درس ِ قرآن
(شیخ محمد سلطان عادل ریاضی )
جمعیۃ الدعوۃ و الإرشاد و توعیۃ الجالیات,الوادیین,سعودی عرب)
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (سورة الاعراف آيت 158)
ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوں، جس کی بادشاہی تمام آسمانوں اور زمین میں ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے ﻻئق نہیں وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے سو اللہ تعالیٰ پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم راه پر آجاؤ۔
تفسير و تشریح :
اس آیت کی تفسیر میں مشہور عالم دین حافظ صلاح الدین یوسف ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:
یہ آیت بھی رسالت محمدیہ کی عالم گیر رسالت کے اثبات میں بالکل واضح ہے ۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (ﷺ) کو حکم دیا کہ آپ (ﷺ) کہہ دیجئے کہ اے کائنات کے انسانو! میں سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔ یوں آپ (ﷺ) پوری بنی نوع انسان کے نجات دہندہ اور رسول ہیں۔ اب نجات اور ہدایت نہ عیسائیت میں ہے نہ یہودیت میں، نہ کسی اور مذہب میں۔ نجات اور ہدایت اگر ہے تو صرف اسلام کے اپنانے اور اسے ہی اختیار کرنے میں ہے۔ اس آیت میں اور اس سے پہلی آیت میں بھی آپ (ﷺ) کو النبی الاّمی کہا گیا ہے ۔ یہ آپ کی ایک خاص صفت ہے۔ امّی کے معنی ہیں ان پڑھ۔ یعنی آپ نے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذت (شاگردی) نہیں کیے، کسی سے کسی قسم کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن اس کے باوجود آپ (ﷺ) نے جو قرآن کریم پیش کیا، اس کے اعجاز وبلاغت کے سامنے دنیا بھر کے فصحا وبلغا عاجز آگئے اور آپ نے جو تعلیمات پیش کیں، ان کی صداقت وحقانیت کی ایک دنیا معترف ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ آپ واقعی اللہ کے سچے رسول ہیں ورنہ ایک امی نہ ایسا قرآن پیش کرسکتا ہے اور نہ ایسی تعلیمات بیان کرسکتا ہے جو عدل وانصاف کا بہترین نمونہ اور انسانیت کی فلاح وکامرانی کے لیے ناگزیر ہیں، انہیں اپنائے بغیر دنیا حقیقی امن وسکون اور راحت وعافیت سے ہمکنار نہیں ہوسکتی
مطلب یہ کہ:
آپ ﷺ پوری انسانیت کے لیے نبی ورسول بناکر بھیجے گئے ہیں، رب العالمین نے محمد ﷺ کو نبوت ورسالت کے سلسلہ کو مکمل اورختم کرنے کیلئے منتخب فرمایاتھا، اس کا فطری تقاضا تھا کہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی قیامت تک آنے والی نسلوں اوربنی نوع انسان کے لئے سیدھا راستہ ہو جس پر انسان چل کر اوراس راہ کو اختیار کرکے آسانی کے ساتھ منزل مقصود(جنت) تک پہنچ سکے اورفانی وابدی ہردو زندگی میں کامیابی حاصل کرسکے، اب کوئی بھی کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو اسلام اپنا کراور آپ کے نقش قدم کی پیروی کرکے ہی نجات پاسکتے ہیں۔
عبادت کے لائق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے،اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، کیوں کہ تمام اختیارات اسے کے پاس ہیں وہی آسمان و زمین کا خالق و مالک ہے،
ملکیت، تخلیق، تدبیر اور عبادت میں اللہ تعالی کا کوئی شریک نہیں ہے۔، روزی روٹی کا مالک، پرورش کرنے والا،بارش برسانے والا، زندگی اورموت کا مالک بھی وہی اللہ ہی ہے
تو پھرعبادت اللہ کے سوا کسی دوسرے کی کیسے کی جاسکتی ہے؟؟