از: نسیم سعید تیمی
ــــــــــــــــــــــــــــ
بعض فقہاء ِاحناف وشوافع کے نزدیک قبر پر تین لپ مٹی ڈالتے وقت پہلی لپ کے ساتھ “منہا خلقناکم” دوسری لپ کے ساتھ “وفیہا نعیدکم” اور تیسری لپ کے ساتھ “ومنہا نخرجکم تارۃ اخری” پڑھنا مستحب ہے۔دیکھیں: “الجوهرة النيرة على مختصر القدوري” (1/ 109)، “المجموع شرح المهذب” (5/ 293)۔
ان کی دلیل ابو امامہ۔رضی اللہ عنہ۔ سے مروی ایک حدیث ہے جسےامام احمد نے”مسند” (36/ 524، نمبر: 22187)میں روایت کیاہے، انھوں نے کہا:”حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “{مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى} [طه: 55]”، قَالَ: ثُمَّ لَا أَدْرِي أَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ؟ أَمْ لَا، فَلَمَّا بَنَى عَلَيْهَا لَحْدَهَا طَفِقَ يَطْرَحُ لَهُمُ الْجَبُوبَ وَيَقُولُ: «سُدُّوا خِلَالَ اللَّبِنِ» . ثُمَّ قَالَ: «أَمَا إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِشَيْءٍ وَلَكِنَّهُ يَطِيبُ بِنَفْسِ الْحَيِّ».
ترجمہ: سیّدناابوامامہ -رضی اللہ عنہ-کہتےہیں: جب رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم-کی بیٹی سیدہ ام کلثوم -رضی اللہ عنہا-کو قبر میں رکھاگیا تو رسول اللہ -صلی اللہ علیہ وسلم-نےیہ آیت پڑھی”{مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ، وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى}(سورۂ طہ، ۵۵) (ہم نےتمہیں اسی مٹی سےپیدا کیا اور اسی میں تم کولوٹائیں گے اور پھراسی سے تم کودوبارہ نکالیں گے) سیّدناابوامامہ -رضی اللہ عنہ-کہتےہیں: میں یہ نہیں جانتا کہ اس کے بعد آپ -صلی اللہ علیہ وسلم-نےیہ دعا پڑھی تھی یانہیں: بِاسْمِ اللّٰہِ، وَفِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ۔ (اللہ کے نام کےساتھ،اللہ کی راہ میں اور اللہ کے رسول کےطریقےکے مطابق دفن کرتےہیں)۔ جب لحد کی چنائی کردی گئی تو آپ -صلی اللہ علیہ وسلم-نےلوگوں کی طرف گاراپھینکا اور فرمایا: اس سےاینٹوں کےشگافوں کوپرکر دو۔ پھرفرمایا: یہ کوئی ضروری چیزنہیں ہے، بس زندہ لوگوں کا نفس ذرا مطمئن ہوجاتاہے۔
اس حدیث کو امام احمد کے علاوہ حاکم نے “مستدرک” (2/ 411،نمبر: 3433) میں، بیہقی نے حاکم سے “سنن کبیر” (3/ 574، نمبر: 6726)میں اور ابو نعیم نے” معرفة الصحابة” (6/ 3200، نمبر: 7359) میں یحیی بن ایوب کے طریق سےروایت کیا ہے۔
اس حدیث کا مدار یحیی بن ایوب غافقی پر ہے، اور یحیی مختلف فیہ راوی ہیں:
ابن سعد نے کہا: (منکر الحدیث) کہ وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔”الطبقات الكبرى”:ط: دار صادر (7/516)۔
احمد بن حنبل نے کہا: (سیئ الحفظ)۔ کہ ان کا حافظہ خراب ہے۔”الجرح والتعديل” لابن أبي حاتم (9/ 128)۔
ابو حاتم نے کہا: (يكتب حديثه ولا يحتج به). ان کی حدیث لکھی جائے گی اور قابل حجت نہیں ہوگی۔”الجرح والتعديل” (9/ 128)۔
ابن معین نے ایک مرتبہ کہا: (صالح) اور دوسری مرتبہ کہا: (ثقۃ)۔”الجرح والتعديل (9/ 128)۔
عجلی نے کہا: (ثقۃ)۔ “الثقات” ط: الباز (ص: 468)۔
ابن عدی نے کہا: (وهو عندي صدوق لا بأس به)، کہ میرے نزدیک وہ صدوق ہیں، ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ “الكامل في ضعفاء الرجال” (9/ 59)۔
ذہبی نے”الكاشف “(2/ 362) میں کہا: (صالح الحديث)، اور “ديوان الضعفاء” (ص: 431) میں کہا: (ثقة)۔
ابن حجر نے کہا:(صدوق ربما أخطأ) کہ وہ صدوق ہیں لیکن بسا اوقات غلطی کر جاتے ہیں۔ “تقريب التهذيب” (ص: 588)۔
ابن حجر نےان کے تئیں جو موقف اختیار کیا ہے وہی راجح معلوم ہوتاہے۔
اسناد میں یحیی غافقی کے استاد عبید اللہ بن زَحر افریقی ہیں، یہ بھی مختلف فیہ راوی ہیں۔
امام بخاری نے کہا: (ثقۃ)۔ “العلل الكبير”للترمذي (ص: 190)۔
ابو زرعہ نے کہا: (لا باس به، صدوق) کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے وہ صدوق ہیں۔ “الجرح والتعديل” (5/ 315)۔
ابن المدینی نے کہا: (منکر الحدیث) کہ وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ “الجرح والتعديل” (5/ 315)۔
امام احمد سے ان کے بارے پوچھا گیا تو انہیں ضعیف قرار دیا۔ “الجرح والتعديل” (5/ 315)۔
ابن معین نے کہا: (لیس بشیء)کہ وہ کچھ نہیں ہیں، یعنی ضعیف ہیں۔ “الجرح والتعديل (5/ 315)۔
عجلی نے کہا: (يكتب حديثه، وليس بالقوي) کہ ان کی حدیث لکھی جائے گی، وہ مضبوط نہیں ہیں۔ “الثقات” (ص: 316)۔
ابو حاتم نے کہا: (لین الحدیث) کہ وہ حدیث میں کمزور ہیں۔”الجرح والتعديل” (5/ 315)۔
ابن حبان نے کہا: (منكر الحديث جدا يروي الموضوعات عن الأثبات، وإذا روى عن علي بن يزيد أتى بالطامات وإذا اجتمع في إسناد خبر عبيد الله بن زحر وعلي بن يزيد والقاسم أبو عبد الرحمن لا يكون متن ذلك الخبر إلا مما عملت أيديهم فلا يحل الاحتجاج بهذه الصحيفة)۔
کہ وہ حد درجہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں، ثقات سے موضوع حدیثیں بیان کرتے ہیں، جب علی بن یزید سے روایت کرتے ہیں تو بڑی باطل اور منکر روایات لاتے ہیں، اور جب کسی خبر کی سند میں عبید اللہ بن زحر، علی بن یزید اور قاسم ابو عبد الرحمن جمع ہوجائیں تو وہ حدیث ان کے ہاتھوں کی گھڑی ہوئی ہوتی ہے، چنانچہ اس صحیٖفہ- صحیفہ عبید اللہ بن زحر، عن علی بن یزید عن القاسم-سے استدلال کرنا جائز ہی نہیں ہے۔”المجروحين” (2/ 62)۔
اور اس سند میں یہ تینوں راوی موجود ہیں۔
ذہبی نے کہا: (مختلف فيه وهو إلى الضعف أقرب)۔ کہ وہ مختلف فیہ ہیں اور ضعف سے قریب تر ہیں۔ “المغني في الضعفاء” (2/ 415)۔
اورحافظ ابن حجر نے کہا: (صدوق يخطىء) صدوق ہیں مگر غلطیاں کرتے ہیں۔ “تقريب التهذيب” (ص: 371)۔
مذکورہ بالا اقوال سے معلوم ہو اکہ عبید اللہ بن زحر کو اکثر ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے، صرف امام بخاری اور ابو زرعہ نے ان کی تعدیل کی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ راوی ضعیف ہیں، البتہ متابعات میں ان کی حدیث لکھی جا سکتی ہے۔
اسناد میں عبید اللہ بن زحر کے استاد علی بن یزید الہانی ہیں اور وہ بالاتفاق ضعیف ہیں۔
امام احمد نے انہیں ضعیف قرار دیا۔ “الجرح والتعديل” (6/ 209)۔
امام بخاری نے کہا: (منكر الحديث) کہ وہ منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں۔ “التاريخ الكبير” (6/ 301)،”التاريخ الأوسط” (1/ 310)۔
ابو زرعہ نے کہا: (لیس بقوی) کہ وہ قوی نہیں ہے۔ “الجرح والتعديل ” (6/ 209)۔
ابو حاتم نے کہا: (ضعيف الحديث حديثه منكر)۔ وہ ضعیف الحدیث ہیں، ان کی حدیثیں منکر ہیں۔ “الجرح والتعديل ” (6/ 209)۔
نسائی نے کہا: (متروك الحديث) کہ ان کی حدیثیں ائمہ نے چھوڑ دی ہیں۔ “الضعفاء والمتروكون” (ص: 77)۔
ابن حبان نے کہا: (منكر الحديث جدا) کہ ان کی حدیث میں بہت زیادہ نکارت ہے۔ “المجروحين” (2/ 110)۔
اور حافظ ابن حجر نے کہا: (ضعيف)۔”تقريب التهذيب” (ص: 406)۔
اسناد میں علی بن یزید الالہانی کے استاد القاسم بن عبد الرحمن ابو عبد الرحمن شامی ہیں اور وہ مختلف فیہ راوی ہیں:
ابن المدینی نے کہا: (ثقۃ)۔ “سؤالات ابن أبي شيبةلابن المديني” (ص: 153)۔
ابن معین نے کہا: (ثقۃ)۔ “تاريخ ابن معين” – رواية الدوري (4/ 428)۔
امام بخاری نے کہا: (ثقۃ)۔ “العلل الكبير” للترمذي (ص: 190)۔
عجلی نے کہا: (ثقة، يكتب حديثه، وليس بالقوي) وہ ثقہ ہیں، ان کی حدیث لکھی جائے گی لیکن وہ قوی نہیں ہیں۔ “الثقات” ط: الباز (ص: 388)۔
ابو حاتم نے کہا: (حديث الثقات عنه مستقيم، لا بأس به، وإنما ينكر عنه الضعفاء) کہ جب ان سے ثقہ راوی روایت کرے تو کوئی حرج نہیں، نکارت صرف تب ہوتی ہے جب ان سے ضعیف راوی روایت کرے. “تهذيب الكمال” (23/ 389)۔
یعقوب بن سفیان، ترمذی اور یعقوب بن شیبہ نے بھی کہا: (ثقۃ)۔ “تهذيب التهذيب” (8/ 324)۔
ذہبی نے کہا: (صدوق) کہ وہ صدوق ہیں۔ “الكاشف” (2/ 129)۔
امام احمد نے ان پر کلام کیا ہے۔ “الجرح والتعديل” (7/ 113)۔
ابن حبان نے کہا: (كان ممن يروي عن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم المعضلات ويأتي عن الثقات بالأشياء المقلوبات حتي يسبق إلى القلبأنه كان المتعمد لها)۔
کہ صحابہ کرام سے منکر حدیثیں روایت کرتے ہیں، اور ثقات سے مقلوب روایات بیان کرتے ہیں حتی کہ دل میں یہ گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے عمدا ایسا کیا ہے۔”المجروحين ” (2/ 212)۔
اور ابن حجر نےکہا : (صدوق يغرب كثيرا)صدوق ہیں، مگر وہ بہت زیادہ غرائب روایت کرتے ہیں۔ “تقريب التهذيب” (ص: 450)۔
القاسم کے بارے ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال کا تببع کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ اکثر ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے، جہاں تک امام احمد کا ان پر کلام کرنے کی بات ہے تو انھوں نے ایک خاص حدیث کی نکارت کو بیان کیا اور اس نکارت کا محمل قاسم کو قرار دیا؛ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے نزدیک قاسم مطلقا تمام احادیث میںضعیف ہیں جیسا کہ یہ اہل علم پر مخفی نہیں ہے، اور جہاں تک ابن حبان کے جرح کی بات ہے تو ان کا یہ جرح ان کے تشدد پرمحمول کیا جائے گا۔
اس لیے راجح یہ ہے کہ قاسم صدوق ہیں جیسا کہ ذہبی نے کہا، واللہ اعلم۔
اس حدیث کی سند کا دراسہ کرنے کے بعد یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے؛ کیوں کہ علی بن یزید الہانی بالاتفاق ضعیف راوی ہیں، اور عبید اللہ بن زحر کے بارے میں راجح قول یہ ہے کہ وہ بھی ضعیف ہیں۔
نیز یہ سلسہ سند خود ضعیف ہے،ابن معین کہا: (علي بن يزيد عن القاسم عن أبي أمامة هي ضعاف كلها) کہ “علی بن یزید، عن القاسم، عن ابی امامہ” کا پورا سلسلہ ضعیف ہے۔
اس سلسلہ کے بارے اس سے سخت قول ابن حبان کا اوپرگذر چکا ہے۔ اور یہ حدیث اسی سلسلہ سے مروی ہے۔
امام ذہبی نے اس پر حکم لگاتے ہوئے کہا: ( لم يتكلم عليه وهو خبرٌ واهٍ؛ لأن علي بن يزيد متروك) کہ حاکم نے اس حدیث پر کوئی حکم نہیں لگایا، یہ حدیث انتہائی ضعیف ہے؛ کیونکہ علی بن یزید متروک راوی ہے۔
ذہبی کے علاوہ ھیثمی نے “مجمع الزوائد ” (3/ 43) میں، ابن حجر نے “إتحاف المهرة” (6/ 242) میں، ابن رسلان نے “شرح سنن أبي داود” (13/ 521) میں،حسین مغربی نے “البدر التمام” (4/ 225) میں، اور صنعانی نے “سبل السلام” (1/ 496) میں اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔
اگر بالفرض اس حدیث کو ہم نے صحیح مان بھی لیا تو بھی اس میں یہ ذکر ہی نہیں کہ پہلی لپ میں “منہا خلقناکم” دوسری لپ میں “وفیہا نعیدکم” اور تیسری لپ میں “ومنہا نخرجکم تارۃ اخری” پڑھا جائے، اس میں صرف اتنا ہے کہ ام کلثوم کو جب قبر میں رکھ دیا گیا تو آپ -ﷺ- نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی، اس میں سرے سے پہلی لپ، دوسری لپ اور تیسری لپ کی تفصیل ہے ہی نہیں۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ:
امام نووی نے اس حدیث کو بطور دلیل ذکر کرنے کے بعدکہا کہ گرچہ یہ ضعیف ہے، لیکن فضائل اور ترغیب وترہیب کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔”المجموع شرح المهذب” (5/ 294)۔
امام نووی کی یہ بات محل نظر ہے؛ کیوں کہ یہ حدیث فضائل کے باب میں نہیں ہے، بلکہ اس سے ایک عمل کے استحباب پر استدلال کیا گیا ہے، اور استحباب پانچ احکام تکلیفی (وجوب، استحباب، حرمت، کراہت، اباحت) میں سے ایک حکم ہے، اور باتفاقِ ائمہ احکام تکلیفی کسی ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتے۔
نیز یہ حدیث اتنی سخت ضعیف ہے کہ اس پر فضائل کے باب میں بھی عمل نہیں کیا جائے گا۔
ابن کثیر نے اپنی “تفسیر قرآن” میں بغیر سند کے ایک حدیث ذکر کی ہے جس سے بعض حضرات کو اس مسئلہ میں استدلال کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے؛ اس لیےاسے بھی یہاں نقل کرنا اور اس کا جواب دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
ابن کثیر کہتے ہیں:وفي الحديث الذي في السنن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حضر جنازة، فلما دفن الميت أخذ قبضة من التراب فألقاها في القبر ثم قال: {منها خلقناكم} ثم [أخذ] أخرى وقال: {وفيها نعيدكم}. ثم أخذ أخرى وقال: {ومنها نخرجكم تارة أخرى}.تفسير ابن كثير ت سلامة (5/ 299).
کہ: سنن کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک جنازہ میں حاضر ہوئے، جب میت کو دفنا دیا گیا تو آپ ﷺ نے ایک لپ مٹی لی اور “منہا خلقناکم” پڑھا، پھر دوسری لپ مٹی لی اور “وفیہا نعیدکم” پڑھا، پھر تیسری لپ مٹی لی اور “ومنہا نخرجکم تارۃ اخری” پڑھا۔
ابن کثیر کے قول میں “سنن” سے کیا مراد ہے؟
عام طور پر اہل علم سنن سے سنن اربعہ (سنن ابی داود، سنن ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ) مراد لیتے ہیں؛ اس لیے میں نےاس حدیث کو سنن اربعہ میں تلاش کرنے کی کوشش کی ، لیکن تلاش بسیار کے باوجود سنن اربعہ میں یہ حدیث نہیں ملی۔
اس لئے غالب گمان یہ ہے کہ ابن کثیر نے “سنن “سے بیہقی کی “سنن کبیر” مراد لی ہوگی، اور سنن کبیر میں یہ روایت جس سیاق کے ساتھ آئی ہے اس کی مفصل تخریج گذر چکی ہے، اور ابن کثیر نے اسے جس سیاق کے ساتھ اپنی”تفسیر” میں ذکر کیا ہے وہ مجھے حدیث کی متداول کتابوں میں کہیں نظر نہیں آئی ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قبر پر مٹی ڈالتے وقت مذکورہ آیت کا پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس لئے اسے اس مخصوص وقت میں پڑھنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔
وما توفیقی الا باللہ، وما ارید الا الاصلاح، وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا۔