ڈاکٹرعبدا لرزاق زیادی
( جواہر لعل نہرو یو نیورسٹی، نئی دہلی۔67) Mob.No.:09911589715 E-mail: arziyadi@gmail.com
ہرعہد اپنے ماقبل اور مابعد کے زمانے سے کئی اعتبار سے منفرد و ممتاز ہوتاہے۔ اسے یہ ا متیازو انفرادیت محض خوبیوں کی بدولت ہی نہیں حاصل ہوتی بلکہ اس میں ہمیشہ اچھائیاں اور برائیاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ موجودہ دور بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔یہ عہد بھی جہاں بہت سارے امور میں اپنے ماقبل کے ادوار سے امتیازی شان رکھتا ہے وہیں بہت سی خامیوں کا پِٹا را بھی اپنے ساتھ لیے چلتا ہے۔عہد حاضر کو سائنس و ٹکنالوجی، ایجادات و اختراعات اور تعلیمی انکشافات و انفجارات کے میدان میں اگر چہ بہت آگے اور ترقی یافتہ تصورکیا جاتا ہے لیکن یہ اخلاقیات اور سماجی معاملات میں بہت پیچھے ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ یہ عہدا خلاقی قدروں کے زوال کاعہدہے۔
موجودہ دور نے علمی وا دبی اور فکری وفنی سطح پر اگرچہ ترقیوں کی بہت سی منزلیں طے کر لی ہیں اور بظاہر اس نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے،ذرائع نقل وحمل اور مواصلات کی لامحدودآ سانیوں نے دنیا کے ہرانسان کو ایک دوسرے سے قریب تر کردیاہے اور’فراق ووصل‘کے تصورات بے معنی ہوکررہ گے ہیں،زمین کی طنا بیں کھنچ جانے سے زمان ومکان کی بحثیں بھی فلسفے کی کتابوں تک ہی محدودہوکر رہ گی ہیں،سائنس وٹکنالوجی نے جہاں ایک طرٖف انسان کے لئے عیش وعشرت اور سہولتوں کے بے انتہا مواقع اورسازو سامان فراہم کردیے ہیں، وہیں دوسری طرف اس نے سما جی رشتوں کی شکست وریخت، سماجی ونفسیاتی الجھنوں کے نا قابل برداشت دباؤ، مشینی ومیکانکی شور شرابے،صارفین کلچر کے عروج،دولت کے یک طرفہ بہاؤ اور بھوک وافلاس کے بڑھتے ہوے دائروں کو بھی جنم دیا ہے اوراس کی وجہ سے آج ہر شخص ا پنی ہی ذات تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔انھیں ترقیوں کی دین ہے کہ آج لوگوں میں خلوص ومحبت، ایثار وقربانی،اتفاق واتحاد،صبروتحمل اورباہمی معاونت و ہمدردی کے جذبوں کی جگہ شدیدنفرت وعداوت،دہشت گردی وگرم بازاری،اختلاف وانتشار،بے چینی وبے کیفی اورخود غرضی ومفاد پرستی نے اپنا مقام حاصل کر لیاہے، پھراسی کے پاداش میں آج پوری دنیا خوف و ہراس، نفسیاتی الجھن،جارحانہ مدافعت، ظلم و بر بریت اور دہشت گردی کے سایے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے اور کسی بھی انسان کو سکون و اطمینان اور سکھ چین کی زندگی نصیب نہیں ہے۔
ایسی صورت حال میں ہمارے ذہنوں میں کئی طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آخر یہ سب مسائل کیوں پیدا ہورہے ہیں؟ تعلیم و ترقی کے ساتھ ہماری اخلاقیات میں بھی اضافہ کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ ہمارے معاشرے میں اگر یہ مسائل ہیں تو ان کاسدِ باب کیسے ممکن ہوگا؟ ایسی صورت حا ل میں کون سی ایسی راہ ہے جس پر چل کر ہم بآسانی اپنی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔۔۔؟ اگربغور دیکھا جائے تو یہ اور اس طرح کے جو بھی سوالات ہیں ان کاصرف ایک ہی جواب ملتاہے اور وہ یہ ہے کہ آج بھی ہمیں اسی راستے پر چلناپڑے گا جس پر چل کر دنیا کی ایک بدو قوم نے اخلاقیات کی تمام تر منزلیں طے کر لی تھیں۔ آج بھی ہمیں اسی مرجع خلائق اور محسن انسانیت کی طرف لوٹنا پڑے گا جو محض سو دو سو،ہزار دو ہزار یا پھر لاکھ دو لاکھ لوگوں کے لیے نہیں بلکہ زخموں سے چُور پوری انسانیت کے لئے شفایابی کا نسخہ لے کر آیا تھا اور جس کے بتائے ہوئے اصولوں پر چل کر پوری دنیا کو شفایابی حاصل ہوئی۔ یقینا وہ راستہ کوئی اور نہیں بلکہ دین اسلام ہی ہے اور وہ محسن انسانیت کسی ایسی ویسی شخصیت کا نام نہیں بلکہ ہمارے آخری نبی حضر ت محمدﷺ ہی ہیں۔ ان کا دیا ہو پیغام یا قول و عمل آج بھی ہمارے لیے اتنا ہی اہم، مشعل راہ اور اسوہ ونمونہ ہیں جتنا کہ کل تھے۔ کیونکہ آج سے چودہ سو سال پہلے بھی آپ نے اپنی اُنھیں تعلیمات کے ذریعے ایک مردہ قوم کے اندر زندگی کی ایک ایسی روح پھونک دی تھی کہ اس سے نہ صرف وہ زندہ ہوگئی بلکہ اس نے اخلاقیات کے تمام مدارج طے کر لیے اور پوری دنیا اس کے زیرنگیں ہوگئی۔
تاریخ شاہد ہے کہ جب اسلام کا سورج طلوع ہورہاتھا اور آپﷺ کونبوت ورسالت سے سرفراز کیاجارہا تھا تواس وقت عرب قوم بالخصوص اور پوری دنیا بالعموم ایک گرداب کاشکار تھی۔ ہر طرف ظلم وبربریت،اختلاف وانتشار، کرب والم اور قتل وخونریزی کا نہ صرف بازار گرم تھا بلکہ انسانیت کی گاڑی ایک ایسے ڈھلوان پر تھی کہ جسں کے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ مگر ا یسے وقت میں اللہ نے اس کے لیے ایک جس محسن انسانیت یا رہبر قوم کو اپنے ہاتھوں میں مشعل راہ لیے ہوئے بھیجا وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود ہمارے نبی محمد ﷺ تھے۔جنھوں نے اپنے اسوہء حسنہ کے ذریعہ نہ صرف اسے ان کی منزل تک پہنچایا بلکہ اس کی دنیا ہی بدل کر رکھ دی۔اس عہد کے حالات اور ضوءِ رسالت کے اثرات کو بیان کرتے ہوئے علی میاں ندوی لکھتے ہیں:
”چھٹی صدی مسیحی میں انسانیت کی گاڑی ایک ڈھلوان راستے پرپڑگی تھی،اندھیرا پھیلتا جارہا تھا، راستے کا نشیب وفراز بڑھتاجارہا تھا اور رفتار تیز ہوتی جارہی تھی،اس گاڑی پر انسانیت کا پوراقافلہ اور آدم کا ساراکنبہ سوار تھا۔ہزاروں برس کی تہذیب اور لاکھوں انسانوں کی محنتیں،گاڑی پر سوار میٹھی نیند سورہے تھے،یازیادہ اوراچھی جگہ حاصل کرنے کیلئے آپس میں دست وگریباں تھے،کچھ تنک مزاج تھے،جوجب ساتھیوں سے روٹھتے تو ایک طرف سے دوسری طرف منہ پیھرکر بیٹھ جاتے،کچھ ایسے جواپنے جیسے لوگوں پرحکم چلاتے،کچھ کھانے پکانے میں مشغول تھے، کچھ گانے بجانے میں مصروف،مگرکوئی یہ نہیں دیکھتاکہ گاڑی کس غار کی طرف جارہی ہے، اور اب وہ کتنا قریب رہ گیا ہے۔۔۔انسانیت کی قسمت پر بھاری قفل پڑا تھا اور کنجی گم تھی،اس دنیاکے مالک کواپنے گھر کایہ نقشہ پسند نہ تھا،آخر کار اس نے عرب کی آزاد اورسادہ قوم میں جو فطرت سے قریب تھی،ایک پیغمبر بھیجا کہ پیغمبر کے سوا اب اس بگڑی دنیا کوکوئی بنا نہیں سکتا،اس پیغمبر کا نام نامی محمد بن عبداللہ ہے، یہی وہ عہد ہے کہ جس میں آپﷺ ایک رہنماء انقلاب بن کرآے تھے اورلوگوں کے سامنے اللہ کی طرف سے دیا ہوا وہ پیغام]قرآن وحدیث[سنائے تھے، جس سے کہ نہ صرف ایک سوئی ہوئی قوم خواب غفلت سے جاگ گئی بلکہ اس سے پوری دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا اور پورے ملک میں جہاں ایک بھی خدا سے ڈرنے والا نظرنہیں آتا تھا وہاں لاکھوں کی تعداد میں ایسے انسان پیدا ہوگئے جواندھیرے اجالے میں ڈرنے والے بن گئے۔“(1(
اگر ہمارے نبی ﷺ نے اللہ کی طرف سے دیا ہوا وہ پیغام دنیا والوں کے سامنے نہ سنایا ہوتا تو شاید صدیوں تک انسانیت کا وہ کنبہ اسی طرح ظلمت و گمرہی، بے حیائی و بد کرداری، ظلم و نا انصافی اورقتل وخوں ریزی کی راہ پر گامزن رہتا۔ لیکن ہمارے نبی نے اللہ کی طرف سے دیئے ہوئے پیغام یعنی کتاب و سنت کے ذریعہ پوری انسانیت کو گمراہی کے دلدل سے بچا لیا اور اس کے سامنے اخلاقیات کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا کہ اس کو اپنا کر عرب کی ایک بدُّو قوم اخلاقیات کی اس معراج پر پہنچ گئی جہاں دنیا کی ساری قومیں سر نگوں کھڑی نظر آتی ہیں۔
اسلامیات کا مطالعہ کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آپ کے اس انقلاب آفریں پیغام میں جہاں شریعت کے مخصوص احکام یعنی نماز،روزہ،حج، زکوۃ اوردیگر عبادات و اعتقادات شامل ہیں وہیں اس میں اتفاق واتحاد،الفت ومحبت،امن وشا نتی،صبر و تحمل اور دیگر اخلاقیات و معلامات پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ کیونکہ انھیں صرف اسلامی نقطہء نظر سے ہی بڑی اہمیت و وقعت حاصل نہیں ہے بلکہ کسی بھی سماج یامعاشرے کو کامیاب یا مثالی بنانے میں ان کاکلیدی رول ہوتا ہے۔جس سماج یا معاشرے میں ان کا فقدان ہو تاہے اس میں نہ صرف بدنظمی وبے ضابطگی، بد اخلاقی و بد کرداری اور کشت و خون کا بازار گرم ہوجاتا ہے بلکہ اس میں انسانیت بھی داؤ پرلگ جاتی ہے۔مگربرخلاف اس کے جس سماج یا معاشرے میں بھی لوگوں کے درمیان باہمی اخوت و محبت، آپسی لین دین اوراتفاق واتحاد پایا جاتا ہے اس میں نہ صرف سماج کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں بلکہ اس کی بدولت لوگ میں بے خو فی و اطمینان،چین و سکون اور امن و شانتی بھی میسر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک ا ور احادیث نبویہ میں ان کے حوالے سے بڑی بڑی تاکیدیں وار د ہوئی ہیں اوربڑی تفصیل سے یہ ہدایات دی گی ہیں کہ ایک انسان دوسرے کے سلسلے میں حسن ظن رکھے اور ہمیشہ اس کے پیارومحبت اور شفقت و نرمی سے پیش آئے۔
کسی بھی سماج میں جب لوگ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند کر دیتے ہیں تو عام طور پر ان کے درمیان دور یوں کی خلیج بڑھتی چلی جاتی ہے اور ان کے درمیان بے جا بد گمانیاں پید اہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ مگر اسلام نے ہمیں اس چیز سے منع کیا ہے اور ہمیں ایک دوسرے سے ملتے رہنے کی تلقین کی ہے۔ آپس میں یک دوسرے کو تحفے تحائف دینے کا بھی حکم ہے تاکہ آپسی میل ملاپ اور الفت ومحبت قائم رہ سکے۔سلام کو رواج دیئے پر بے شمار حدیثیں موجود ہیں۔تا کہ آپس میں محبت و پیار بڑھے۔ آپسی الفت و محبت اور امداد باہمی کا درجہ تو اس قدر بلندہے کہ اللہ نے بندوں کے ساتھ امدادو معاونت کو اپنی معاونت سے تعبیر کیا ہے۔فرمان خدا وندی ہے: ”تب تک اللہ اپنے بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک کہ وہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتاہے۔)“2(
اسلام میں انسان دوستی،آپسی الفت و محبت اور اخوت ورأفت کا یہی وہ مقام و مرتبہ ہے کہ قرآن وحدیث میں بار بار اس کا ذکر آیاہے۔کہیں تو ان لوگوں کے حوالے سے اس کاذکرملتا ہے جن سے اللہ خود محبت کرتا ہے اور کہیں ان کے تعلق سے بھی ہے جو اس نعمت سے محروم ہے۔ بعض حدیثوں میں تو اس کو دخولِ جنت کا ذریعہ تک قراردیا گیاہے۔ فر مانِ نبوی ہے: ”لا تدخلواالجنۃحتی تومنوا ولاتومنوا حتی تحابوا“ (3) یعنی جب تک آپ کے پاس ایمان نہیں ہوگا تب تک آپ کا جنت میں داخلہ نہیں ہو سکے گا اورجب تک آپ کے پاس آپسی محبت نہیں ہو گی تب تک آپ صاحبِ ایمان نہیں ہوسکیں گے۔گویاجنت میں داخلے کے لیے ایک دوسرے سے محبت وبھائی چارہ ناگزیر ہے۔
ایک دوسری حدیث میں تو یہاں تک وضاحت ملتی ہے کہ قیامت کے دن ہر انسان کا حشر اس شخص کے ساتھ ہوگا جس سے کہ وہ محبت کرتا ہے۔اسلام کی یہ تعلیمات صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی حسن سلوک اورمحبت وہمدردی کرنے کی تاکیدیں موجود ہیں۔ کیونکہ کسی بھی سماج یامعاشرے میں ان عناصر کے بغیر عدل و انصاف اورامن شانتی کا ماحول قائم کیا جانا ناممکن ہے۔بلکہ جب کسی مذہب یا معاشرے میں اخلاقیات اپنے خلاف سازش تصور کی جانے لگیں تو اس میں جرائم و مظالم کی کثرت ہو جاتی ہے۔ معروف اسلامی اسکالر محمد جر جیس کریمی اپنے کتاب ”توحید اور قیام ِ عدل“ میں رقمطراز ہیں:
”جب آدمی مذہب اور اخلاق کو اپنی خواہشات کے خلاف ایک سازش تصورکرنے لگے تو پھر کون سی طاقت ہے جو اس کودوسروں پر ظلم و نا انصافی سے روک دے گی۔ موجود ہ دورمیں خدا کے بارے میں ملحدانہ نظریات کو تسلیم شدہ حقائق کی حیثیت دینے والوں نے مذہب اور اخلاق کو انسانیت کے خلاف سازش کہا ہے۔ نتیجہ کے طور پر آج ہر طرف جرائم اور مظالم کا سیلاب امنڈ پڑاہے۔ ہر آدمی اپنی خواہش کی تکمیل میں آزاد ہے اور اس کی آزادی میں مداخلت کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔)“4(
گویا جہاں کہیں بھی اسلامی تعلیمات کے خلاف من مانی شروع ہو جائے اور اپنی اخلاقیات یعنی باہمی الفت ومحبت،اخوت وبھائی چارگی، آپسی معاونت وہمدری اور اتفاق واتحا کے بجائے لوگ آپسی اختلاف و انتشار،عیب جوئی و عیب کاری،بغض و حسد، کینہ و کپٹ اور ظلم وناانصافی کے عادی ہو جائیں تووہاں کبھی بھی اطمینان و سکون اورامن وشانتی سے بھراہواماحول پیدا نہیں ہو سکتا۔کیونکہ کسی بھی سماج میں اخلاقیات کی تکمیل کے بغیر وہ ماحول اور فضا تیار نہیں ہوسکتی ہے جس میں انسان اطمینان وسکون کی زندگی بسر کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں دیگر احکام و فرائض کے بعد جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ اخلاقیات ہی ہیں۔بلکہ اللہ تعالی نے تو اسے ایک جگہ اپنی نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ ارشادربانی ہے: ”واعتصموابحبل اللہ جمیعاولل تفرقواواذکروا نعمۃاللہ علیکم اذکنتم اعداءََ فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمۃ انااخوانا)“5(
یہ اور اس طرح کی اور بھی بہت سی ایسی قرآنی آیات، آحادیث نبویہ اورسیرۃ النبی ﷺکے واقعات و مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جن میں اعلیٰ اخلاقی نمونے موجودہیں۔بلکہ ہماری پوری اسلامی تاریخ ہی اخلاقی تعلیمات یعنی آپسی الفت ومحبت،اخوت ورأفت، اتفاق واتحاد،امن وشانتی،صلح وآتشی اورصبر وتحمل کی مثالوں سے عبارت ہے۔ اگر چہ رسول اللہ ﷺ نے یہ تعلیمات چودہ سو سال پہلے دنیا کے سامنے پیش کی تھیں لیکن عہد حاضر میں بھی یہ اتنی ہی اہم،پر مغز، اور معنی خیز ہیں جتنی کہ پہلے تھیں۔آج بھی دنیا کو ان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ چھٹی صدی عیسوی میں تھی۔موجودہ دور میں بھی اگرآپ ﷺ کی ان صالح تعلیمات کو اپنا لیا جائے تو یقین مانئے ہمارے سماج میں بھی ایک انقلاب بر پا ہوجائے گا،ہمارے یہاں بھی ایک ایسا خوشگوارماحول پیدا ہوجائے گا جس میں ہمیں کسی سے کوئی شکوہ شکایت نہیں ہوگی اور ہمارا معاشرہ بھی ایک ایسے معاشرے میں تبدیل ہو جائے گا جس کی دنیا مثال دے گی۔ کیونکہ آپ کی تعلیمات(قرآن وحدیث)کسی خاص عہد یا زمانے کے لیے نہیں بلکہ تاقیامت سب کے لیے ایک ایسا مکمل ضابطہء حیات اورنظامِ زندگی ہے جس میں تمام مسائل و معاملات کا حل موجود ہے۔
٭ ٭ ٭
حواشی:
1۔ کاروانِ نبوت۔ابو الحسن علی ندوی؛مجلس تحقیقات و نشریات اسلام،ندوۃ العلماء، لکھنؤ، ص:27-29
2۔ مسلم، کتاب الذکر
3۔ مسلم،کتاب البر
4۔ توحید اورقیام ِ عدل۔محمد جر جیس کریمی؛مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، ص۶۸
5۔ آل عمران /۳۰۱