اسلام میں زمین کو گروی رکھنے کا حکم

سوال:۔ اسلام میں زمین کو گروی رکھنے کا کیا حکم ہے؟

سائل۔ ۔ ۔ ۔  بزلہ ترگام بانہال۔

*********

الجواب بعون رب العباد:

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تحریر:ابو زھیر محمد یوسف بٹ بزلوی

7006137982

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على رسول الله وبعد!

رھن کے معنی ہے کہ کسی شخص سے بوقت ضرورت کوئی چیز جیسے کھانے کی کوئی چیز وغیرہ یا بوقت ضرورت نقدی رقم لیکر اسکے بدلے بطور ضمانت اپنی کوئی چیز جیسے تلوار,بندوق,مکان  وغیرہ اس شخص کے پاس رکھے جو اسے کسی وقت تک قرض دے۔

شریعت میں کوئی چیز قرض وغیرہ کے لینے کی صورت میں جائز ہے البتہ اس رہن سے قرض دینے والا کوئی فائدہ نہ اٹھائے۔

اور کسی شخص کو جب قرض دیا جائے چاہے وہ نقدی ہو یا جنس اسکے بدلے رہن میں رکھی گئی چیز کے بارے میں چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

گروی راہن کی ملکیت ہے۔

مرتھن یعنی جس کے پاس کوئی چیز گروی رکھی جائے اسے اس گروی چیز کے تصرف میں کوئی حق نہیں ہے۔

البتہ اگر گروی چیز جیسے کہ گائے یا سواری وغیرہ ہو تو اس سواری کی سواری کرنا,اسی طرح گائے کا دودھ پینا جائز ہے یاد رہے سواری کو اپنی نجی آمدنی کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

دلیل:مرہون:جانور پر خرچ کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور اس دودھ دینے والے “مرہون” جانور کا دودھ پیا جا سکتا ہے اور جو سوار ہو گا اور دودھ پیے گا وہ خرچ ادا کرے گا۔[بخاری 143/3].

اگر کسی نے سواری کو کمانے کے لئے استعمال کیا اسی طرح گائے کے دودھ وغیرہ کو نیچا تو اس صورت میں اس شئ سے آنے والی آمدنی کا حساب رکھا جائے اور جس نے قرض  لیا ہے اسی آمدنی کی رقم سے اسکا قرض وصول کیا جائے اور قرضہ وصول ہوجانے کے بعد اسکی چیز واپس کی جائے۔

دلیل: اللہ کا ارشاد گرامی ہے:﴿ وإن كنتم على سفر ولم تجدوا كاتبا فرهان مقبوصة.[البقرة 283].

ترجمہ:اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو کوئی چیز گروی (رہن کے طور پر ) قبضے میں رکھ لی جائے.

اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آئے اوروہاں لکھنے والا میسر نہ ہو تو اسکے بدلے قرض لینے والا کوئی چیز دائن (یعنی جسے  قرض لے)  کے پاس رھن(گروی) رکھے۔

اسے گروی  کی  مشروعیت اور اسکا جواز ہوتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ جب فوت ہوئے تو آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس(قرض کے عوض میں) گروی تھی۔[متفق علیہ بحوالہ تفسیر احسن البیان].

سفر میں رہن کے جواز پر علماء کا اجماع ہے جب کہ جمہور علماء نے حضر میں بھی رہن کو جائز قراردیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ  کا یہودی کے ہاں اپنی زرہ گروی رکھنا حضر میں رہن کے جواز کی واضح دلیل ہے۔[بخاری الجہاد والسیر باب ماقیل فی درع النبی ﷺ  حدیث:2916].

اس سے ثابت ہوا کہ سفر وحضر میں کسی چیز کو بوقت ضرورت گروی رکھنا جائز ہے۔

یاد رہے کہ راہن یعنی مقروض شخص وعدہ کے مطابق وقت مقرر پر قرض واپس لوٹا دے

اور اگر مرتھن کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی شخص کی زمین اور مکان یا گھاس وغیرہ سے آنے والی آمدنی جیسے فصل گھاس یا نقدی بغیر کسی عوض کے اپنی ضروریات پر خرچ کرے اسلئے کہ یہ سود میں شامل ہے۔

ہمارے یہاں اکثر یہی صورت دیکھنے کو ملتی ہے کہ راھن اپنی زمین گھاس وغیرہ مرتھن کے پاس رکھتا ہے اورمرتھن شخص اس زمین کی فصل یا گھاس کے پلاٹ کو اپنی ملکیت سمجھ کر اس فصل کو خود کھاتا ہے اور اسکا راہن کو کوئی بھی فائدہ نہیں ملتا یا کسی کی سواری وغیرہ کا دودھ وغیرہ بطور آمدنی استعمال کرے۔

واضح رہے کہ اگر مرتہن خرچ سے زائد نفع حاصل کرے گا تو یہ درست نہیں بلکہ اس کا کرایہ یا اجرت راہن کو واپس کرے۔

اس قسم کی صورت شرعا حرام ہے اور یہ سب سود کے زمرے میں داخل ہے۔

اللہ کا فرمان ہے کہ (أحل الله البيع و حرم الربا)

اللہ تعالی نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔[بقرہ].

نبی کریم ﷺ نےسود کھانے ، کھلانے اور لکھنے والے اور سود پر گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

خلاصہ کلام

کسی چیز کو رھن (گروی) رکھنا جائز ہے البتہ مرتھن کو اس چیز میں کسی بھی تصرف کا حق حاصل نہیں ہے اسلئے کہ وہ راھن کی ملکیت ہے اسی طرح اگر راھن کی سواری ہو یا گائے وغیرہ تو اس سواری پر بوقت ضرورت سوار ہونا یا گائے وغیرہ کے دودھ کو پینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس سواری کو اپنی تجارت کے لئے استعمال کرے یا گائے وغیرہ کا دودھ بیچے اور پہر اس آمدنی کو اپنے لئے استعمال کرے ایسا شرعا جائز نہیں

اسی طرح مرتھن گروی چیز جیسے کہ زمین کی فصل جیسے گہیوں مکی سبزی، گھاس وغیرہ کو بھی اپنے لیے استعمال نہ کرے البتہ وہ اس فصل کی قیمت کرکے راھن کے لئے ہوئے قرض اسی وصول کرے اور قرض ختم ہونے پر راھن کو اسکی چیز، زمین مکان ، دکان ، گھاس کا پلاٹ وغیرہ  واپس کرے۔

هذا ماعندي والله اعلم بالصواب.

وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *