تحریر: أبو أسامہ مدنی
عن عبدالله بن عمر قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم قعودا فذكر الفتن فأكثر في ذكرها حتى ذكر فتنة الأحلاس فقال قائل: يا رسول الله وما فتنة الأحلاس؟ قال: ((هي فتنة هَرَب وحَرَب ثم فتنة السراء دخلها أو دخنها من تحت قدمي رجل من أهل بيتي يزعم أنه مني وليس مني إنما وليّي المتقون ثم يصطلح الناس على رجل كورك على ضلع ثم فتنة الدهيماء لا تدع أحدا من هذه الأمة إلا لطمته لطمة فإذا قيل: انقطعت تمادت يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسى كافرا حتى يصير الناس إلى فسطاطين فسطاط إيمان لا نفاق فيه وفسطاط نفاق لا إيمان فيه إذا كان ذاكم فانتظروا الدجال من اليوم أو غد
تخریج:أخرجہ ابو داؤد برقم (۴۲۴۲)و أحمد فی مسندہ برقم(۶۱۶۸),و ابن زنجویہ فی الأموال برقم(۱۰۳۹),و البیہقی فی شعب الإیمان برقم(۱۸۸۳۴), من حدیث عبد اللہ بن عمر ۔رضی اللہ عنہما۔
حکم ِ حدیث : حدیث صحیح ہے, صححہ الألبانی فی صحیح ابی داؤد برقم(۴۲۴۲), و فی السلسلۃ الصحیحۃ برقم(۹۷۴) و فی صحیح الجامع برقم:(۴۱۹۴)و الأرناؤط فی تخریج المسند برقم (۶۱۶۸) و فی شرح السنہ برقم(۴۲۲۶)و أحمد شاکر فی تحقیق المسند(۹/۲۴)
ترجمہ: (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے فتنوں کا تذکرہ کر رہے تھے، آپ نے بھی ”فتنہ احلاس“ سمیت بہت سے فتنوں کا ذکر کیا۔ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! فتنہ احلاس سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”فتنہ احلاس سے مراد جنگ و جدل اور شکست و ریخت کا زمانہ ہے، پھر خوشحالی و آسودگی کا فتنہ ابھرے گا، اس کی ابتداء اور سرپرستی و ذمہ داری ایسے آدمی کے ہاتھ میں ہو گی، جو اپنے گمان کے مطابق مجھ سے ہو گا، حالانکہ وہ مجھ سے نہیں ہو گا، میرے دوست تو پرہیزگار لوگ ہیں، پھر لوگ ایسے شخص پر صلح کریں گے، جو مستقل طور پر بادشاہت کے لائق اور اس کا اہل نہیں ہو گا۔ اس کے بعد بھیانک آفت و مصیبت پر مشتمل فتنہ نمودار ہو گا، وہ اس امت کے ہر فرد کو ہلا کر رکھ دے گا۔ جب کہا جائے گا کہ فتنہ ختم ہو چکا، تو حد سے بڑھ کر سامنے آئے گا۔ بندہ بوقت صبح مومن ہو گا اور شام کو کافر۔ لوگ دو جماعتوں میں بٹ جائیں گے: ایک جماعت صاحب ایمان ہو گی، اس میں کوئی نفاق نہیں ہو گا اور دوسری جماعت صاحب نفاق ہو گی، اس میں کوئی ایمان نہیں ہو گا، جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا تو دجال کا انتظار کرنا وہ اسی دن آ سکتا ہے، یا پھر اگلے دن آ جائے گا)
تشریح : اس حدیث میں کئی باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے
(۱)اس حدیث میں قرب قیامت کی نشانیوں میں سے کچھ نشانیاں بتائی گئی ہیں جو حرف بہ حرف ثابت ہورہی ہیں
(۲)اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ آخری وقت میں فتنے بہت زیادہ نمودار ہوں گے
(۳)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے,کب اس کے ایمان پر خطرہ منڈلا جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے
(۴)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں لڑائی جھگڑے خوب ہوں گے,اور ایک ایک مرد ِ مؤمن کو ایسی صورت حال میں انتہائی چاق و چوبند رہنا چاہئے اور اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے
(۵)قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ لوگ نا اہلوں کو اپنا پیشوا,رہبر,رہنما,قائد اور مصلح ماننے لگیں گے ,جیسا کہ نبی ٔ کریمﷺ نے ایک دوسری حدیث میں صاف طور پر واضح فرمادیا ہے,جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ۔رضی اللہ عنہ۔ فرماتے ہیں: (بيْنَما النبيُّ ﷺ في مَجْلِسٍ يُحَدِّثُ القَوْمَ، جاءَهُ أعْرابِيٌّ فَقالَ: مَتى السّاعَةُ؟ فَمَضى رَسولُ اللَّهِ ﷺ يُحَدِّثُ، فَقالَ بَعْضُ القَوْمِ: سَمِعَ ما قالَ فَكَرِهَ ما قالَ. وقالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ لَمْ يَسْمَعْ، حتّى إذا قَضى حَدِيثَهُ قالَ: أيْنَ – أُراهُ – السّائِلُ عَنِ السّاعَةِ قالَ: ها أنا يا رَسولَ اللَّهِ، قالَ: فَإِذا ضُيِّعَتِ الأمانَةُ فانْتَظِرِ السّاعَةَ، قالَ: كيفَ إضاعَتُها؟ قالَ: إذا وُسِّدَ الأمْرُ إلى غيرِ أهْلِهِ فانْتَظِرِ السّاعَةَ)(بخاری حدیث نمبر:(۵۹)
(۶)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل تقوی و خشیت نبی ٔ کریمﷺ کے قریبی لوگوں میں سے ہیں,اور نبیﷺ کو ارباب ِ خشیت انتہائی محبوب ہیں
(۷)اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگ نبی ﷺ کے قریبی ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر وہ حقیقت میں آپﷺ کے قریبی بالکل بھی نہیں ہوتے