- منور بشیر گڈاوی
جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
تحریک آزادی ہند میں علمائے صادق پور کاکردارایک ناقابل فراموش باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ صادق پور، جو بہار کے علاقے میں ایک علمی اور روحانی مرکز رہا، یہاں کے علماء نے ہمیشہ دین کی سر بلندی اور حق کے فروغ کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں۔ یہ خاندان اپنے علمی ورثے اور خدمت خلق کی روایات کی وجہ سے پورے برصغیر میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔
علمائے صادق پور نے نہ صرف درس و تدریس اور فتویٰ نویسی جیسے علمی شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیں، بلکہ جب برصغیر کی آزادی کا مسئلہ درپیش آیا تو انہوں نے اس میدان میں بھی اپنی بصیرت اور قوت ارادی کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ برطانوی استعمار کی جبر و استبداد کے خلاف انہوں نے اپنی قلم اور زبان کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد کا بھی علم بلند کیا۔
یہ علما جانتے تھے کہ آزادی کے بغیر دین و ملت کی ترقی ممکن نہیں، چنانچہ انہوں نے عوام الناس کو آزادی کی اہمیت سے روشناس کروانے کے لیے انتھک محنت کی۔ ان کی رہنمائی میں عوام کو آزادی کی تحریک میں شامل کیا گیا اور انہیں اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونے کی ترغیب دی گئی۔ اس راہ میں علمائے صادق پور نے بے شمار قربانیاں دیں، جو آج بھی ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ ان کی جدوجہد، صبر، اور استقامت نے تحریک آزادی کو ایک نئی روح بخشی اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے امید کی کرن ثابت ہوئی۔
مولانا ابراہیم میرؔ سیالکوٹی، علمائے صادق پور کے سر فہرست علما میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے آزادی کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کیا۔ ان کی تحریریں اور خطبات تحریک آزادی میں ایک روشنی کے مینار کی مانند ثابت ہوئیں۔ مولانا نے عوام کے اندر انقلابی جوش و جذبہ پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور یوں وہ ایک بااثر رہنما کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔
مولانا ولایت علی اور مولانا عنایت علی، صادق پور کے معروف بہادر بھائی، تحریک آزادی میں اپنی بے مثال جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے رہے۔ دہلی کی تحریک میں انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے برطانوی حکومت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ ان کی تقاریر اور تحریروں نے عوام کو بیدار کیا اور انہیں آزادی کے حق میں متحد ہونے کی دعوت دی۔ بار بار کی گرفتاریوں اور جیل کی صعوبتوں نے ان کے عزم کو متزلزل نہیں کیا۔
مولانا عنایت علی نے اپنے بھائی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ دونوں بھائیوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، جہاں ان پر سخت تشدد کیا گیا۔ برطانوی حکومت نے ان کے خاندانوں کو ہراساں کیا، ان کی جائیدادوں پر قبضہ کیا اور انہیں شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، مگر علمائے صادق پور نے اپنے ایمان اور استقامت کو مضبوط رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔
مولانا احمد اللہ صادق پوری بھی تحریک آزادی کے ایک اہم ستون تھے۔ انہوں نے اپنی علمی و روحانی قوت کے ذریعے عوام کو بیدار کیا اور انہیں آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کے لیے آمادہ کیا۔ ان کی قربانیاں بھی اس خاندان کی دیگر شخصیات کی مانند نمایاں تھیں۔ مولانا احمد اللہ نے بھی جیل کی صعوبتیں جھیلیں، لیکن کبھی اپنی جدوجہد سے پیچھے نہ ہٹے۔
علمائے صادق پور کی قربانیوں کا اثر نہ صرف ان کے اپنے علاقے میں بلکہ پورے ہندوستان میں محسوس کیا گیا۔ ان کی قربانیوں نے عوام میں بیداری پیدا کی اور تحریک آزادی کو ایک نیا جوش و جذبہ دیا۔ ان علمائے کرام کی قربانیوں نے یہ پیغام دیا کہ آزادی کی جدوجہد میں شمولیت ایک دینی فریضہ ہے، جس نے تحریک آزادی کی طاقت میں اضافہ کیا۔
علمائے صادق پور کی قربانیاں تحریک آزادی کے دوران ایک شاندار مثال پیش کرتی ہیں، جو اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ کس طرح دین دار اور علم و دانش کے حامل افراد نے اپنی جان، مال، اور وقت کو قوم کی آزادی کے لیے وقف کر دیا۔ آج کے عہد میں، جب امت مسلمہ زوال کا شکار ہے، ہمیں پختہ یقین ہے کہ یہی علماء دوبارہ قوم کی رہنمائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
آج کے دور میں، افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر تو غیر خود مسلمان بھی علماء کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، گویا وہ ماضی کے آثار ہوں۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ یہی علماء ہیں جو ہماری راہوں کے مینار بن سکتے ہیں اور ہمیں حقیقی عروج کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ اس دور کے بیشتر افراد نے دنیوی تعلیم کے حصول کو اپنا مقصد بنا لیا ہے، اور وہ مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگ کر اس کے غلام بن چکے ہیں۔ مگر ہمارے علماء ایسے ہیں جن کے نظریات کی بنیاد حق اور صداقت پر ہے، اور وہ کسی بھی قسم کے باطل افکار سے متأثر نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے علم و عمل کے ذریعے ہماری قوم کی فکری اور روحانی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔