hair plant ہیر پلینٹ کروانے کا حکم

تحریر:ابو زھیر محمد یوسف بزلوی ریاضی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
الحمد لله وسلام على عباده الذي اصطفى أما بعد!
بوقت ضرورت مثلا کسی شخص چاھئے عورت ہو یا مرد اسکے بال نکل جائیں اور ڈاکٹر علاج کے طور نئے بال بنانے کے احکامات جاری کریں تو اس صورت نئے بال علاج کے طور پر لگانے یا کسی پراپلم کی وجہ سے جسم کے کسی بھی حصہ میں آپریشن کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں یعنی بوقت ضرورت و حاجت کے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اھل علم نے کسی عیب کو یا علاج کرنے کی صورت میں نئے بال لگانے کے جوازمیں بعض ادلہ سے استدلال کیا ہے۔
مگر بغیر ضرورت کے جیسے حسن کو بڑھانے وغیرہ کے لئے سرپر مصنوعی بال لگائے جاتے ہیں تو ایسا کرنا شرعاً ناجائز ہے۔
یعنی اصلی بالوں کے ساتھ ان کو ملانا شرعی طور پر درست نہیں۔(سوائے علاج کے جیسا کہ ہئیر ٹرانسپلانٹ کا طریقہ علاج ہے)۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مصنوعی بال لگانے والے افراد پر لعنت فرمائی ہے۔
ادلہ ملاحظہ فرمائے:
پہلی دلیل:عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کی لعنت ہو مصنوعی بال لگانے والی اور مصنوعی بال لگوانے والی پر ، جسم گود کر نیل بھرنے والی اور بھروانے والی پر۔[بخاری کتاب اللباس باب وصل الشعر5937 ، مسلم کتاب اللباس والزینة ، باب تحریم فعل الواصلة والمستوصلة 119۔2124 ، ابو داود ، کتاب التوجل باب فی صلة الشعر 4168 ، ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی الواصلہ والمستوصلة والواشمة والمستوشمة2783 نسائی کتاب الزینة5264،5110].
دوسری دلیل:ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو مصنوعی بال لگانے والی اور مصنوعی بال لگوانے والی پر جسم گود کر نیل بھرنے والی اور بھروانے والی پر۔[بخاری165/7 ، مسلم 165/5 ، کتاب اللباس باب وصل الشعر 5933 مسند احمد179/14].
ان جیسی ادلہ سے معلوم ہوا اپنے حسن وجمال کو یا دور حاضر کے فیشن کو اپناتے ہوئے مصنوعی بال لگانا حرام ہے۔
البتہ علاج کے طور پر ڈاکٹری مشورے کے مطابق بال لگانے میں شرعی جواز ہے۔
امام نووی مذکورہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
کہ مصنوعی بال حسن کے لئے لگانا حرام ہے جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصنوعی بال لگوانے والی پر لعنت فرمائی ہے ، اس میں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ اگر مصنوعی بال سے حسن مطلوب ہو اس صورت میں حرام ہے ، لیکن اگر بطور علاج یا کسی عیب کو دور کرنے کے لئے مصنوعی دانت وغیرہ لگوائے جائیں اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔[شرح النووي على مُسْلِم107/14].
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے جب حسن وغیرہ مقصود ہو اس صورت میں نقلی دانت وغیرہ لگانے حرام ہے لیکن من باب علاج کوئی حرج نہیں ہے۔[نيل الأوطار229/6].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان امور میں اصل قاعدہ یہی ہے کہ کسی عیب کو دور کرنے کے لیے آپریشن کرنا جائز ہے لیکن حسن کو بڑھانے کے لیے آپریشن کرنا غیر جائز ہے ، اسکی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دانتوں میں دوری پیدا کرنے والیوں پر لعنت فرمائی ہے جو کہ اپنے دانتوں کی خوبصورتی بڑھانے کے لیے کی جاتی تھی۔
البتہ بوقت ضرورت جیسے کہ دانت یا ناک یا مصنوعی بال لگائے جائیں تو ایسا کرنا مباح ہے۔
عرفجہ بن اسعد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہيں جاہليت ميں يوم كلاب ( جاہليت كى ايك لڑائى كا نام ہے ) ميں ناك پر زخم آيا، تو انہوں نے چاندى كى ناك بنوا كر لگوائى، ليكن اس ميں بدبو پيدا ہونے لگى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں حكم ديا كہ وہ سونے كى ناك بنوا كر لگا ليں۔[سنن ترمذی 371/3 ،کتاب اللباس ، حدیث نمبر:1770 ، صحيح ، سنن أبو داود 279/4 ، حسن ، حديث نمبر:4232 ، سنن النسائي163/8 ، حسن ، مجموع فتاوى ورسائل العثيمين51/17 ، مجلة مجمع الفقه الإسلامي179/4].
حدیث عرفجہ رضی اللہ عنہ کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی حسن قرار دیا ہے۔[ارواء الغليل824].
صاحب تحفہ الاحوذی ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں کہ اھل علم نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ بوقت ضرورت سونے کا مصنوعی دانت اور تار وغیرہ لگانا جائز ہے۔[تحفة الإحوذي حديث نمبر:1770].
حدیث مذکور سے وجہ استدلال:امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دال ہے کہ بوقت ضرورت مصنوعی دانت وغیرہ لگانا مباح ہے جیسے کہ دانتوں کو سیدھے کرنے کے لیے تار وغیرہ لگانا۔[معالم السنن للخطابي215/4].
بوقت ضرورت جسم کے کسی حصہ میں کسی عیب کو دور کرنے کے لیے آپریشن کرنا شرعاً جائز ہے۔[دیکھیے:الأشباه والنظائر للسيوطي:ص:88 الأشباه والنظائر لابن نجيم ص:78].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سر کے بال اگر نکل جائیں اس صورت میں انکو لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے یہ عیب کو دور کرنے کے لیے کیاجاتا ہے نہ کہ خوبصورتی کے لیے۔[فتاوى علماء البلد الحرام1185].
جو اھل علم ہئیر ٹرانسپلانٹ کے قائل ہیں انکی ادلہ:
حدیث ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ جس میں بنی اسرائیل کے تین اشخاص کا قصہ ہے کہ ان میں ایک شخص گنجا تھا اسکے پاس فرشتہ آیا اور کہا کہ تمہیں کیا پسند ہے اس نے کہا مجھے اچھے بال چاھئے۔۔۔۔۔[بخاری کتاب الانبیاء 171/4 ، صحیح مسلم 213/8].
وجہ استدلال:اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ بوقت ضرورت بال گرنے وغیرہ کی صورت میں انکا علاج کرانا وغیرہ میں جواز ہے۔
علامہ شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بالوں کو گرنے سے روکنے یا۔ وقت ضرورت نئے بال لگوانا شرعی تحریم میں نہیں آتا لھذا ایسا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔[أحكام الجراحة الطبية والآثار المترتبة عليها للشنقيطي (ص186].
خلاصہ کلام
وقت ضرورت جسم کے کسی حصہ کو لگوانا یا اسکا آپریشن کرانا اسی طرح مصنوعی بال ، دانت وغیرہ لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ خوبصورتی اور حسن کو بڑھانے کے لیے بغیر کسی ضرورت کے مصنوعی بال دانت وغیرہ لگوانا جائز نہیں ہے۔
هذا ما بدالي في هذه المسألة فإن أصبت فمن الله وان أخطأت فمن نفسي.
والله اعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على محمد وعلى اله وصحبه اجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *