از:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
(مدیر مجلہ)
الحمد لله الذي علَّمَ بالقلم، علَّم الإنسانَ ما لم يعلَم، والصَّلاة والسَّلام على النبيِّ الأكرَم، نبيِّنا ومعلِّمنا محمد – صلَّى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلَّم.
ہمیشہ سے یہ دنیا فتنوں کی آماج گاہ رہی ہے؛اورمدام ہی فتنے بپا ہوا کئے ہیں, اسی لئے اللہ تعالی نے جب انسانوں کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں نے حکمت جاننے کی غرض سے کہا کہ اے اللہ! ایسی مخلوق کیوں پیدا کرے گا جو فتنہ و فساد برپا کرے گی؛اس کا نقشہ اللہ تعالی نے کچھ یوں بیان فرمایا ہے(وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ)(سورہ ٔ البقرہ:۳۰)(ترجمہ ٔ آیت: اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ایک نائب بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو فساد پھیلائے اور خون بہائے حالانکہ ہم تیری حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں،فرمایا میں جو کچھ جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے),فی زماننا پورا عالم مختلف قسم کے فتنوں سے نبرد آزما ہے؛انہی فتنوں میں سے ایک فتنہ :فتنہ ٔ انکار حدیث ہے,جس نے بر صغیر ہندو پاک میں اپنی سینگیں بڑی شد و مد کے ساتھ اٹھائی ہوئی ہیں؛اس مختصر سی تحریر میں فتنہ ٔ انکار ِ حدیث کے تاریخی تسلسل کا جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔ان شاء اللہ
انکارِ سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اٹھا تھا اور اس کے اٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ ﷺ کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں نبی ﷺکے وہ ارشادات حائل تھے جن کے ہوتے ہوئے خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات چل سکتے تھے اور نہ ہی پھل پھول سکتے تھے۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، انہیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح انہیں حل کر دینا چاہتے تھے۔
خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ انہوں نے ہر اس بات کو جو فلسفہ کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور کوشش یہ کی کہ اسلام کے عقائد و نظریات اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان کے نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے انہوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھہرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔
ان کی غرض یہ تھی کہ قرآن کو اس کے لانے والے کی قولی و عملی تشریح و توضیح سے اور اس نظامِ فکر و عمل سے جو نبی ٔ کریمﷺ نے اپنی رہنمائی میں قائم کر دیا تھا، الگ کر کے مجرد ایک کتاب کی حیثیت سے لے لیا جائے اور پھر اس کی من مانی تاویلات کر کے ایک دوسرا نظام بنایاجائے جس پر اسلام کا لبادہ اوڑھادیا جائے ۔ اس غرض کی تکمیل کے لئے انہوں نے دو طریقے استعمال کئے:
(۱) احادیث کے بارے میں یہ شک دلوں میں ڈالا جائے کہ وہ فی الواقع نبی ﷺکی ہیں بھی یا نہیں۔
(۲)یہ اصولی سوال اٹھایا جائے کہ کوئی قول یا فعل نبی ﷺ کا ہو بھی تو ہم اس کی اطاعت و اتباع کے پابند کب,کس طرح اور کیوں کر ہیں۔(نعوذ باللہ)
ان کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺہم تک قرآن پہنچانے کے لیے مامور کیے گئے تھے، سو انہوں نے وہ پہنچا دیا۔ اس کے بعد محمد بن عبد اللہ(ﷺ) ویسے ہی ایک انسان تھے جیسے ہم ہیں۔ انہوں نے جو کہا اور کیا وہ ہمارے لیے حجت کیسے ہو سکتا ہے(و العیاذ باللہ)
یہ دونوں فتنے تھوڑی مدت چل کر اپنی موت آپ مر گئے اور تیسری صدی کے بعد پھر صدیوں تک اسلامی دنیا میں ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ اس سلسلہ میں جن امور نے انتہائی مضبوطی سے اس فتنے کو دبانے میں اہم رول ادا کیا ؛وہ درج ذیل امور تھے
1۔ قرآن کی تصریحات
آپ ذرا درج ذیل آیاتِ کریمات پر غور فرمائیے اور اندازہ کیجئے کہ رب کریم نے بنفس نفیس کس قدر واضح اور دو ٹوک اسلوب میں نبی ٔ کریمﷺکے کلام کو حجت و برہان اور دلیل ثبوت قرار دیا ہے,ملاحظہ فرمائیں:۔
(۱)اللہ تعالی کا ارشاد ہے:﴿فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾(النساء: ۶۵)(ترجمہ:سو تیرے رب کی قسم ہے یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے؛جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں)حافظ ابن کثیر۔رحمہ اللہ۔ نے اس آیت کی تفسیر میں کیا ہی بہترین بات کہی ہے, فرماتے ہیں:(يُقْسِم تعالى بنفسه الكريمة المُقدَّسة أنه لا يؤمن أحد حتى يُحَكِّمَ الرَّسولَ صلى الله عليه وسلم في جميع الأمور، فما حَكَم به فهو الحقُّ الذي يجب الانقياد له باطناً وظاهراً، ولهذا قال: ﴿ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴾ [النساء: 65] أي: إذا حكَّموك يطيعونك في بواطنهم فلا يجدون في أنفسهم حرجاً مما حكمت به، وينقادون له في الظَّاهر والباطن، فيُسَلِّمون لذلك تسليماً كلِّيًّا من غير ممانعةٍ، ولا مدافعةٍ، ولا منازعة)(تفسیر ابن کثیر:۱؍۵۲۱)(ترجمہ:اس آیت میں اللہ تعالی اپنے مقدس جان کی قسم کھاکر فرماتا ہے کہ کوئی بھی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا ہے جب تک رسولِ گرامیﷺکو تمام معاملات میں اپنا فیصل نہ بنالیں,چناں چہ جو وہ فیصلہ فرما دیں وہی حق ہے,جس کا ظاہری و باطنی طور پرماننا از بس ضروری ہے,اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا(ترجمۂ آیت: جب تک کہ اپنے اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں پھر تیرے فیصلہ پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور خوشی سے قبول کریں)یعنی جب آپ کو وہ فیصل مان لیں گے تو تمام باطنی امور میں منصف مان لیں گے,چناں چہ جو فیصلہ آپ فرما دیں گے,اپنے آپ میں کوئی تنگی بھی محسوس نہیں کریں گے,اور ظاہر و باطن میں تسلیم کر لیں گے,اور بغیر کسی لاگ لپیٹ اسے مان لیں گے)
(۲) اللہ تعالے نے فرمایا:﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ﴾ (النساء: 59)(ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں، پھر اگر آپس میں کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لاؤ اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو، یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے)(امام شاطبی ۔رحمہ اللہ۔فرماتے ہیں: (وسائر ما قُرِنَ فيه طاعة الرسول بطاعة الله فهو دال على أنَّ طاعةَ الله ما أمر به ونهى عنه في كتابه، وطاعةَ الرسول ما أمر به ونهى عنه ممَّا جاء به ممَّا ليس في القرآن، إذْ لو كان في القرآن لكان من طاعةِ الله، والرد إلى الله هو الرد إلى الكتاب، والرد إلى الرسول هو الرد إلى سُنَّته بعد موته)(الموافقات فی أصول الفقہ:۴؍۱۴)(ترجمہ:جہاں جہاں بھی رسول اللہﷺکی اطاعت کو اللہ کی اطاعت کے ساتھ ذکر کیا گیاہے,اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کی اطاعت ہر اس چیز میں ضروری ہوگی جو قرآن میں ہو,چاہے کسی بات کا حکم ہو,یا کسی چیز کی ممانعت,اور جو قرآن میں نہیں ہوگا تو رسول اللہﷺکی اطاعت واجب ہوگی,چاہے اس کاتعلق امر(حکم) سے ہو یا نہی(ممانعت)سے؛کیوں کہ اگر قرآن میں ہوتا تو اللہ کی اطاعت ہوتی,اور اللہ کی طرف پلٹانا یہ ہے کہ قرآن کی طرف پلٹایا جائے؛اور رسولﷺکی طرف پلٹانا آپﷺکی وفات کے بعد آپ ﷺکی سنت کی طرف پلٹانا قرار پائے گا)
(۳)اللہ تعالی کا ارشاد ِ عالی ہے﴿ وَمَا آتَاكُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ﴾ (الحشر: ۷)(ترجمہ: اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو)
(۴)اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿ وَمَا يَنْطِقُ عَنْ الْهَوَى * إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَى ﴾ (النجم: ۳۔۴)(ترجمہ: اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے, یہ تو وحی ہے جو اس پر آتی ہے)
(۲) اس سلسلہ میں نبی ٔ گرامیﷺکے ارشادات ِ عالیہ نے جو انتہائی واضح ,شفاف اور دو ٹوک تھیں,بھی اہم رول ادا کیا,,چند ایک ملاحظہ فرمائیں:
(۱)عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِ يَكْرِبَ – رضي الله عنه – عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: (أَلاَ إِنِّي أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ,أَلاَ يُوشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانُ عَلَى أَرِيكَتِهِ، يَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِهَذَا الْقُرْآنِ! فَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَلاَلٍ فَأَحِلُّوهُ! وَمَا وَجَدْتُمْ فِيهِ مِنْ حَرَامٍ فَحَرِّمُوهُ!)(مسند أحمد حدیث نمبر:۱۷۲۱۳,ابو داؤد حدیث نمبر:۴۶۰۴,صحیح الجامع حدیث نمبر:۲۶۴۳,صحیح دلائل النبوۃ حدیث نمبر:۵۹۱,مشکاۃ المصابیح بہ تحقیق البانی حدیث نمبر:۱۶۲,سنن دار قطنی حدیث نمبر:۴۷۴۸,السلسلۃ الصحیحۃ نمبر:۲۸۷۰)(ترجمہ: مقدام بن معدیکرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”خبردار رہو! قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور وہ کہے: ہمارے اور تمہارے درمیان (فیصلے کی چیز) بس اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں جو چیز ہم حلال پائیں گے پس اسی کو حلال سمجھیں گے، اور اس میں جو چیز حرام پائیں گے بس اسی کو ہم حرام جانیں گے، یاد رکھو! بلا شک و شبہ رسول اللہ ﷺ نے جو چیز حرام قرار دے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز)
علامہ خطابی فرماتے ہیں:(قوله صلى الله عليه وسلم: (أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ) يحتمل وجهين من التأويل:
أحدهما: أن يكون معناه أنه أوتي من الوحي الباطن غير المتلو مثل ما أعطي من الظاهر المتلو.
ويحتمل أن يكون معناه: أنه أوتي الكتاب وحياً يُتلى، وأوتي من البيان، أي: أُذِن له أن يُبَيِّن ما في الكتاب ويعمَّ ويخصَّ، وأن يزيد عليه فيُشَرِّع ما ليس له في الكتاب ذِكر، فيكون ذلك في وجوب الحكم ولزوم العمل به، كالظاهر المتلو من القرآن)(معالم السنن:۴؍۲۹۸)(ترجمہ:آپﷺکا یہ فرمان:( أُوتِيتُ الْكِتَابَ وَمِثْلَهُ مَعَهُ)کے دو معنی ہو سکتے ہیں,پہلا یہ ہے کہ آپﷺکو وحی باطن غیر متلو بھی ویسے ہی دی گئی ہے,جیسے آپﷺکو ظاہر متلو عنایت کی گئی ہے,دوسرا یہ بھی اس کا معنی ہو سکتا ہے کہ وحی کی شکل میں ایسی وحی عنایت کی گئی جس کی تلاوت ہوتی ہے,اور اس کی توضیح(تفسیر)بھی عنایت فرمائی گئی,یعنی آپﷺکو اس بات کی اجازت مرحمت فرمائی گئی کہ قرآن میں موجود آیات کی تعمیم و تحصیص بھی آپ فرمائیں گے؛اور ایسے امور کا اضافہ کرکے قانون سازی فرمائیں گے جس کا ذکر قرآن میں نہ ہو؛اور اس پر عمل کرنا لازم اور اسے فیصل بنانا ٹھیک اسی طرح واجب ہوگاجس طرح قرآن ِ کریم کے ظاہر متلو )
(۲)نبی ٔ کریمﷺ نے نیز فرمایا 🙁وَإِنَّ ما حَرَّمَ رسولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كما حَرَّمَ اللهُ)(ترمذی حدیث نمبر:۲۶۶۴,مستدرک حاکم حدیث نمبر:۳۷۱؛علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے؛دیکھئے صحیح ترمذی:۲۶۶۴)(ترجمہ: بلا شک و شبہ رسول اللہ ﷺ نے جو چیز حرام قرار دے دی ہے وہ ویسے ہی حرام ہے جیسے کہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیز)
(۳)عن أبي رافِعٍ – رضي الله عنه – عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ:(لاَ أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ، يَأْتِيهِ الأَمْرُ مِنْ أَمْرِي؛ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ، أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، فَيَقُولُ: لاَ نَدْرِي! مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ!)(ابو داؤد حدیث نمبر:۶۴۰۵,ترمذی حدیث نمبر:۲۶۶۳,البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)(ترجمہ: ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے: یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے)
(۴)عن أبي هُرَيْرَةَ – رضي الله عنه؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قال: (كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إلاَّ مَنْ أَبَى) قالوا: يا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْبَى؟ قال: (مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى)(بخاری حدیث نمبر:۶۸۵۱)(ترجمہ:)(ترجمہ:ابو ہریرہ۔رضی اللہ عنہ۔فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا:ساری امت جنت میں جائے گی,سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انکار کیا,صحابہ ٔ کرام نے اللہ کے رسول!کون انکار کرے گا؟آپﷺنے فرمایا:جس نے میری اطاعت کی,جنت میں داخل ہوگا,اور میری نافرمانی کرے گا,اس نے انکار کیا)
(۵)عن أبي هُرَيْرَةَ – رضي الله عنه؛ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (دَعُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلاَفِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَاجْتَنِبُوهُ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ)(بخاری حدیث نمبر:۶۸۵۸)(ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”جب تک میں تم سے یکسو رہوں تم بھی مجھے چھوڑ دو (اور سوالات وغیرہ نہ کرو) کیونکہ تم سے پہلے کی امتیں اپنے (غیر ضروری) سوال اور انبیاء کے سامنے اختلاف کی وجہ سے تباہ ہو گئیں۔ پس جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو تم بھی اس سے پرہیز کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو بجا لاؤ جس حد تک تم میں طاقت ہو)
(۶)عن زَيْدِ بن ثَابِتٍ – رضي الله عنه – قال: سمعتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يقول: (نَضَّرَ الله امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حتى يُبَلِّغَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إلى مَنْ هو أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيسَ بِفَقِيهٍ)(ابو داؤد حدیث نمبر:۳۶۶۰,ترمذی حدیث نمبر:۲۳۵۶,ابن ماجہ حدیث نمبر:۲۳۰علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے)(ترجمہ: حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ و بصیرت والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں)
(۷)عن العرباض بن سارية رضي الله عنه ، أنه قال 🙁 صلى بنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ذاتَ يومٍ، ثم أقبل علينا، فوعظنا موعظةً بليغةً، ذرفت منها العيون، ووجِلت منها القلوبُ . فقال قائلٌ : يا رسولَ اللهِ ! كأن هذه موعظةُ مُودِّعٍ، فماذا تعهد إلينا ؟ فقال : أوصيكم بتقوى اللهِ والسمعِ والطاعةِ وإن عبدًا حبشيًّا، فإنه من يعِشْ منكم بعدي فسيرى اختلافًا كثيرًا، فعليكم بسنتي وسنةِ الخلفاءِ المهديّين الراشدين تمسّكوا بها، وعَضّوا عليها بالنواجذِ، وإياكم ومحدثاتِ الأمورِ فإنَّ كلَّ محدثةٍ بدعةٌ، وكلَّ بدعةٍ ضلالةٌ)(ابو داؤد حدیث نمبر:۴۶۰۷؛ترمذی حدیث نمبر:۲۶۷۶,ابن ماجہ حدیث نمبر:۴۲,مسند أحمد حدیث نمبر:۱۷۱۴۵)(ترجمہ ٔ حدیث: عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے، آپ نے ہمیں ایک مؤثر نصیحت فرمائی، جس سے دل لرز گئے اور آنکھیں ڈبڈبا گئیں، آپ ﷺ سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو رخصت ہونے والے شخص جیسی نصیحت کی ہے، لہٰذا آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تم اللہ سے ڈرو، اور امیر (سربراہ) کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، گرچہ تمہارا امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، عنقریب تم لوگ میرے بعد سخت اختلاف دیکھو گے، تو تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رہنا، اور دین میں نئی باتوں (بدعتوں) سے اپنے آپ کو بچانا، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے)
۳۔ محدثین عظام کا شاندار تحقیقی کام جنہوں نے منکرینِ حدیث کی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے؛اس نے بھی انکار ّ سنت کی بیخ کنی میں اہم رول ادا کیا؛ذرا تامل کیجئے:
امام شافعی ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( (أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ: على أَنَّ من اسْتَبَانَتْ له سُنَّةُ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لم يَكُنْ له أَنْ يَدَعَهَا لِقَوْلِ أَحَدٍ من الناس)(اعلام الموقعین:۱؍۷,مدارج السالکین:۳؍۲۴۸,الرسالۃ:۱۰۴,فتح المجید ص ۵۵۵)(ترجمہ:تمام مسلمانوں کا اس امر پر اجماع ہے کہ رسول اللہﷺکی سنت واضح ہونے کے بعد کسی بھی شخص کے لئے کسی بھی شخص کی وجہ سے جائز نہیں ہے کہ وہ اسے ترک کرے)
نیز فرماتے ہیں:( لم أَسْمَعْ أَحَدًا – نَسَبَهُ الناسُ أو نَسَبَ نَفْسَهُ إلَى عِلْمٍ – يُخَالِفُ في أَنْ فَرَضَ اللَّهُ عز وجل اتِّبَاعَ أَمْرِ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم، وَالتَّسْلِيمَ لِحُكْمِهِ، بِأَنَّ اللَّهَ عز وجل لم يَجْعَلْ لأَحَدٍ بَعْدَهُ إلاَّ اتِّبَاعَهُ، وَأَنَّهُ لاَ يَلْزَمُ قَوْلٌ بِكُلِّ حَالٍ إلاَّ بِكِتَابِ اللَّهِ أو سُنَّةِ رَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم، وَأَنَّ ما سِوَاهُمَا تَبَعٌ لَهُمَا، وَأَنَّ فَرْضَ اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْنَا وَعَلَى مَنْ بَعْدَنَا وَقَبْلَنَا في قَبُولِ الْخَبَرِ عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَاحِدٌ، لاَ يَخْتَلِفُ في أَنَّ الْفَرْضَ وَالْوَاجِبَ قَبُولُ الْخَبَرِ عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم)(الأم:۷؍۲۷۳)(ترجمہ:میں نے کسی ایسے شخص کو جس نے خود اپنے آپ کو یا لوگوں نے اسے علم کی طرف منسوب کیا ہو۔اس بات کی مخالفت کرتا ہو کہ اللہ تعالی نے رسول اللہﷺکے ہر حکم کی پیروی اور آپ کے حکم ماننے کو فرض قرار دیا ہے؛بایں طور کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺکے علاوہ کسی کی پیروی(اتباع)کو ضروری نہیں قرار دیا ہے,اور یہ کہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺکے علاوہ کسی کا قول بھی ہر حال میں لازم نہیں ہے,اور ان کے علاوہ جو بھی ہے,سب ان کے تابع ہیں,اور اللہ تعالی کا ہمارے اوپر,ہم سے پہلے لوگوں کے اوپر رسول اللہﷺکی ہر بات ماننا فرض ہے,اور اس سلسلہ میں کوئی د ورائے نہیں ہے کہ آپﷺکی بات تسلیم کرنا فرض و واجب ہے)
امام ابن حزم۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:(والبرهان على أنَّ المراد بهذا الرد إنما هو إلى القرآنِ، والخَبَرِ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنَّ الأُمَّة مُجمِعة: على أنَّ هذا الخطاب متوجِّه إلينا، وإلى كلِّ مَنْ يُخلق ويُركَّب روحُه في جسده إلى يوم القيامة من الجِنة والناس، كتوجُّهِه إلى مَنْ كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكلِّ مَنْ أتى بعده – عليه السلام – وقبلنا، ولا فرق)(الإحکام فی أصول الأحکام:۱؍۹۴)(ترجمہ:دلیل یہ ہے کہ اس رد سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی طرف اور رسول اللہﷺکی طرف رد(پلٹایا جائے گا),یوں کہ پوری امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کے مخاطب ہم ہیں,اور ہر وہ مخلوق ہے ,جس کی روح قیامت تک اس کے جسم میں پھونکی جائے گی,چاہے وہ انسان ہو یا جنات,ٹھیک اسی طرح ,جس طرح یہ خطاب ان لوگوں(صحابہ)کے لئے تھا جو رسول اللہﷺکے عہد مبارک میں تھے؛اور ہر اس شخص کے لئے بھی ہے جو آپﷺکے بعد آئیں گے ؛اور جو ہم سے پہلے تھے,اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے
اللہ اکبر!امام ابن حزم ۔رحمہ اللہ۔کی اس عبارت کا لفظ لفظ چیخ چیخ کر بول رہا ہے کہ نبی ٔ کریمﷺکی ہر بات ہمارے لئے واجب الاتباع ہے اور اس کے بغیر چارہ ٔ کار نہیں ہے
شیخ الإسلام ابن تیمیہ۔رحمہ اللہ۔فرماتے ہیں:( وَلِيُعْلَمَ أَنَّهُ ليس أحد من الأئمة المقبولين عند الأمة قبولاً عامًّا يتعمَّد مخالفة رسول الله صلى الله عليه وسلم في شيء من سُنَّتِه دقيق ولا جليل، فإنَّهم مُتَّفقون اتِّفاقًا يقينيًّا: على وجوب اتِّباع الرسول، وعلى أنَّ كلَّ أحدٍ من الناس يؤخذ من قوله ويُترك إلاَّ رسول الله صلى الله عليه وسلم)(مجموع فتاوی:۲۰؍۲۳۲,رفع الملام عن أئمۃ الأعلام:ص ۸)(ترجمہ:یہ بات جاننا چاہئے کہ ائمہ ٔ مقبولین میں سے ۔جنہیں پوری امت میں قبول عام حاصل ہے۔ایسا کوئی نہیں ہے جو رسول اللہﷺکی کسی بھی چھوٹی یا بڑی چیز میں جان بوجھ کر مخالفت کرتا ہو؛کیوں کہ سارے کے سارے یقینی طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہﷺکی پیروی واجب ہے؛اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ہر شخص کی بات لی جا سکتی ہے اور چھوڑی بھی جا سکتی ہے,مگر رسول اللہﷺکی بات(چھوڑی نہیں جا سکتی ہے)
علامہ شوکانی۔رحمہ اللہ۔فرماتے ہیں:(والحاصل: إنَّ ثبوت حُجيَّة السُّنة المُطهَّرة، واستقلالَها بتشريع الأحكام ضرورةٌ دينية، ولا يُخالف في ذلك إلاَّ مَنْ لا حظَّ له في دين الإسلام)(إرشاد الفحول:ص ۶۹)(ترجمہ:خلاصہ ٔ کلام یہ ہے کہ سنت مطہرہ کی حجیت اور اس کا مستقل احکام کا قانون ساز ہونا ایک دینی ضرورت ہے,جس کا وہی انکار کرسکتا ہے,جس کا دین ِ اسلام میں کوئی حصہ ہی نہ ہو)
اسلامی فتوحات کے زیر اثر جب دائرہ ٔ اسلام وسیع تر ہوتا چلا گیا تو چنانچہ علمائے حدیث نے اس بات کی ضرورت بہ شدت ِ تمام محسوس کی کہ نبی ٔ کریمﷺکی احادیث مبارکہ اکٹھا کی جائیں,چنانچہ انہوں نے اس کے لئے بے تحاشا محنتیں کی,جد و جہد کئے؛اور انتہائی سعی ٔ بلیغ سے حدیثوں کا جمع کرنے کا کام شروع کیا؛ چنانچہ بہت معمولی لیکن انتہائی منظم طریقے پر عامر الشعبی کےہاتھوں ۱۰۳ھ میں حدیثیں جمع کرنا شروع ہوئیں؛پھر عبد الملک بن جریج البصری نے ۱۵۰ ھ میں حدیثیں جمع کیں؛اس کے بعد امام مالک بن انس ۔رحمہ اللہ۔ نے مؤطا کی شکل میں ۱۷۹ھ میں احادیث رسولﷺ,اقوال صحابہ و تابعین کو یکجا فرمایا,جسے عام طور (مصنفات یا مجامیع )کہا جاتا تھا,پھر (مسند)کا چلن ہوا,اور سب سے پہلے ۲۰۴ میں مسند طیالسی ظہور پژیر ہوئی؛اور مسانید کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا,یہاں تک ۲۴۱ ھ میں مسند الإمام أحمد منصہ ٔ وجود میں آئی؛ مسند احمد بن حنبل کا شمار حدیث کے بڑے مجموعوں میں ہوتا ہے۔ اس میں دس ہزار کے قریب حدیثیں ہیں۔ اس کے مولف امام احمد ۔ رحمہ اللہ ہیں۔آپ ۔رحمہ اللہ۔ کے زمانے میں مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے یا مخلوق۔ بادشاہ قرآن کو اللہ کی مخلوق کہتا تھا جبکہ امام صاحب اسے کلام اللہ کہتے تھے۔ کلمہ حق کہنے کے پاداش میں امامِ اہلِ سنت کو اتنے کوڑے مارے گئے کہ کھال تک پھٹ گئی اور گوشت نظر آنے لگا۔ یہ عمل کئی دن چلتا رہا لیکن امام کی زبان پر ایک ہی بات تھی “یہ بات اللہ کے قرآن سے سمجھا دو یا محمد ﷺ کے فرمان سے بتا دو”۔ تاریخ گواہ ہے کہ تمام تر جابرانہ ہتھکنڈوں کے باوجود حاکمِ وقت امام کو ان کے موقف سے ایک انچ بھی نہ ہٹا سکا۔(دیکھئے:سیر اعلام النبلاء:۱۱؍۲۱۵,تاریخ بغداد:۴؍۴۱۸)
اس کے بعد کتب صحاح وجود میں ظہور پژیر ہوئی ؛جن میں سب سے پہلے امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری کی مایہ ٔ ناز کتاب (صحیح البخاری)۲۵۶ھ میں ,اس کے بعد امام مسلم۔رحمہ اللہ۔کی صحیح مسلم ۲۶۱ھ میں لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنی؛اور پھر یکے بعد دیگرے حدیث کی کتابیں ظہور پژیر ہوتی گئیں؛اس دور میں جو کتابیں ظہور پژیر ہوئیں,ملاحظہ فرمائیں؛
جامع ابن جریج (وفات۱۵۰ھ)، مسند امام ابوحنیفہ (۱۵۰ھ)، جامع امام اوزاعی (۱۵۷ھ)، جامع سفیان ثوری (۱۶۱ھ)، جامع ابن المبارک (۱۸۱ھ)، کتاب الخراج امام ابو یوسف (۱۸۲ھ)، کتاب الآثار امام محمد بن حسن شیبانی (۱۸۹ھ)،
پھر مسانید کی ترتیب و تدوین کا عمل انجام پژیر ہوا,ملاحظہ فرمائیں:۔
مسند امام شافعی (۲۰۴ھ)، مسند البزاز حماد بن سلمہ بن دینار بصری (۱۹۷ھ) مسند امام موسٰی بن جعفر کاظم (۱۸۳ھ)، مسند ابوسفیان وکیع بن جراح (۱۹۷ھ) وغیرہ۔
اس تفصیل سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کوئی بھی دور ایسا نہیں گزرا جس میں احادیث کو یکجا کرنے کا کام نہ کیا گیا ہو۔
امام بخاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 6 لاکھ میں سے 7275 روایات کا انتخاب کیا۔ کوئی ناواقف آدمی اس سے یہ تاثر لے سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کی چند ہزار حدیثیں چن لیں اور باقی پانچ لاکھ چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محدثین کی اصطلاح میں ایک ہی مضمون یا واقعہ اگر ایک سند سے نقل ہو تو وہ ایک حدیث ہے اور اگر دس، بیس، یا پچاس مختلف سندوں سے نقل ہو کر آئے تو وہ اسے دس، بیس یا پچاس حدیثیں کہتے ہیں۔ امام بخاری کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے رسول اللہ ﷺ کے ایک ایک ارشاد اور ان کی زندگی کے ایک ایک واقعہ کو بکثرت راوی مختلف سندوں سے روایت کرتے تھے۔ اور اس طرح چند ہزار مضامین کئی لاکھ حدیثوں کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ مشہور حدیث ہے ” انما الاعمال بالنیات“، اس حدیث کا مضمون سات سو مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔ عام آدمی اسے ایک حدیث سمجھے گا لیکن محدثین کے ہاں انہیں سات سو حدیثیں شمار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب کوئی محدث یہ کہتا ہے کہ میں نے ایک لاکھ حدیثوں میں سے انتخاب کر کے یہ مجموعہ مرتب کیا ہے تو اس کی مراد طرق اسانید ہوتے ہیں نہ کہ نفسِ مضمون۔ اس بات سے لاعلمی کی وجہ سے بعض لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں
اس تفصیل کے بعد اس بیہودہ دعوے کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے کہ” رسول اللہ ﷺکی وفات کے ڈھائی سو سال کے بعد تک صحیح احادیث کا کوئی مجموعہ امت کے پاس موجود نہ تھا”؟ صحابہ کے تحریری مجموعوں کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ ان کے بعد تابعین کے پاس جو تحریری مجموعے تھے ان کا شمار بھی مشکل ہے اور تابعین کا دور ختم نہیں ہوا تھا کہ سات عدد مسانید جن کا ذکر ہو چکا ہے منظر عام پر آ گئیں اسی زمانے میں موطا امام مالک کی تکمیل ہوئی جو صحت اور جامعیت کے اعتبار سے کتب ستہ میں شمار ہوتی ہے جبکہ صحیح البخاری۲۳۳ھ سے پہلے منظر عام پر آ چکی تھی، کیونکہ امام بخاری نے یہ کتاب امام یحیٰی بن معین، علی بن المدینی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ پر پیش کی تھی جن کے سال وفات بالترتیب ۲۳۴ھ، ۲۳۳ھ، اور ۲۴۰ ھ ہیں۔
کتابت کے علاوہ حفظِ حدیث کا بھی عام رواج تھا۔ عربوں کے بے مثال حافظہ نے حدیث کی حفاظت میں جو کردار ادا کیا ہے وہ ایک مستقل موضوع ہے,جس پر لکھا جانا چاہئے
پھر کیا تھا؟ لوگ احادیث کے دلدادہ اور فریفتہ ہوتے گئے؛اگر ۔اللہ کے بعد۔محدثین کی یہ کوششیں نہ ہوتیں تو فتنہ ٔ انکار ِ سنت کے پر خوب خوب لگتے,اور لوگ احادیث سے دور ہوتے چلے جاتے,اسی لئے امام ابن صلاح فرماتے ہیں(ولولا ذلك لَدَرسَ الحديثُ في الأعصُر الآخِرَةِ، ولاسِيَّمَا بعدَ أنْ أخذتْ قرون الفتن والدسائس تَطُلُّ مِن أَوْكارِهَا، وَوَجدَتْ في أحاديثِ الرَّسول وسُنَّتِه مرتعًا خصيبًا لألاعيبها ودسائسها ومؤامراتها على الإسلام المحقود عليه” )(علوم الحدیث از ؛ابن الصلاح:۱۷۱)
اسی لئے علمائے اسلام نے پوری طاقت و قوت,ہمت و نشاط,اور کامل جد و جہد کے ساتھ حدیثیں جمع کرنا شر۴وع کیں؛تاکہ فتنہ پروروں کی فتنہ پروری,اس کی سرکوبی,اور بیخ کنی,اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں معاون و مددگار ثابت ہو,چنانچہ کسی نے مسند لکھی تو کسی نے جامع,کسی نے صحیح لکھی تو کسی نے سنن ,کسی نے کچھ لکھا تو کسی نے کچھ ,الغرض احادیث رسولﷺ کویکجا کرنے کے لئے جو بھی جتن ہوسکتے تھے؛انہوں نے کئے اور بھر پور انداز میں کئے۔
محدثین کی یہ وہ محنتیں ہیں جنہوں نے نے قرآن مجید کو نہ صرف بازیچہ اطفال بننے سے محفوظ رکھا بلکہ ان ہی محدثین کی مساعی جمیلہ اور محنت شاقہ کے نتیجہ میں آج امت مسلمہ کو صحیح احادیث کا ایک بیش بہا ذخیرہ میسر ہے جس کی روشنی میں امت مسلمہ کا ہر فرد صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتا ہے اور قرآن مجید پر الله تبارک و تعالیٰ کی منشاء کے مطابق عمل کرسکتا ہے
۴۔ منکرین سنت کی اپنی تاویلات۔
منکرین سنت کی اپنی بیجا,پھسپھسی تاویلات ؛لا یعنی بکواس؛اور اس سلسلہ میں کی جانے والی کوششیں بھی اس سلسلہ میں معاون ثابت ہوئیں؛کیوں کہ ان کی تاویلات اس قدر بکواس کی حد تک بیکار تھیں؛کہ اس فتنہ(انکار حدیث)کو مرنے میں ہی عافیت سمجھی گئی
۵۔ امت کا اجتماعی ضمیر ایسے امور تھے,جن سے اس فتنہ کی سرکوبی کی گئی اور پھر فنا کے گھاٹ اتر کر یہ انکارِحدیث کا فتنہ کئی صدیوں تک اپنی شمشان بھومی میں پڑا رہا، یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری (انیسویں صدی عیسوی) میں وہ پھر جی اٹھا۔ اس نے پہلا جنم عراق میں لیا تھا۔ اب یہ دوسرا جنم اس نے ہندوستان میں لیا۔ یہاں اس کی ابتداء کرنے والے سرسید احمد خاں اور مولوی چراغ علی تھے۔ پھر مولوی عبد اللہ چکڑالوی اس کے علمبردار بنے۔ اسے کے بعد مولوی احمد الدین امرتسری نے اس کا بیڑا اٹھایا۔ پھر اسلم جیراج پوری اسے لے کر آگے بڑھے اور آخرکار اس کی ریاست چودھری غلام احمد پرویز کے حصے میں آئی جنہوں نے اس کو ضلالت کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔
برصغیر میں انکار حدیث کے علمبرداروں میں مولوی محب الحق عظیم آبادی، تمنا عمادی، قمر الدین قمر، نیاز فتح پوری،سیدمقبول احمد،علامہ مشرقی،حشمت علی لاہوری، مستری محمد رمضان گوجرانوالہ،محبوب شاہ گوجرانوالہ،خدا بخش،سیدعمرشاہ گجراتی اور سید رفیع الدین ملتانی بھی شامل ہیں,ڈاکٹر غلام جیلانی برق بھی انکارِ حدیث کے مرتکب ہوئے مگر بعد ازاں انہوں نے نہ صرف رجوع کرلیا بلکہ تاریخ ِحدیث پر ایک مدلل کتاب بھی تالیف کی
عرب کی سر ز مین سے ہوتا ہوا یہ فتنہ بر صغیر میں پہنچاا ور بڑی بڑی شخصیات نے یہ نظر یہ اپنایا,بر صغیر میں اس کے لئے “تجد د فی الدین” کا لفظ استعمال کیا گیا۔معاشی اور اقتصادی ترقی کے لئے جدید سے جدید تر و سائل اور علوم و فنون کی تخلیق اور ان کا استعمال مفید ہے بلکہ اسلام اس کی ترغیب دیتا ہے.لیکن دین اسلام میں جدت اور قدامت کی تقسیم ایک لا یعنی قسم کی تقسیم ہے۔اس لئے اسلام اور قرآن کو سمجھنے کے لئے قرآن اور اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والے رسول ﷺ کی تعلیمات ہی بنیادی “ماخذ” ثابت ہو سکتی ہیں۔جو آپ ﷺ کے اصحاب کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں۔اس لئے قرآنی آیات اور احادیث کے سیاق و سباق قرآنی نظائر سب کو نظر انداز کر کے اور ان سے با لکل آنکھیں بند کر کے صرف عقلیت اور جدید یت کا شوق پورا کونے کے لئے تفسیر کرنا اور سنت رسول ﷺ کی جگہ فلسفہ قدیم یا فلسفہ جدید کو ماخذ قانون قرار دینا راہ راست سے بھٹکے ہو ؤں کا منہج ہے۔ اہل جدت کا مقصد در اصل قرآن اور حدیث کے نام پر مغرب کے باطل افکارو نظریات کو فروغ دینا ہے۔
سنت کے انکار کے لئے انہوں نے پھر وہی تکنیک، انہی دو حربوں کے ساتھ اختیار کیا جو قدیم زمانے میں اختیار کیا گیا، یعنی ایک طرف ان روایات کی صحت میں شک ڈالا جائے جن سے سنت ثابت ہوتی ہے اور دوسری طرف سنت کو بجائے خود حجت و سند ہونے سے انکار کر دیا جائے۔ لیکن یہاں پھر حالات کے فرق نے اس تکنیک اور اس کے حربوں کی تفصیلی صورت میں بڑا فرق پیدا کر دیا ہے۔ قدیم زمانے میں جو لوگ اس فتنے کا عَلم لے کر اٹھے تھے وہ ذی علم لوگ تھے۔ عربی زبان و ادب میں بڑا پایہ رکھتے تھے۔ قرآن،حدیث اور فقہ کے علوم میں کافی درک رکھتے تھے۔ اور ان کو سابقہ بھی اس مسلمان عوام سے تھا جس کی علمی زبان عربی تھی، جس میں عام لوگوں کا تعلیمی معیار بہت بلند تھا، جس میں علومِ دینی کے ماہرین بہت بڑی تعداد میں ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور ایسے افراد ِ ملت سامنے کوئی کچی پکی بات لا کر ڈال دینے سے خود اس شخص کی ہوا نکل جانے کا خطرہ تھا جو ایسی بات لے کر آئے۔ اسی وجہ سے قدیم زمانے کے معتزلہ بہت سنبھل کر بات کرتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے دور میں جو لوگ اس فتنے کو ہوا دینے کے لیے اٹھے ہیں ان کا اپنا علمی پایہ بھی سرسید کے زمانہ سے لے کر آج تک درجہ بدرجہ ایک دوسرے سے فروتر ہوتا چلا گیا ہے اور ان کو سابقہ بھی ایسی پبلک سے پیش آیا ہے جس میں عربی زبان اور دینی علوم جاننے والے کا نام “تعلیم یافتہ” نہیں ہے اور “تعلیم یافتہ” اس شخص کا نام ہے جو دنیا میں اور چاہے سب کچھ جانتا ہو، مگر قرآن پر بہت مہربانی کرے تو کبھی اس کو ترجموں ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی انگریزی یا اردو ترجموں ۔ ۔ ۔ کی مدد سے پڑھ لے، حدیث اور فقہ کے متعلق زیادہ سے زیادہ کچھ سنی سنائی معلومات ۔ ۔ ۔ اور وہ بھی مستشرقین کی پہنچائی ہوئی معلومات ۔ ۔ ۔ پر اکتفا کرے، اسلامی روایات پر زیادہ سے زیادہ ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال لے اور وہ بھی اس حیثیت سے کہ یہ کچھ بوسیدہ ہڈیوں کا مجموعہ ہے جسے ٹھکرا کر زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے، پھر اس ذخیرۂ علمِ دین کے بل بوتے پر وہ اس زعم میں مبتلا ہو کہ اسلام کے بارے میں آخری اور فیصلہ کن رائیں قائم کرنے کی وہ پوری اہلیت اپنے اندر رکھتا ہے,اس کے لئے وہ خوب پرپیگنڈہ کرتا ہے؛واٹس ایپ اور فیس بک یونی ور سیٹیوں میں خوب اچھل کود کرتا ہے۔ ایسے حالات میں پرانے اعتزال کی بہ نسبت نئے اعتزال کا معیار جیسا کچھ گھٹیا ہو سکتا ہے ۔ظاہر ہے۔ یہاں علم کم اور بے علمی کی جسارت بہت زیادہ ہے۔
اب جو ٹیکنیک اس فتنے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس کے اہم اجزاء یہ ہیں:
1۔ حدیث کو مشتبہ ثابت کرنے کےلیے مغربی مستشرقین نے جتنے حربے استعمال کیے ہیں ان پر ایمان لانا اور اپنی طرف سے حواشی کا اضافہ کر کےانہیں عام مسلمانوں میں پھیلا دینا تا کہ ناواقف لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا جائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے قرآن کے سوا کوئی چیز بھی امت کو قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں ملی ہے۔
2۔ احادیث کے مجموعوں کو عیب چینی کی غرض سے کھنگالنا۔۔۔۔۔ ٹھیک اسی طرح جیسے آریہ سماجیوں اور عیسائی مشنریوں نے کبھی قرآن کو کھنگالا تھا اور ایسی چیزیں نکال نکال کر بلکہ بنا بنا کر عوام کے سامنے پیش کرنا، جن سے یہ تاثر دیا جا سکے کہ حدیث کی کتابیں نہایت شرمناک یا مضحکہ خیز مواد سے لبریز ہیں، پھر آنکھوں میں آنسو بھر کر یہ اپیل کرنا کہ اسلام کو رسوائی سے بچانا ہے تو اس سارے دفترِ بے معنی کو غرق کر دو۔
3۔ رسول اللہ ﷺ کے منصبِ رسالت کو محض ایک ڈاکیے کا منصب قرار دینا جس کا کام بس اس قدر تھا کہ لوگوں کو قرآن پہنچا دے۔
4۔ صرف قرآن کو اسلامی قانون کا مأخذ قرار دینا اور حدیث رسولؐ کو اسلام کے قانونی نظام سے خارج کر دینا۔
5۔ امت کے تمام فقہاء، محدثین، مفسرین اور ائمۂ لغت کو ساقط الاعتبار قرار دینا تا کہ مسلمان قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے ان کی طرف رجوع نہ کریں بلکہ ان کے متعلق اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ ان سب نے قرآن کی حقیقی تعلیمات پر پردے ڈالنے کے لیے ایک سازش کر رکھی تھی۔
6۔ خود ایک نئی لغت تصنیف کر کے قرآن کی تمام اصطلاحات کے معنی بدل ڈالنا اور آیاتِ قرآنی کو وہ معانی پہنانا جن کی کوئی گنجائش دنیا کے کسی عربی دان آدمی کو قرآن میں نظر نہ آئے۔ (لطف یہ ہے کہ جو صاحب یہ کام کر رہے ہیں ان کے سامنے اگر قرآن کی چند آیتیں اعراب کے بغیر لکھ دی جائیں تو وہ انہیں صحیح پڑھ بھی نہیں سکتے۔ لیکن ان کا دعوی یہ ہےکہ اب خود عرب بھی عربی نہیں جانتے اس لیے اگر ان کے بیان کردہ معنوں کی گنجائش کسی عرب کو قرآن کے الفاظ میں نظر نہ آئے تو قصور اس عرب ہی کا ہے)۔
اسی لئے آج ضروری سمجھا گیا کہ حدیث کی شرعی حیثیت کو واضح کیا جائے,اور لوگوں کے سامنے اسے کھول کھول کر بیان کیا جائے,اس کے فتنے سے امت کو باخبر کیا جائے,اور ایسے فتنہ باز لوگوں سے ملت کو آشنا کیا جائے؛ساتھ ہی اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں کو ہدایت نصیب کرے جو ملت و امت کو ایسے فتنوں میں مبتلا کرنے کی سازش اور سعی ٔ منحوس کرتے ہیں,اور سستی شہرت کے حصول کے لئے پاگل ہوئے جاتے ہیں
رہے نام اللہ کا