از قلم:۔ عبد السلام بن صلاح الدین مدنی
رمضان المبارک ۱۴۴۳ ھ اپنے تمام تر خیر ات و برکات,نیکیاں و بھلائیاں اور فیوض و انوار (جسے جس کی توفیق ملی)کے ساتھ رخصت ہوگیا,اور جس کے حصے میں جو کچھ تھا,سمیٹے جملہ عالم ِ اسلام کو الوداع کہہ گیا ,تاہم نیکیوں کا سلسلہ اب بھی قائم و دائم اور جاری و ساری ہے,اور انتہائی خوش بخت ہے وہ شخص جسے ہمیشہ نیکیوں کی توفیق ملتی رہے,اللہ تعالی نے اپنے حبیب جناب احمد مجتبی محمد مصطفی ﷺسے فرمایا تھا(وَٱعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ ٱلْيَقِينُ)(سورہ ٔ النحل:۹۹)(ترجمہ :اپنے رب کی عبادت کرتے رہئے یہاں تک کہ یقین (موت) آجائے) علامہ سعدی ۔رحمہ اللہ۔ اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں(استمر في جميع الأوقات على التقرب إلى الله بأنواع العبادات، فامتثل صلى الله عليه وسلم أمر ربه، فلم يزل دائبا في العبادة، حتى أتاه اليقين من ربه صلى الله عليه وسلم تسليما كثيرا)(دیکھئے:تفسیر سعدی,سورہ ٔ النحل آیت نمبر:۹۹)اس آیت ِ کریمہ میں وارد(الیقین)سے مراد موت ہے,جیسا کہ جملہ علمائے تفسیر نے ذکر فرمایا ہے(دیکھئے کتب تفسیر)علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے اس آیت کی ذیل میں انتہائی نفیس بحث فرمائی ہے,آں رحمہ اللہ کے الفاظ میں ہی آپ ملاحظہ فرما لیں,فرماتے ہیں:( قوله تعالى : واعبد ربك حتى يأتيك اليقين فيه مسألة واحدة : وهو أن اليقين الموت . أمره بعبادته إذ قصر عباده في خدمته ، وأن ذلك يجب عليه . فإن قيل : فما فائدة قوله : حتى يأتيك اليقين وكان قوله : واعبد ربك كافيا في الأمر بالعبادة . قيل له : الفائدة في هذا أنه لو قال : واعبد ربك مطلقا ثم عبده مرة واحدة كان مطيعا ; وإذا قال حتى يأتيك اليقين كان معناه لا تفارق هذا حتى تموت . فإن قيل : كيف قال سبحانه : واعبد ربك حتى يأتيك اليقين ولم يقل أبدا ; فالجواب أن اليقين أبلغ من قوله : أبدا ; لاحتمال لفظ الأبد للحظة الواحدة ولجميع الأبد . وقد تقدم هذا المعنى . والمراد استمرار العبادة مدة حياته ، كما قال العبد الصالح : وأوصاني بالصلاة والزكاة ما دمت حيا)(دیکھئے:الجامع لأحکام القرآن,آیت مذکورہ)اور یہی وجہ ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺنے ایسے عمل کو ہمیشہ کیا جاتا ہو,محبوب ترین قرار دیا,فرمایا:( سَدِّدوا وقارِبوا واعلموا أنه لن يُدخِلَ أحدَكم عملُه الجنَّةَ وأنَّ أحبَّ الأعمالِ إلى الله أدومُها وإن قَلَّ)(صحیح الترغیب حدیث نمبر:۳۱۷۴)
لہذا انتہائی با توفیق ہے وہ شخص جسے رمضان کے بعد بھی نیک اعمال اور کار ِ خیر کی توفیق مل جائے
انہی میں سے ایک عمل ماہ ِ شوال کے چھ روزے ہیں,معلوم ہونا چاہئے کہ شوال کا روزہ انتہائی فضیلت کا ذریعہ ہے,جس کے رکھنے سے پورے سال روزہ رکھنے کا ثواب مل جاتا ہے,شوال کا روزہ رکھنا نبی ٔ کریمﷺسے بہ سند ِ صحیح ثابت ہے,جیسا کہ حضرت ابو ایوب انصاری ۔رضی اللہ عنہ۔ سے مروی ہے,فرماتے ہیں(مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ )(صحیح مسلم:۱۱۴۶)(ترجمہ: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ سال بھر کے روزوں کی طرح ہوجائیں گے)
بعض نادان دوست صحیح مسلم میں وارد اس حدیث کو ضعیف قرار دینے کی ناروا کوشش کرتے ہیں,حالانکہ یہ حدیث کئی دوسرے طرق سے بھی حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی وارد ہے,ملاحظہ فرما لیں
(الف) عن عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ الدراوردي، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، وَسَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: (مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ بِسِتٍّ مِنْ شَوَّالٍ، فَكَأَنَّمَا صَامَ الدَّهْرَ)(ابو داؤد حدیث نمبر ۲۴۳۳,سنن کبری از نسائی حدیث نمبر:۲۸۷۶,مسند الحمیدی حدیث نمبر:۳۸۵)
(ب) عن عُتْبَة بْن أَبِي حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ أَبِي أَيُّوبَ فَصَامَ رَمَضَانَ وَصُمْنَا، فَلَمَّا أَفْطَرْنَا، قَامَ فِي النَّاسِ فَقَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، وَصَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ)(نسائی کی کتاب السنن الکبری حدیث نمبر:۲۸۷۹)
(ج)نیز امام نسائی اپنی مایہ ٔ ناز کتاب (السنن الکبری حدیث نمبر (۲۸۷۸)میں فرماتے ہیں:( أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ صَامَ شَهْرَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ فَكَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ كُلَّهَا)(السنن الکبری حدیث نمبر:۲۸۷۸)
(د)امام حمیدی فرماتے ہیں:( حدثنا سُفْيَانُ قَالَ: حدثنا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَكَأَنَّمَا صَامَ الدَّهْرَ)(مسند الحمیدی حدیث نمبر:۳۸۴)
(ھ) [عن عمر بن ثابت:] عن أبي أيوبَ الأنصاريِّ أنَّهُ قال: من صام رمضانَ ثم أتْبَعَهُ سِتًّا من شوالٍ فكأنَّما صام السَّنَةَ كلَّها(مسند الحمیدی حدیث نمبر:۳۸۰,شرح مشکل الآٰثار حدیث نمبر:۲۳۴۲)
(ز) [عن عمر بن ثابت:] عن أبي أيُّوبَ الأنصاريِّ، ولم يَرفَعْه أنَّه قال: مَن صام شَهرَ رَمَضانَ ثم أتْبَعَه بسِتَّةِ أيامٍ من شوّالٍ، فكأنَّما صام السَّنَةَ.(شرح مشکل الأثار حدیث نمبر:۲۳۴۷)
(ح)جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد چھ روزے رکھے,گویا اس نے پورے سال کا روزہ بایں طور رکھا جس کی صراحت نبی ٔ کریمﷺ نے کچھ یوں فرمایا ہے(صيامُ رَمَضانَ بعَشَرةِ أشهُرٍ، وصيامُ سِتَّةِ أيامٍ بشَهرينِ، فذلك صِيامُ سَنَةٍ، يعني: رَمَضانَ وسِتَّةً بعدَه)(شرح مشکل الآثار حدیث نمبر:۲۳۴۸,صحیح الجامع حدیث نمبر:۳۸۵۱)نیز فرمایا:( مَن صام رَمضانَ فشَهرٌ بعَشْرةِ أشهُرٍ، وصيامُ ستَّةِ أيّامٍ بعدَ الفِطرِ، فذلك تَمامُ صيامِ السَّنةِ.)(مسند أحمد حدیث نمبر:۲۲۴۱۲,سنن کبری نسائی حدیث نمبر:۲۸۶۰,ابن ماجہ حدیث نمبر:۱۷۲۵,من حدیث ثوبان ۔رضی اللہ عنہ۔)
حافظ ابن رجب ۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں:( خرَّج مسلم من حديث أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر),ثم اختلف في هذا الحديث وفي العمل به: فمنهم من صححه، ومنهم من قال: هو موقوف، قاله ابن عيينة وغيره، وإليه يميل الإمام أحمد، ومنهم من تكلم في إسناده,وأما العمل به: فاستحب صيام ستة من شوال أكثر العلماء…”)(لطائف المعارف :۴۸۸)
٭رمضان کے بعد شوال کے روزے کو اس قدر فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ شوال میں عام طور پر لوگ کھانے پینے کی طرف راغب رہا کرتے ہیں,اور جب کھانے پینے کی رغبت شدید ہو,ایسے وقت میں روزہ رکھنا بھی زیادہ ثواب کا باعث ہے(دیکھئے:فیض القدیر:۶/۱۶۱)
٭شوال کے روزے اس لئے بھی مشروع قرار دئے گئے کہ رمضان کے روزے میں جو کوتاہیاں واقع ہوجاتی ہیں,اس کی تلافی کی جا سکے(دیکھئے:تہذیب سنن ابو داؤد و ایضاح مشکلاتہ:۴۹۰/۱(نبی ٔ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:( أوَّلُ ما يُحاسَبُ الناسُ بِهِ، يَوْمَ القيامَةِ مِنْ أعمالِهمُ الصلاةُ، يقولُ ربُّنا عزَّ وجلَّ لملائِكَتِهِ وهو أعلمُ: انظروا في صلاةِ عبْدِي أتَمَّها أَمْ نَقَصَها؟ فَإِنْ كانتْ تامَّةً كُتِبَتْ لَهُ تامَّةً، وَإِنْ كان انتقصَ منها شيئًا، قال: انظروا هل لعبدي مِنْ تطَوُّعٍ؟ فإنْ كان له تَطَوُّعٌ قال: أتِمُّوا لعبدي فريضتَهُ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الأَعمالُ على ذاكم)(صحیح الجامع حدیث نمبر:۲۵۷۱)(ترجمہ: روز قیامت بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا ،نبی ﷺ نے فرمایا:ہمارا رب عزوجل اپنے فرشتوں سے فرمائےگا حالانکہ وہ زيادہ علم رکھنے والا ہے میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو کہ اس نے پوری کی ہیں کہ اس میں نقص ہے ،اگر تو مکمل ہونگي تومکمل لکھی جائے گي ، اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئي تواللہ تعالی فرمائے گا دیکھو!میرے بندے کے نوافل ہیں اگر تواس کے نوافل ہونگے تو اللہ تعالی فرمائے گا میرے بندے کے فرائض اس کے نوافل سے پورے کرو ، پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائيں گے)گویا یہ شش عیدی روزے نوافل کی طرح ہیں جو فرائض کی کمی بیشی ,کوتاہی و خلل کی بھرپائی کے لئے ہوتی ہیں
٭شوال کا روزہ یکم شوال کو رکھنا حرام حرام ہے کیوں کہ یکم شوال کو عید ہوتی ہے اور عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے,مولی ابن ازہر فرماتے ہیں:( شَهِدْتُ العيدَ مع عُمَرَ بن الخطَّابِ رَضِيَ اللهُ عنه فقال: هذان يومانِ نهى رسولُ الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عن صيامِهما: يومُ فِطْرِكم من صيامِكم، واليومُ الآخَرُ تأكلونَ فيه من نُسُكِكم)(بخاری حدی نمبر:۱۹۹۰,مسلم حدیث نمبر:۱۱۳۷)نیز حضرت ابو سعید خدری۔رضی اللہ عنہ ۔نےفرمایا:( نهى النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عن صومِ يومِ الفِطرِ والنَّحرِ، وعن الصَّمَّاءِ، وأن يحتبيَ الرَّجُلُ في ثَوبٍ واحدٍ)(بخاری حدیث نمبر:۱۹۹۱,مسلم حدیث نمبر:۸۲۷)بلکہ اس امر پر تو ابن المنذر,طحاوی,ابن حزم,ابن عبد البر,ابن رشد,ابن قدامہ اور امام نووی نے اجماع نقل فرمایا ہے(دیکھئے:الإشراف ۳؍۱۵۳؛شرح معانی الآثار ۱؍۴۰۲,مراتب الإجماع ۴۰,الاستذکار۲؍۳۸۳,بدایۃ المجتہد :۱؍۳۰۹,المغنی:۳؍۱۶۹,المجموع:۶؍۴۴۰)
٭شش عیدی روزے(شوال کے چھ روزے)لگاتار بھی رکھے جا سکتے ہیں,اور متفرق بھی , چاہے ابتدائے شوال میں رکھے یا وسط شوال میں یا آخر ِ شوال میں ,کوئی حرج نہیں ہے,کیوں کہ حدیث بغیر قید کے مطلق وارد ہوئی ہے,البتہ اگر ابتدائے شوال میں رکھ لے تو زیادہ بہتر ہے(دیکھئے:مجموع فتاوی ابن باز ۱۵/۳۹۰)
٭اگر شوال کے ابتدائی ایام میں شش عیدی روزے رکھ لئے جائیں تو بہتر ہے کیوں کہ یہ مسارعت الی الخیر کی دلیل ہے(دیکھئے:مجموع فتوای ابن باز :۱۵؍۳۹۰)
٭اگر لگاتار شوال کے شروع میں یہ روزے رکھے جائیں تو افضل ہے(دیکھئے:مجموع فتاوی ابن عثیمین:۲۰؍۲۰)
جو شخص کسی عذر کی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھ سکا تو اس کے لئے بہتر یہ ہے کہ پہلے قضا کرے,پھر شوال کے روزے رکھے(مجموع فتاوی ابن باز ۱۵/۳۹۲)
٭ عید الفطر کے فورا بعد شوال کے روزے رکھنا ضروری نہیں ہے,کیوں کہ اصلا یہ ضروری بھی نہیں,نیز نبی ٔ کریمﷺنے اسے عام ہی رکھا ہے,جب چاہے رکھ سکتا ہے(دیکھئے فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ۱۰/۳۹۱)
٭خواتین (جن پر رمضان کے روزے قضا ہوں,وہ) بھی روزہ رکھ سکتی ہیں,مگر بہتر یہ ہے کہ پہلے رمضان کے روزے کی قضاکریں پھر شوال کے روزے رکھے جائیں,البتہ قضا روزے کو مؤخر کیا جا سکتا ہے(جائز ہے)(دیکھئے :فتاوی رمضان ص ۸۰۔۸۱)
٭اگر کوئی شخص شوال کے روزے ایام بیض, پیر اور جمعرات (ایک ہی نیت کے ساتھ) رکھے تو جائز ہے
٭شوال کے روزے کے لئے رات ہی میں نیت شرط ہے,کیوں کہ یہ خاص نفل روزہ ہے,بر خلاف ایام بیض ,پیر و جمعرات کے روزوں کے ,کہ ان کے لئے دن میں بھی نیت کرے تو کوئی حرج نہیں (دیکھئے:الشرح الممتع:۶/۳۶۰۔لقاء الباب المفتوح ۲۱/۵۵,مجموع فتاوی ابن عثیمین :۱۹؍۱۸۴)
٭شش عیدی روزے ہر سال رکھنا کوئی ضروری نہیں ہے ,بہت سے لوگ جو ایسا سمجھتے ہیں ؛ان کی فہم درست نہیں ہے(دیکھئے:مجموع فتاوی ابن عثیمین:۲۰؍۲۱)
٭شش عیدی روزے اگر چھوٹ جائیں تو اس کی قضا نہیں ہے(دیکھئے:مجموع فتاوی ابن باز :۱۵؍۳۸۹),علامہ عثیمین ۔رحمہ اللہ۔ کی رائے اس تعلق سے قدرے مختلف ہے,وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی عذر شرعی کی بنیاد پر شوال میں رمضان کے روزوں کی قضا کرتا رہا اور شوال ختم ہوگیا تو ماہ ِ ذی القعدہ میں اس کی قضا کی جا سکتی ہے(دیکھئے:لءاص الباب المفتوح)
٭ اگر کوئی شخص کسی عذر کی بنیاد پر شش عیدی روزے مکمل نہ کر سکے تو اسے پورے روزے رکھنے کا ثواب ملے گا(دیکھئے:۱۵؍۳۹۵)
٭اگر کسی نے شوال کے روزے رکھے پھر روزہ توڑ دیا تو کوئی حرج نہیں,کیوں کہ نبی ٔ کریمﷺنے فرمایا(الصائم المتطوع أمير نفسه إن شاء صام وإن شاء أفطر)(ترمذی ۷۳۲۔نسائی:۳۳۰۲۔مسند أحمد:۲۶۹۳۷ و سندہ صحیح)%