از:عبد المجید بن عبد الوہاب مدنی
اسلامک دعوہ سینٹر,العیون
حج کا موسم شروع ہو چکا ہے،لاکھوں خوش نصیب مسلمان دنیا کے مختلف کونے سے بے تابانہ اس مقدس فریضے کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ کھچے چلے آر ہےہیں، موسم اور موقعہ کی مناسبت سے چند باتیں صفحہ قرطاس کے حوالہ کی جا رہی ہیں اس دعا کے ساتھ کہ الله ہم سب کی کوششوں کو دین حنیف کی سر بلندی کا ذریعہ اور سبب بنائے۔
محترم قارئین : خانہ کعبہ، یا بیت اللہ‘‘مسجد حرام کے وسط میں واقع ایک خوبصورت، پرشکوہ ،چوکور،عمارت کا نام ہے۔
چونکہ اس کی لمبائی، چوڑائی اوراونچائی تقریباً برابر ہے، یعنی ’’مکعب نما‘‘ اسی نسبت سے اُسے کعبہ کہا جاتا ہے۔
اس کے محل وقوع سے متعلق لکھا گیاہے کہ یہ عین عرش الٰہی اور بیت المعمور کے نیچے ہے ۔
تفسير کے امام ہیں ابن جرير طبري رحمہ اللہ وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ خانۂ کعبہ کےبالكل سدهائی پر ساتویں آسمان پرفرشتوں کی عبادت کے لئے’’بیتِ معمور‘‘(آباد گھر) ہےاور وه بالکل عرشِ الٰہی کے نیچے ہے’’ يدخله سبعون ألف ملك كل يوم إذا خرجوا منه لم يعودوا‘‘ (ابن کثیر۱۷۶۹ طور)
ہردن ستر ہزار فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں اور ان کو دوبارہ موقع نصیب نہیں ہوتا۔
اس گھر کی شان وشوکت، ہیبت وعظمت، فضائل وکمالات، امتیازات وخصوصیات بے شمار ہیں، اسے الله رب العزت کا مقدس گھر ہونے کی جہاں سند حاصل ہے، وہیں یہ مرکزِ یقین، مقامِ رُشد و ہدایت ہے، یہیں سے اسلام کی آواز بلند ہوئی اور یہی اسلامی تعلیمات کا اوّلین مرکز بنا، یہاں سے ایک مومن کو توحید کی صافي غذا آج بھی ملتی ہے، اللہ تعالی نے اس کو وحی اُترنے کے مقام اور مسلمانوں کے قبلے کے طور پر چُنا ،ایک مومن اسی کو اپنی پانچ وقت کی نمازوں میں قبلہ بناتا ہے،اس کے احترام وحرمت کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ قضائے حاجت کے وقت کعبہ معظمہ کی طرف رخ کرنا یا پشت کرنا تو دور كي بات اس کی طرف پاوں پھیلانا بھی بے ادبی شمار ہوتی ہے۔
اس کا طواف مشروع ہی نہیں، بلکہ اہم ترین عبادت ہے، اللہ تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ سورہ حج آیت نمبر ۲۹میں اس کا حکم دیا ہے (حج۲۹)
عصر جاہلیت میں بھی تمام عرب اپنے جاہلی رسم و رواج کے مطابق خانہ کعبہ کا طواف اورحج کیا کرتے تھے۔
یاد رہے خانۂ کعبہ کی یہ انفرادی شان ہے جو کسی اور عبادت گاہ یا درگاہ یا مسجد میں جائز نہیں اور اسی لئے قبروں کاطواف کرنے والے بدعتی،غلاف کعبہ کی طرح قبروں پرچادریں چڑھانے والےاور وہاں مجاورری کرنے والے گمراہ ہیں۔
اس گھر کی عظمت اس کی ہیبت اس کی شان و تقدس اور برتری کے پیش نظراللہ تعالیٰ نے اسے اپنی نسبت عطا فرمائی ہے اوراپنی عظمت وجلال کے ساتھ خاص فرمایا ہے، اسے کہیں بیتُ اللہ، کہیں کعبۃُ اللہ(بلند وبالا گھر)،کہیں بیت الحرام (شوکت کا گھر)اور کہیں بیتِ عتیق (عزت وحرمت والا/ آزاد گھر) سے تعبیر کیا گیاہے۔
گذشتہ پانچ ہزار سالوں میں کسی نے بھی خانہ کعبہ پر اپنی شخصی ملکیت ہونے کا دعوی نہیں کیا ، یہ ایسا انمول شرف ہے کہ دنیا کی کسی عبادت گاہ و معبد کو حاصل نہیں ہوا۔
خانہ کعبہ، اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ،جب تک یہ قائم ہے دنیا باقی ہے جب اس کو گرا دیا جائے گا تو دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی اور قیامت بَرپا ہو جائے گی۔ ارشادِ باری تعالی ہے:’’ جَعَلَ ٱللَّهُ ٱلْكَعْبَةَ ٱلْبَيْتَ ٱلْحَرَامَ قِيَٰمًا لِّلنَّاسِ‘‘(سورۃ المائدہ، ۹۷)
اللہ نے لوگوں کےکے قیام کے واسطے کعبہ کو حرمت والا گھر بنایا۔
اللہ تعالیٰ نے اس گھر کی عظمت سے اسلام اور مسلمانوں کی عظمت کومربوط کررکھا ہے، لوگوں کا وجود اور بقا اس لئے قائم ہے کہ لوگ اس کے گھر کا حج وعمرہ اور طواف کے ذریعہ حق ادا کرتے رہیں، جس دن لوگ اس سے اپنا رشتہ توڑ لیں گے پھران کا وجود باقی نہیں رہے گا۔
جی ہاں کعبۃ اللہ‘‘ مسلمانوں کے دینی تشخص، ملّی تحفظ اور اجتماعی وحدت، معاشرتی و سماجی زندگی کے قیام کا ذریعہ اور شعائرِ اسلامی کی بقاء کا ضامن ہے۔
اس امر کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جسےامام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقا بیان کی ہے اور ابن حبان نے ابو سعید خدری سے مرفوعا اپنی مسند میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے” لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى لَا يُحَجَّ الْبَيْتُ ” مسند ابن حبان في “الصحيح” (15 / 151)
قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج چھوڑ نہ دیا جائے۔
معلوم ہوا کہ جب تک یہ امت ’’حرم کعبہ‘‘ کی تعظیم شایان شان کرتی رہے گی خیرو برکت سے بہرہ ور رہے گی،ا ورجب بیت اللہ کا حج وعمرہ اورطواف چھوڑ دیا جائے گا، تو تباہی یقینی بن جائے گی اورقیامت قائم ہو جائے گی۔
صحیح بخاری کی روایت ہے حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ «يخرب الكعبة ذو السويقتين من الحبشة» (صحیح بخاری1591)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کعبہ کو دو پتلی پنڈلیوں والا ایک حبشی برباد کردے گا ۔
مسند احمد بن حنبل کی روایت میں مزید وضاحت ہےحدیث کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں: « يبايَعُ لِرَجلٍ بينَ الرُّكنِ والمقامِ، ولن يَستَحلَّ البيتَ إلَّا أَهْلُهُ ، فإذا استحلُّوهُ ، فلا تسأَلْ عن هلَكَةِ العرَبِ ؟ ثمَّ تأتي الحبَشةُ فيُخرِّبونَهُ خرابًا لا يُعمَرُ بعدَهُ أبدًا، وَهُمُ الَّذينَ يستخرِجونَ كنزَهُ» (مسند احمد بن حنبل :7910)
ایک شخص(اس شخص سے مراد امام مہدی ہیں) کی حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان بیعت کی جائے گی۔ اس گھر کی حرمت کو اس کے رہنے والے ہی پامال کریں گے۔ اور جب ایسا ہوگا تو پھر عربوں کی ہلاکت اور بربادی کے بارے میں پوچھا نہ جائے گا۔ پھر حبشہ سے ایک لشکر آئے گا جو کعبہ کو تباہ و برباد کردے گا۔ اس تباہی کے بعد پھر اللہ کا یہ گھر کبھی آباد نہ ہوسکے گا۔ یہی لوگ اس کا خزانہ بھی نکال کر لے جائیں گے ۔
قرآن مجید میں کعبة اللہ اور دیگر شعائر الہی کی تعظیم کو قلوب کا تقویٰ قرار دیا گیا ہےارشادِ باری تعالی ہے: وَمَن يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ. (الْحَجّ ، 22 : 25)
’’اورجو شخص حرم کعبہ میں گناہ کا ارادہ بھی کرے گا تو ہم اسے المناک عذاب چکھائیں گے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کےنزدیک حرمت کعبہ کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ اس کی طرف جانے والے قربانی کے جانوروں اور حج کے ارادے سے سفر کرنے والے انسانوں کی بے حرمتی سے بھی روکا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَالْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ وَلاَ آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ. يَبْتَغُونَ فَضْلًۭا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَٰنًۭا (الْمَآئِدَة ، 5: 2)
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو، نہ ادب والے مہینوں کی، نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی ،جو کعبہ کو جا رہے اور نہ ان لوگوں کی جو بیت اللہ کے قصد سے اپنے رب تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضاجوئی کی نیت سے جا رہے ہوں۔
غور فرمائیں آیت کریمہ میں اس بات کی تاکید ہو رہی ہے کہ ان کا احترام ملحوظ خاطر ہو اور کسی ایسی بے ادبی کے مرتکب نہ ہوں جو ان کی شان کے خلاف ہو کیونکہ وہ اس وقت راہِ کعبہ پر گامزن ہیں اور اس کی زیارت کے لئے جا رہے ہیں۔
یہ مقام اس قدر محترم ہے کہ یہاں نہ صرف خونریزی منع ہے بلکہ نہ کسی جانور کا شکار کیا جا سکتا ہے نہ کسی درخت کو کاٹا اور سبزہ اور گیاہ کو اکھاڑا جا سکتاہے
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔”إن الله حرم مكة، فلم تحل لأحد قبلي، ولا تحل لأحد بعدي، وإنما أحلت لي ساعة من نهار، لا يختلى خلاها، ولا يعضد شجرها، ولا ينفر صيدها، ولا تلتقط لقطتها إلا لمعرف”. وقال العباس يا رسول الله. إلا الإذخر لصاغتنا وقبورنا. فقال ”إلا الإذخر”. صحيح بخاري حدیث نمبر : 1833
اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت والا بنایا ہے مجھ سے پہلے بھی یہ کسی کے لیے حلال نہیں تھا اس لیے میرے بعد بھی وہ کسی کے لیے حلال نہیں ہوگا۔ میرے لیے صرف ایک دن گھڑی بھر حلال ہوا تھا اس لیے اس کی گھاس نہ اکھاڑی جائے اور اس کے درخت نہ کاٹے جائیں، اس کے شکار نہ بھڑکائے جائیں اور نہ وہاں کی گری ہوئی چیز اٹھائی جائے۔ ہاں اعلان کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔ (تاکہ اصل مالک تک پہنچا دے ) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! اذخر کی اجازت ديجئے کیوں کہ یہ ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے لیے کام آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اذخر کی اجازت ہے۔
متعدد جگہ قرآنی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اسے گہوارہ امن قرار دیا ہے
ارشادِ باری تعالی ہے: وَإِذْ جَعَلْنَا ٱلْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا’’اور ہم نے ’’بیت اللہ‘‘ کو لوگوں کے لیے ثواب اورامن امان کی جگہ بنایا ‘‘۔ (سورۃ البقرہ۱۲۵)
ایک دوسرے مقام پر مزید فرمایا: وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (سورۂ آل عمران ۹۷)
اس حرمِ مقدس میں جو داخل ہوا، وہ دراصل امن و سلامتی کے آغوش میں آگیا۔
جی ہاں: ایسی امن گاہ جہاں انسان کیا جانور بھی پہچکرامن و راحت کی سانس لیتا ہے۔
خانۂ کعبہ میں واضح نشانیاں موجود ہیں جن کی حرمت وعظمت کا پاس و لحاظ رکھنے کی قرآن حکیم نے تاكيد کی ہے، ارشادِ باری تعالی ہے: وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ سورة الحج (32)
اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی۔
بلا شبہ یہ نشانیاں قُربِ الہی کا ذریعہ اوراس بات کے لئے پختہ ثبوت ہیں کہ الله نے اس گھر کو عظمت وحرمت سے نوازا ہے۔
ان كهلی نشانیوں میں سے ایک اس کا دوام اور بقا ء ہے ان طاقتور دشمنوں کے مقابلہ میں جو اس کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے تھے اصحابِ فیل‘‘ نے مکہ اور اہلِ مکہ کو تاخت وتاراج کردینے کا منصوبہ بنایا، اُنھوں نے چاہا کہ بیت اللہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں ؛ مگر تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ اپنے جاہ و جلال سمیت پیوندِ زمین کردئے گئے، ابابیلوں جیسے نازک اندام پرندوں کے ذریعہ ان ہاتھیوں پرکنکریاں برسا کر ان افواج کو تہس نہس کر دیاگیا،ان کا شاہی دبدبہ، لاؤ لشکر کچھ کام نہ آیا اورعبرت کا نشان بن گئے۔
ممكن ہے یہاں پر آپ کے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو ابرہہ اور اس کے لشکر سے بچا لیا لیکن حبشی ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ کعبہ کو گرانے میں کیوں کامیاب ہو جائے گا؟؟؟
دراصل واقعہ اصحاب فیل کے زمانے میں مکہ والے بت پرست ضرور تھے مگر کافر ہونے کے با وجود بھی بیت اللہ کی تعظیم کرتے تھےاور اس کی حرمت پامال نہیں کرتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو ابرہہ اور اس کے لشکر سے بچا لیا۔ جہاں تک حبشی ذُو السُّوَيْقَتَيْنِ کا معاملہ ہے تو وہ کعبہ کو گرانے میں اس وقت کامیاب ہوسکے گا جب مقامی لوگ بھی کعبہ کی حرمت کو پامال کرنا شروع کر دیں گے اور اس کی حرمت کا پاس ولحاظ نہیں کریں گے، جب وہ بیت اللہ کی خدمت اور اہتمام سے پہلوتہی کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے گا۔
خانۂ کعبہ کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ وہاں’’مقامِ ابراہیم‘‘ ہے، دنیا کی کسی مسجد کو یہ خصوصیت حاصل نہیں۔
یہ وہی پتھر ہے جسے حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر اپنے قد سے اونچی خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھاتے وقت استعمال کیا۔
اس امرکی صراحت قرآنِ پاک کی اس آیت میں ہے: فِیْہِ آیَاتٌ بَیِّـنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیْمَ (آلِ عمران۹۷)
اس میں واضح نشانیاں ہیں (جیسے) ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ۔
خانۂ کعبہ کے جنوب مشرقی بیرونی کونے میں جنت سے آیا ہوا پتھر نصب ہے، جوطواف کے آغاز کا مقام ہے۔ اور یہ بلا شبہ قدرت کی نشانیوں میں سے ایک عظيم نشانی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نَزَلَ الحَجَرُ الأسْوَدُ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَہُوَ أشَدُّ بَیَاضًا مِنَ اللَّبَنِ فَسَوَّدَتْہُ خَطَایا بني آدم۔ (سنن ترمذی۸۶۵) حجر اسود جنت سے اترا ہے اوراس وقت وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، پس اس کو انسانوں کی خطائوں نے میلا کردیا۔
دنیا کے سب سے زیادہ مقدّس پانی کا قدیم چشمہ ، زمزم ، اسی خانہ کعبہ کے قریب ہے، اس پانی کو لاکھوں مسلمان دنیا کے گوشہ و کنار سے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔
خانۂ کعبہ کی فضیلت کا ایک خصوصی پہلویہ بھی ہے کہ یہاں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے مسند أحمد کی روایت ہے حدیث کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ نے ارشاد فرمایا:” صلاة في مسجدي هذا أفضل من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام، وصلاة في المسجد الحرام أفضل من صلاة في مسجدي هذا بمائة صلاة. رواه أحمد وصححه ابن حبان.
”میری اس مسجد میں نماز اس کے علاوہ مساجد میں ہزار نمازوں سے افضل ہے، سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں نماز اس کے علاوہ مساجد میں ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔
خانۂ کعبہ ہی کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ وہ روئے زمین میں انسانوں کی سب سے پہلی عبادت گاہ ہے، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس سے قبل کوئی ایک بھی ایسی عبادت گاہ کائنات میں موجود نہیں تھی جسے اللہ کا گھر کہا گیا ہو ۔ اس کی تصدیق قرآن مجید میں بھی ہے ارشادِ باری تعالی ہے: إنَّ أوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ للناسِ لَلَّذِي بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً و ہُدیً للناسِ۔
بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لئے (بغرض عبادت) بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت ہے اور جہانوں کے لئے موجب ہدایت ہے۔
یہ چوتھے پارے کے پہلے رکوع کی پانچویں آیت ہے، اس میں خانۂ کعبہ کو’’اَوَّلَ بَيْتٍ‘‘ یعنی پہلا گھر قرار دیا گیا ہے۔
آیت کریمہ میں یہ بات بھی دو ٹوک کہی گئی ہے کہ خانۂ کعبہ بابرکت ہونے میں بھی سب سے ممتاز ہے۔
اسلام سے پہلے بھی اس کی حرمت ، حفاظت و صیانت الله نے شریف نسل عربوں کے ذریعہ فرمائی اور پیغمبر اسلام کے توسط سے مسلمانوں کو تا قیامت اس کا محافظ و پاسبان بنا دیا۔
اس مبارک گھر کو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن اور آپ کی جائےولادت ہونے کا شرف حاصل ہے، اللہ کے پیارے حبیب نے بحکم الہی ہجرت فرمائی مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اسے چھوڑا،نہ اس سے تعلق توڑا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس سے ہٹ کردوسرے قبلہ کی طرف متوجہ ہوا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبلہ کی تبدیلی کا حکم آگیا۔
انہیں فیوض وبرکات، شان وعظمت کے باعث حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے بندگانِ الٰہی کو حکم دیا گیا کہ جو اس مبارک اور بابرکت گھر تک پہنچنے کی طاقت و قدرت رکھتا ہے،اس پر لازم ہے کہ وہ زندگی میں ایک باراس کی زیارت کے لیے ضرو رخت سفر باند ھے ارشادِ باری تعالی ہے: وَلِلَّهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلۡبَیۡتِ مَنِ ٱسۡتَطَاعَ إِلَیۡهِ سَبِیلا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِیٌّ عَنِ ٱلۡعَـٰلَمِینَ (سورۂ آلِ عمران ۹۷)
’’لوگوں پر اللہ کی طرف سے فرض ہے کہ اس کے گھر کا حج کرے، اور جو کفر و انکار کی روش اختیار کرے تو (یاد رکھو)اللہ تعالیٰ تمام جہاں والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔
غور فرمائیں اس آیت میں استطاعت یعنی قدرت و طاقت رکھتے ہوئے حج نہ کرنے کو’’کفر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی حج کی فرضیت کے بعد جو اس سے انکار و انحراف کی روش اختیار کرے توخطرہ ہے کہ اس کا ایمان اس سے رخصت ہو جائے۔
حضرت عمرسے موقوفا روایت ہے’’من ملك زاداً وراحلة تبلغه إلى بيت الله ولم يحج فلا عليه أن يموت يهودياً أو نصرانياً‘‘ (ابن ابی شیبہ ۳ ۔۳۶)
’’جو شخص زادِ راہ اور سواری کا مالک ہے جو اس کو بیت اللہ تک پہنچا دے اور وہ حج نہ کرے تو پھر کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ یہودی مرے یا عیسائی۔
دینی بھائیو: حج ایک عبادت ہی نہیں دین اسلام کا اہم ترین رکن ہے طاقت رکھتے ہوئے بھی اس فریضہ کی ادائیگی میں سستی اور کوتاہی بہت بڑی محرومی ہے۔
بصد افسوس ہمارے معاشرے میں یہ کوتاہی بہت عام ہوتی جا رہی ہے با وجودیکہ ایسا کرنے کی سخت وعید آئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس مرفوعا بیان فرماتے ہیں کہ ’’تعجَّلوا إلى الحجِّ – يعني الفريضةَ – فإنَّ أحدَكم لا يدري ما يعرِضُ له‘‘ (مسند احمد 1/313 ) وحسنه الالباني
جو حج کرنا چاہتا ہو اسے چاہئے کہ وہ جلدی کرے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ آگے کیا پریشانی آجائے۔
معلوم ہوا کہ حج کا فریضہ ایسا نہیں ہے کہ اگرچاہیں تو ادا کر لیں اوراگرچاہیں تو چھوڑ دیں کیونکہ استطاعت کے باوجود تاخیریا سستی ایمان سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔
رب کریم سے میری یہ دعا ہے کہ اس گھرکی شان وعظمت کو دوبالا فرمائے، اپنے محترم گھر کی زیارت کی بار بار توفیق عطا فرما، جو لوگ تیرے گھر تک پہونچنے کے لئے بے تاب ہیں لیکن زاد راہ کی کمی راہ روکے ہوئے ہے تو انہیں اپنے فضل اور توفیق سے نواز دے اور ان کے مال میں بڑھوتری عطا فرما ،جو لوگ جسمانی کمزوری یا مرض کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اور تیرے محترم گھر کے دیدار کے وہ متمنی ہیں ان کو تو صحت وتندرستی عطا فرما تاکہ ان کی یہ حسرت پوری ہو سکے۔ آمین۔