محمد جرجیس کریمی
فتنۂ انکار حدیث ان بے شمار فتنوں میں سے ایک ہے جو عجمی سازش کے ماتحت مسلمانوں کے عقائد ونظریات میں خلل ڈالنے اوراسلام کی شان وشوکت کو پارہ پارہ کرنے اور اس کی عظیم الشان عمارت میں نقب لگانے کے لیے ایجاد کیے گئے۔ مختلف ادوار میں اس فتنہ نے کئی روپ دھارے اور کئی رنگ بدلے۔ سب سے پہلے خوارج نے یہ شوشا چھوڑا پھر معتزلہ نے اسے اختیار کیا۔ یونانی فلسفہ کے زیر اثر کچھ لوگوں نے اسلامی نصوص کو عقل کی خراد پر چڑھانا شروع کیا پھر یہودی سازشوں نے اس کی نمائندگی کی۔ آخری دور میں مستشرقین نے منصوبہ بند طریقے سے عالم اسلام میں اس کو فروغ دیا۔ بدقسمتی سے سرزمین برصغیر یعنی ہندوپاک بھی اس کا شکار ہوئی۔ ان تمام کے یہاں ایک بات مشترک رہی کہ فی الجملہ وہ دین سے نابلد تھے اور اس کی زبان سے بھی۔ عربی زبان سے نہ انہیں دلچسپی تھی اور نہ انہیں اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اسلام کو اس کے اصل ماخذ سے سمجھیں۔ ان میں بعض ایسی شخصیات بھی تھیں جن کی کجروی اور غلط سوچ کے نتیجہ میں امت محمدیہ کو وسیع پیمانہ پر انتشار واختلاف کا سامنا کرنا پڑا اور امت کے سامنے یہ فتنہ ایک چیلنج کے طور پر موجود رہا۔ آج بھی حدیث سنت اور حجیت سنت سے متعلق بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے موجود ہیں۔ منکرین حدیث انکار حدیث میں جو باتیں پیش کرتے ہیں اور ان کی جو توجیہ کرتے ہیں عام طور پر وہ اس طرح ہیں:
١ـ ہدایت کے لیے قرآن کافی ہے۔ حدیث کی ضرورت نہیں ۔ قرآن مجید میں سب باتوں کی تفصیل موجود ہے۔
٢ـ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ حدیث کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا ہے اور حضوراکرم ۖ اور صحابہ کرام نے قرآن مجید کی حفاظت کا جو اہتمام فرمایا وہ اہتمام حدیث کی حفاظت میں نہیں فرمایا۔
٣ـ حدیث ظنی ہے اور ظن پر کسی شریعت کی بنیاد رکھی نہیں جاسکتی۔
٤ـ حدیث خبر آحاد / خبر واحد پر مبنی ہے اور خبر واحد / آحاد شرعی حجت نہیں بن سکتی۔
٥ـ حدیث کی تدوین تیسری صدی ہجری میں ہوئی اور اس دوران ذخیرۂ احادیث میں
موضوع روایات کافی تعداد میں شامل ہوگئیں، اب کسی ذریعہ سے ان کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔
٦ـ بہت سی احادیث باہم متضاد و متعارض ہیں۔ ان کی وجہ سے امت میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ اختلاف کو ختم کرنے کا واحد طریقہ ہے کہ احادیث کو شریعت کا ماخذ نہ مانا جائے۔
٧ـ بہت سی احادیث عقل کی کسوٹی پر پوری نہیں اترتیں، لہٰذا ایسی کوئی بات جو خلاف عقل ہو، شریعت کا حصہ نہیں بن سکتی۔
٨ـ ایک طبقہ نے حدیث کو رد تو نہیں کیا مگر موضوعات و ضعیف روایات اور قصصِ واہیہ کو علی الاطلاق تربیت کا اہم ذریعہ قرادیا چنانچہ اس ذریعہ سے بھی حدیث رسول ۖ میں تشکیک کا نقب لگایا گیا۔ پہلی صورتیں اگر نقص و رفض کی ہیں، تو یہ اضافے کی ہیں اس کا نمائندہ طبقہ تصوف اور اس کے حاملین ہیں۔
استخفاف حدیث بالفاظ دیگر انکارِ حدیث کے ضمن میں یہ چند وہ صورتیں ہیں جو عام طور پر منکرینِ حدیث اور مستخففینِ حدیث ان کا حوالہ دیتے ہیں۔ ذیل کے سطور میں مختصراً ان میں سے چند صورتوں کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
استخفاف حدیث کی پہلی صورت کہ ہدایت کے لیے قرآن کافی ہے۔ حدیث کی ضرورت نہیں، قرآن مجید میں سب باتوں کی تفصیل موجود ہے۔
منکرین حجیت سنت درج ذیل آیات سے استدلال کرتے ہیں۔
مَا فَرَّطْنَا فِیْ الکِتَابِ مِن شَیْْء (الانعام:٣٨)
(ہم نے کتاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔)
دوسری آیت میں ارشاد ہے۔
وَنَزَّلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْْء ٍ (النحل: ٨٩) اور ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کردی ہے جو ہرچیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے۔
منکرین حدیث کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ نے قرآن کریم میں تمام دینی امور اور احکام کے احاطے کی خبر دی ہواور پھر بعض باتوں اور احکام کو چھوڑ دیا ہو۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ دونوں آیات میں سے پہلی آیت میں لفظ ”الکتاب” سے مراد قرآن کریم نہیں ہے بلکہ لوح محفوظ ہے ۔ کیوں کہ وہ ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اور وہ چھوٹی بڑی موٹی و باریک مخلوقات کے تمام حالات ان کے ماضی حال اور مستقبل پر مکمل تفصیل کے ساتھ مشتمل ہے جیساکہ ارشاد نبوی ۖہے۔ ”جف القلم بما ہو کائن یوم القیامة” (قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے سب لکھا جاچکا ہے) (١)
دوسری بات یہ کہ اگر مان لیا جائے کہ مذکورہ آیت میں الکتاب سے مراد قرآن کریم ہی ہے، جیساکہ دوسری آیت میں ہے۔ تو بھی ظاہر مفہوم پر محمول کرنا ممکن نہ ہوگا اور یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس کا مفہوم عام ہے اور یہ کہ قرآن مجید میں ہر چیز اور حکم کا بیان اور تفصیل موجود ہے۔ خواہ وہ دینی امور سے متعلق ہوں یا دنیوی امور سے اور کوئی چیز اس میں آنے سے نہیں چھوٹ سکی ہے۔ اس لیے کہ اس طرح تو اللہ تعالیٰ کا بیان خود غلط ہوجائے گا جیسا کہ دنیوی امور کے بارے میں قرآن سے ظاہر ہے، قرآن مجید میں تمام دنیوی امور کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ آیتوں میں الکتاب کے ظاہری مفہوم سے ہٹ کر اس کی تاویل کرنی ہوگی۔ مذکورہ آیات کی علماء نے درج ذیل توجیہات کی ہیں۔
١ـ قرآن مجید میں خود رسول اللہ ۖ کی حیثیت و مقام کی تعیین ، توضیح و تشریح کی گئی ہے جس کے مطابق رسول اللہ کو قرآن مجید کی شرح اور تفسیر بیان کرنے والا قرار دیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
وَأَنزَلْنَا ِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ ِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُون (النحل: ٤٤)
قرآن مجید کلام الٰہی ہے۔ اس کے منطوق، منصوص، مفہوم، تخصیص و تعمیم، استنباط، مجمل و مفصل، ناسخ ومنسوخ، فصاحت وبلاغت ، احکام وعقائد، تاریخ و قصص، حقوق و معاملات اور کنایات وارشادات رسول گرامی ۖ سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے۔ اس لیے آپۖ کے منصب نبوت میں یہ بات شامل تھی کہ آپۖ ان تمام مسائل و حقائق کی تبیین کریں جو وحی جلی میں مذکور ہیں۔ چنانچہ قرآن میں رسول کی اطاعت کا مطلق حکم دیا گیا ہے۔ رسول کی اطاعت کلام اللہ اور سنت رسول اللہ یعنی وحی جلی اور وحی خفی دونوں کومحیط ہے۔رسول کی غیرمشروط سمع وطاعت اور مشاجرات میں رسول کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کردینا، ایمان کے لازمی تقاضے ہیں۔ ارشاد ہے۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ حَتَّیَ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً (النساء :٦٥)
آپ کے منصب رسالت میں تلاوت کتاب کے ساتھ تزکیہ و تعلیم کتاب و حکمت بھی شامل ہے۔
ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ (الجمعہ: ٣)
تلاوت آیات کے پہلو بہ پہلو تزکیہ وتعلیم کتاب وحکمت موجود ہے۔ تلاوت آیات تو کلامِ الٰہی کا پڑھنا اور اس پر غور وتدبر ہوا مگر بقیہ تین کام تزکیہ ، تعلیم کتاب وحکمت تلاوت ِ آیات الٰہی کے علاوہ اعمال میں یہ تینوں کام رسول کے قول وعمل کے نمائندے ہیں، جنہیں اصطلاحاً سنت یا حدیث کہا جاتا ہے۔ خود رسول اللہۖ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
الا انی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ (٢)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مزدور (عسیف) زانی کے معاملے میں اس کے باپ کی درخواست پر کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقینا میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی سے فیصلہ کروں گا، پھرمزدور کے لیے کوڑے اور جلاوطنی کا فیصلہ کیا اور عورت کے بارے میں حکم دیا کہ اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کردیا جائے ۔ واحدی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی نص میں رجم اور جلاوطنی کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہۖ نے جس چیز کا حکم دیا وہ بھی عین کتاب اللہ ہے۔
حضرت عمران بن حصین احادیث نبویہ ۖ بیان فرمارہے تھے کہ ایک شخص اٹھا اور بولا ابو نجید آپ لوگ کتنی ایسی باتیں بیان کررہے ہیں جن کا قرآن میں سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے۔ آپ ہم سے صرف قرآن ہی بیان کیا کریں۔ عمران بن حصین نے اس کی بات سنی اور فرمایا تم لوگ قرآن پڑھتے ہو بتاؤ کیا نماز اور اس کے مسائل قرآن سے بیان کرسکتے ہو؟ اونٹ، گائے اور انواع و اقسام کے نقد وجنس کی زکوٰة کے مسائل صرف قرآن سے بیان کرسکتے ہو؟ ہاں یہ بات ہے کہ ہم لوگ اللہ کے رسول کے صحابی ہیں، تم نہیں ہو۔ پھر آپ نے ان مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی تو معترض نے کہا کہ ابونجیدآپ نے ہمیں حیات بخشی۔ (٣)
عن ابن مسعود لعن عبد اللہ الواشمات المتنمصات والمتفلجات للحسن المغیرات خلق اللہ فقالت ام یعقوب ماہذا قال عبد اللہ ومالی لا العن من لعن رسول اللہ ۖ وفی کتاب اللہ قالت واللہ لقد قرأت مابین اللوحین فما وجدتہ قال واللہ لئن قرأتیہ لقد وجدتیہ(وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا) (الحشر: ٧) (٤)
حضرت عبد الرحمن بن یزید نے ایک شخص کو حالت احرام میں سلے ہوئے کپڑے پہنے دیکھااس سے کہا تو وہ کہنے لگا اگر آپ مجھ سے کپڑے اتروالیتے ہیں تو قرآن مجید کی کوئی آیت پیش کیجئے آپ نے اس کے سامنے آیت” وما آتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہو ”کی تلاوت فرمائی۔ (جامع لبیان العلم للحافظ ابن عبد البر القرطبی)
پھر سند کے ساتھ یہ حدیث سنائی کہ اللہ کے رسول ۖ نے ارشاد فرمایا علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین من بعدی( ٥)
متعدد روایات سے یہ بات واضح اور ثابت ہے کہ زمانہ ٔ نزول قرآن کے دوران صحابۂ کرام حضور اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ ہم کو دین سکھائیے۔ پھر آپ لوگوں کو تعلیمات سکھاتے۔ یہ تعلیمات قرآن مجید کے علاوہ ہوتیں درآں حا لیکہ وہ بھی شریعت کا حصہ ہیں۔
ذخیرۂ احادیث کے مضامین کو قرآن مجید کے مضامین سے موازنہ کریں تو احادیث وسنت کی تین قسمیں بنتی ہیں۔
١ـ ایسی سنت جو قرآن کی طرح حکم پر تمام وجوہ سے دلالت کرنے والی ہو۔چنانچہ اجمال و تفصیل اور اختیار وتشریح کے اعتبار سے وہ کتاب اللہ کے موافق ہوتی ہیں۔ اور قرآن مجید کی تائید کرتی ہیں ۔ جیسے اقیموالصلوٰة وآتوالزکاة (بقرہ: ٤٣) اسی طرح وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا (آل عمران: ٩٧) ٹھیک یہی حکم احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ارشاد ہے
بنی الاسلام علی خمس شہادة ان لا الہ الا اللہ واقام الصلوة وایتاء الزکوة وصوم رمضان والحج (٦)اس طرح کی احادیث کی مثالیں بے شمار ہیں۔
٢ـ وہ سنت جو قرآن کے مشمولات کی توضیح کرنے والی ہے گویا وہ اس کے اجمال کی تفصیل بیان کرتی ہے یا مشکل کی توضیح کرتی ہے یا مطلق کی تقیید کرتی ہے یا عام کی تخصیص کرتی ہے مثلاً وہ احادیث جو نماز اور زکوٰة کی مجمل احکام کی تفصیل بتاتی ہیں اور وہ احادیث جو مندرجہ ذیل آیات کی تشریح کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
١ـ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ من الفجر(بقرہ: ١٨٧)
حدیث سے معلوم ہوا کہ سفید دھاگے اور سیاہ دھاگے سے مراد دن کی روشنی اور رات کی تاریکی ہے۔
٢ـ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُونَ الذَّہَبَ وَالْفِضَّةَ وَلاَ یُنفِقُونَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ فَبَشِّرْہُم بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ (التوبہ:٣٤)
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لفظ کنز (مال جمع کرکے رکھنا) سے مراد زکوٰة ادا نہ کرنا ہے۔
٣ـ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَیْْدِیَہُمَا جَزَاء بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَزِیْز حَکِیْم (المائدہ: ٣٨)
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت سے مراد داہنا ہاتھ ہے۔ لفظ یمین کے ساتھ مقید ہے۔
٤ـ الَّذِیْنَ آمَنُواْ وَلَمْ یَلْبِسُواْ ِیْمَانَہُم بِظُلْمٍ أُوْلَئِکَ لَہُمُ الأَمْنُ وَہُم مُّہْتَدُونَ (الانعام: ٨٢)
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں ظلم سے مراد خصوصا شرک ہے۔
بیشتر سنتیں اور احادیث اسی نوعیت کی ہیں اور اسی کثرت کی وجہ سے کہا گیا ہے کہ سنت قرآن مجید کی تشریح وتوضیح کرنے والی ہے۔
٣ـ سنت کی تیسری قسم وہ ہے، جو ایسے حکم پر دلالت کرے جس کے متعلق قرآن خاموش ہو نہ ہی اس میں اس کا حکم دیا گیا نہ ہی اس میں ممانعت کی گئی ہو۔ مثلاً وہ احادیث جو رضاعی رشتوں کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں یا وہ احادیث جو عورت اور پھوپھی اور خالہ سے ایک ساتھ نکاح کرنے کی حرمت بیان کرتی ہیں یا وہ احادیث جن میں دادی کی وراثت کا بیان ہے یا شادی شدہ زانی کے رجم کا بیان ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث اسی تیسری قسم سے تعلق رکھتی ہیں۔
امام شافعی رقم طراز ہیں :
”تیسری قسم وہ ہے جس میں نبی ۖ نے ایسی چیزوں کا حکم دیا جس میں نص کتاب موجود نہیں، اس کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپۖ کی اطاعت فرض کرکے اور آپ ۖ کے لیے اپنی رضامندی دے کر گویا آپۖ کو اختیار دے دیا کہ جن چیزوں کے سلسلے میں قرآن مجید میں کوئی نص موجود نہ ہو، اس میں آپ حکم بیان فرمائیں”(٧)۔
منکرینِ حدیث ہدایت کے لیے قرآن کو کافی کہنے والے الکتاب سے محض قرآن مجید ہی مراد نہیں لیتے بلکہ وہ صحیفۂ کائنات مراد لیتے ہیں۔
خواجہ عباد اللہ اختر لکھتے ہیں:
”قرآن الکتاب کی تفصیل ہے خود الکتاب نہیں۔ الکتاب کتابِ کائنات یا صحیفۂ فطرت ہے۔ یہی سرچشمۂ وحی بھی ہے۔ اتل ما اوحی الیک من الکتاب”۔
جو کچھ تجھے الکتاب سے وحی ہوتا ہے تلاوت کر(٨)۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
”تمام کتب مقدسہ سابقہ اور قرآن میں ریب کی گنجائش ہے لیکن کتابِ کائنات کا کوئی دہریہ بھی منکر نہیں”(٩)۔
شریعت کی احکام کی تفصیل میں بھی منکرین حدیث نے گل افشانیاں کی ہیں۔
تخلیق انسانی کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ قرآن مجید میں عبادت کی مختلف شکلیں مذکور ہیں مگر منکرین ان سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ بلکہ وہ کہتے ہیں قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی کوئی مخصوص شکل نہیں متعین کی ہے۔کوئی شخص جس طرح چاہے عبادت کرلے۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عبادت کی کوئی خاص صورت معین نہیں کی ہے۔ کہیں فرمایا ہمارا ذکر کرو کہیں صلاة کی تاکید کی کہیں قیاما و قعودا وعلی جنوبہم کی تقدیس کا حکم دیا قرآن نے عبادت کی ان تمام صورتوں کو منظور کیا”(١٠)۔
غلام احمد پرویز یہ تحقیق پیش کرتے ہیں:
”قرآن میں دوہی نمازوں کا تذکرہ ہے۔صلاة الفجر اور صلاة العشاء ”(١١)۔
سید مقبول احمد نے ایک اور وقت کا اضافہ کردیا۔لکھتے ہیں:
”قرآن سے جو اوقاتِ نماز واضح ہیں وہ صرف فجر ، عصر اور عشاء کے ہیں۔ ظہر اور مغرب کی نماز کا کہیں ذکر نہیں”(١٢)۔
مزید لکھتے ہیں:
”نماز پنجگانہ اسلام میں کیوں کر پیدا ہوئی میرا خیال ہے اس کی ابتداء اس وقت ہوئی جب معراج کی حدیث وضع ہوئی یعنی ساتویں صدی ہجری”(١٣)۔
یہ محض چند مثالیں ہیں ان سے اندازہ کرسکتے ہیں جو حضرات حدیث کو چھوڑ کر صرف قرآن کو ہدایت کے لیے کافی سمجھتے ہیں ان کے یہاں ہدایت کا کیا مفہوم ہے اور پھر وہ امت کو کس عمیق غار میں لے جانا چاہتے ہیں کہ جہاں روشنی کی کوئی کرن نظر نہ آئے اور آدمی گمراہی میں ٹامک ٹوئیاں مارتا رہے۔
استخفافِ حدیث کی دوسری شکل کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا وعدہ کیا اور حدیث کی حفاظت کا وعدہ نہیں کیا اور رسول اللہ ۖ نے قرآن کی حفاظت کے لیے جو اہتمام فرمایا جیسے حفظ، کتابت وغیرہ۔ وہ اہتمام حدیث کی حفاظت کے لیے نہیں فرمایا بلکہ آپ ۖنے حدیث کے لکھنے سے منع فرمایا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری شریعت کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے جس میں قرآن و حدیث (سنت) دونوں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُرِیْدُونَ أَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللّہُ ِلاَّ أَن یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُون (التوبہ: ٣٢)
اس آیت میں اللہ کے نور سے مراد اس کی وہ شریعت اور دین ہے جسے اس نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا ہے۔ انہیں اس کا مکلف بنایا ہے۔ اور ان کو مکلف بنانے میں ان کی مصالح اور حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ جن پر عمل کرنے سے دنیا وآخرت کی نجات کا مدار ہے۔
جہاں تک اس آیت کا سوال ہے ِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ (الحجر:٩)اس میں لہ کی ضمیر کا مرجع کیا ہے اس بارے میں دو اقوال منقول ہیں، ایک قول یہ ہے کہ اس کا مرجع حضرت محمد ۖ ہیں۔ اس صورت میں اس آیت سے استدلال صحیح نہ ہوگا کہ اس سے مراد محض قرآن مجید کی حفاظت لیا جائے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس کا مرجع ذکر ہے۔ اس صورت میں اگر ذکر سے پوری شریعت مراد لی جائے جس میں قرآن وسنت دونوں شامل ہوں تو یہ درست ہے۔
مذکورہ آیت کے حوالہ سے یہ کہنا کہ اس میں قرآن کی حفاظت کے لیے حقیقی حصر پایا جاتا ہے یعنی قرآن کے علاوہ دوسری چیزوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے نہیں لیا ہے، تو یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا۔ کیوں کہ یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ اور بھی چیزوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔جیسے خفیہ تدبیر ، مکروفریب اور قتل سے حضور اکرم ۖ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی تھی۔ اور متعدد قاتلانہ حملوں سے اللہ تعالیٰ نے آپ ۖ کی حفاظت فرمائی ۔ جیساکہ قرآن میں مذکور ہے وَاللّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ: ٦٧) لَن یَضُرُّوکُمْ ِلاَّ أَذًی(آل عمران: ١١١) اسی طرح عرش الٰہی اور آسمان و زمین کی حفاظت کی ذمہ داری قیامت تک کے لیے اللہ نے لی ہے۔ لہٰذا کسی مخصوص چیز کی اضافی حصر کے لیے اس پر دلیل اور قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں پر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے سنت اور حدیث کی حفاظت فرمائی ہے جیسے قرآن کی حفاظت فرمائی ہے الحمد للہ امت کے درمیان سے سنت کی اب تک ایک بھی چیز ضائع نہیں ہوئی ہے۔
جہاں تک یہ سوال کہ حدیث کو لکھ کر یا کتابت کے ذریعے محفوظ نہیں کیا گیا تو جاننا چاہیے کہ کتابت لوازم حفاظت میں سے نہیں ہے۔ کیوں کہ اگر کتابت حفاظت کی بنیادی شرائط میں سے ہوتی تو توریت اور انجیل میں تحریف نہیں ہوئی ہوتی، یہ بات معلوم ہے کہ یہ کتابیں آسمان سے لکھی ہوئی شکل میں اتری تھیں اور یہود ونصاریٰ توریت وانجیل کو باہتمام لکھتے بھی تھے، اس کے باوجود ان میں تحریف وترمیم ہوئی۔ اگر کتابت کو شرائط حفاظت میں شمار کرلیا جائے تو جو اعتراض منکرین حدیث کی طرف سے احادیث کے سلسلے میں عائد کرتے ہیں وہی اعتراضات یہود ونصاریٰ کی طرف سے قرآن مجید پر بھی عائد ہوسکتے ہیں کیوں کہ قرآن مجید آسمان سے لکھی ہوئی شکل میں نازل نہیں ہوا جیساکہ توریت انجیل آسمان سے لکھی ہوئی شکل میں نازل ہوئی تھی، اگر اس کا جواب یہ دیا جائے کہ نبی کی عصمت خطااور غلطی سے قرآن کے تحریری شکل میں نزول سے بے نیاز کردیتی تو کہا جائے گا کہ حضرت موسی اور حضرت عیسیٰ کو بھی عصمت حاصل تھی، مگر اس کے باوجود توریت وانجیل تحریری شکل میں نازل ہوئیں، تو اس کا جواب اہل ایمان کی طرف سے یہ دیا جائے گا کہ جس طرح عصمت تحریری شکل میں نزول سے بے نیاز کردیتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح راوی کی عدالت حجت (خواہ قرآن ہو یا سنت) کو تحریر میں لانے سے بے نیاز کردیتی ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ عصمت مفید یقین ہے، اس کے برخلاف عدالت سے صرف ظن حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فروع میں ہمیں ظن کا مکلف کیا ہے۔اور تمام احکام میں سے ہر حکم میں یقین کا راستہ تلاش کرنے کا مکلف نہیں بنایا ہے، اس لیے کہ اس میں تنگی اور دشواری ہے اور دنیا کے اکثر معاملات جیسے لین دین، شادی بیاہ ، خرید و فروخت ، قضا اور شہادت کے امور ظن کی بنیاد پر چلتے ہیں اور طے کیے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً ِلاَّ وُسْعَہَا (البقرة:٢٨٦)
یہ بات جاننا چاہئے کہ قرآن مجید کی قطعیت صرف لفظی تواتر سے ثابت ہے، کتابت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے اور نہ ہی قرآن کی قطعیت اس پر موقوف ہے اور نہ اس سے پیدا ہوئی ہے، اگر چہ اس سے ایک قسم کی تاکید حاصل ہوتی ہے جو مفید ظن ہے۔ لیکن بالفرض قرآن مجید کو لکھا نہ جاتا، صرف تواتر کے ساتھ زبانی ہی مروی ہوتا تب بھی اسے بلا شبہ قطعیت حاصل ہوتی ۔ لیکن اگر اس کے برعکس ہوتا یعنی اسے لکھ لیا جاتا مگر لفظی تواتر کے ساتھ منقول نہ ہوتا، تو اسے یہ قطعیت حاصل نہ ہوتی اس لیے کہ جو نسخہ کاتبین وحی نے لکھا تھا وہ ہمارے پاس نہیں ہے اور اگر بالفرض ہوتے بھی تو قطعیت کے ساتھ کیسے معلوم ہوتا کہ وہ کاتبین وحی کے ہاتھوں لکھے ہوئے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی نہیں ہوئی ہے۔اس بات کی قطعیت ہمیں صرف اس صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جب اتنے لوگ جن کا جھوٹ پر اتفاق کر لینا ممکن نہ ہو، اس بات کی خبر دیں کہ یہ تحریر کاتبین وحی کی لکھی ہوئی ہے اور اس میں کوئی کمی یا زیادتی یا تحریف نہیں ہوئی ہے اور اس گواہی کو اپنے سے پہلے اتنے ہی لوگوں سے نقل کریں اور اسی طرح ہم اس صفت کے حاملین تک پہنچ جائیں جنہوں نے کاتبین وحی کو دیکھا ہے۔
نبی کریم ۖ نے قرآن مجید کی کتابت کا حکم دیا اور اس کا اہتمام فرمایا اس کا منشا اس کی حجیت نہیں تھی بلکہ اس کی حکمت یہ تھی کہ آیات کی ترتیب بتلا دی جائے اور اس کی نشان دہی کی جائے کہ ایک آیت کے بعد دوسری آیت کونسی ہوگی ۔ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن کی ترتیب توقیفی ہے جسے نبی کریم ۖ کی حیات طیبہ کے آخری زمانے میں حضرت جبرئیل علیہ السلام لے کر نازل ہوئے تھے۔ کتابت قرآن مجید کی دوسری حکمت سورتوں کی ترتیب کا بیان کرنا تھا، یہ بھی توقیفی ہے اور تیسری حکمت مزید تاکید کا حصول ہے ۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ قرآن مجید نبوت ورسالت کا سب سے بڑا معجزہ ہے جو تا قیامت باقی رہے گا، ان تمام باتوں میں سنت کو یہ مقام حاصل نہیں ہے، اس لیے سنت کی کوئی ترتیب نہیں ہے۔ نہ یہ معجزہ ہے ، نہ اس کے الفاظ کی تلاوت کا امت کو مکلف کیا گیا ہے، اگرچہ قرآن مجید میں کہا گیا ”وماینطق عن الھوی، ان ھو الا وحی یوحی”۔ (النجم: ٣) علامہ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ جس طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن کی آیات لے کر اترتے تھے، اسی طرح احادیث بھی لے کر اترتے تھے۔
قرآن و احادیث کے حجم کے پہلو سے دیکھا جائے تو دونوں میں کافی فرق ہے۔ سنت قرآن کی تفصیل و شرح ہے، شرح کا حجم ہمیشہ مشروح کے حجم سے بڑا ہوتا ہے۔تمام احادیث کو یک باری بین الدفتین جمع کرنا ممکن نہ تھا، اس لیے قرآن کی کتابت کا خاص اہتمام کیا گیا۔ مگر اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ احادیث کی کتابت سے بالکلیہ اغماض کیا گیا اور انہیں نہیں لکھا گیا اور نہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کے لکھنے سے منع کرنا، اس کی عدم حجیت کی دلیل ہے۔چنانچہ آنحضورۖنے آغازِ وحی کے ابتدائی دور میں احادیث لکھنے سے ضرور منع فرمایا تھامگر اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن سے خلط ملط نہ ہوجائے اور دونوں میں اشتباہ نہ پیدا ہوجائے۔ وجہ یہ تھی کہ حضور اکرم ۖکو اندیشہ تھا کہ اگر احادیث کی کتابت کی عمومی اجازت دے دی جائے تو لوگ کتابت پر بھروسہ کرنے لگیں گے اور حفظ سے بے توجہی برتیں گے جس کی وجہ سے ان کے حافظہ کا ملکہ کمزور پڑجائے گا۔تیسری وجہ یہ تھی کہ ابتداء اسلام میں لکھنا جاننے والے بہت کم تھے۔ اس لیے قرآن کی اہمیت کے پیش نظر حکمت کا تقاضا تھا کہ انہیں صرف قرآن کی کتابت میں مشغول رکھا جائے اور کسی دوسری چیز کی کتابت میں نہ لگایا جائے، اس کا مقصد زیادہ اہم چیز کو اہم چیز پر ترجیح دینا تھا، بعد میں جب لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو آنحضور ۖ نے حدیث کی کتابت کی اجازت دے دی۔ مختلف روایات سے متعدد صحابہ کرام کے حدیث لکھنے کا ثبوت موجود ہے۔ خود نبی کریم ۖ نے اپنی موجودگی میں مختلف مواقع پر تحریریں تیار کروائیں۔ مثال کے طور پر حضور اکرم ۖ نے صلح حدیبیہ کا معاہدہ تحریر کرایا۔ مختلف ممالک کے حکمرانوں کو تحریری شکل میں خطوط ارسال فرمائے۔میثاقِ مدینہ بھی خود نبی کریمۖ نے تحریر کرائی۔
مزید یہ کہ صحابہ کرام میں سے عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے ایک صحیفہ لکھا جس کو صادقہ سے موسوم کیا(١٤)۔
عمرو بن حزم کی معرفت یمن والوں کو حضور اکرم ۖ نے اپنے آخرِ عہد میں حدیثوں کی ایک تحریر جس میں تلاوت قرآن مجید، نماز، زکوٰة، عتاق، قصاص، دیت فرائض و سنن نیز کبیرہ گناہوں کی تفصیل تھی۔ ارسال فرمائی (١٥)۔
عبد اللہ بن عمرو سے آپ ۖ نے فرمایا : لکھو کیوں کہ مجھ سے صرف حق ہی صادر ہوتا ہے(١٦)۔
عبد اللہ بن عکیم سے مروی ہے انہوں نے بتایا کہ حضورۖکی ہمارے پاس ایک تحریر آئی جس میں لکھا گیا تھا کہ مردہ کے چمڑہ سے فائدہ نہ اٹھاؤ(١٧)۔
رسول اکرمۖ نے جرش والوں کو لکھا کہ کشمش اور خرما کو ملاکر نہ بھگویا جائے(١٨) ۔
اسی طرح کی ایک تحریر اہل حجر کو بھی بھیجی گئی کہ کشمش اور کھجور دونوں ملاکر نہ بھگویا جائے (١٩)۔
درج ذیل صحابہ کرام سے حدیث لکھنا ثابت ہے۔
مغیرہ بن شعبہ (٢٠)
حضرت معاویہ (٢١)
فاطمہ بنت قیس نے ابو سلمہ کو حدیث لکھ کر دی(٢٢)۔
حضرت ابوبکرہ صحابی نے اپنے بیٹے عبد الرحمن سے دوسرے بیٹے عبید اللہ کے پاس حدیث لکھواکر بھیجی(٢٣)۔
حضرت جابر تختیوں میں احادیث لکھتے تھے(٢٤)۔
حضرت ابن عباس حضرت ابورافع سے حدیث سن کر لکھا کرتے تھے(٢٥)۔
حضرت انس نے اپنے بیٹے کو حدیث لکھنے کا حکم دیا(٢٦)۔
حضرت ابوہریرہ کے پاس حدیثیں لکھی ہوئی موجود تھیں(٢٧)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود نے بھی ایک کتاب (مجموعۂ احادیث) لکھی تھی(٢٨)۔
حضرت ابوبکر صدیق نے زکوٰة کا رسالہ نقل کراکر حضرت انس کو دیا تھا(٢٩)۔
حضرت علی کے پاس ایک صحیفہ لکھا ہوا تھا(٣٠)۔
صحابہ کرام کے احادیث لکھنے کے اور بھی حوالے موجود ہیں۔ مختصراً یہاں چند کا حوالہ دیا گیا۔
استخفاف حدیث کی تیسری صورت کہ احادیث ظنی ہیں،اس بات کو پیش کرنے والے لفظ ظن کی حقیقت سے بھی ناآشنا ہیں۔ظن لغت میں شک،یقین، تہمت اور اٹکل اور تخمین کے معانی میں استعمال ہوتا ہے، کبھی شک کے معنی میں کبھی یقین کے معنی میں۔ اہل لغت نے اسے اضداد میں شمار کیا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ اپنے مختلف اشتقاقات کے ساتھ ان سبھی معنوں میں مستعمل ہے۔ صاحب تاج العروس لکھتے ہیں”وفی البصائر قد ورد الظن مجملا علی اربعة اوجہ بمعنی الیقین، وبمعنی الشرط، وبمعنی التھمة، و بمعنی الحسبان(٣١)
یعنی بصائر میں ہے کہ لفظ ظن چار معانی میں مستعمل ہے، یقین کے معنی میں، شک کے معنی میں، وہم و خیال اور اٹکل کے معنی میں۔ قرآن مجید میں ان چاروں مرادوں پر آیات کی شہادت موجود ہیں۔ یقین کے ظن کا استعمال ہوا ہے ، ارشاد ربانی ہے:
الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُوا رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ ِلَیْْہِ رَاجِعُونَ (البقرة:٤٦)
اسی طرح ایک دوسری آیت میں وارد ہے:
قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُو اللّہِ کَم مِّن فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةً بِِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْن (البقرة:٢٤٩)
ان آیات میں ظن یقین کے معنی میں مستعمل ہے۔
ظن کادوسرا معنی وہم و گمان کے ہیں۔ارشاد ربانی ہے:
وَمَا یَتَّبِعُ أَکْثَرُہُمْ ِلاَّ ظَنّاً َنَّ الظَّنَّ لاَ یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْْئاً ِنَّ اللّہَ عَلَیْم بِمَا یَفْعَلُون (یونس:٣٦)
دوسری آیت ہے:
وَمَا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ ِن یَتَّبِعُونَ ِلَّا الظَّنَّ وَِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْْئاً (النجم:٢٨)
ان آیات میں ظن شک،وہم وگمان اور اعتقاد فاسد کے معانی میں مستعمل ہے۔
ظن کا استعمال تہمت کے لیے بھی ہوتا ہے:
وماھو علی الغیب بضنین(التکویر)
علامہ ابن قرطبی نے ابن کثیر اور ابو عمر اور کسائی کی قرأت ”ظ” سے نقل کی ہے جس کے معنی تہمت کے ہیں۔
ظن کا ایک معنی اٹکل اور تخمین کے بھی ہیں۔ارشاد ربانی ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ ِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ ِثْم (الحجرات)
اہل منطق اور اہل اصول کی اصطلاح میں ظن اس اعتقاد کو کہتے ہیں جس کی صحت کا پہلو وزنی ہو اگرچہ اس کے غلط ہونے کا احتمال باقی ہو۔ امام جرجانی لکھتے ہیں۔
ھو الاعتقاد الراجح من احتمال النقیض (٣٢)
فقہاء کے نزدیک ظن شک کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ فقہاء نے حکم تکلیفی کے اعتبار سے ظن کی چار صورتیں بتائی ہیں(٣٣)۔
١ـ ظن محظور ، ٢ـ ظن ماموربہ، ٣ـ مندوب الیہ، ٤ـ مباح
١ـ ظن محظور یعنی جس کی ممانعت آئی ہے۔ اس کی مثال اللہ کے بارے میں سوء ظن سے ممانعت کی حدیث میں ہے:
لایموتن احدکم الا ھو یحسن الظن باللہ(٣٤)
اسی طرح عام اہل ایمان کے بارے میں سوء ظن کی ممانعت ہے حدیث ہے:
وایاکم والظن فان الظن اکذب الحدیث( ٣٥)
٢ـ ظن مباح کی مثال نمازوں کی رکعتوں میں شبہ ہوجانے کی ہے۔ اس میں ظن غالب
پر عمل کا حکم ہے۔
٣ـ ظن مندوب الیہ کی مثال اہل ایمان کے بارے میں حسن ظن رکھنے کی ہے جس کے
بارے میں ترغیب دی گئی
محدثین کے نزدیک ظن کا مفہوم
ائمہ محدثین کے نزدیک ظن علم کے اس مرتبہ کا نام ہے جو بداہت سے کم ہو اس اعتبار سے علم نظری اور اس کے جملہ مراتب اس کے دائرہ مفہوم میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اسی بنا پر محدثین اخبار آحاد میں قرائن صدق موجود ہوں تو ان سے جو علم حاصل ہوتاہے۔ اسے ظن سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک خبر متواتر مفید العلم ہے۔ یعنی اس سے علم بدیہی حاصل ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کے رجال میں غور و فکر اور چھان پھٹک کی ضرورت نہیں پڑتی اور آحاد مفید الظن ہے۔ یعنی ان کی صحت حواس ظاہرہ سے ثابت نہیں بلکہ عقلی دلائل سے ثابت ہے۔ائمہ حدیث نے رجال کے احوال اور قرائن سے استدلال کرکے بحث و نظر اور عقل و شعور سے احادیث کی صحت کو ثابت کیا ہے۔ ظن کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ وہ اٹکل اور تخمین پر مبنی ہے لہٰذا وہ لائق استشہاد نہیں ہے۔ علامہ آمدی فرماتے ہیں۔
والمختار حصول العلم بخبرہ اذا احتف بہ القرائن(٣٦)۔
یعنی مختار مذہب یہی ہے کہ جب خبر قرائن سے گھرے ہوئے ہوں تو علم حاصل ہوگا
اگر وہ مفید للظن ہونے کی وجہ سے لائق استناد نہ ہوتیں تو ائمہ حدیث انہیں موجب العمل ہرگز نہ قرار دیتے کیوں کہ ”لاعمل الا عن علم۔”
قرآن کریم کی بعض آیات اس پر دال ہیں
فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَة لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ ِذَا رَجَعُواْ ِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون (التوبة:٢ ١٢)
طائفہ لغت میں کسی چیز کے ایک حصے کو کہتے ہیں اس لیے اس اس کا اطلاق ایک شخص سے لے کر جماعت تک کیا جاسکتا ہے لہذا آیت بالا کی رو سے جماعت کا فرض ہے کہ جب ایک شخص یا کوئی جماعت ان کو دین پہنچائے تو وہ ان کو قبول کریں اور مانیں۔
دوسری آیت ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ِن جَاء کُمْ فَاسِق بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا (الحجرات: ٦)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے خبر واحد کو قبول کیا ہے اگر ایک شخص کی خبر قابل قبول نہ ہوتی تو اس کو تحقیق کے بجائے رد کرنے کا حکم ہوتا۔
ان ساری تفصیلات کا ماحصل یہ ہے کہ خبر واحد اگر محتف بالقرائن ہو تو اس سے علم یقینی ونظری حاصل ہوگا ۔ ائمہ محدثین نے نظر و استدلال سے حاصل اس یقینی علم کو ظن سے تعبیر کیا ہے۔
جہاں تک سوال دین میں ظنیات پر عمل کا ہے تو جاننا چاہئے کہ دین کے بہت سے امور ظن کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں جیسے قضا، تحکیم، شہادت، نکاح، خریدوفروخت وغیرہ بلکہ دین و دنیا کے بیشتر مصالح کا حصول اور مفاسد کا ازالہ ظن ہی پر مبنی ہے۔ حافظ عزالدین عبدالعزیز بن عبدالسلام رقم طراز ہیں۔
”دین و دنیا کے برکات کے حصول اور ان کے مفاسد کا دفعیہ اور ازالہ کے تمام ذرائع ظنی ہیں۔ دنیا ودین کے مصالح کی تحصیل اور ان کے مفاسد سے بچنے میں بظاہر اعتماد ظن ہی پر کیا جاتا ہے۔ یہ مصالح ایسے ہیں کہ اگر وہ پورے نہ ہوں تو دین و دنیا دونوں کا معاملہ بگڑ جائے۔ اسی طرح مفاسد کا ازالہ نہ ہو تو تباہی مچ جائے۔ ان سب کے عمومی ذرائع ظنی ہیں۔ قطعی نہیں۔ آخرت کے لیے جو اعمال کیے جاتے ہیں ان میں ضروری نہیں کہ انجام صحیح ہوں۔ یہ تمام اعمال حسن ظن ہی کی بنیاد پر کئے جاتے ہیں۔ اور یہ خطرہ باقی رہتا ہے کہ یہ اعمال قابل قبول نہ ہوں۔ قرآن کریم نے اس کی شہادت دی ہے۔
والذین یؤتون ماآتوا و قلوبھم وجلة انھم الی ربھم راجعون (المؤمنون)(٣٧)
دنیا کے امور بھی حسن ظن پر طے کئے جاتے ہیں۔ تجارتی سفر حسن ظن پر کیا جاتا کہ وہ نفع بخش ہوگا، کاروبار کے لیے لوگ گھروں سے حسن ظن لے کر نکلتے ہیں کہ انہیں کامیابی ملے گی اور فائدہ ہوگا، کسان کھیتی باڑی اسی حسن ظن پر کرتا ہے کہ اسے فصل حاصل ہوگی ، بادشاہ لشکر اسی امید پرروانہ کرتا ہے کہ فتح ملے گی۔ ڈاکٹر مریض کا علاج اسی لیے کرتے کراتے ہیں کہ اسے شفا ملے گی۔ یہ سارے ظنون عموما درست اور صحیح واقع ہوتے ہیں اور محض اس بنیاد پر کہ کبھی یہ غلط اور خلاف واقع بھی ہوسکتے ہیں ان تمام مصالح کو معطل اور نظر انداز کردینا سراسر حماقت اور جہالت ہے۔
حواشی و مراجع
١ـ مسند احمد بن حنبل ٢٨٠٤
٢ـ سنن ابوداؤد ، کتاب السنة باب فی لزوم السنة، ٤٦٠٤
٣ـ الطبرانی ١٨/ ١٤٤، والحاکم ٣٧٢
٤ـ صحیح البخاری،٥٩٣٩، کتاب اللباس، باب المتنمصات
٥ـ سنن ابوداؤد، کتاب السنة باب فی لزوم السنة ٤٦٠٧، ترمذی ٢٦٧٦
٦ـ صحیح البخاری کتاب الایمان باب قول النبی ۖ بنی الاسلام علی خمس ،حدیث:٨
٧ـ الرسالہ للامام محمد بن ادریس الشافعی، ص ٩٢
٨ـ اسلام کی بنیادی حقیقتیں مقالہ اصولِ اسلام خواجہ عباد اللہ اختر، ص ١٥٧ـ١٥٨
٩ـ خلافتِ اسلامیہ خواجہ عباد اللہ اختر، ص ٣٠
١٠ـ ایک اسلام ، ڈاکٹر غلام جیلانی برق / مطبوعہ کتاب منزل لاہور، ١٩٥٣ء ص ٣٩ـ٤٠
١١ـ ماہنامہ طلوع اسلام، غلام احمد پرویز، ١٣٥٠ھ
١٢ـ مطالعۂ حدیث، سید مقبول احمد، ص ١٤٩
١٣ـ حوالہ سابق ١٥٥
١٤ـ سنن دارمی رقم ٥١٣ مقدمہ
١٥ـ موطا امام مالک ٣٣٢، زاد المعاد ١/ ١١٤
١٦ـ ابوداؤد، کتاب العلم باب کتابة العلم، ٣٦٤٦، مسند احمد ٢/ ١٦٢
١٧ـ ابوداؤد، کتاب اللباس باب من روی ان لا یستنفع باھاب المیتة ٢٧ ٤١، ترمذی،کتاب اللباس باب ماجاء فی جلود المیتة اذا دبغت ١٧٢٩
١٨ـ مسلم ، کتاب الاشربة، باب کراہیة انتباذ التمر والزبیب مخلوطین١٩٩٠
١٩ـ مستدرک للحاکم١/ ١٠٦
٢٠ـ بخاری، کتاب الاذان باب الذکر بعد الصلاة حدیث: ٨٤٤
٢١ـ ابوداؤد، کتاب العلم باب فی کتابة العلم
٢٢ـ مسلم ،کتاب الطلاق باب المطلقة البائن لا نفقة لہا حدیث:٣٧٠١
٢٣ـ مسلم، کتاب الاقضیة باب کراہة قضاء القاضی وھو غضبان
٢٤ـ مصنف ابن ابی شیبہ، ٥/ ٣١٣ ٢٦٤٢٥
٢٥ـ طبقات بن سعد ٢/١٢٣،٢/٣٧١
٢٦ـ مسلم، کتاب الایمان، باب دلیل علی من مات علی الایمان دخل الجنة، ١٤٩
٢٧ـ فتح الباری ١/٢٠٧، ترمذی ٥٦٢، سنن الدارمی مقدمہ باب من رخص فی کتابة العلم،٤٩٤
٢٨ـ جامع بیان العلم لابن عبد البر١/٢٧٣، تہذیب الکمال ١٧/ ٢٣٩
٢٩ـ بخاری، کتاب الزکاة باب زکاة الغنم، ١٤٥٤
٣٠ـ بخاری ، کتاب العلم باب کتابة العلم،١١١
٣١ـ تاج العروس من جواھر القاموس، مرتضی الزبیدی
٣٢ـ التعریفات علی بن محمد الشریف للجرجانی، دار الکتب العلمیة، بیروت لبنان
٣٣ـ الکلیات لابی البقاء الکفوی :٣/١٧٤
٣٤ـ مسلم، ابواب الفتن باب الامر بحسن الظن باللہ تعالیٰ عند الموت، ٢٨٧٧/ ٧٢٢٩
٣٥ـ صحیح البخاری، کتاب الادب باب یا ایہا الذین آمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن الخ۔ مسلم،٤/١٩٨٥
٣٦ـ الاحکام فی اصول الأحکام لابی الحسن الآمدی:٢/٥٠
٣٧ـ قواعد الاحکام لمصالح الانام عز الدین بن عبد السلام،ص١٠