نماز میں سورہ ٔفاتحہ کے بعد بیچ یا آخری سورت کی تلاوت

    تحریر:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

(مدیر مجلہ ارمغان ِ سلام ۔داعی و مبلغ اسلامک دعوہ سینٹر,میسان,سعودی عرب)

الحمد لله الذي خلق الإنسان وعلمه البيان وجمله بالعقل وشرفه بالإيمان وفضله بالعلم على سائر الحيوان,أما بعد:

اسلام میں نماز کی اہمیت,فضیلت,فرضیت,وجوب,مقام و مرتبہ,اور اس کی عظمت سے کسی کو مجال انکار ہے اور نہ ہوسکتا ہے,بلاشبہ نماز باعث ِ نور,ذریعہ ٔ سرور,مسلمانوں کے لئے دستور,زندگی کے لئےمنشور,باعث ِ زیادتی ٔ  رزق,اور برکت  کا ذریعہ ہے,نماز مؤمن کی معراج اور مسلمانوں کے لئے سکون کا سبب ہے,نبی ٔ کریمﷺنماز کے ذریعہ سکون حاصل کیا کرتے تھے, سالم بن  ابوجعد ۔رضی اللہ عنہ ۔فرماتے ہیں :کہ آ پ ﷺحضرت بلال ۔رضی اللہ عنہ۔سے فرمایا کرتے تھے(يا بلالُ أقمِ الصلاةَ، أرِحْنا بها(ابو داؤد حدیث نمبر:۴۹۸۵)(ترجمہ:بلال!نماز قائم کرو,اس سے ہمیں آرام پہنچاؤ) جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نماز راحت و سکون؛اورخوشی و اطمینان  کا سبب ہے؛مگر افسوس صد افسوس کہ آج مسلمانوں  کی اکثریت نماز سے دور اور بہت دور ہوتی جا رہی ہے؛جان بوجھ کر اس سے غفلت برتی جا رہی ہے؛ حالانکہ جس طرح نماز کے دینی فوائد ہیں,ٹھیک اسی طرح دنیوی فوائد بھی بکثرت موجودہیں؛جن کے استقصاء کا یہ محل نہیں

ساتھ ہی مسلمانوں کا ایک معتد بہ طبقہ طریقہ ٔ نماز سے یکسر غافل ہے؛قرآنی ارشادات سے مہجور,نبوی تعلیمات سے دور؛اوراسلامی توجیہات سے بے نور ہوتا جا رہا ہے؛اسے اس بات کی فکر ہی نہیں ہے کہ نماز کس طریقہ پر پڑھنی ہے؛کس طرح ادا کرنی ہے؛دوسری طرف نبی ٔ کریمﷺکی سنتوں کو بالائے طاق رکھ کر جیسے تیسے نماز ادا کی جا رہی ہے ؛عام طور پر یہ معلوم کرنے کی کوشش تک نہیں کی جاتی ہے کہ نبی ٔ کریمﷺکا طریقۂ نماز کیا تھا؟آپ نے نماز کیسے ادا کی تھی؟اور آپ نے امت کو کیا طریقہ بتلایا تھا؟

یہ بات مسلمہ ہے کہ نماز بیشتر اور ڈھیروں مسائل کا مجموعہ ہے,انہی مسائل میں ایک مسئلہ (نماز میں فاتحہ کے بعد بیچ سورت یا آخری سورت کی تلاوت )کا ہے کہ کیا نماز میں سورہ ٔ فاتحہ کے بعد دوسری سورت کی تلاوت کے وقت اواخر یا اوساط سور کی تلاوت کی جا سکتی ہے؟اس سلسلہ میں نبی ٔ کریمﷺ کا اسوہ کیا تھا ؟

یہ سبھی جانتے ہیں کہ سورہ ٔ فاتحہ کے بعد پہلی دو رکعتوں میں کسی دوسری سورت کا ملانا نماز کی  نبی ٔ کریمﷺکی سنت ہے جیسا کہ حضرت  ابوقتادہ ۔رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يقرأ في الظهر في الأوليين بأم الكتاب، وسورتين، وفي الركعتين الأخريين بأم الكتاب ويسمعنا الآية، ويطول في الركعة الأولى ما لا يطول في الركعة الثانية، وهكذا في العصر وهكذا في الصبح»)(بخاری حدیث نمبر:۷۷۶,مسلم حدیث نمبر:۴۵۱)(ترجمہ: نبی ﷺ ظہر کی دو پہلی رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخری دو رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے۔ کبھی کبھی ہمیں ایک آدھ آیت سنا بھی دیا کرتے تھے اور پہلی رکعت میں قرات دوسری رکعت سے زیادہ کرتے تھے۔ عصر اور صبح کی نماز میں بھی آپ کا یہی معمول تھا)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سورت کے اواخر و اواسط کو پڑھا جا سکتا ہےیا نہیں ؟

اس سلسلہ میں علمائے اسلام کے اقوال پر بنظر ِ غائر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ:

(۱)افضل یہ ہے کہ پوری سورت پڑھی جائے,جیسا کہ حضرت ابو قتادہ ۔رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: أنَّ النبيَّ ﷺ كانَ يَقْرَأُ في الظُّهْرِ في الأُولَيَيْنِ بأُمِّ الكِتابِ، وسُورَتَيْنِ، وفي الرَّكْعَتَيْنِ الأُخْرَيَيْنِ بأُمِّ الكِتابِ ويُسْمِعُنا الآيَةَ، ويُطَوِّلُ في الرَّكْعَةِ الأُولى ما لا يُطَوِّلُ في الرَّكْعَةِ الثّانِيَةِ، وهَكَذا في العَصْرِ وهَكَذا في الصُّبْحِ)(بخاری حدیث نمبر:۷۷۶مسلم حدیث نمبر:۴۵۱)(ترجمہ: نبی ﷺ ظہر کی دو پہلی رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخری دو رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے۔ کبھی کبھی ہمیں ایک آیت سنا بھی دیا کرتے تھے اور پہلی رکعت میں قرات دوسری رکعت سے زیادہ کرتے تھے۔ عصر اور صبح کی نماز میں بھی آپ کا یہی معمول تھا)

نیز فرماتے ہیں: (كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنْ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةٍ سُورَةٍ )(بخاری حدیث نمبر:۷۶۲؛مسلم حدیث نمبر:۴۵۱)(ترجمہ:نبی ٔ کریمﷺ ظہر  اور عصر کی دورکعات میں سورہ ٔ فاتحہ اور ایک ایک سورت پڑھا کرتے تھے)

حدیث میں وارد(کان یقرأ) پر غور کیجئے اور فکر و تامل سے کام لیجئے ,آپ کو معلوم ہوگا  کہ آپﷺ کا ہمیشہ کا یہی معمول تھا کہ پوری سورت پڑھتے تھے؛حافظ ابن حجر ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( لأن قول أبي قتادة: (كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ) يدل على مداومة النبي صلى الله عليه وسلم على ذلك ، أو أن ذلك كان أغلب فعله)(فتح الباری :۲؍۲۴۴)(ترجمہ:کیوں کہ حضرت ابو قتادہ کا بیان (نبی ٔ کریمﷺپڑھتے تھے)اس پر نبی ٔ کریمﷺ کی ہمیشگی برتنے پر دلالت کرتا ہے؛یا یہ کہ آپﷺ کا یہ عام معمول تھا)امام نووی۔رحمہ اللہ۔فرماتے ہیں:( فهذا الحديث يدل على (أن قراءة سورة قصيرة بكمالها أفضل من قراءة قدرها من طويلة)(شرح النووی:۴؍۱۷۴)(ترجمہ:یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کوئی چھوٹی سورت مکمل  پڑھنا کسی لمبی سورت کا تھوڑا پڑھنے سے بہتر ہے)(یعنی سورت چھوٹی ہی ہو,مگر پوری پڑھی جانی چاہئے؛یہ زیادہ بہتر ہے کہ آدمی لمبی سورت پڑھے,اور اس کا تھوڑا حصہ پڑھے)

مملکت ِ سعودی عرب کے معروف عالم ِ تفسیر,فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن بن معاضہ الشہری  فرماتے ہیں:(‏أما افتتاحُ القراءة في الصلاة مِن أواسط السور، أو أواخرها؛ فلا أعلم مِن أين جاء الناس بهذا؟ يفعله الخواصّ منهم والعوامّ، بلا نكير بينهم أو غرابة منهم.

‏والذي أراه أن هذا الأمر لم يدخل على الناس إلا بسبب العجمة المستحكمة التي لم تدع أحدًا إلا أصابته بنارها أو دخانها، إذ كيف يفتتح القراءةَ عاقلٌ عربيٌّ يعرف ما ينطق به لسانه بآية: إن الذين سبقت لهم مِنّا الحسنى أولئك عنها مبعدون عن أي شيء يُبعدون؟ والضمير يعود إلى أقرب مذكور! أَعَنِ الحسنى؟!أو يفتتح بآية: كذلك نقصّ عليك من أنباء ما قد سبق.

والأمثلة كثيرة جدًّا على أنواعٍ مِن الافتتاحات، لا ينقضي عجبُ من تنبّه لها، ولا أقول: مَن تأمّلها، وقد يسلم ظاهر بعضها من الانتقاد، لكن الذي يقرّره العلماء أنّ مطالعَ السور ومقاطعها وخواتمها مترابطةٌ متناسبة لا انفكاك بينها البتة)(دیکھئے: https://vb.tafsir.net/forum)

(ترجمہ: نماز میں بیچ سورت یا آخری سورت کا پڑھنا مجھے نہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں سے آیا,جسے بغیر کسی روک ٹوک اور تعجب کے عوام و خواص کئے جا رہے ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ یہ معاملہ مضبوط عجمیت(عربیت سے دوری) کا نتیجہ ہے,جس نے سب کو اپنی آگ کے لپیٹ میں لے رکھا ہے,کیوں کہ ایک  عقل مند عربی انسان کیسے اپنی نماز کا آغاز اس آیت(إن الذين سبقت لهم مِنّا الحسنى أولئك عنها مبعدون)سے کر سکتا ہے؟,کس چیز سے وہ دور کئے جائیں گے؟؛جبکہ ضمیر سب سے قریب ترین چیز کی طرف لوٹتی ہے,یا کوئی اس آیت (كذلك نقصّ عليك من أنباء ما قد سبق)سے کیسے شروع کر سکتا ہے؟اس سلسلہ میں بہت ساری مثالیں دی جا سکتی ہیں,کہ جن سے ائمہ حضرات اپنی نمازیں شروع کرتے ہیں,اگر کوئی محسوس کرے تو تعجب کا لا متناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا,میں یہ نہیں کہتا کہ جو غور کرے(میں کہتا ہوں محسوس کرے),ان میں سے بعض بہر حال تنقید سے محفوظ ہے,لیکن جسے علماء کہتے آئے ہیں,وہ یہ ہے کہ سورتوں کے شروع کے حصے,ان کے مقاطع,اور آخری حصے آپس میں باہم ایک دوسرے سے مربوط ہیں,جنہیں قطعی الگ نہیں کیا جا سکتا ہے)

علامہ ابن القیم۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( وكان من هديه  قراءة السورة كاملة ، وربما قرأها في الركعتين ، وربما قرأ أول السورة ، وأما قراءة أواخر السور وأوساطها فلم يحفظ عنه . وأما قراءة السورتين في ركعة فكان يفعله في النافلة ، وأما في الفرض فلم يحفظ عنه . وأما حديث ابن مسعود  : (إني لأعرف النظائر التي كان رسول الله يقرن بينهن السورتين في الركعة الرحمن والنجم في ركعة ، واقتربت والحاقة في ركعة ، والطور والذاريات في ركعة ، وإذا وقعت و ن في ركعة . . الحديث فهذا حكاية فعل لم يعين محله هل كان في الفرض أو في النفل ؟ وهو محتمل . وأما قراءة سورة واحدة في ركعتين معا فقلما كان يفعله . وقد ذكر أبو داود عن رجل من جهنية أنه سمع رسول الله يقرأ في الصبح  إذا زلزلت  في الركعتين كلتيهما ، قال : فلا أدري أنسي رسول الله أم قرأ ذلك عمدا )(زاد المعاد:۱؍۲۱۴۔۲۱۵)(ترجمہ:نبی ٔ کریمﷺ کا طریقہ پوری سورت پڑھنے کا تھا,جہاں تک بات رہی بیچ سورت یا آخری سورت کے پڑھنے کی تو یہ آپﷺسے ثابت نہیں,ہاں دو سورتیں کبھی کبھی نماز نفل کی  ایک ہی رکعت میں پڑھتے تھے,البتہ فرض نماز میں ایسا کرنا آپﷺسے ثابت نہیں ہے,جہاں تک بات رہی حضرت ابن مسعود۔رضی اللہ عنہ۔کی اس حدیث کی جس میں وہ فرماتے ہیں کہ(میں ان ہم معنی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی ﷺ ایک ساتھ ایک رکعت میں ملا کر پڑھتے تھے)سورہ ٔ الرحمن اور سورہ ٔ النجم ایک رکعت میں,سورہ ٔ القمر اور سورہ ٔ الحاقہ ایک رکعت میں,سورہ الطور اور الذاریات ایک رکعت میں ,سورہ ٔ الواقعہ اور سورہ ٔ ن ایک رکعت میں )(حدیث)تو یہ ان کے  عمل کا بیان ہے,اس کی جگہ کی تعیین نہیں ہوئی ہے؛فرض نماز میں تھا یا نفل میں ,حالانکہ دونوں کا احتمال موجود ہے,تاہم ایک ہی سورت کو دونوں رکعت میں پڑھنے کا عمل نہ کے برابر رہا ہے,اورابو داؤد  نےذکر فرمایا ہے کہ  قبیلہ ٔ جہینہ کے ایک شخص نے رسول اللہﷺ سےسنا ہے کہ سورہ ٔ اذا زلزلت دونوں رکعات میں پڑھی,فرماتے ہیں:مجھے نہیں معلوم کہ آپﷺنے بھول کر ایسا کیا یا جان بوجھ کر)

اسی لئے امام ابن تیمیہ ہمیشہ(عادت سمجھ کر)اواخر و اواسط سور پڑھنے کو مکروہ گردانتے ہیں(دیکھئے:مجموع فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ:۱۳؍۴۱۰۔۴۱۳)

سعودی عرب کے فقیہ وقت علامہ محمد بن صالح بن عثیمین ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں(وكان من هديه قراءة السورة كاملة وربما قرأها في الركعتين وربما قرأ أول السورة. وأما قراءة أواخر السور وأوساطها فلم يحفظ عنه. وأما قراءة السورتين في ركعة فكان يفعله في النافلة وأما في الفرض فلم يحفظ عنه)(الشرح الممتع:۳؍۲۶۱)(ترجمہ:آپﷺکا معمول یہ تھا کہ آپ سورت کو مکمل پڑھا کرتے تھے,سورت کا آخری حصہ یا بیچ کا حصہ پڑھنا آپﷺسے محفوظ (ثابت)نہیں ہے,ہاں ایک ہی سورت کو دو رکعت میں پڑھنا ,کبھی کبھی آپﷺایسا  نفلی نمازوں میں کیا کرتے تھے,فرض نمازوں میں ایسا کرنا ثابت نہیں ہے)

فتاوی نور علی الدرب کے ایک سوال کے جواب میں کچھ یوں آیا ہے(ولكن القول بالإباحة لا يساوي أن يقرأ الإنسان سورة كاملة في كلِّ ركعة؛ لأن هذا هو الأصل. ولهذا قال الرَّسولُ عليه الصَّلاة والسَّلام لمعاذ: «فلولا صليت بهم بـ {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى *}، {وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا *}، {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى *}» (3) مما يدل على أن الأكمل والأفضل أن يقرأ بسورة كاملة، والأفضل شيء والمباح شيء آخر)(فتاوی نور علی الدرب:۱۹؍۱۱۴)(ترجمہ:جائز کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی انسان کا پوری سورت پڑھنے کے برابر ہوجائے؛کیوں کہ اصل یہی ہے(کہ پوری سورت پڑھی جائے),اور اسی لئے نبی ﷺنے حضرت معاذ۔رضی اللہ عنہ۔سے فرمایا تھا:تم امامت کرتے ہوئے؛ سبح اسم ربک الأعلی اور والشمس و ضحاہاکیوں نہیں پڑھتے ,جو اس بات  کی دلیل ہے کہ اکمل و افضل یہ ہے کہ پوری سورت پڑھی جائے,افضل ہونا الگ بات ہے اور جائز ہونا دوسری بات)

(۲)دوسرا قول یہ ہے کہ بیچ  اور آخری سورت سے بھی پڑھنا جائز ہے؛جس کے دلائل حسب ذیل ہیں:

(۱)اللہ رب  العالمین کا ارشاد ہے {فَاقْرَأُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ} [المزمل: 20])(ترجمہ:لہذا جتنا قرآن تمہارے لئے پڑھنا آسان ہو؛اتنا ہی پڑھو)

(۲)نیز نبی ٔ کریمﷺ نےطریقہ ٔ نماز سکھلاتے ہوئے فرمایا تھا«اقرأ ما تيسر معك من القرآن» (بخاری حدیث نمبر:۶۶۶۷,مسلم حدیث نمبر:۳۹۷)(ترجمہ:جو تمہارے پاس قرآن ہے,اس سے پڑھ لو)

ان دونوں تیسیر والی نصوص سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کو جو آسان لگے,پڑھ لے,اور بغیر قید و بند کے پڑھ سکتا ہے,اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے

(۳)نبی ٔ کریمﷺ سے نفل نماز میں بیچ سورت سے پڑھنا ثابت ہے؛آپﷺ نے پڑھا ہے,اور جو کچھ  نماز نفل میں پڑھا جا سکتا ہے؛فرض میں بھی پڑھا جا سکتا ہے,ہاں اس کے خلاف کوئی دلیل ہو تو الگ بات ہے اور ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی ,دیکھئے نیچے کی دلیل :۔

(۴) نبی ﷺنے نماز فجر کی سنت میں سورہ ٔ البقرہ کی آخری آیات (پہلی رکعت میں)اور سورہ ٔ آل عمران کی(بعض آیات) دوسری رکعت میں پڑھی ہے,

جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس ۔رضی اللہ عنہما۔ سے مروی ہے؛فرماتے ہیں: « كان رسول الله  يقرأ في ركعتي الفجر  قولوا آمنا بالله وما أنزل إلينا …  [البقرة:136] والتي في آل عمران  تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم  [آل عمران:64](مسلم حدیث نمبر:۷۲۷)(نبی ٔ کریمﷺ فجر کی دو رکعتوں میں قولوا آمنا باللہ۔۔۔(البقرہ:۱۳۶) اور جو آیت سورہ ٔ آل عمران میں ہے,تعالوا إلی کلمۃ  سواء بیننا و بینکم۔۔۔(آل عمران:۶۴)پڑھا کرتے تھے,علامہ شوکانی۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:(فهذا الحديث يدل على جواز قراءة بعض سورة في الركعة)(نیل الأوطار:۲؍۲۵۵)(ترجمہ:یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ کسی رکعت میں بعض سورتوں کا پڑھنا جائز ہے)

شیخ عبد الرحمن بن معاضہ فرماتے ہیں(وليس بخافٍ أنّ حُكمَ القراءة في الصلاة مِن أواسط السور وأواخرها، في النفل والفرض، وفي صلاة الجماعة والفذّ؛ الإباحةُ، وبلا مرية، وإنّما المكروه الاعتياد، كما نصّ عليه ابن تيميّة، لأنّه اعتياد ما لم يعتد عليه النبيّ ﷺ، ولمخالفته بتغييب الفهم المقصدَ العامّ لإسماع الناس القرآن في الصلاة.

وقد استحبّ جمهور الفقهاء القراءة في المغرب بقِصار المفصّل، وفي العشاء بأواسطه، وفي الفجر بطِواله؛ رغبةً -والله أعلم- في التخفيف عليهم، وفي تكرارها عليهم ليحفظوها.)(دیکھئے: https://vb.tafsir.net/forum)

(ترجمہ:یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ نمازوں میں چاہے وہ فرض ہو,نفل ہو,جماعت ہو,یا تنہا ,بیچ سے یا سورت کے آخری حصے کا پڑھنا بلا شک جائز ہے,ہاں اسے عادت بنالینا مکروہ ہے؛جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بیان فرمایا ہے,کیوں کہ یہ ایسی عادت ہے,جو نبی ٔ کریمﷺکی عادت مبارکہ نہ تھی,اور اس لئے بھی کہ ایسا کرنے سے نماز میں    لوگوں کو قرآن سنانے کا جو عام مقصد ہے,فوت ہوجاتا ہے,جمہور فقہاء نے نماز مغرب میں قصارِ مفصل,عشاء میں اواسط مفصل اور فجر کی نماز میں طوال مفصل  پڑھنے کو مستحب قرار دیا ہے؛جس کا مقصد ان پر تخفیف کرنا ہے,اور ان کے بار بار پڑھنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ انہیں یاد کر سکیں)

سعودی عرب کے سابق مفتی ٔ اعظم علامہ عبد العزیز بن باز ۔رحمہ اللہ۔سے اس بابت سوال کیا گیا کہ کیا بیچ یا آخری سورت نماز میں پڑھی جا سکتی ہے تو آں رحمہ اللہ نے فرمایا(لا حرج في ذلك؛ لأن الله يقول: فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْه [المزمل:20]، فإذا قرأ بعض سورة أو آخر سورة فلا حرج في ذلك وإذا قرأ بعض الأحيان في الثانية (قل هو الله أحد) أو قرأها مع غيرها فلا بأس، فقد قيل للنبي ﷺ: إن بعض أئمة الأنصار يقرأ قل هو الله أحد مع قراءته الأخرى، فسأله النبي ﷺ عن ذلك فقال: إني أقرأ بها لأني أحبها لأنها صفة الرحمن وأنا أحبها، فقال له النبي ﷺ: حبك إياها أدخلك الجنة -وفي لفظ قال-: أخبروه أن الله يحبه، يعني: كما أحبها، فإذا قرأها مع غيرها فلا بأس أو قرأها وحدها بعد الفاتحة فلا بأس ولكن تحري سنة النبي ﷺ والسير على منهجه في القراءة أولى وأولى)(دیکھئے: https://binbaz.org.sa/fatwas/10395)

ترجمہ:اس میں کوئی حرج نہیں ہے,کیوں کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے,(ترجمہ)جو آسان ہو,اس سے پڑھ لو,چنانچہ اگر کسی نے بعض سورت یا آخری سورت پڑھ لی,تو کوئی حرج نہیں ہے؛اگر کبھی دوسری رکعت میں قل ہو اللہ أحدپڑھ لے,یا اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت پڑھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے,ایک بار نبی ٔ کریمﷺسے کہا گیا کہ بعض جگہوں کے بعض امام  دوسری سورت کے ساتھ سورہ ٔ الاخلاص بھی پڑھتے ہیں,نبی ٔ کریمﷺنے اس متعلق ان سے دریافت فرمایا؛تو انہوں نے جواب دیا کہ سورہ ٔ اخلاص اس لئے پڑھتا ہوں کہ مجھے اس سے محبت ہے,تو نبی ٔ کریمﷺنے فرمایا:اس کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی,یا دوسرے لفظوں میں :آپﷺنے فرمایا:انہیں بتا دو کہ اللہ ان سے محبت کرتا ہے,جس طرح انہوں نے اس سے محبت کی,اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے,چناں چہ اگر اس کے ساتھ کوئی دوسری سورت پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ,یا صرف اسی کو پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے,تاہم نبی ٔ کریمﷺکی سنت کو اپنانا ,اور آپ کے منہج پر چلناہی بہتر و اولی ہے)

سعودی عرب کے فقیہ وقت علامہ محمد بن صالح بن عثیمین ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( لا بأس أن يقرأ الإنسان آيةً من سورةٍ في الفريضة وفي النافلة . وربما يُستدل له أيضاً بعموم قوله تعالى : (فاقرأوا ما تيسر منه) المزمل/20 . لكن السنة والأفضل أن يقرأ سورة، والأكمل أن تكون في كل ركعة ، فإن شق فلا حرج أن يقسم السورة بين الركعتين)(الشرح الممتع:۳؍۱۰۴)(ترجمہ:آدمی فرض یا نفل نماز میں اگر کسی سورت کی ایک آیت پڑھ لےتو کوئی حرج نہیں؛اس امر پر اللہ تعالی کے فرمان ((فاقرأوا ما تيسر منه) المزمل/20 )سے استدلال کیا جا سکتا ہے,لیکن سنت  اور افضل یہی ہے کہ پوری سورت پڑھی جائے,اور اکمل یہ ہے کہ ایک رکعت میں ایک سورت پڑھی جائے؛اگر اس میں  دشواری ہو تو ایک سورت  دو رکعات میں  بھی پڑھی جا سکتی ہے)

ایک بار نبی ٔ کریمﷺنے سورہ (المؤمنون )کی تلاوت شروع فرمائی,آپ ﷺحضرات موسی و ہارون(ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت موسی و حضرت عیسی۔علیہما السلام) کے تذکرہ تک پہنچے ہی تھے کہ آپﷺکو کھانسی نے آلیا اور آپﷺ  رکوع کرنے پر مجبور ہوئےحضرت عبد اللہ بن سائب فرماتے ہیں:( حضرتُ رسولَ اللهِ ﷺ يومَ الفتحِ وصلّى في الكعبةِ، فخلع نعليهِ فوضعهما عن يسارِهِ، ثم افتتح سورةَ المؤمنونَ، فلمّا بلغ ذِكْرَ عيسى أو موسى أخذتْهُ سعلَةٌ فركعَ)(ابو داؤاد حدیث نمبر:۶۴۸؛ابن ماجہ حدیث نمبر:۱۴۳۱؛مسند أحمد حدیث نمبر:۱۵۴۲۹,نسائی حدیث نمبر:۱۰۰۷؛صحیح ابن حبان حدیث نمبر:۲۱۸۹,یہ روایت بخاری میں بھی معلقا مذکور ہے)(ترجمہ:فتح مکہ کے دن  نبی ﷺکے ساتھ میں حاضر ہوا؛آپﷺنے خانہ ٔ کعبہ میں نماز پڑھی,آپ نے اپنے نعلین اتارکر کر بائیں جانب رکھے؛اور سورہ ٔ المؤمنون پڑھنا شروع کیا,جب آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام یا حضرت موسی یا حضرت عیسی کے ذکر پہنچے پر تو آپ کو کھانسی آنے لگی، اس لیے آپﷺ نے رکوع فرما دیا)

اس حدیث سے ایک بات تو معلوم ہوئی کہ اگر کسی نے کوئی سورت پڑھنا شروع کیا,تو کوئی ضروری نہیں کہ اسے مکمل کیا جائے؛دوسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی عارضہ پیش آجائے تو زبردستی سورت مکمل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے,بلکہ جہاں پیش آجائے وہیں رک کر رکوع  میں چلا جائے,تیسرا مسئلہ یہ بھی معلوم ہوا کہ دین میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں,اس میں ضرورت سے زیادہ سخت آمیزی کا مظاہرہ نہیں کیا جانا چاہئے۔

اسی طرح ایک بار آپﷺ نے سورہ ٔ اعراف کو دو بار میں پڑھی(صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر:۵۱۸)

ایک بار حضرت ابن مسعود۔رضی اللہ عنہ۔نے سورہ ٔ انفال کی ۴۰ آیتیں پڑھیں؛پھر دوسری رکعت میں مفصل کی ایک پوری سورت پڑھی؛صحیح بخاری میں تعلیقا مروی ہے,(وقرأ ابن مسعود بأربعين آية من الأنفال وفى الثانية بسورة من المفصل)(فتح الباری:۲؍۲۲۱)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اسے امام عبد الرزاق نے موصولا ذکر کیا ہے,اور اس میں ذکر فرمایا ہے کہ آں رضی اللہ عنہ نےسورہ ٔ الانفال کی آیت:نعم النصیر (آیت نمبر:۴۰)تک تلاوت فرمائی تھی(فتح الباری:۲؍۲۲۱)

ایک بار حضرت عمر۔رضی اللہ عنہ۔نے نماز فجر میں  سورہ ٔ الکہف کی پہلی رکعت میں اور دوسری رکعت میں سورہ یونس یا یوسف کی تلاوت فرمائی (دیکھئے:بخاری مع الفتح:۲؍۲۲۲),اس اثر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب سے پڑھنا کوئی ضروری نہیں ہے,حافط ابن حجر۔رحمہ اللہ۔ رقم طراز ہیں کہ امام ابن بطال فرماتے ہیں:( لَا نَعْلَم أَحَدًا قَالَ بِوُجُوبِ تَرْتِيب السُّوَر فِي الْقِرَاءَة لَا دَاخِل الصَّلَاة وَلَا خَارِجهَا، بَلْ يَجُوز أَنْ يَقْرَأ الْكَهْف قَبْل الْبَقَرَة وَالْحَجّ قَبْل الْكَهْف مَثَلًا، وَأَمَّا مَا جَاءَ عَنْ السَّلَف مِنْ النَّهْي عَنْ قِرَاءَة الْقُرْآن مَنْكُوسًا فَالْمُرَاد بِهِ أَنْ يَقْرَأ مِنْ آخِر السُّورَة إِلَى أَوَّلهَا، وَكَانَ جَمَاعَة يَصْنَعُونَ ذَلِكَ فِي الْقَصِيدَة مِنْ الشِّعْر مُبَالَغَة فِي حِفْظهَا وَتَذْلِيلًا لِلِسَانِهِ فِي سَرْدهَا، فَمَنَعَ السَّلَف ذَلِكَ فِي الْقُرْآن فَهُوَ حَرَام فِيهِ)(فتح الباری :۹؍۴۸)(ترجمہ:سورتوں کو ترتیب سے پڑھنا میری معلومات کی حد تک کسی نے بھی واجب نہیں قرار دیا ہے,نہ نماز کے اندر نہ نماز کے باہر,بلکہ یہ جائز ہے کہ انسان سورہ ٔ البقرہ سے پہلے سورہ ٔ الکہف پڑھ لے,اور سورہ ٔ الکہف سے قبل  سورہ ٔ الحج کی تلاوت کرلے,بعض سلف سے جو الٹا قرآن پڑھنے کی ممانعت آئی ہے,اس کا مطلب یہ ہے کہ سورت کے آخر سے شروع سورت تک پڑھے,کچھ لوگ شعر گوئی میں ایسا کرتے تھے,اسے یاد کرنے اور زبان میں لانے کے لئے چنانچہ سلف نے قرآن کے بارے میں ایسا کرنے سے منع فرمادیا,کیوں کہ ایسا کرنا حرام ہے)

خلاصہ ٔ کلام :۔

مذکورہ باتوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سورتوں کے بیچ سے یا آخر سے نماز میں پڑھی جا سکتی ہے,اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے؛تاہم افضل یہ ہے کہ امام چھوٹی چھوٹی مکمل سورتیں پڑھے؛یا بڑی سورتوں کے شروع آیات کی تلاوت کرے؛کیوں کہ آپﷺکا یہی معمول تھااور آپﷺنے ہمیشگی اسی امر پر برتی ہے,البتہ اس باب میں سختی اختیار کرنا اور بیچ  یا آخری سورتوں کی تلاوت کرنا حرام نہیں قرار دیا جا سکتا ہے,ھذا ما عندی و اللہ أعلم بالصواب

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *