۔کتبہ:ابو زھیر محمد یوسف بٹ بزلوی
کیا بیوی اپنے نسبتی والدین کی خدمت کر سکتی ہے جبکہ مجھے کسی نے کہا کہ ان پر انکی خدمت ضروری نہیں ہے
سائل:۔
طالبہ الکلیہ السلفیہ للبنات
الجواب بعون رب العباد:
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کتبہ:ابو زھیر محمد یوسف بٹ بزلوی
فاضل کنگ سعود یونیورسٹی ریاض سعودی عرب
دراسات اسلامیہ
تخصص:فقہ واصولہ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حامدا ومصليا أما بعد!
َاگر کسی معاشرے میں یہ عرف ہے کہ وہاں عورت اپنے نسبتی والدین کی خدمت کرتی ہے تو شریعت اسلام نے اس عرف کو قبول کیا ہے جو شریعت کے مخالف نہ ہو۔
اسلئے ان حالات میں عورت اپنے والد اور والدہ نسبتی کی خدمت کرسکتی ہے اس میں شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ اب وہ اس گھر کی بیٹی ہی کی طرح ہے اور بیٹی کے لئے اپنے والدین کی خدمت کرنا لازمی ہے۔
دوسری بات اگر ہمارے معاشرے میں کوئی عورت اسے انکار کرتی ہے تو اسے بہت زیادہ اختلاف اور بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہے لہذا ہر عورت کو چاہئے کہ وہ عرف اور حالات کی رعایت کرتے ہوئے اپنے والد نسبتی اور والدہ نسبتی کی خدمت کرے اس میں ان شاء اللہ اسے اجر و ثواب بھی ملے گا۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عورت کا اپنے شوہر اور اسکے باقی گھر والوں کی خدمت کرنا یہ ہر ملک کی اپنی اپنی ثقافت کے لحاظ سے ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات اپنے گھر کا کام وغیرہ کرتی تھیں، اسی طرح فاطمہ بنت محمد ﷺ اپنے گھر کے کام جیسے گھر کی صفائی کرنا جھاڑو لگانا وغیرہ جیسے کام کرتی تھی۔
ایر عورت کو چاھئے کہ وہ امور جانہ بجالائے اگر شوہر کے والدین زندہ ہیں تو اگر وہاں کی ثقافت اور کلچر یہی ہے کہ وہاں عورت اپنے شوہر کے والدین کی خدمت کرتی ہے تو وہ انکی خدمت کر سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔[نور على الدرب هل على الزوجة خدمة أم زوجها].
عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور اسکی اطاعت کرنا اس کے لئے جنت کا باعث اور اسکی نافرمانی اسکے لئے جہنم کا باعث بن سکتی ہے۔
دلیل: ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کسی بھی عورت کےلئے حلال نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اسکی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھے اور نہ کسی کو شوہر کے گھر میں کسی کو اسکی اجازت کے بغیر داخل ہونے کی اجازت دے۔[بخاری30/7 ، مسلم 91/3 ، ابو داود 573/2 ، مسند احمد 514/13].
شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے شوہر کو شہوت کرنے کے امور میں اسکی اطاعت ہے اور باقی امور میں من باب اولی اسکی اطاعت واجب ہے۔[ آداب الزفاف ص 282].
عبد الرحمن بن عوف۔رضی اللہ عنہ۔ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب عورت پانچ وقت نماز ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور اپنے شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو اس عورت کو کہا جائے گا کہ تم جنت میں داخل ہو جاو جس بھی دروازے سے چاہو۔[مسند احمد 99/3 ، حسن لغيره].
یہ حدیث ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اس حدیث کو شیخ البالی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔[صحیح الجامع 660 , ورواه ابن حبان في صحيحه].
دوسری حدیث میں ہے کہ اگر اللہ کے علاوہ کسی کے لئے سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورت کو اپنے شوہر کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا.[حدیث ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ ترمذی 453/2 ، حسن صحیح، ابن ماجہ 305/3 ، مسند احمد41/18 ، جيد لغيره].
ادلہ مذکورہ سے ثابت ہوا کہ عورت پر اپنے شوہر کی معروف اشیاء میں اطاعت کرنا واجب ہے اسی طرح اگر شوہر حکم دے یا شوہر کی چاہت ہو کہ اسکی بیوی اسکے والدین کےساتھ بہتر معاملہ کرے انکی خدمت کرے انکی دیکھ بال کرے تو اس صورت میں عورت پر لازم ہے کہ وہ اس طرح کی معروف چیزوں میں اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور والد نسبتی اور والدہ نسبتی بھی اسکے لئے والدین ہی کی طرح ہے لھذا والدین کی اطاعت کرنا انکا خیال رکھنا انکی خدمت کرنا شوہر کی عدم موجودگی میں بھی انہیں کھانا وغیرہ دینا معروف اشیاء میں سے ہے اور اس طرح کرنے سے عورت کو اجر بھی ملے گا ان شاء اللہ
البتہ مرد کے گھر والوں کو چاھئے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کا مرتبہ دے اور اسکا ہر طرح خیال رکھے اور اسکے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی اور ظلم سے کام نہ لے۔
یہاں یہ بات کہنا لازمی سمجھتا ہوں کہ شوہر کی اطاعت کرنا بیوی پر واجب ہے اور اسکے والدین کا احترام کرنا انکا خیال رکھنا انکی خدمت کرنا بھی ایک بہترین عمل ہے جیساکہ ہمارے معاشرے میں بہو اپنے والد نسبتی اور والدہ نسبتی کا خیال رکھتی ہے اور انکی خدمت کرتی ہے البتہ گھر میں باقی مثلا دیور شوہر کے باقی افراد خانہ کی خدمت کرنا اس پر لازم نہیں ہے بلکہ دیور جوکہ ہر عورت کے لئے غیر محرم کے حکم میں انکے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا ان کے ساتھ سفر کرنا انکی خدمت کرنا ابکے کپڑے دھونا جائز نہیں ہے اور نہ اس طرح کے امور انجام لانا اس پر لازم ہے بلکہ اس طرح کرنے میں کافی مفاسد پیدا ہوتے ہیں ان سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔
دیندار شوہر ان چیزوں کا خیال رکھے۔
هذا ما بدا لي في هذه المسئلة فإن أصبت فهو من الله وإن أخطأت فمن نفسي.
والله اعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.