ازقلم: محمد محب الله المحمدی
،سپول ،بہار
اللہ کا ارشاد ھے : قُل إن الموت الذي تفرون منه فإنه ملاقيكم ثم تردون إلي عالم الغيب والشهادة فينبئكم بما كنتم تعملون {سورة الجمعه 8 }ترجمہ : ان سے کہہ دو { اۓ نفس پرستو} جس موت سے تم اس قدر بھاگتے ھو وہ{ کچھ تمہیں چھوڑ نہ دۓگی } ایک دن ضرور آیگی پھر تم اس خدا کی طرف لوٹائے جاؤ گے جوپوشیدہ اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے پھر جو کچھ تم کرتے رہے وہ تم کو اس سے آگاہ کردۓگا ۔۔
سفر درپیش ہے غافل تجھے اس دار فانی سے
لگا دل کو نہ دنیا سے نہ عیش و کامرانی سے
موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے کسی کو مفر نہیں کل شئ ھالک الا وجھہ ، ہر نفس کو جام موت پینا ہے چاھے شاہ ہو یا گدا فقیر ہو یامتمول عالم ہو یاجاہل ،علامہ فہامہ ہو یا متحذلق ،پروفیسر ہو یادکتور ،مردہو یاعورت موت ہر ایک کو آنی ہے سب کو فنا کے گھاٹ اترنا ہے ، اس سے کسی کورستگاری نہیں اس سے کوئی چاپلوسی کرکے نہیں بچ سکتا ،روۓزمین پر کوئی ایسا فرد نھیں جوموت سے خوف نہ کھاتا ہو اور اس لفظ کے سننے سے اسکے بدن پر خوف وڈر طاری نہ ہوتاہو اور اسکا جسم لرزاں وترساں نہ ہوتاہو ،ہم جہاں بھی رھیں موت ھمیں آملےگی اللہ کا ارشاد ہے .أينما تكونوا يدرككم الموت ولوكنتم في بروج مشيدة { سورہ النساء 78} تم جہاں کہیں بھی رہو فندق ذوخمسة نجوم میں رہو یا کسی جھونپڑی میں ،شیش محل میں رہو یا پہونس کے مکان میں ،جنگل میں رہو یا بیابان میں کتنے ہی مظبوط ومحفوظ مقام میں رھو تمہیں ہر حال میں موت پالےگی ، کل نفس ذائقة الموت ونبلوكم بالشر والخير فتنة ثم إليه ترجعون { سورة الانبياء 35}۔ اللہ نے کسی بھی چیز کو بےکاروعبث نہیں پیدا کیا ،موت کو بھی بےکار پیدا نہیں کیا ۔ یہ ہمارے لئے سامان عبرت وموعظت ہے ۔ یہ ہمارے لیے اللہ کی طرف سے آزمائش واختبار ھے : الذي خلق الموت والحياة ليبلوكم أيّكم أحسن عملا وهو العزيز الغفور { سورہ ملک 2} موت کب اور کہاں آئگی کسی انسان کو یہ معلوم نہیں ،آیا گھر میں یا گھر کے باہر اپنے وطن عزیز میں یادیارِغیر میں بڑھاپے میں یا عہد کہولت میں،عہد شباب میں یا ایام طفلی میں ۔ اللہ نےارشاد فرمایا۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وماتدرى نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير { سورہ لقمان 34} کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کس زمین پر مرےگا بے شک اللہ بہت جاننے والا اور نہایت باخبر ہے
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا ہے پَل کی خبر نہیں
اور جب موت کا وقت آجائے تو لمحہ بھر کی بھی مہلت نہیں ملتی ھے اللہ کا ارشاد ہے : وما كان لنفس أن تموت إلا بإذن الله كتاباً مؤجلا { آل عمران 145} یہاں یہ بھی یاد رھے کہ ہر امت کیلیے موت کا ایک دن مقرر ہے .ولكل اُمة أجل فإذا جاء أجلهم لايستأخرون ساعة ولا يستقدمون { سورة الأعراف 34} اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتاہے تو اسے ہرگز ہرگز اللہ مہلت نہیں دیتا ،ولن يؤخرالله نفساً اذا جاء اجلها والله خبير بما تعملون { سورة المنافقون 11}
نہیں خوف خزاں کب تک بہار زندگانی میں
کہاں تک شمع ہستی کی جلے گی بزم فانی میں
لہذا ہر انسان کو موت سے پہلے کا وقت غنیمت سمجھنا چاہیے اور اسے اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں صرف کرنا چاہیے تاکہ قیامت کے دن کسی طرح کی رسوائی کا سامنا نا ہو اور جب اللہ کی طرف سے موت کا پیغام آۓ تو وہ راضی برضا ہو ، اس دنیائے فانی سے ھمیں بھی ایک دن دنیائے بقاء کی طرف کوچ کرنا ہے اسلیے ہم کو دنیا میں نیک عمل کرنا چاہیے اس جہاں فانی کی رنگینیوں اور اسکے زخرفات میں دل نہیں لگانا چاہیے اسکی محبت کا اسیر نہیں ہونا چاہیئے اور اسکی رعنائیوں پر فریفتہ نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ دنیا ساز وسامان کی جگہ ہے ۔عمل کی جگہ ہے، اسکے چکر میں پھنس کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہیے حالانکہ یہ دنیا ببانگ دہل ہم سے کہتی ھے ،بقول الشاعر
هي الدنيا تقول بملء فيها
حذار۔حذار۔ من بطشي وفتكي
فلا يغرركم حسن ابتسامي
فقولي مضحك والفعل مبكي
ترجمہ۔۔یہ دنیا اپنا منہ بھر کرکہتی ہے میری گرفت سے اور میری سخت پکڑ سے بچو ۔ بچو۔ میری مسکراہٹ تم کو دھوکہ میں نہ ڈال دے کیونکہ میری گفتگو ہنسانے والی ھے اور میرا عمل رلانے والا ہے
محترم قارئین : حقیقت میں دانا اورسمجھدار وہ حضرات ہیں جو دنیا کے چکر میں نہیں آنے والے ھیں جو دنیا کے رنگ میں کھو گیا اور اسکی دلفریبی میں مگن ہو گیا اور اسی کو چاھنے لگا تو اس سے بڑھ کر نادان ،سرپھرا ،بقلول اور بے سمجھ نہیں ،جنکے سامنے یہ آیت ہوگی۔۔۔ ، اعملوا انما الحياة الدنياء لعب ولهو وزينة وتفاخر بينكم وتكاثر في الأموال والأولاد كمثل غيث أعجب الكفار نباته ثم يهيج فتراه مصفرّاً ثم يكون حطاماً وفي الآخرة عذاب شديد ومغفرة من الله ورضوان وماالحياة الدنياء الا متاع الغرور { سورة الحديد 20} اور اس معنی کی جو آیات ہیں مثلاً سورہ عنکبوت 64 ، سورہ انعام 32 ، سورہ آل عمران 185، تو وہ کبھی دنیاوی زندگی سے دھوکہ نہیں کھاۓ گا بلکہ موت کو ہمیشہ یاد رکھے گا ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ..اكثروا ذكرهاذم اللذات يعني الموت { سنن الترمذي 2307، سنن ابن ماجه 4258 ، سنن النسائي 1824} لذتوں کو کاٹ دینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا کہ اچانک ایک انصاری آدمی آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کرنے کے بعد کہنے لگا کہ اۓ اللہ کے رسول مومنوں میں سب سے زیادہ عقلمند کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” أكثرهم للموت ذكراً وأحسنهم لما بعده استعداداً أولئك الأكياس { سنن ابن ماجه ٤٢٥٩ ،صححه الألباني }
بڑی حیرت ہوتی ہے اس شخص پر جو اپنے ہاتھوں اور اپنے کندھوں پرکئ جنازوں کو اُٹھا چکا ہو اپنے اعزاء و اقرباء کو درگور کر چکا ہو اپنی آنکھوں سے موت کے خوفناک اور
بھیانک مناظر کو دیکھ چکا ہو اپنی قوتِ سماعت سے مرگ مفاجات کے واقعات کو سن رکھا ہو ،اسکے دل میں یہ عقیدہ ہو کہ دنیا کی اس چند روزہ زندگی کو چھوڑ کر ہمیشہ رہنے والی آخرت کی طرف کوچ کرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے پھر بھی اپنی موت سے غافل ہو یقیناً ایسا شخص اپنے آپ کو بہت بڑۓ خسارے میں ڈال رہا ہے اس خسارے سے بچنے کے لئے ہمیں کثرت سے موت کو یاد کرنا چاہیے ۔ ربیع بن انس نے فرمایا کہ موت انسان کو دنیا سے بیزار کرنے اور آخرت کی طرف رغبت دینے کیلئے کافی ہے (معارف القرآن جلد ششم صفحہ 517)،قبرستان کی زیارت کرنی چاہئے نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ” فزوروا القبور فإنها تذكر الموت { صحيح مسلم رقم الحديث ٩٧٦} قبرستان جایا کرو ۔ یہ موت۔ کو یاد دلاتی ہے ھم دنیا کی محبت اور لذتوں میں اس قدر غرق ہوگئے ہیں کہ ہم نے موت کو بھلا دیا ،کبھی سوچا نہیں موت” کے بعد ہمیں اپنے کئے کا حساب وکتاب دینا ہے ہماری خواہشات ہمارۓ ذہنوں پر اسقدر دبیز چادر ڈال دی ہے کہ ہم نےمقصد حیات کو بھلا دیا ،ہم نے ان لوگوں سے کوئی عبرت نہیں لی جو ہمیں داغِ مفارقت دۓکر آخرت کی پہلی منزل میں ابدی نیند سورہے ہیں ،ہمیں دنیا میں اس طرح زندگی گزارنی ہے جسطرح مسافر گذارتا ہے جسکی شام زندگی کس جگہ ہوجائے اسے کوئی خبر نہیں اسی لیے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے”إذا أمسيتَ فلا فلا تنتظر الصباح وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء ،وخذ من صحتك لمرضك ،ومن حياتك لموتك { صحيح البخاري رقم الحديث ٦٤١٦} جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار مت کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظار مت کرو۔۔اور شاعر کہتاہے
خُذ القناعة من دنياك وأرض بها
لولم يكن لك إلا راحة البدن
وانظر إلي من حوى الدنياء بأجمعها
هل راح منها بغير الحنط والكفن
میرۓ بھائیوں کفن ہمارا لباس ہے دوگز زمین ہمارا ابدی مسکن ہے موت کاجام ہمارے لئےمقدر ھے پھر بھی ہم کیوں اس دنیا کے پیچھے مرے مرے پھر رھے ھیں ،اس سکرات الموت کو یاد کرو ،اس بستر کو یاد کرو جسمیں لوگ تمہارے موت کا نظارہ کرنے کیلئے آئیں گے اللہ فرماتا ہے: فلولا اذا بلغت الحلقوم وانتم حينئذ تنظرون ونحن أقرب إليه منكم ولكن لا تبصرون فلولآ ان كنتم غير مدينين ترجعونها ان كنتم صادقين ( سورة الواقعة ٨٧)
ترجمہ : پس جب کسی کی روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور اس وقت تم اسے دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم تمہارے بہ نسبت اس سے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم مجھے دیکھ نہیں پاتے ہو ، پس اگر تم کسی کے تابع فرمان نہیں ہوتو اسکی روح کو واپس کیوں نہیں کر لیتے ہو اگر تم سچے ہو تو ۔۔۔
عزیزو ! ۔ تم اپنی اس بےبسی کو یاد کرو ،تم اپنی کمزوری کو یاد کرو کہ تم اپنا کپڑا بھی خود سے نہیں اتار سکتے ،،تم خود سے غسل نہیں کر سکتے ، تم خود سے خوشبو نہیں لگا سکتے ۔ہرگز نہیں ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ زندگی خواب ہے ،غفلت ہے ،سرمستی ھے ،بےہوشی ہے ۔۔ بھائیو ! أجل تمہیں پکار رہی ھیں کہ تاخیر بہت ہوگئی ہے کمر کس لو ،تیار ہوجاؤ ، ورنہ سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلےگا بنجارہ
اللہ ہمیں فکر عقبیٰ کی توفیق نصیب کرے اور موت کو ہمیشہ یاد رکھنے اور اس کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
فمن عاش ألفا وألفين
فلا بد من يوم يسير إلى القبر