سراج کریم سلفی
اجمل خاں طبیہ کالج، علی گڑھ مسلم ، علی گڑھ
موجودہ حالات میں امت مسلمہ قسم قسم کی پریشانیوں میں مبتلا ہے، اسے متعدد چیلنجز کا سامنا ہے،دینی، سیاسی، سماجی و معاشرتی، اقتصادی، تعلیمی اور دیگران گنت مسائل ومشکلات اسے لقمہ اجل بنانے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔کہیں مسلمانوں کی شناخت خطرے میں ہے تو کہیں خود ان کا وجود ۔اسلام دشمن عناصر اسلام اور مسلمانوں کو نیست ونابود کر دینا چاہتے ہیں,۔اس وقت باطل طاقتوں کی جانب سے سب سے زیادہ شعائر اسلام کو ٹارگیٹ کیاجاتا ہے، مسلمانوں کے لیے بڑا چیلنج ہے کہ وہ شعائر اسلام کا دفاع اور تحفظ کیسے کریں۔ سطور ذیل میں شعائر اسلام پر باطل عناصر کے حملے اور اس کے تحفظ سے متعلق روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
شعائر کیا ہیں
شعائر ’’شعیرۃ‘‘ کی جمع ہے، بوزن فعیلۃ جس کےمعانی نشانی اور علامت کے ہیں۔ ۱؎
شرعی ا صطلاح میں شعائر سے مراد عبادات کے مکانات، زمانے اور علامات ہیں۔ اما م ازہری فرماتے ہیں’’الشعائر المقالۃ التی ندب اللہ الیھا وامر بالقیام علیھا۔اور امام جوہری فرماتے ہیں’’ الشعائر اعمال الحج وکل ما جعل علما لطاعۃ اللہ‘‘ ۲؎ (شعائر سے مراد اعمال حج اور وہ تمام اعمال اور امور ہیں جنہیں اللہ تعالی کی اطاعت کی نشانی مانے جاتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں’’شعائر سے مراد وہ ظاہری و محسوس امور ہیں جو اس لیے مقرر کیے گئے ہیں کہ اس کے ذریعہ اللہ کی عبادت کی جائے۔ ان امور کا ذات الہی سے ایسا مخصوص تعلق اور نسبت ہے کہ لوگوں کے نزدیک ان کی تعظیم اور عظمت و حرمت گویا ذا ت الہی کی عظمت و حرمت ہے، اور ان سے متعلق کسی قسم کی کوتاہی اور تساہلی گویا اللہ رب العالمین کے حضور تساہلی اور کو تاہی ہے۔ ان امور کی عظمت و حرمت ان کے دلوں میں اس طرح پیوست ہیں کہ جن کا دلوں سے نکلنا اسی صورت میں ممکن ہے کہ ان کے دل کاٹ دیئے جائیں۔شاہ صاحب آگے فرماتے ہیں’’بڑے بڑے شعائر چار ہیں۔ قرآن کریم، کعبۃ اللہ، نبی کریم ﷺ اور نماز۔ ۳؎
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اپنی تفسیر فتح العزیز میں درج ذیل امور کو شعائر قرار دیتے ہیں۔ کعبہ، عرفہ، مزدلفہ، جمار ثلاثہ، صفا، مروہ، منی، جمیع مساجد، ماہ رمضان، اشہر حرم، عید الفطر، عید النحر، ایام تشریق، جمعہ، اذان، اقامت، نماز ، جماعت، نماز عیدین۔۴؎
مفسرین و محدثین کی تشریحات و توضیحات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے شعائر سے مراد وہ چند امور نہیں ہیں جن کا خصوصیت کے ساتھ نصوص میں تذکرہ آیا ہے بلکہ شعائر اسلام سے مراد وہ تمام عبادات، مقدس مقامات، ایام ، زمانے اور تہوار ہیں جن کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے، جن سے اللہ رب العزت کی عظمت و تقدس وابستہ ہے۔ جن پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالیٰ کا تقرب اور خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے اور جن کی بے حرمتی پر وعید سنائی گئی ہے یا ممنوع ہے۔
شعائر اسلام کے خلاف غیروں کا یلغار
موجودہ حالات میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل میں سب اہم مسئلہ شعائر اسلام اور دین کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔ یوں تو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف روزاول سے ہی سازشوں، ریشہ دوانیوں اور الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے،دین کو نیست و نابود کرنے اور اس کی تعلیمات کو مجروح و مشکوک بنانے کی کوشش ہوتی رہی ہے، مگر زمانے اور حالات کے بدلاؤ کے ساتھ اس کی شکلیں اور طریقے بدلتے رہے ہیں۔ چوں کہ یہ وقت سائنسی عروج کا دور ہے، عالمی پیمانے پر تہذیبوں اور ثقافتوں کا ٹکراؤ ہے، انسانیت انسانی تہذیب سے ماوراء ہوتی جارہی ہے، آزادی کا ایک نیا اور تباہ کن جنون سوار ہے۔ پوری دنیا میں سیاسی ماحول گرم ہے۔ عالمی سیاست میں ملکوں کے درمیان ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی ہوڑ چل رہی ہے۔ملکی سطح پر قومیں اور سیاسی پارٹیاں متصادم ہیں۔ عالمی سطح پر غلط مقاصد کے حصول کے لیے اخلاقیات کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔ انسانیت کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ایسے وقت میں اگر ان کے مذموم عزائم کے بیچ کوئی سد راہ ہے تو وہ اسلام اور مسلمان ہیں۔یہی وجہ ہے آج ساری باطل طاقتیں اپنے ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے اسلام اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے ’’ الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ کے مصداق متحد ہیں۔باطل طاقتوں کی جانب سے شعائر اسلام کے خلاف دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اسلام کے بنیادی ڈھانچوں کو نت نئے طریقوں اور حیلوں سے مجروح اور مشکوک کیا جارہا ہے۔کبھی مسلمانوں کی شناخت کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو کبھی اسلام کی روح اور اس کی بنیاد پر حملے کرکے مسلمانوں کے دلوں میں خنجر گھونپا جاتا ہے۔ آج نہ صرف داڑھی، حجاب اور کرتے پاجامے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں بلکہ اس کی عائلی زندگی میں دخل اندازی ہورہی ہے، اسی پر اکتفا نہیں ہے بلکہ سارے حدود پھاندتے ہوئے آزادی اظہار خیال کا سہارا لے کر اسلام کی روح اور مسلمانوں کے دلوں میں بسنے والی ہستی یعنی نبی آخر محمد ﷺاور جسم کو روحانی غذا مہیا کرنے اور ظلمات میں دیئے جانے والی کتاب یعنی قرآن کریم کو مجروح کرنے کی بارہا کوشش ہوتی رہی ہے۔
یوں تو پورا دین ہی باطل طاقتوں کے نشانے پر ہے مگر اسلام کے کچھ بنیادی شعائر ہیں جو سب سے زیادہ ان کے نرغے میں رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ان شعائر کو مشکوک و مجروح قرار دے کر اسلام کی بنیاد ڈھا دینا چاہتی ہیں۔ کیوں کہ انہیں شعائر پر اسلام کی بلند عمارت کھڑی ہے۔ یہاںچند بنیادی شعائر اسلام کا تذکرہ کیا جارہا ہے جو روز اول سے ہی باطل کے نشانے پر رہے ہیں۔
توہین رسالت
رسالت کی توہین اور نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کی شبیہ بگاڑنے کی کوشش باطل طاقتوں اور دشمنان اسلام کی طرف سے ہمیشہ سے کی گئی ہے۔ کبھی انفرادی طور پر تو کبھی اجتماعی طور پر۔ آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کا آغاز تو ابتداء اسلام سے ہی ہوگیا تھااور اس کی ایک تاریخ رہی ہے مگر گذشتہ چند صدیوں اور سالوں سے اس کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ اس کے لیے نئے طریقے اپنائے جارہے ہیں۔کبھی تقریر تو کبھی تحریر اور کبھی فلم و کارٹونز۔مغرب میں آپ ﷺ کی سیرت کو داغدار کرنے کی بات کی جائے تو اس کی ایک لمبی داستان ہے۔۱۹۶۰ء کی دہائی میں نارمل ڈینیل نے ’’ اسلام اینڈ دی ویسٹ‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس میں اسلامی تعلیمات اور آپ ﷺ کے متعلق مغرب کے معاندانہ رویہ کا جو خلاصہ پیش کیا اسے پڑھ کرکسی بھی شریف انسان کی غیرت جوش میں آسکتی ہے۔ نبی رحمت کے حوالے سے ان کی تحریریں اتنی شرمناک ہیں کہ نقل کرتے ہوئے روح کانپ جاتی ہے۔
۱۹۸۸ء میں نام نہاد مسلم نژاد سلمان رشدی نے اپنے آقاؤں صیلبیوں اور یہودیوں کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے ’’شیطانی آیات‘‘ جیسے ناول لکھی۔ جس میں نبی کریم ﷺ کی سیرت وکرادر کو داغدار کرنے کے لیے پوری قوت جھونک دی اور اپنی ذہنی غلاظت انڈیل دی ہے۔اسی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے ملعون زمانہ تسلیمہ نسرین نے نبی رحمت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے خلاف زہر اگلی۔
یورپ میں باضابطہ طورپر توہین رسالت کا منصوبہ بلڈربر گروپ کانفرنس میں تیار ہوا اور اسی سال ستمبر میں اس کا پہلا خاکہ شائع ہوا۔۵ مئی ۲۰۰۵ء کی بلڈر برگروپ کی کانفرنس کے حوالے سے ویبسٹر گریفین نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ’’اس بات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ (توہین رسالت پر مبنی) کارٹونز کے ذریعے اشتعال پھیلانے کا منصوبہ اس کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا۔‘ــ‘۵؎
۲۰۰۶ء میں ڈنمارک کے قومی اخبار نے رسول ﷺ کی گستاخی پر مشتمل کارٹون شائع کیا۔توہین رسالت اور مسلمانوں کی دلی آزاری و دلسوزی کے لیے اس کارٹون کو متعدد بار شائع کیا گیا اور خوب اس کی تشہیر کی گئی۔یہ چندجھلکیاں ہیں اس کے علاوہ بارہا ہر زمانے توہین رسالت اور شان اقدس میں گستاخی کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
توہین رسالت کا سب خطرناک پہلو نبوت کا دعوی کرنا ہے، عہد نبوت سے ہی نبوت کے متعدد جھوٹے دعوتے رہے ہیں چاہے وہ مدعی نبوت مسیلمہ کذاب ہو یا اسود عنسی یا انیسویں صدی میں ہندوستان کے مرزا غلام احمد قادیانی۔اول الذکر دونوں کذابوں کا کوئی پیروکار تو نہیں رہا البتہ آخر الذکر نے اپنی ذہنی غلاظتوں کو پھیلانے کے لیے اپنے پیچھے ایک گروہ چھوڑ رکھا جو قادیانی کے نام سے جانا جاتاہے۔ اس گروہ کے ہرکارے قلیل تعداد میں تقریبا دنیا کے ہر گوشہ میں پھیلے ہوے ہیں جو مختلف مواقع پر توہین رسالت کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔یہ بات بعید نہیں ہے کہ ان کے سر پر ایجنسیوں کا ہاتھ ہو۔
قرآن کریم کی بے حرمتی
یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالی کی آخری کتاب ہے اور مسلمانوں کا عروج و زوال اس کتاب مبین سے مربوط ہے۔ یوروپی مفکرین و دانشوران کو بھی اس حقیقت کا اعتراف ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی عظمت و رفعت اور قوت و طاقت کااصل سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ انہیں یقین ہے کہ جب تک مسلمانوں کے دلوں میں قرآن کریم کی عظمت و تقدس اور اس کی حکمرانی ہے اس وقت تک مسلمانوں کو لمبے عرصے تک مغلوب کرنا یا ان کا فکری اغوا کرنا ممکن نہیں ہے۔قرآن مسلمان کے پاس ایسا ہتھیار ہے جس سے لیس ہوکر وہ کبھی بھی تہذیبی و ثقافتی غلبہ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے اسلام دشمن عناصر کا اعتقاد ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کے دلوں سے قرآن کا تقدس اور اس کے علوم و افکار محو کیے جائیں اور قرآن کے متعلق عوام الناس میں شکوک و شبہات پیدا کئے جائیں۔
ایک مستشرق گلیڈ سٹون رقمطراز ہے کہ جب تک یہ قرآن مسلمانوں کے پاس رہے گا اس وقت تک پوروپ کے لیے مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق پر اپنا قبضہ و تسلط برقرار رکھنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے حتی کہ جب تک یہ قرآن مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر حکمراں رہے گا اس وقت تک یوروپ مسلمانوں کی جانب سے خود اپنے وجود اور اپنے امن و سلامتی کے حوالے سے بھی محفوظ نہیں سمجھ سکتا ہے۔یہی وجہ ہے قرآن اور اس کی تعلیمات کے متعلق لوگوں کوبرگشتہ کرنے کا شیوہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ قرآن کو مسخ کرنا ان کا منصوبہ ہے ، اس مقصد کے تحت ایجنسیاں اور تنظیمیں تشکیل دی گئی جن کے ذمہ قرآنی تعلیمات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا اور ان آیات کی تشہیر کرنا ہے جن کو بنیاد بنا کر لوگوں میں قرآن کے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی جاسکیں۔
اسلام دشمن عناصر کی طرف سے اپنے سینوں میں جل رہی آگ کو بجھانے اور مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے لیے قرآن کریم کے نسخے جلانے کی مذموم کوششیں ہوتی رہی ہیں،آئے دن اس کے طرح واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں ناروے کا واقعہ ابھی ہمارے ذہنوں سے محو نہیں ہوا ہے جہاں چوراہے پر بھیڑ میں قرآن کا نسخہ جلانے کی کوشش کی گئی۔
باطل طاقتوں اور اسلام دشمن عناصر نے قرآن کریم کو مسخ کرنے کے لیے ایک نئی چال چلی ہے۔ ان کا منصوبہ ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفسرین اور محققین تیار کیے جائیں جو ان کے منصوبے کے مطابق قرآنی آیات کی تشریح و توضیح کریں۔اس پر ان کی متعدد ایجنسیاں کام کررہی ہیں۔
مقدس مقامات، مساجد اور مدارس پر حملے
موجودہ حالات میں جو شعائر سب سے زیادہ دشمنان اسلام کی نظر بد کا شکار رہے ہیں انہیں میں سے مقدس مقات جیسے بیت اللہ، مسجد اقصی اور دیگر مقامات، مساجد اور مدارس ہیں۔بیت اللہ مسلمانوں کا قلب ہے، یہ وہ مرکزی جگہ ہے جہاں مسلمانان عالم ہر سال مختلف گوشے اور خطے سے جوق در جوق تشریف لاتے ہیں۔ زبان وبیان، تہذیب و ثقافت کے اختلاف کو پیروں تلے روندتے ہوئے، المسلم اخ المسلم‘‘ کے مصداق سب ایک صف میں اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں۔اسی طرح مساجد عبادات کے مراکز ہیں۔ مسجدوں کو مرکزیت کا درجہ حاصل ہے، جہاں مسلمان بغیر کسی بھید بھاؤ کے پانچ وقت ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ مساجد سے مسلمانوں کا قلبی اور روحانی لگاؤ ہوتا ہے۔ یہاں انہیں ایمانی طاقت و حرارت ملتی ہے۔ یہ اتحاد واتفاق کی کڑی ہے۔مدارس اسلام کا پاور ہاؤس ہے، جہاں دین کے محافظ اور قوم کے جیالے پروان چڑھتے ہیں۔دشمنان اسلام نہیں چاہتے کہ مسلمان متحد ہوں، ان کے اندر ایمانی حرارت پیدا ہو، دین کے محافظ اور قوم کے سپہ سالار تیار ہوں۔ اس لیے روز اول سے ہی یہ شعائر ان کے نرغے میں رہے ہیں۔ بیت اللہ پر اسلحاتی حملہ کی ابھی تک تو جرأت نہیں کی جاسکی ہے ؛البتہ فکری یلغار اور بے جا اعتراضات ہوتے رہے ہیں، بدگمانیاں پھیلائی جاتی رہی ہیں۔ مساجد و مدارس پر نہ صرف فکری یورش ہوئی ہے، انہیں دہشت گردی کا اڈہ قرار دیا گیا ہے بلکہ مساجد و مدارس مسمار کیے جانے کی تاریخ رہی ہے۔ چاہے وہ بیت المقدس پر ظالمانہ تسلط ہو یا بابری مسجد کی مسماری۔ چاہے وہ نماز کی حالت میں بم دھاکے کے واقعات ہوں یا رات کی تاریکی میں انہدام کی مذموم حرکت۔ الغرض ان پر یلغار مختلف طریقے سے جاری ہے۔
دشمنان اسلام کے منصوبے
یہ بات قابل غور ہے کہ شعائر اسلام پر یلغار کے پیچھے باطل عناصرکے منصوبے اور عزائم کیا ہیں۔ کیا یہ سیاسی جنگ ہے یا تہذیبی و ثقافتی ٹکراؤ؟۔ ان کے افکارو نظریات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اسے نہ تو خالص تہذیبی و ثقافتی ٹکراؤوتضاد قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سیاسی مڈبھیڑ اور جنگ۔ ان کے پیش نظر دونوں ہی چیزیں ہیں۔ یہ ایک طرف جہاں قرآن کریم کے مصداق’’ یُرِیْدُونَ أَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاہِہِم ‘‘ (سورہ توبہ: ۳۲) اسلام کو جڑ سے نیست و نابود کر دینا چاہتے ہیں۔وہیں سیاسی میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی حرص و طمع میں مبتلا ہیں۔ان کے عزائم درج ذیل سطور سے واضح ہوتے ہیں۔امریکہ کے ایک سابق صدر کے مشیر خاص کا بیان ہے۔
’’ہمیں یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ ہمارے اور عرب اقوام کے مابین پائے جانے والے اختلافات مجرد دو مختلف ریاستوں یا مختلف قوموں کے مابین پائے جانے والے اختلافات نہیں ہیں۔ بلکہ یہ اختلافات در اصل اسلامی اور مسیحی تہذیبوں اور ثقافتوں کے مابین پائے جانے والے اختلافات ہیں۔‘‘۶؎
ایک مشہور مستشرق گارڈنر لکھتا ہے
’’صلیبی جنگوں کا مقصد بیت المقدس کو آزاد کرنا نہیں بلکہ ان کا اصل مقصد اسلام کو تباہ کرنا تھا۔۷؎
ایک اور مستشرق کیمون لکھتا ہے
’’میرا پختہ اعتقاد ہے کہ کم از کم مسلمانوں کی کل آبادی کے ایک بٹا پانچ حصہ کو بالکل تباہ کردینا چاہئے، ایسا کرنا یورپ کے مادی و معنوی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی ضروری ہے، بقیہ مسلم آبادی کو محنت و مزدوری اور انتہائی مشقت طلب کاموں میں جبرا اور قہرا لگادیاجائے۔ ہم یورپ والوں پر واجب ہے کہ کعبہ گرادیں، اور محمد ﷺ کی قبر اکھاڑ کر ان کی نعش اور ہڈیاں (نعوذباللہ من ذلک) نکال کر لوفر کے عجائب خانے میں زینت بنادیں۔۸؎
مذکورہ اقتباسات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کس قدر ان کے دلوں میں اسلام اور شعائر اسلام سے متعلق نفرت ہے۔
شعائر اسلام اور ہمار طرز عمل
شعائر اسلام کے تئیں ہمارا طرز عمل دن بدن افسوسناک ہوتا جارہا ہے۔یہ سچ ہے کہ جب دشمن عناصرکی طرف سے کسی شعار کی بے حرمتی کی جاتی ہے تو ہماری ایمانی حمیت و غیرت جاگ اٹھتی ہے اور اس کے دفاع میں جان و مال قربان کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن کیا کبھی یہ غور کرنے کی کوشش کی گئی کہ جس کی بے حرمتی پر ہم سر بکف ہوجاتے ہیں،خودہمارا اس کے ساتھ کیا رویہ رہتا ہے۔ اسلام کے بنیادی شعائر کے تئیں ہمارا سلوک نہایت افسوس ناک ہے۔نبی کریم ﷺ جن سے ہم محبت کا دم بھرتے ہیں لیکن سنتوں کی پیروی کرنے اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے بے گانہ ہیں۔ قرآن کریم جو کتاب حیات ہے اسے کتاب رمضان بنالیا ہے۔ مدتوں گزرجاتی ہے تلاوت کی توفیق نہیں ہوتی چہ جائے کہ اس کی تعلیمات اور افکار نظریات پر غور و فکر کی جائے اور انہیں عام کیا جائے۔مسجد اور نماز کے متعلق ہمارا حال ٹھیک اس شعر کے مطابق ہے کہ
مسجد تو بنالی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا۔
اذان کی آواز کانوں سے ٹکرا رہی ہوتی ہے اور ہم اپنے میں مگن رہتے ہیں۔ اور نہ جانے کتنے ہم میں سے اپنے معمولات زندگی میں دانستہ یا ناداستہ طورپر شعائر اسلام کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ ہمارا جرم اتنا بڑا نہیں جتنا کہ اسلام دشمن عناصر کا۔ لیکن اس کے باوجود ہم اپنے آپ کو اس سے جدا نہیں کرسکتے۔ہم اپنے اس طرز عمل سے روز قیامت بازپرسی اور جواب دہ سے بچ نہیں سکتے۔ہمارے اوپر تو دوہری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ایک شعائر اسلام کی تعظیم اور اس کی بجاآوری کی اور دوسری ان سے ناواقف یا ان سے متعلق غلط فہمیوں کے شکار لوگوں تک صحیح معلومات پہنچانے کی۔
شعائر اسلام کا حکم
شعائر اسلام کی تعظیم و تقدیس ایمان کا حصہ ہے، مسلمانوں پر شعائر کا احترام، اقامت اور اظہار واجب ہے۔کسی شعار کی بے حرمتی یا ترک کرنا باعث گناہ ہے۔ سورہ حج میں شعائر کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے اور اسے تقوی کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔
ذَلِکَ وَمَن یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّہِ فَإِنَّہَا مِن تَقْوَی الْقُلُوبِ۔ (سورۃ الحج:۳۲)
’’یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقوی سے ہے۔‘‘
سورہ مائدہ میں اس کی بے حرمتی سے منع کیا گیا ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّہ(سورۃ المائدۃ:۲)
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، خدا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو۔‘‘
فقہاء عظٖام نے شعائر کی تعظیم کو واجب قرار دیا ہے اور کسی شعار کا ترک کرنا قابل گرفت ٹھہرایا ہے۔ متعدد کتب فقہ میں مذکور ہے کہ۔
’’تمام مسلمانوں پر شعائر کی تعظیم وتکریم، اقامت اور اظہار واجب ہے۔ اگر کسی ملک، شہر یا بستی والے اجتماعی طور پر کسی شعار کوخواہ اس پر عمل کرنا فرض ہو یا سنت مؤکدہ۔ ترک کرنے پر متفق ہوجائیں تو ان سے قتال ضروری ہے۔۹؎
شعائر کے تعلق سے چند باتیں ذہن نشین رہنی چاہئے
:۱۔شعائر وہی ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے۔ اس میں کمی یا زیادتی نہیں کی جاسکتی ہے
۔۲۔شعائر کی تعظیم و تکریم کے حدود اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے متعین کردہ ہیں۔ جن کا التزام لازم ہے، اس میں کسی طرح کا انحراف روا نہیں ہے
۔۳۔شعائر دراصل کسی خاص حقیقت کے علامات ہیں۔ ان کے احترام کے وقت اصل حقیقت ذہن میں رہنی چاہئے۔
شعائر اسلام کا تحفظ
گذشتہ صفحات میں واضح کیا گیا کہ کس طرح اسلام اور شعائر اسلام پر پے در پے حملے ہورہے ہیں۔ ایک طرف اسلام دشمن عناصر کی طرف سے مسلسل یلغار ہورہی ہے تو دوسری طرف مسلمان بے عملی کے شکار ہیں۔ ایسے وقت میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کا تحفظ کیسے ہو۔اس تعلق سے چند باتیں ذکرکی جاتی ہیں
دین کا محافظ اللہ ہے
دین اسلام اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل کردہ ہے۔وہی اس کا محافظ ہے، یہ دین قیامت تک کے لیے ساری انسانیت کے لیے چنا گیا دین ہے۔ وہ تا ابد چمکتا اور دمکتا رہے گا اور لوگوں کے دلوں کو اسیر کرتا رہے گا۔اسے نست و نابود کرنے یا مسخ کرنے کی جتنی بھی کوشش کی جائے کسی ایک نشانی یا تعلیم کو نہیں مٹائی جاسکتی ہے، البتہ حالات کے بدلاؤ کے ساتھ اس کی تعلیمات اور پیروکار متعدد ومختلف سازشوں اور حملوں کے شکار ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیا مت جاری رہے۔اللہ تعالی نے باطل طاقتوں کے منصوبے بیان کیا ہے ساتھ ہی دین حق کے اتمام اور محافظت کی ذمہ داری بھی لے لی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
یُرِیْدُونَ أَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللّہُ إِلاَّ أَن یُتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُون ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُون۔ (سورئہ توبہ:۳۲۔۳۳)
’’یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھادیں۔ مگرا للہ اپنی روشنی مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺکو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے۔خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ۔(سورۂ حجر:۹)
’’رہا یہ ذکر تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔‘‘
ہماری ذمہ داریاں
دین کی تفہیم
دور جدید میں چیلنجز کا سامنا کرنے اور شعائر اسلام کے تحفظ کا سب سے مؤثر اور کارگر طریقہ دعوت دین ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے مخاطب کو پہچانیں اور اپنے منصب کا عرفان حاصل کریں،ہم داعی قوم ہیں، دوسری قومیں مدعو ہیں۔اسلام کی صحیح تعلیمات ان تک پہنچانا ہمارا فریضہ ہے۔قرآن ہمیں اس فریضے کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔سیرت سے بھی ہمیں یہی رہ نمائی ملتی ہے کہ خاموشی کے ساتھ اسلام کے پیغام کو عام کیا جائے۔آج پوری دنیا ایک ایسی فکر کی تلاش میں ہے جو اسے روحانی سکون و طمانیت کی ضمانت دے۔دنیاوی الجھنوں سے آزاد کرائے۔اور یہ بات مسلم ہے کہ وہ فکر صرف اور صرف اسلام ہے۔اسلام خوف و حزن سے مامون رکھتا ہے۔ دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔اسلام اور اس کی تعلیمات کے اندر بڑی کشش ہے۔اس کے اندر دلوں کو پسیجنے کا ہنر ہے۔اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ابتداء اسلام میں اسلام اور شعائر اسلام پر چوطرفہ حملے ہورہے تھے۔نبی ﷺ کو اپنے دعوتی مشن سے باز رکھنے کی ہر ممکن کوششیں ہورہی تھیں۔آپ ﷺ کو شاعر، کاہن ، جادوگر اور قرآن کو جادو، شعر اور کہانت وغیرہ سے منسوب کرکے بدگمانیاں پھیلائی جاتی تھیں۔اس وقت ایک دن مشرکین کا ایک سردار عتبہ آپ ﷺ کے سامنے حاضر ہوا اور پیش کش کی آپ کو مال چاہیے، اعزاز و اکرام چاہئے، بادشاہت چاہیے جو بھی چاہیے ہم دینے کے لیے تیار ہیں مگر آپ اپنی دعوت سے باز آجائیے۔جب وہ خاموش ہوگیا توآپ ﷺ نے فرمایا اب میرا سنو۔آپ ﷺ نے سورہ فصلت کی چند ابتدائی آیتوں کی تلاوت کی۔ ان آیات کا اس پر اتنا اثر ہوا کہ جب وہ اپنے ساتھیوں میں گیا تو کہا میں نے ایسا کلام سنا کہ واللہ ایسا کلام کبھی نہیں سنا تھا۔اللہ کی قسم یہ نہ شعر ہے نہ جادو، اور نہ کہانت ۔ میری رائے ہے کہ اس آدمی اس حال پر ہی چھوڑ دو۔
سیرت میں اس طرح کہ بہیترے واقعات موجود ہیں کہ اسلام کا سخت دشمن جسے اسلام کے بارے میں ایک لفظ سننا گوارا نہیں تھا، اس ڈر سے قرآن کی آیات کانوں میں نہ پڑ جائے روئی ڈال لی تھے ، جب ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی گئی، اسلام کی خوبیوں سے آگاہ کیا گیا تو وہ نہ صرف اسلام کی مخالفت سے باز آگیا بلکہ اسلام کا محافظ اور داعی بن گیا۔آج کے حالات اس سے مختلف نہیں ہیں، بلکہ آج دعوت و تبلیغ کے لیے زیادہ وسائل ہیں۔ضرورت ہے کہ ہم اپنے اس منصب کو پہچانتے ہوئے اور لوگوں تک اسلامی تعلیمات خاموشی کے ساتھ پہنچائیں۔
خدمت خلق
موجودہ حالات میں شعائر اسلام کے تحفظ اور دیگر چیلنجز کا کامیابی کے ساتھ سامنا کرنے کے لیے انسانیت کی بنیاد پر خدمت خلق کا فریضہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ خدمت خلق ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعہ خاموشی کے ساتھ دلوں کو اپنا گرویدہ بنا یا جاسکتا ہے اور ذہنوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے۔انسانیت کی حاجت روائی کرکے ذہنوں میں ڈالے گئے نفرت و عداوت کے زہر کو کافور کیا جاسکتا ہے، شکوک و شبہات کو ختم کیا سکتا ہے اور اخوت و بھائی چارگی کے جذبات پیدا کئے جاسکتے ہیں اور الفت و محبت پروان چڑھائے جاسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خدمت خلق کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور امت کو اس فریضے کی ادائیگی پر ابھارا گیا ہے اورسماج میں اس شخص کو بہتر قرار دیا گیا ہے جو دوسروں کے لیے سب زیادہ نفع بخش ہو۔۱۰؎
موجودہ حالات میں خدمت خلق وقت کا سب سے بڑا تقاضہ ہے ۔انسانیت کا بڑا طبقہ شدید سماجی و اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔ ایک بڑی تعداد کومفلسی و تنگی کی و جہ سے روٹی ، کپڑا و مکان تک میسر نہیں ہے۔ کروڑوں ضرورت مند اس انتظار میں ہیں کہ کوئی مسیحا بن کر اس کی حاجت روائی کرے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ انفرادی و اجتماعی طور پراور ہر سطح پر خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا جائے اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کیا جائے۔سیرت رسول ﷺ سے بھی ہمیں یہ سبق ملتا ہے ۔نبی کریم ﷺ نے تا عمر لوگوں کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی و دردمندی، احسان و ایثار اور خدمت خلق کا فریضہ انجام دیا۔بھوکوں کو کھانا کھلایا، پیاسوں کو پانی پلایا، یتیموں، بیو اؤں، کمزوروں اور مصیبت زدوں کی خبرگیری کی۔ ابتداء وحی میں جب نبی کریم ﷺ پریشانی کے عالم میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے توحضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ کے مذکورہ محاسن کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ صبر کریں اللہ تعالی آپ کو کبھی ہلاک نہیں کرے گا۔۱۱؎
عملی نمونہ پیش کیا جائے
اسلام اور مسلمانوں پر یلغار اور اسلام کے متعلق شکوک و شہبات اور غلط فہمیوںکی ایک بڑی وجہ خود مسلمانوں کی بد عملی ہے۔مسلمان جس کے ذمہ اسلامی احکام و قوانین کی افادیت کو ثابت کرنا اور اس کی روشن تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا ہے خود بے عملی کا شکار ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت دین سے دور ہے۔ عقائد ، اخلاق و معاملات ہر باب میں مسلمان بد عملی کے شکار ہیں۔دوسروں کو متاثر کر نے کے بجائے خود غیروں سے متاثر ہے۔اسلامی تعلیمات کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔۔ عام طور پر غیر مسلم مسلمانوں کے کردار کو دیکھ کر اسلام کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں جس کی وجہ وہ مسلمانوں کی بے عملی کو عین اسلام سمجھ بیٹھتے ہیں اور انہوں کے ذہنوں میں اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پرورش پانے لگتی ہے۔
ہمارا اعتقاد ہے کہ اسلام سب سے بہتر مذہب ہے۔ اس کے احکام و قوانین انسانی مصالح پر مبنی ہیں۔ اس کا نبی جہان والوں کے لیے رحمت ہے۔ اس کی کتاب قرآن کریم کتاب ہدایت اور کتاب شفاء و تسکین ہے۔لہذا ہمیں اسلام کی ان افادیتوں کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا۔اسلامی احکام کے اثرات ہماری زندگیوں اور مسلم معاشرے میں نظر آنے چاہئے۔کیوں کہ کسی بھی چیز کی اہمیت و افادیت اجاگر کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اسے عملی طور پر ثابت کیا جائے۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلام کا عملی اور سچا نمونہ بنائیں، ان کی زندگیاں اسلام کی چلتی پھرتی تصویر ہو۔
صبر وحکمت
موجودہ حالات میں شعائر اسلام کے تحفظ اور جدید چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صبر و حکمت کو مضبوطی سے تھام لیں۔غور و فکر کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کا ہر شعبہ صبر و حکمت کے فیض کا رہین منت ہے۔ایمان و اعمال صالحہ کے مفید ثمرات و نتائج کا ظہور صبر پر منحصرہے۔اس کے بغیر کسی بھی دشواری سے مزاحمت،چیلنج کا مقابلہ اور منزل مقصود کا حـصول ناممکن ہے۔یہی وجہ ہے قرآن و احادیث میں باربار صبر کی ترغیب دی گئی ہے اور اس کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ارشاد ربانی ہے؛
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ۔(آل عمران:۲۰۰)
’’مومنو! صبر کرو اور اس پر جمے رہو‘‘
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام نے ہر مرحلے میں صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور اپنا تبلیغی مشن جاری رکھایہی وجہ ہے انہوں نے دشوار ترین مراحل بھی آسانی سے طے کرلیا۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ اور سیرت طبیہ صبر سے مزین ہے جو ہمیں ہر میدان مین رہ نمائی فراہم کرتی ہے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ مقصد جس قدر بلند اور اعلی ہوگا صبر کی ضرورت اسی قدر زیادہ ہوگی۔اور دعوت دین، اعلائے کلمۃ اللہ اور صحیح عقیدے پر استقامت سے اعلی مقصد کیا ہوسکتا ہے۔
کسی بھی اعلی مقصد کے حصول کے لیے صبر کے ساتھ حکمت نہایت ضروری ہے، یہ دونوں لازم و ملزوم ہے۔کسی بھی عمل کے انجام دہی میں اگر حکمت سے کام نہ لیا جائے تو انجام کار نقصان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے قرآن و سنت میں حکمت کی راہ اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے او راس کی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’ اے نبی ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہترین ہو۔‘‘
آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ آپ ﷺ نے بڑی حکمت اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس وقت کے درپیش چیلنجز کا سامنا کیا اور اسلام کے سخت دشمنوں کو اسلام کے زیر نگیں کیا۔موجودہ دور میں اپنے موقف کی دعوت، ابلاغ اور اس کی تشہیر کے لیے صبر و حکمت سے کام لینا نہایت ضروری ہے۔ہمارے لیے چیلنج ہے کہ ہم اپنے موقف کو دلیل و برہان اور تحمل و شائستگی کے ساتھ سامنے والے کے دماغ میں اتاریں۔کبھی کبھی درست موقف بھی صبر و حکمت کے فقدان کی وجہ سے اپنی اہمیت کھودیتا ہے۔ـدشمنان اسلام کا منصوبہ یہی ہے کہ وہ شعائر اسلام پر یلغار کر کے ہمیں برانگیختہ کریں۔ اور ہم جذبات کے رو میں بہ کر صبر وحکمت کا دامن چھوڑ کر کوئی ایسا اقدام کرجائیں جس سے انہیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرنے کی راہ ہموار ہوجائے۔
استقامت
استقامت سے مراد اسلام کو عقیدہ، عمل اور منہج قرار دے کر مضبوطی کے ساتھ تھام لینا ہے۔استقامت دین کی روح اور پاور ہاؤس ہے۔یہ چیلنجز کا سامنا کرنے اور طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتی ہے۔نبی کریم ﷺ کی زندگی سراپا استقامت ہے۔ابتداء اسلام میں حالات اس سے کہیں زیادہ سخت تھے۔دشمنان اسلام نے اس دین کو کچلنے کی مختلف کوششیں کیں۔مگر آپ ﷺ نے استقامت کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھا۔ نتیجۃ آپ ﷺ کو کامیابی ملی۔اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ اور ان کے اصحاب کو استقامت اختیار کرنے اور شریعت سے تجاوز کرنے سے منع کیا ہے۔:
فَاسْتَقِمْ کَمَا أُمِرْتَ وَمَن تَابَ مَعَکَ وَلاَ تَطْغَوْاْ إِنَّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْر۔(سورۂ ہود:۱۱۲)
’’پس آؔپ جمے رہئے جیسا کہ حکم دیا گیا اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کرچکے ہیں، خبردار تم حد سے نہ بڑھنا، اللہ تعالی تمہارے تمام اعمال کو دیکھنے والا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں استقامت کی راہ چلنے والوں کو کامیابی کی بشارت سنائی ہے اور اسے خوف و حزن سے مامون قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ارشاد باری تعالی ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ ۔( سورۂ فصلت:۳۰)
’’جن لوگوں نے (دل سے) اقرار کرلیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر مستقیم رہے، ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور تم جنت کے ملنے پر خوش رہو، جس کا تم سے پیغمبروں کی معرفت وعدہ کیا جایا کرتا تھا۔‘‘
آیت کے ذیل میں مولانا سعید الرحمان اعظمی فرماتے ہیں ’’قرآن کریم کی یہ بشارت بہت عظیم ہے، اس کی اہمیت کا صحیح ادارک اسی مرد مومن کو ہوگا جس نے قرآن کی روشنی میں دین اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی حتی الوسع کوشش کی ہو، اور انفرادی واجتماعی زندگی میں اس کے اصول و ضوابط کو برتاہو، اسی ایمانی حقیقت سے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، مشکل سے مشکل قفل کھل سکتے ہیں، آج یہی ایمانی حقیقت تہذیبی چیلنجوں سے بر سرپیکار ہے۔مادی دلفریبیاں اور خوبصورت نعرے اور آوازیں ہر چہار جانب سے سنائی دے رہی ہیں ، لیکن اس کی قطعیت میں کوئی شک نہ پیدا ہوا اور نہ ہوگا، باطل طاقتوں کا تو حال یہ ہے اسلامی شعائر پر یلغار کرنے کی جان توڑ کوشش کررہی ہیں،جب ان کا کوئی حربہ ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے تو دوسرے نئے خطرناک ہتھیاروں کے ذریعہ ازسرنو یلغار شروع کردیتی ہیں، اور مسلمانوں کو ان کے سرچشمئہ حیواں سے دور رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتیں، لیکن جس قدر ان کی سازشیں رو بعمل آتی ہیں اسی قدر اسلام کی کرنیں پورے عالم کو بقعہ ٔ نور بناتی جارہی ہیں۔‘‘ ۱۲؎
مذکورہ اقتباس سے واضح ہوجاتا ہے تہذیبی چیلنجز اور شعائر کے تحفظ میں استقامت کی طاقت کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی اسی استقامت کا مظاہرہ کریں جس کا نبی کریم ﷺ نے کیا، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور اسلاف نے کیا، ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے شعائر اسلام کا دفاع کریں۔
قانونی قدامات
شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے مذکورہ نکات پر عمل درآمدی کے ساتھ ضروری ہے کہ ہم عالمی وملکی سطح پر تحفظ دین کے لیے ملنے والے قانونی اختیارات کا استعمال کریں۔ قانون ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے دین میں مداخلت کرنے والوں یا اس کی توہین کرنے والوں کے خلاف احتجاج کریں اور قانونی کاروائی کی مانگ کریں۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ احتجاج کی مختلف صورتوں کو اپنا کر ملکوں اور یو این اے سے شعائر کی توہین کرنے والوں کے خلاف سخت ترین سزا کی مانگ کرے تاکہ آئندہ کوئی دوسرا شخص اس کی جرأت نہ کرسکے،لیکن احتجاج کرتے وقت اس بات کا خیال رہے کہ ہم جذبات کی رو میں بہ کرایسے اقدام نہ کر بیٹھیں جس کی وجہ خود ہم اور مسلم قوم مصائب و مشکلات اور آزمائش میں مبتلا کر دئے جائیں۔
حوالہ جات
۱۔ انوار البیان فی حل لغات القرآن، محمد علی، ج:۱، ص:۱۶۴
۲۔فح الباری شرح صحیح البخاری، شیخ الاسلام احمد بن علی ابن حجر عسقلانی،ج:۳، ص:۵۸۲
۳۔ حجۃ اللہ البالغۃ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،تحقیق سید سابق، ج:۱، ص:۱۳۲
۴۔بحوالہ انوار البیان فی حل لغات القرآن، محمد علی،ج:۱،ص: ۱۲۴
۵۔آزادی اظہار رائے کے نام پر، ترتیب و تحقیق : محمد متین خالد، ص:۳۰۹
۶۔ معرکۃ المصیر الواحد، میشیل عفلق، ص: ۸۷ تا ۹۴ بحوالہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یورپی سازشیں، علامہ جلال العالم، ص:۱۵
۷۔التبشیر والاستعمار، مصطفی خالدی،عمر فروخ، ص:۱۱۵
۸۔الاتجاھات الوطنیۃفی الادب المعاصر، محمد محمد حسین، ج:۱، ص:۳۲۱
۹۔ بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ابو بکر بن مسعود الکاسانی، ج:۱، ص:۲۳۲
۱۰۔ صحیح الجامع الصغیر،محمد ناصر الدین البانی، حدیث نمبر:۳۲۸۹
۱۱۔ صحیح البخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، حدیث نمبر:۳
۱۲۔ اسلام اور مغرب، مولانا سعید الرحمان اعظمی، ص:۵۲