنة، ولا ينقل عمله عن أحد من علماء الأمة، الذين هم القدوة في الدين، المتمسكون بآثار المتقدمين، بل هو بدعة أحدثها البطالون، وشهوة نفس اعتنى بها الأكالون..) ([5]) (جشن ولادت کی اصل نہ قرآن میں جانتا ہوں اور نہ سنت ِ رسولﷺمیں ,اور نہ ہی یہ عمل علمائے امت میں سے کسی سے منقول ہے,جو بلاشبہ دین میں قدوہ کی حیثیت رکھتے تھے,اور اسلاف کے نقش ِ قدم پر گامزن تھے,بلکہ یہ ایک ایسی بدعت ہے جسے شکم پرور (مولویوں نے)ایجاد کی,اور ایسی خواہش نفس (کی تکمیل )ہے,جس کا کھانے پینے والوں نے اہتمام کیا)
امام ابن الحاج المالکی رحمه الله فرماتے ہیں: (فصل في المولد: ومن جملة ما أحدثوه من البدع، مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وأظهر الشعائر ما يفعلونه في شهر ربيع الأول من المولد وقد احتوى على بدع ومحرمات جملة) ([6]) (من جملہ ان بدعات کے جو انہوں نے بڑی عبادت اور اظہر شعائر سمجھ کر ایجاد کیا,وہ بدعت بھی ہے جو جشن ولادت کے نام پر ماہ ِ ربیع الأول میں انجام دیتے ہیں,جو کئی بدعات اور اجمالی طور پر کئی حرام چیزوں پر مشتمل ہوتا ہے)
امام أبو عمرو بن العلاء رحمه الله فرماتے ہیں:(لا يزال الناس بخير ما تعجب من العجب – هذا مع أن الشهر الذي ولد فيه رسول الله وهو ربيع الأول هو بعينه الشهر الذي توفي فيه، فليس الفرح بأولى من الحزن فيه، وهذا ما علينا أن نقول، ومن الله تعالى نرجو حسن القبول) ([7])
شيخ الإسلام ابن تيميہ۔رحمه الله۔ فرماتے ہیں:(وأما اتخاذ موسم غير المواسم الشرعية، كبعض ليالي شهر ربيع الأول التي يقال: إنها ليلة المولد، أو بعض ليالي رجب، أو ثامن عشر من ذي الحجة، وأول جمعة من رجب، أو ثامن شوال الذي يسميه الجهال عيد الأبرار، فإنها من البدع التي لم يستحبها السلف، ولم يفعلها، والله سبحانه وتعالى أعلم) ([8]) (ترجمہ:غیر شرعی مواسم کو موسم قرار دے لینا,جیسے ربیع الأول کے مہینے کی بعض راتوں کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا کہ یہ ولادت نبوی کی رات ہے,یا رجب کی بعض راتیں,ذی الحجہ کی اٹھارہویں تاریخ,یا ماہ ِ رجب کا پہلا جمعہ,یا آٹھ شوال جسے جاہل لوگ عید الأبرار کے نام سے یاد کرتے ہیں,کیوں کہ یہ سب بدعات ہیں,جسے اسلاف ِ کرام نے قطعی پسند نہیں کیا ہے,اور نہ ہی یہ اعمال کئے ہیں)
حافظ أبو زرعہ العراقي رحمه الله فرماتے ہیں:(لا نعلم ذلك -أي عمل المولد- ولو بإطعام الطعام عن السلف) ([9])
شيخ محمد عبد السلام خضر الشقيري مصری رحمه الله فرماتے ہیں:
(فاتخاذ مولده موسماً والاحتفال به بدعة منكرة، وضلالة لم يرد بها شرع ولا عقل، ولو كان في هذا خير كيف يغفل عنه أبو بكر وعمر وعثمان وعلي وسائر الصحابة والتابعون وتابعوهم والأئمة وأتباعهم) ([10]) (ترجمہ:میلاد النبی کو ایک موسم کے بطور منانا,جشن قائم کرنا ایک قابل انکار بدعت ہے,اور ایسی گمراہی ہے جس کے متعلق نہ شریعت میں کچھ وارد ہے,اور نہ عقل میں,اگر یہ کوئی بھلائی کا کام ہوتا تو حضرات ابو بکر,عمر,عثمان,علی اور تمام صحابہ(رضی اللہ عنہم) اور تابعین ,تبع تابعین ,اور ائمہ و تابعین(رحمہم اللہ) کیسے غافل رہ سکتے تھے؟)
سابق مفتی ٔ اعظم مملکت سعودی عرب سماحۃ الشیخ ابن باز۔رحمه الله۔ فرماتے ہیں:
(وإحداث مثل هذه الموالد يفهم منه أن الله سبحانه وتعالى لم يكمل الدين لهذه الأمة، وأن الرسول عليه الصلاة والسلام لم يبلغ ما ينبغي للأمة أن تعمل به.. حتى أتى هؤلاء المتأخرون فأحدثوا في دين الله) ([11]) [ترجمہ:اس طرح کے جشن منانے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس امت کے لئے دین کو مکمل نہیں فرمایا,اور رسول اللہﷺنے جس طرح دین پہنچانا تھا ,نہیں پہنچایا,کہ امت اس پر عمل کر سکے,۔۔یہاں تک کہ بعد میں کچھ ایسے لوگ آئے جنہوں نے دین میں نئی چیزیں ایجاد کیں)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ حرّانی دمشقی رحمة اللہ علیہ اپنی کتاب ”اقتضاء الصراط المستقیم“ میں تحریر فرماتے ہیں:( وإنما يفعل مثل هذا النصارى الذين يتخذون أمثال أيام حوادث عيسى عليه السلام أعيادًا، أو اليهود، وإنما العيد شريعة، فما شرعه الله اتبع. وإلا لم يحدث في الدين ما ليس منه. وكذلك ما يحدثه بعض الناس، إما مضاهاةً للنصارى في ميلاد عيسى عليه السلام، وإما محبةً للنبي صلى الله عليه وسلم، وتعظيمًا، والله قد يثيبهم على هذه المحبة والاجتهاد، لا على البدع- من اتخاذ مولد النبي صلى الله عليه وسلم عيدًا، مع اختلاف الناس في مولده- فإن هذا لم يفعله السلف، مع قيام المقتضي له وعدم المانع منه لو كان خيرًا. ولو كان هذا خيرًا محضا، أو راجحًا لكان السلف رضي الله عنهم أحق به منا، فإنهم كانوا أشد محبة لرسول الله صلى الله عليه وسلم وتعظيمًا له منا، وهم على الخير أحرص) ([12])
اس طرح کا کام نصاری کرتے ہیں جو حضرت عیسی ۔علیہ السلام۔کے واقعات کو جشن کے طور پر مناتے ہیں,یا یہودی کرتے ہیں ,عید تو ایک شرعی چیز ہے,جسے اللہ نے جائز کہا ہے,اس کی اتباع کی جائے گی,ورنہ اس دین میں کوئی نئی چیز ایجاد نہیں کی جائے گی,اسی طرح بعض لوگ بدعات انجام دیتے ہیں یا تو نصاری کی روش پر چلتے ہوئے کرسمس ڈے مناتے ہیں یا نبیﷺسے محبت کا دم بھرتے ہوئے اور تعظیم کا دعوی کرتے ہوئے,اللہ تعالی محبت و کوشش پر تو ثواب دے گا,مگر بدعت کی ایجاد پر قطعی نہیں,کیوں یہ اسلاف کا طریقہ ٔ کار نہیں رہا ہے,اگر یہ کار ِ خیر ہوتا تو وہ ایسا ضرور کرتے,کیوں کہ تقاضائے وقت بھی تھا اور کوئی چیز رکاوٹ بھی نہیں تھی,اور اگر یہ اچھا کام ہوتا ,اور زیادہ مناسب ہوتا تو ہمارے اسلاف اس کے زیادہ حق دار تھے,کیوں کہ وہ آپﷺسے ہمارے مقابلے میں زیادہ محبت کرنے والے تھے,آپ کی تعظیم ان کے دل میں ہم سے کہیں زیادہ تھی,اور وہ نیکی کے کام کے زیادہ حریص تھے)
اب تو اس بدعت نے مزید ترقی(!!!) کرلی ہے,اور اس میں کئی چیزوں کا مزید اضافہ کردیا گیا ہے,وہ بھی ملاحظہ کر لیجئے ,غور فرمائیے:۔
(۱)اس بدعت کی مار یہ بھی ہے کہ لوگ ماہ ِ ربیع الأول کی خوشی میں فلمی شو مفت میں دکھانے کا اعلان کرتے ہیں,جیسا کہ پڑوسی ملک کی طرف سے گزشتہ کئی سالوں سے اس قسم کے اعلانات دیکھنے کو مل رہے ہیں,و العیاذ باللہ(اگر افسوس کرنا ہو تو ایسے امور پر افسوس کیا جائے)
ذرا اندازہ کیجئے ہمارے پیارے نبیﷺ کے دین کے ساتھ اگر یہ کھلواڑ نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے؟
(۲)اس بدعت کی ایک نحوست یہ بھی ہے کہ اس ماہ ِ ربیع الأول کے اس جشن میں(دیگر جشن ہائے بدعت کی طرح) مرد و زن کا اختلاط ہوتا ہے,لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ مل کر اسکولوں اور کالجوں میں ٹھرکتی ہیں,گاتی ہیں,ناچتی اور سر عام ڈانس کرتی ہیں, الأمان و الحفیظ,انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کیا جائے اور بتایا جائے کہ کیا ہمیں نبی ٔ اکرمﷺیہی دین دے کر گئے تھے؟کیا نبی ٔ کریمﷺسے محبت کا یہی تقاضا ہے؟کیا نبی ٔ کریمﷺ کی تعظیم اسی طرح کی جاتی ہے؟کیا نبی ٔ اکرمﷺاس طرح کے اعمال سے خوش ہو سکتے تھے,اگر آپﷺ زندہ ہوتے؟قطعی نہیں ,بالکل نہیں
(۳)محبتِ نبی ﷺکے نام پر جس طرح سے اس ماہ میں لذت عیش و عشرت سے شادکام ہوا جاتا ہے,گلچھرے اڑائے جاتے ہیں,موج مستی کی جاتی ہے,وہ بھی اس بدعت کی نحوست و شناعت کو مزید دو چند کرتی ہے
(۴)اس بدعت کی شناعت کے لئے یہی کافی ہے کہ جشن ِ ولادت رسولﷺمنانے والے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کی مجلسوں میں نبی ٔ کریمﷺبنفس نفیس شریک ہوتے ہیں,و العیاذ باللہ۔
ذرا اندازہ کیجئے کہ ان مجلسوں میں نبی ٔ کریمﷺکیسے شریک ہوسکتے ہیں,بیک وقت ہندوستان ,پاکستان,بنگلہ دیش,افغانستان وغیرہ ممالک میں ایک ہی ساتھ ایک ہی دن یہ جشن منایا جاتا ہے,کیا بیک وقت نبی ٔ کریمﷺان ساری مجلسوں میں شریک ہوسکتے ہیں(العیاذ باللہ),جبکہ یہ فرقہ ٔ جشن ,رسولﷺ آگئے ,رسولﷺ آگئے کانعرہ بلند کرتے نہیں تھکتے,اب اگر انہیں عقل کا یتیم اور دماغ کا مسکین نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے؟اگر بفرض محال نبی ٔ کریمﷺشریک ہوں گے تو کسی ایک ہی مجلس میں شریک ہوسکتے ہیں,تمام مجالس میں تو قطعی شریک نہیں ہوسکتے ,اگر صرف اسی امر پر یہ غور کر لیتے تو اس امر کی بدعیت واضح ہوجاتی ,مگر یہ قوم عقل کا صحیح استعمال نہیں کرتی,کاش یہ قوم ہوش کے ناخن لیتی ,پھر اس امر پر بھی تامل کیا جائے کہ نبی ٔ کریمﷺ کی وفات ہوگئی ہے,جس پر کتاب و سنت کے بیشتر دلائل و براہین موجود ہیں,کیا وفات کے بعد بھی کوئی اس دنیا میں آتا ہے,جبکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے(كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ)(المؤمنون:۱۰۰),اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمادیا ہے کہ کوئی بھی مرنے کے بعد واپس نہیں آسکتا ہے
(۵)حب نبویﷺکے نام پر جس طرح ڈھول تاشے,گانے بجانے,رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا ہے,کیا یہ عمل شریعت ِ مطہرہ کے عمل سے ذرہ برابر بھی میل کھاتا ہے,کبھی کبھار جشن منانے والوں کو اس پر بھی انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے,اس مبتدعانہ امر کی حقیقت از خود طشت از بام ہوجائے گی,اور اس بات میں شک و شبہ نہیں رہ جائے گا کہ جشن میلاد النبیﷺ ایک قابل انکار بدعت اور لائق صد انکار خرافہ ہے
(۶)جشن میلاد منانے والے حب ِ نبیﷺکا بھی حوالہ دیتے ہیں,تعظیم کا بھی حوالہ دیتے ہیں,ذرا غور کیا جائے کہ کیا حضرات خلفائے اربعہ ,حضرات ِ عشرہ مبشرہ,حضرات صحابہ (رضوان اللہ علیہم أجمعین)کو آپ ﷺ سے محبت تھی یا نہیں؟وہ آپﷺ کی تعظیم نہیں کرتے تھے؟یا محبت و تعظیم کے مفہوم سے ۔معاذ اللہ۔وہ نابلد و نا آشنا تھے؟یقینا اور سو بار یقینا جواب اثبات میں ہوگا(یعنی یقینا انہیں محبت تھی اور خوب خوب تھی,وہ تعظیم و عقیدت سے خوب خوب آشنا تھے),پھر بتایا جائے کہ ان جشن منانے والوں کو رسول اللہﷺ سے زیادہ محبت و عقیدت ہے یا صحابہ ٔ کرام کو آپﷺسے زیادہ محبت تھی,یقینا صحابہ ٔ کرام کو ہم سے زیادہ محبت و الفت تھی,آپﷺسے شیفتگی اور عقیدت ان کو ہم سے کہیں زیادہ تھی, پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہوں نے جشن ِ میلاد نبوی منایا؟کیا کہیں کسی بھی کتاب میں اس کا تذکرہ ہے؟کیایہ جشن (یا اس قسم کا جشن) امامان ِ دین نے منایا؟کیا انہیں آپﷺسے محبت نہیں تھی؟یا انہیں اس کا علم نہیں تھا؟یا وہ اس کا اظہار نہیں کرنا چاہتے تھے؟یا ہم ان سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں؟یا ہمیں ان سے زیادہ علم ہے؟یقینا ان سب کا جواب یہ ہوگا کہ ہمارے اسلاف ہم سے زیادہ محبت کرنے والے بھی تھے,ہم سے زیادہ وہ جانکار بھی تھے,یہ امر بھی اس کی بدعیت کے لئے واضح دلیل ہے,کیوں کہ اگر محبت کی دلیل جشن منانا ہوتی تو ضرور وہ اس عمل کو انجام دیتے اور بڑی محبت سے انجام دیتے
(۷)نبی ٔ کریمﷺسے محبت کے نام پر جشن منانے والے اسے دین کا ایک حصہ بلکہ جزو لا ینفک سمجھتے ہیں,اور جب یہ دین ٹھہرا تو اس کے لئے دلیل اور برہان ضروری قرار پایا,حالانکہ اماں عائشہ۔رضی اللہ عنہا۔سے انتہائی صراحت کے ساتھ مروی ہے(مَن أَحْدَثَ في أَمْرِنَا هذا ما ليسَ فِيهِ ، فَهو رَدٌّ) ([13])(جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کا تعلق اس دین سے نہ ہو تو وہ مردود ہے),ہاں اگر دلیل موجود ہوگی تو اس کا کرنا دین ہوگا,مگر دلیل کہاں؟اور اگر ہے تو پیش کیا جائے,صبح کا سورج بعد میں طلوع ہوگا,ہم اسے پہلے انجام دیں گے,اور اس کے لئے تشہیر و ترویج بھی کریں گے ,لیکن هيهات هيهات
(۸)جشن ِ ولادت منانے والے اسے عبادت سمجھ کر بھی انجام دینا ضروری خیال کرتے ہیں,حالانکہ کسی بھی عمل کی قبولیت کے لئے شرطِ اولیں ہےکہ اسے(۱)اخلاص (۲)اور رسولِ گرامیﷺ کی متابعت کے ساتھ انجام دیا جائے,اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہو تو وہ عمل دیوار پر مار دیا جاتا ہے,اللہ کریم کو ایسے عمل کی چنداں ضرورت نہیں ہے,جس میں اخلاص اور متابعت نہ ہو
(۹)اس امر پر بھی ذرا غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جس ماہ(ربیع الأول)میں آپﷺ کی ولادت ہوئی,اسی ماہ میں آپﷺ کی وفات حسرت ِ آیات کا جانکاہ اور دل خراش واقعہ پیش آیا,کسی جشن منانے والے سے پوچھا جائے کہ وفات پر کہیں خوشی و مسرت منائی جاتی ہے؟نبی ٔ کریمﷺسے اگر قرار واقعی محبت ہوتی تو جشن نہیں بلکہ غم مناتے(اگر منانا جائز ہوتا,حالانکہ یہ بھی ناجائز اور قابل ِ انکار بدعت ہے)کچھ سالوں پہلے تک وفاتِ نبوی منایا کرتے تھے,جب اس پر اعتراض ہوا تو اب میلاد النبیﷺ منانے لگے اور کئی قسم کے روپ دھار کر اس بدعت کی ملمع سازی کرنے میں تل گئے,فإلی اللہ المشتکی
(۱۰)اس امر پر بھی انتہائی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس میں تو سراسر عیسائیوں کی مشابہت ہے,عیسائی حضرت عیسی ۔علیہ السلام۔کی ولادت پر کرسمس ڈے مناتے ہیں اور بعض مسلمان نبی ٔ کریمﷺکی ولادت ڈے(جشن میلاد),حالانکہ نبی ٔ کریمﷺنے صاف طور پر کسی بھی قوم کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے,فرمان ِ نبوی ہے(مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) ([14]),جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی,وہ اسی میں سے ہے,شیخ الإسلام ابن تیمیہ۔رحمہ اللہ۔ نے کتنی بہترین بات کہی ہے, فرماتے ہیں:( وَقَدْ اِحْتَجَّ الإِمَام أَحْمَد وَغَيْره بِهَذَا الْحَدِيث , وَهَذَا الْحَدِيث أَقَلّ أَحْوَاله أَنْ يَقْتَضِيَ تَحْرِيم التَّشَبُّه بِهِمْ كَمَا فِي قَوْله مَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ وَهُوَ نَظِير قَوْل عَبْد اللَّه بْن عَمْرو أَنَّهُ قَالَ : مَنْ بَنَى بِأَرْضِ الْمُشْرِكِينَ وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ حَتَّى يَمُوت حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْم الْقِيَامَة فَقَدْ يُحْمَل هَذَا عَلَى التَّشَبُّه الْمُطْلَق فَإِنَّهُ يُوجِب الْكُفْر , وَيَقْتَضِي تَحْرِيم أَبْعَاض ذَلِكَ , وَقَدْ يُحْمَل عَلَى أَنَّهُ مِنْهُمْ فِي الْقَدْر الْمُشْتَرَك الَّذِي يُشَابِههُمْ فِيهِ , فَإِنْ كَانَ كُفْرًا أَوْ مَعْصِيَة أَوْ شِعَارًا لَهَا كَانَ حُكْمه كَذَلِكَ . وَقَدْ رُوِيَ عَنْ اِبْن عُمَر عَنْ النَّبِيّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ التَّشَبُّه بِالأَعَاجِمِ , وَقَالَ : ” مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ” وَذَكَرَهُ الْقَاضِي أَبُو يَعْلَى . وَبِهَذَا اِحْتَجَّ غَيْر وَاحِد مِنْ الْعُلَمَاء عَلَى كَرَاهَة أَشْيَاء مِنْ زِيّ غَيْر الْمُسْلِمِينَ) ([15])(خلاصہ ٔ ترجمہ:امام احمد وغیرہ نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے,کم سے کم اس حدیث مبارک سے اتنی بات تو معلوم ہوتی ہے کہ ان کی تقلید کرنا سراسر حرام ہے,جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:( ترجمہ:جو ان سے دوستی کرے گا,وہ انہیں میں سے ہے)یہ ٹھیک حضرت عبد اللہ بن عمرو۔رضی اللہ عنہ۔کے اس فرمان کی طرح ہے ,جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جس نے مشرکوں کی سرزمین میں تعمیر کی,اور ان کی طرح میلہ ٹھیلا لگایا,ان کے نقش ِ قدم پر چلا,موت تک انہی کے ڈگر پر قائم رہا,تو قیامت کے دن انہی کے ساتھ ان کو اٹھایا جائے گا,چنانچہ یہ بھی مطلق مشابہت پر محمول کیا جائے گا,کیوں کہ یہ کفر کو لازم ٹھہراتا ہے,اور بعض چیزوں کی حرمت کا متقاضی ہے,اور ہوسکتا ہے کہ یہ اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ مشابہت و نقالی میں قدرے مشترک ہے,لہذا اگر یہ کفر,یا معصیت یا شعار ہے,تو اس کا حکم اسی طرح ہوگا,اور حضرت عبد اللہ بن عمر۔رضی اللہ عنہما۔سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے,کہ نبی ٔ کریمﷺنے عجمیوں کی نقالی کرنے سے منع فرمایا ہے,نیز فرمایا:(جس نے کسی کی نقالی کی تو وہ اسی میں سے )اور اسے قاضی ابو یعلی نے ذکر فرمایا ہے,اور بیشتر علماء نے اس سے استدلال فرمایا ہے کہ غیر مسلوں کی سی پوشاک پہننا حرام ہے)
تلک عشرۃ کاملۃ,یہ دس وجوہات ہیں,جن کا تذکرہ مشتے نمونے از خروارے کیا گیا ہے,جو اس بات کے لئے دلیل ہیں کہ جشن میلاد النبیﷺبدعت,قابل ِ انکار عمل اور دین میں نئی چیز ہے,اس سے اجتناب ضروری اور لازمی ہے,اللہ ہمیں صحیح سمجھ کی توفیق دے
([1]) بخاری نمبر:۱۵,مسلم نمبر:۴۴۔
([2]) دیکھئے:الخطط از مقریزی:۲؍۴۳۶۔
([3]) دیکھئے:البدایۃ و النہایۃ از ابن کثیر:۱۳؍۱۳۶۔۱۳۷۔
([6]) المدخل از ابن الحاج المالکی: (2/ 2-10)
([10]) السنن والمبتدعات بالأذكار والصلوات (ص: 138۔
([11]) التحذير من البدع ص؍4- 5۔
([12]) اقتضاء الصراط المستقیم :۲؍۱۲۳۔
([13]) بخاری رقم:۲۶۹۷,مسلم رقم:۱۷۱۸۔
([14]) ابو داؤد رقم:۴۰۳۱,مسند أحمد رقم:۱۵۱۴,حافظ ابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے(فتح الباری:۱۰ ۲۷۱,عراقی نے بھی (تخریج الإحیاء:۱؍۳۴۲)میں حسن,البانی نے (حجاب المرأۃ ۱۰۴)میں صحیح قرار دیا ہے۔