تربیتِ اولاد میں ادبِ اطفال کا کردار

ڈاکٹرعبد الرزاق زیادی

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔76

Mobile No: 9911589715, E-mail: arziyadi@gmail.com

بچے ملک و قوم کا مستقبل ہوا کرتے ہیں۔وہ نہ صرف کل کے شہری ہیں بلکہ انھیں کے کاندھوں پر ہمارے ملک و قوم اور خاندان کے روشن مستقبل کا انحصار بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کی نشو و نما اور پرورش و پر داخت کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت بھی ناگزیرہوجاتی ہے۔ بچوں کی بہتر نشو و نما کے لیے جہاں ایک اچھے ماحول، ایک اچھی معاشرت ا ور ایک صاف ستھرے سماج کی ضرورت پڑتی ہے وہیں ان کی تعلیم و تربیت کے لیے وہ تمام اسبا ب و وسائل اور ذرائع بھی فراہم کیے جاتے ہیں جن سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج بچوں کی تعلیم و تربیت جن اصولوں پر ہوگی ان کی شخصیت بھی انھیں خطوط پر تعمیر و تشکیل پائے گی۔گویا آج کے بچے،جو ہمارا کل کا مستقبل ہیں،خود ان کا مستقبل ان کی شخصیت کی بہتر تعمیر و تشکیل اور صحیح تعلیم وتربیت پر منحصرہے۔یہی وجہ ہے کہ نفسیات کے ماہرین نے نہ صرف اس پر کہ ہمارے بچے کی نشوو نما کیسے ہو، ابتدائی سالوں میں ان کے لیے کیا کیا ضروریات ہیں اورپرورش و پرداخت کے کیا طریق کار ہو سکتے ہیں بلکہ ان تمام کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی شخصیت کی بہتر تعمیر و تشکیل کے اصولوں پربھی بڑ ی تفصیلیبحثیں کی ہیں۔ البرٹ بندورا،گارڈنر،جے۔برونر، جین پیاجے،جون دیوائی، بلوم جیسے مصنفین و ماہرین نفسیات کی کتابوں کے علاوہ خود اردو میں بھی سینکڑوں کتابیں اور مضامین دستیاب ہیں۔ان ماہرین کے یہاں بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی ذہنی و جذباتی نشو و نما کے لیے جو اسبا ب و وسائل بہت زیادہ اہم اور کار گر ثابت ہو سکتے ہیں ان میں ایک بچوں کے لیے لکھا گیا ادب بھی ہے۔ڈاکٹر اکبر رحمانی اپنی کتاب”اردو میں ادب ِ اطفال:ا یک جائزہ“ کے مقدمے میں لکھتے ہیں:

”یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خاندان، قوم اورملک کے روشن مستقبل کا انحصار بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے۔آج کا بچہ کل کا شہری ہے۔اس لحاظ سے بچے ”قومی امانت“ ہیں اور اس امانت کا تحفظ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔یہ ذمہ داری تقاضا کرتی ہے کہ معاشرے، قوم و ملک کا مفید خادم بنانے کے لیے ا س کی جسمانی نشو و نما کے ساتھ اس کی عمدہ ذہنی تربیت اور شخصیت کی متوازن نشو و نما پر بھی توجہ دی جائے۔ اس مقصد کے حصول میں ”ادب“ ایک اہم اور مؤثر وسیلہ ثابت ہوا ہے۔“(1)

گویا بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی بہتر کردار سازی میں ادب ایک اہم رول ادا کرتاہے۔لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو بعض اوقات اس کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے کیونکہ بچوں کی ہر عمر میں تعلیم و تربیت کے تمام تر اسبا ب و وسائل میں جو چیز سب سے مؤثر و کار آمد ثابت ہوتی ہے وہ ادب اطفال ہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر طرح کے تعلیمی و تربیتی اداروں میں ترتیبِ نصاب اور انتخابِ مواد کے وقت بچوں کی عمر کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی اور ذوقِ مطالعہ کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔عہدِ طفولیت میں چونکہ بچوں کی جسمانی نشو و نما کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی و جذباتی اٹھان بھی زوروں پر ہوتی ہے اس لیے اس کی ترقی و تکمیل کو بھی ملحوظ رکھنا ناگزیر ہوتا ہے۔ نصابی تعلیم سے رسمی طور پر جہاں ایک حد تک یہ ضرورت پوری ہوتی ہے وہیں اس کے لیے جو چیز سب سے زیادہ مؤثر و کار آمد ثابت ہوتا ہے وہ ہے مادری زبان میں پیش کیا گیا اچھا ادب یعنی ادبِ اطفال۔ ادبِ اطفال محض بچوں کو درس و تدریس کے لیے نہیں ہوتا بلکہ تفریح طبع اور ان کے فطری رجحان کی تعمیر و تسکین میں بھی اہم کردار ادا کر تا ہے۔محمد حسن فاروقی لکھتے ہیں:

”بچوں کے لیے جسمانی نشو و نما کی جتنی اہمیت ہے اتنی ہی ضرورت ذہنی و جذباتی اُٹھان کی بھی ہے۔بچوں کی ذہنی ترقی اور مکمل اُٹھان کے لیے نصابی تعلیم کے ساتھ جو چیز سب سے زیادہ اثر انگیز ثابت ہوتی ہے وہ ان کی مادری زبان میں اچھے ادب کی فراہمی ہے۔ یہ ادب محض بچوں کو درس و تدریس کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ان کی تفریح ِ طبع اور اُن کے فطری رجحانات کی نشو ونما کے لیے بھی ہوتا ہے۔“)2(

چونکہ کوئی بھی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ ایک گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے اور اس کی شخصیت و زندگی بھی ایک کورے کاغذ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی ہے۔ مگر اس میں رنگ بھرنے کا عمل اس کا سماج،معاشرہ اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اس کا اپنا مطالعہ و مشاہدہ بھی کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب بچے اپنی کم عمری میں ہوتے ہیں تو اس وقت ان کے مطالعے میں آنے والی کتابوں اور کہانیوں کے کردار بھی نہ صرف ان کے ساتھ ہواکرتے ہیں بلکہ زندگی کے ہر موڑ پر وہ انھیں ہمت و حوصلہ بھی عطا کرتے ہیں۔ مشہور ناقد اور ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم اختر اپنے ایک مضمومیں لکھتے ہیں:

”بچہ اپنی عمر اور جسم کی بنا پر توکمزور اور ناتواں ہوتا ہے لیکن دوسرے کا سلوک اس میں عدم تحفظ کے جن شدید احساسات کی آبیاری کرتا ہے وہ اس میں مزید ناتوانی کا احساس پیدا کرتے ہیںیوں کہ وہ خود کو بالکل ہی بے بس، بے کار اور بے معنی سمجھنے لگتاہے۔ ایسے میں کتاب اس کی ہمت بندھاتی ہے، چنانچہ وہ(بچہ)کہانیوں کے کرداروں کے ساتھ اپنی نفسی تطبیق کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ محض قاری سے بڑھ کر ہیرو بن جاتا ہے۔“)3(

ڈاکٹر سلیم اختر کے اس اقتباس سے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ بچوں کے لیے ادب اطفا ل کس قدر اہم ہے اور یہ ان کی زندگیوں میں کس حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ادب اطفال کی اسی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و بیت پر بھی خاص توجہ دی جائے اور ابتد ا سے ہی ایک اچھے سماج،صاف ستھرے ماحول اوربہترین طرز معاشرت کے ساتھ ساتھ ان کے لیے بہترین ادب بھی فراہم کیئے جائیں۔ تاکہ اس کی بدولت ان کے مطالعہ و مشاہدہ میں وسعت اور گہرائی و گیرائی پیدا ہونے سکے اور ان کے ذوق کی بھی تسکین ہو سکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں زمانہئ قدیم سے ہییہ طریقہ چلا آرہاہے کہ ابتدا میں انھیں زبان، پھر معمولی ادب اور پھرآہستہ آہستہ باقاعدہ ادب و انشا کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر بانو سرتاج لکھتی ہیں:

”ابتدائی ادوار میں مکتبوں اور مدرسوں کی کرامت اور ان میں درس کے نظام کا خاکہ تصور میں لائے کہ جہاں ابھی نفسیات کے علم اور اس کے اصولوں کی تدوین کا تصور بھی عنقا ہے وہاں سوچے سمجھے اور طے شدہ مقاصد اور منصوبوں کے تحت نہایت منظم اور منضبط طریقوں سے زبان کی تدریس کا اہتمام کیا جاتاتھا۔ بچوں کی ذہنی و جذباتی ارتقا، اور ان کی پرورش و پرداخت اور ان کی علمی و عملی استعداد بڑھا نے کے لیے کن خطوط پر، کس خلوص اور لگن سے کام لیا جاتا تھا، اس کا اندازہ اس دور کے مکتبوں میں پڑھائی جانے والی کتب، قادر نامہ کی طرز کی نظموں اور کتابچوں بلکہ رسالوں کی نوعیت اور مواد کا مطالعہ کرنے سے ہو سکتا ہے۔وہ کتب اور رسالے جو بڑی عرق ریزی سے تخلیق کیے جاتے تھے، اس درجہ محدود نہیں تھے جتنی فی زمانہ نصابی کتب ہو ا کرتی ہیں۔ ان میں حروف اور اعراب کی شناخت اور لفظوں کی ساخت متعارف کروانے کے بعد الفاظ کے تلفظ اور محلِ استعمال کا سلیقہ سکھایا جاتا تھا اور بعد میں تحریرو تقریر میں انشا پردازی، معنی آفرینی اور بلاغت کے اوصاف کی پرداخت کی طرف توجہ دی جاتی تھی۔“) 4(

یقینایہ تھا ہمارے یہاں کا قدیم و روایتی تعلیم و تدریس کا طریقہ ء کار اور ممکن ہو ہم سے بیشتر کی تعلیم و تربیت بھی اسی انداز سے ہوئی ہو لیکن تب اور اب میں بڑا فرق آگیا ہے، بعد زمانی کے ساتھ ساتھ بعد ذہنی ہی نہیں بلکہ زاویہئ نظر  بھی بدل چکاہے۔بلکہ آج ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ ترقیوں کا دور ہے۔ہم ہر اعتبار سے ارتقا کی طرف گامزن ہیں، ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک اورچھوٹے بچوں سے لے کر بڑے بوڑھوں تک ہر کوئی سائنسی آلات و ایجادات اور جدید ٹکنالوجی و انکشافات سے لطف اندوز ہو رہاہے۔ گھر کے بڑے افراد کی طرح بچے بھی لیپ ٹاپ، موبائل اور دوسرے آلات میں نہ صرف مصروف نظر آتے ہیں بلکہ وہ بھی ہرلمحہ کچھ نئے کی تلاش ہوتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کی تعلیم و تدریس کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر تربیت کی ذمہ داری اور بھی دو چند ہو جاتی ہے تاکہ ہم انھیں ان مصائب و آلام سے ممکنہ حد تک دور رکھ سکیں اور ان میں نہ ا دبی ذوق پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔اس کی بدولت جہاں ہم انھیں اس قابل بنا سکیں گے کہ وہ اپنے ذوق کی تسکیں ادب کے ذریعہ ہی کر یں بلکہ اس کی وجہ سے ان کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل بھی انھیں خطوط پر ہو گی جن پر ہم چاہ رہے ہیں۔کیونکہ سائنس و ٹکنالوجی کی تمام تر ترقیوں اور علوم کی بے پنا ہ وسعتوں کے باوجود آج بھی بچوں وہ علوم نہیں حاصل ہو رہے ہیں جو واقعی انھیں ضرورت ہے۔بقول ڈاکٹر بانو سرتاج:

”یہ درست ہے کہ آج بظاہر تعلیم کی ہر طرح کی سہولت ان کو مل رہی ہے اور یہ مسلسل ترقی کی راہ پر قدم بڑھارہے ہیں، لیکن وہ علم و ذوق جوان کو آزاد، ذمہ دار، مفید اور کار آمد شہری بناتا ہے کیایہ علم ان کو ملا ہے؟ اقدار سے وابستگی، دین و مذہب، تہذیب وثقافت سے واقفیت کے لیے ان بچوں کے لیے بہترین اور مؤثر ذریعہ ادب ہی ہے۔بچوں کا ادب۔“) 5(

بلاشبہ جتنے بھی علوم و فنون ہیں ان میں ادب ہی ایک ایسا فن ہے جس سے کہ نہ صرف بچوں کی ہمہ جہت تربیت ہوتی ہے بلکہ بڑوں کو بھی اس سے روشنی اور اپنے لیے تفریح طبع کا سامان ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرزمانے میں ادب یعنی ادبِ اطفال بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔یوں تو دنیا کی ہر وہ زبان جس کے پاس اپنا کچھ ادب بھی ہوتا ہے تو اس میں ادب اطفال کا بھی پایا جا نا ناگزیر ہوتا ہے لیکن اردو زبان کییہ خوش بختی ہے کہ اس کے دامن میں نظم و نثرکی شکل میں وہ رنگا رنگ کائنات موجودہے جس میں قومی تہذیب و تمدن اور ادب و ثقافت کی وسیع دنیا ئیں آباد ہیں اوران سے نہ صرف ہم اور ہمارے بچے تربیت پا رہے ہیں بلکہ ہمارے اکابرین نے بھی انھیں سے تربیت پائی تھی۔

اس اعتبار سے دیکھیں تو ہمارا پورا ادبی سرمایہ ہمارے بچوں کے لیے بلکہ خود ہمارے لیے بھی ایک بیش بہا اور قیمتی سرمایہ ہیں۔ امیر خسرو سے لے کر موجود ہ عہد تک جو بھی ادب پارے لکھے گئے یا لکھے جارہے ہیں وہ تمام کے تمام ہمارے بچوں کی ذہنی و جذباتی ارتقا کی تکمیل اور ان کی علمی و ادبی استعداد کوبڑھانے کا ہی کام نہیں کرتے بلکہ یہ ان کی مکمل تعلیم و تربیت میں ایک اہم رول ادا کرتے ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ادبِ اطفال کے تعلق سے ہمارے ذہنوں میں آج بھی بہت سے سوالات گردش کر رہے ہیں مثلاً ہمار ے پاس بچوں کاادبی سرما یہ ثروت مند ہے بھییا نہیں؟آزادی سے پہلے ادب ِ اطفال کی کیا نوعیت تھی اور پھر بعد میں کس قسم کے ادب منظر عام پر آئے؟ یا پھر موجودہ عہد میں ادب اطفال کی کیا سمت و رفتار ہے؟ عصر حاضر میں لکھے جارہے ادبِ اطفال معیاری ہیںیا نہیں؟ اس کے لکھنے والے اس ترقییافتہ دور سے خود کو ریلیٹ کر پارہے ہیںیا نہیں؟ ان میں بچوں کی دلچسپییا تفریح طبع کا سامان فراہم ہو رہا ہے یا نہیں؟یا پھر ان تمام سے بڑھ کر کیا ہم خود اور ہمارے بچے ادب سے مستفید ہو پارہے ہیںیا نہیں۔۔۔؟ یہ اور اس طرح کے اور بھی بہت سے سوالات اور مسائل و مشکلات ہیں جن پر ہم اکثر غور و فکر کرتے رہتے ہیں اور ان میں سے بیشتر تو وہ سوالات ہیں جن سے ہم چاہ کر بھی اپنا پیچھا نہیں چھڑ ا سکتے۔

لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان سوالات سے بھاگنے یا پھر ان سے پیچھا چھڑانے کے بجائے آج ہمیں ان کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کے ضروری ہے کہ ہم ان کے لیے صحیح ادب فراہم کرائیں۔بچوں کو ان کی عمر اور ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے وہ ادب، وہ کتابیں اور رسائل و جرائدمہیا کرائیں جن سے ان کا دل بہلے،ان کی معلومات میں اضافہ ہواور اچھی اور نیک باتیں سیکھنے میں انھیں مدد مل سکے۔ گویا ان بچوں کو وہ ادب فراہم کیے جائیں جن سے ان کی شخصیت کی مکمل تعمیر وتشکیل ہو سکے۔لیکن ادب کی اس فراہمی میںیہ بات بھی ملحوظ رہے کہ بچوں کو ان کتابوں، رسائل و جرائد یا ادب پاروں سے دور رکھا جائے جن سے ان کی تعلیم و تربیت کے بجائے ان کے ذہنوں پرغلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بھاری بھرکم الفاظ میں لکھی ہوئی کہانیاں اور بازاروں میں بکنے والے سستے و سطحی کامکس بچوں کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں مددگار بنے کے بجائے ان کے ذہنوں پرنہ صرف خراب اثرڈالتے ہیں بلکہ انھیں بگاڑ کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔

غرض یہ کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ہمارے اس مستقبل کا انحصار خود ان کی صحیح تعلیم و تربیت پر ہے۔ لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچو ں کی صحیح اور مناسب تعلیم و تربیت کریں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم انھیں صحیح خطوط پر چلنا سکھائیں۔بچوں کو زندگی کے صحیح اصولوں پر چلانے کے جتنے بھی اسبا ب وسائل ہیں ان تما م میں ادب کو فوقیت و امتیاز حاصل ہے۔اس لیے معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے ایسے ادب بھی فراہم کرائیں جن سے ان کی مکمل تعلیم و تربیت ہو سکے۔ کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں،خواہ وقتیا زمانہ کتنا ہی کیوں نہ بدل گیا ہو، ادب نے کل بھی اہم کردار ادا کیا تھا اور آج بھی کر ے گا۔

٭     ٭     ٭

حواشی:

1۔     سخن ہائے گفتنی۔اکبر رحمانی،   اردو میں ادب ِ اطفال:ایک جائزہ،  ایجو کیشنل اکادمی، جگاؤں، ص:5

2۔     پیش لفظ۔محمد حسن فاروقی،     اردو میں ادب ِ اطفال:ایک جائزہ،  ایجو کیشنل اکادمی، جگاؤں، ص:7

3۔     بچہ اور کتاب نفسیات کی روشنی میں۔سلیم اختر،   ماہنامہ ماہ ِ نو، لاہور، نومبر 1979،  ص: 53

4۔     اردو میں بچوں کا ادب…۔ بانو سر تاج، مشمولہ اردو میں ادب ِ اطفال:ا یک جائزہ، ایجو کیشنل اکادمی، جگاؤں، ص:18

5۔     ایضاً،  ص:20

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *