از:محمد جرجیس کریمی
(علی گڑھ)
الحمد لله رب العالمين و الصلاة و السلام الأتمان الأكملان على أشرف الأنبياء و المرسلين و على آله و صحبه أجمعين أما بعد
مظلوم و مقہور طبقات کو ظلم و ستم کی مختلف قسموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کئی بار ان کا قتل بھی کیا جاتا ہے۔ان پر تشدد کئے جاتے ہیں اور ان کی جبری عصمت دری کی جاتی ہے،ان کا مال اسباب لوٹ لیا جاتا ہے مزیدیہ کہ موجودہ دور میں راہ چلتے لوگوں کے اوپر جارحانہ حملے ہو رہے ہیں اور ان کو مآب لنچنگ (اجتماعی قتل) کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بعض ممالک میں فرقہ وارانہ فسادات کرائے جاتے ہیںاور ایک فرقے کے لوگوں کو منظم اور منصوبہ بند طریقے سے ٹارگیٹ کیا جاتا ہے بعض ممالک میں ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والوں کا اجتماعی قتل اور نسل کشی کی مہم بھی چلائی جاتی ہے۔یوں بھی پوری دنیا میں مجرمانہ قتل کے واقعات تشویش ناک حد تک بڑھ گئے ہیں اور کسی پر کہیں بھی جارحانہ حملہ ہو سکتا ہے۔ایسی تمام صورتوں میں شریعت اسلامیہ کا کیا موقف ہے؟ کیا متعلق فرد اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کا دفاع کر سکتا ہے؟ یا پھر وہ اپنے آپ کو ظالموں اور قاتلوں کے حوالے کر دے؟
اس مسئلے کی وضاحت کے لیے قرآن مجید اور فقہائے اسلام کے آراء و اقوال کا مطالعہ پیش خدمت ہے۔
دفاع کی مشروعیت: اسلامی احکام و نصوص کی روشنی میں دفاع کے ضمن میں دو طرح کے دفاع کا حوالہ ملتا ہے۔ ایک دفاع عام یعنی معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا۔ دوسرا دفاع خاص یعنی جارحانہ حملے سے اپنے آپ کا دفاع کرنا ہے۔ شریعت کی روشنی میں دونوں طرح کا دفاع کے وجوب کے دلائل ملتے ہیں؛ لیکن دونوں کی الگ الگ تفصیلات ہیں۔ ذیل میں صرف دفاع خاص یعنی جارحانہ حملوں سے دفاع کا مطالعہ پیش کیا جا رہا ہے۔شریعت میں دفاع خاص واجب ہے جس سے آدمی جارحانہ حملوں سے اپنے آپ کا دفاع کرتا اور اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کرتا ہے۔ یہ دفاع خواہ اپنی طرف سے ہو یا دوسرے کی طرف سے ایک شرعی حق ہے اور دنیا کے اکثر ممالک کے تعزیری دفعات میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے ، اقوام عالم کے منشور عالمی حقوق بھی اس حق کو تسلیم کرتا ہے، دفاع کرنے والا قانونی مؤاخذہ سے بری سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’فمن اعتدی علیکم فا عتدوا علیہ بمثل ماعتدی علیکم‘‘ [البقرہ: ۱۹۴]
(جو تم پردست درازی کرے اسی طرح تم اس پر دست درازی کرو)
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’و جزاء سیئۃسیئۃمثلھا فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ انہ لا یحب الظالمین‘‘ [الشوریٰ: ۴۰]
(اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے؛ مگر جو درگذر کرے اور (معاملے کو)درست کر لے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمہ ہے،اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے۔)
اس سلسلے میں متعدد احادیث بھی وارد ہیں جن سے اپنی ذات کے دفاع کا حق ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص دوسرے کا ہاتھ کاٹنے لگا تو اس نے اپنا ہاتھ زور سے باہر کھینچا تو ہاتھ کاٹنے والے کے دانت باہر نکل پڑے ۔ جب اس کی شکایت دربارِ نبویﷺ میں کی گئی توآپؐ نے فرمایا کہ وہ اپنا ہاتھ کیا تیرے منھ میں رہنے دیتا کہ تو اسے چباتا رہے۔ چناں چہ اس پر کوئی حد نافذ نہیں کی گئی۔ [صحیح مسلم و صحیح بخاری۱۶۷۴،۴۴۱۷]
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔ [صحیح بخاری، کتاب المظالم ، باب من قتل دون مالہ ۲۴۸۰]
ایک دوسری حدیث میں وارد ہے ’’جو شخص اپنے مال کے دفاع میں مارا جائے وہ شہید ہے، جو شخص اپنے اہل و عیال کے دفاع میں مارا جائے وہ شہید ہے، جو شخص اپنے آپ کے دفاع میں مارا جائے وہ شہید ہے،جو شخص اپنے ذہن کی حفاظت میں مارا جائے وہ شہید ہے۔‘‘ [ابو داؤد ۴۷۷۲، کتاب السنۃ، باب فی قتال اللصوص]
ایک موقع پر رسول اکرمﷺ نے فرمایا کوئی شخص بغیر اجازت تمہارے گھر میں تانک جھانک کرے اور تم کنکڑی سے اس کی آنکھ پھوڑ ڈالو تو تم پرکوئی تاوان نہیں ہوگا۔ [بخاری، کتاب الدیات، باب من اخذ حقہ ۶۸۸۸]
اسی طرح آپ ﷺنے دوسرے کی طرف سے دفاع کا حکم دیا ہے اور فرمایا: ’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے روک دیا جائے اور مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس پر ظلم نہ ہونے دیا جائے۔ انسانی گروہوں اور طبقات کو ظلم و استبداد سے نجات دلانا پوری امت مسلمہ کی اجتماعی ذمہ داری قرار دی گئی ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’’’و ما لکم لاتقاتلون فی سبیل اللہ و المستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذینیقولون ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا و اجعلنا من لدنک ولیا و اجعل لنا من لدنک نصیراً ‘‘ [النساء ۷۵]
(اور تم کو کیا ہوا ہے کہ اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیاکرتے ہیں کہ اے پرورد گار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جااور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا خاص بنا اور کسی کو اپنی طرف سے ہمارا مددگار مقرر فرما۔)
ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’فتنہ و فساد کے وقت مؤمن ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔‘‘
یہ تو قرآن و حدیث کی روشنی میں دفاع کی اہمیت تھی، فقہائے اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ جان و مال اورعزت و آبرو پر ہونے والے حملوں کا دفاع مشروع ہے خواہ حملہ آور کی خود اپنی ذات پر ہو یا کسی دوسرے کے اوپر۔البتہ اس کی تفصیلات میں ان کا اختلاف ہے۔ اس بارے میں بنیادی طور پر دو مسائل ہیں۔ ایکیہ کہ کیا دفاع واجب ہے کہ ہر حال میں آدمی اس کو اختیار کرے یایہ ایک حق ہے کہ چاہے تو اس کا استعمال کرے چاہے نہ کرے۔فقہا کے درمیان اس پر اتفاق ہے کہ اگر عزت و آبرو پر حملہ کیا جائے تو اس کا دفاع واجب ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی عورت کی عصمت دری کی جائے تو وہ اس کا دفاع کرے گی چاہے دفاع کرتے ہوئے حملہ آور قتل ہو جائے اگر اس کا دفاع کسی اور طرح ممکن نہ ہو ۔
شریعت میں واجب کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ترک کرنے والا گناہ گار اور قابلِ مؤاخذہ ہے، خواہ مؤاخذہ دنیا میں ہو یا خواہ آخرت میں۔ایک دوسری رائے کے مطابق وہ قابلِ مؤاخذہ تو نہیں؛ لیکن قابل ملامت ضرور ہوگا۔دفاع واجب کا ترک کرنے والے کی دنیا میں تو گرفت نہیں کی جائے گی لیکن آخرت میں اس کا مؤاخذہ ضرور ہوگا۔لیکن واضح رہے دنیا میں واجب کے ترک پر جواب دہی نہ ہونے سے واجب کی اصل اہمیت میں کمی واقع نہ ہوگی اور نہ اس سے واجب اور حق کا درجہ یکساں ہو جائے گا۔ کیوںکہ حق میں آدمی کو اس کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور اس کا تارک گناہ گار نہیں ہوتا ہے جب کہ واجب میںیہ اختیار نہیں ہوتا اور اس کا ترک کرنے والاگناہ گار سمجھا جاتا ہے۔ [الاحکام فی اصول الاحکام، لسیف الدین ابی الحسن الآمدی، مطبعۃ دار الکتب، ج :۱ ، ص :۱۳۸؍ المستصفی للامام الغزالی،ج :۱ ،ص: ۶۵،۶۶ و ۷۴]
جہاں تک نفس یعنی جان سے متعلق دفاع کا سوال ہے تو اس بارے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک نفس کی طرف سے دفاع واجب ہے۔ [حاشیہ رد المحتار علی در المختار لابن عابدین الشافعی، المطبعۃ الاجریۃ۵؍۴۸۱، تحفۃ المحتاج شرح المنھاج، شہاب الدین احمد بن حجر الھیثمی، طبعۃ۱۳۱۹ھ، ۴؍۱۲۴، مواھب الجلیل شرح مختصر خلیل للخطاب ۶؍۳۲۳، الزیلعی، تبئین الحقائق شرح کنز الدقائق، ج: ۶؍۱۱۰]
امام احمد بن حنبل کے نزدیکیہ جائز ہے واجب نہیں۔ [المغنی علی مختصر الخرقی لمحمد عبد اللہ بن قدامہ، طبع اول بمطبعۃ المنار ۱۰؍۳۵۰]
بعض فقہائے حنابلہ نے حالات کے مطابق اس میں تفریق کی ہے۔ مثلاً اگر حالات پر فتن ہوں تو جائز ہے اور اگر حالات عام اور معمول کے ہوں تو واجب مطلق ہے۔ [الاقناع لشرف الدین موسی الحجاوی، المطبعۃ المصریۃ۴؍۲۹۰]
بعض مالکی اور شافعی فقہا کا بھییہی خیال ہے۔ [حاشیۃ الرملی، ابن العباس احمد الرملی (دیکھیے اسنی المطالب شرح روض الطالب) ۴؍۱۶۸]
ان کی دلیل یہ ہے فتنے کے وقت رسول اکرم ﷺ نے گھر میں بیٹھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ بعض دوسری روایات میں حضور اکرم ﷺنے فرمایا ہے کہ تم قاتل بندہ بننے کے بجائے مقتول بندہ بنو۔یعنی قتل کرنے کے بجائے قتل کیا جانا پسند کرو، اس سلسلے میں حضرت عثمانؓ خلیفۂ ثالث کا عمل دلیل کے طور پر پیش کیا جاتاہے کہ انھوں نے اپنی جان کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے بھی اپنا دفاع کرنا ضروری نہیں سمجھا۔مال کی طرف سے فقہا نے دفاع کو جائز قرار دیا ہے چاہے تو اس کا دفاع کرے چاہے نہ کرے اس کی وجہ یہ ہے کہ مال جائز ذرائع سے حلال ہو جاتا ہے جب کہ کسی کی جان لینا کسی بھی طرح حلال نہیں ہو سکتا، بعض فقہا نے اس مال کا دفاع واجب قرار دیا ہے جس میں کوئی ذی روح ہو یا وہ مال دوسرے کی امانت موقوفہ یا وہ رہن اور اجارہ کا مال ہو، ان صورتوںمیں دفاع ضروری ہوجائے گا۔ [ اسنی المطالب شرح روض الطالب لأبییحیی زکریا الانصاری۴؍۱۶۸]
دفاع کے سلسلے مین دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر کسی بچے، مجنون (پاگل)یا جانورکی طرف سے حملہ ہو تو اس کا دفاع کیا جائے گا یا نہیں؟ امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک اس کی مدافعت کی جائے گی اور ضرورت پڑنے پر حملہ آور کو قتل بھی کیا جا سکتا ہے اس سلسلے میں دفاع کرنے والے پر کسی قسم کی کوئی فرد جرم عائد نہیں کی جائے گی کیوں کہ اپنی جان کی حفاظت کے لیے اس نے اپنا حق استعمال کیا ہے۔ [مواھب الجلیل۶؍۳۲۳، تبصرۃ الحکام فی اصول الاقضیۃ و مناھج الاحکام لابن فرحون ۲؍۳۰۳، المھذب لابی اسحاق الشیرازی، مطبعۃ الباب الحلبی۲؍۲۴۳]
امام ابو حنیفہ اور ان کے تلامذہ (امام ابو یوسف کے علاوہ) کے نزدیک مدافعت کی جائے گی لیکن جانی نقصان کی صورت میں اس کی تلافی کرنی ہوگی۔ یعنی بچے اور مجنون کی دیت اور جانور کی قیمت ادا کرنی ہوگی، ان کی دلیلیہ ہے کہ شریعت نے دفاع کا حکم جرم کے ازالے کے لیےدیا ہے، بچہ ، مجنون اور جانور کا عمل جرم شمار نہیں ہوتا اس لیے اس سے حد ساقط ہو جائے گی؛ لیکن قانونی جواب دہی کرنی ہوگی اور تاوان ادا کرنا ہوگا۔ امام ابو یوسف کے نزدیک مدافعت کی جائے گی اور دفاع کرنے والا صرف جانور کی قیمت ادا کرے گا، بچہ اور مجنون کی طرف سے کوئی دیت ادا نہیں کی جائے گی،کیوں کہ جانور کا حملہ کرنا جرم نہیں سمجھا جاتاہے جبکہ بچہ اور مجنون کا جرم شمار ہوگا؛ البتہ ان میں عدم ادراک کی وجہ سے ان پر سزا نافذ نہیں ہوگی۔ [البحر الرائق شرح کنز الدقائق لابی نجیم۸؍۳۰۲]
جولوگ ہر حال میں دفاع کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ آدمی اپنی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا ذمہ دار ہے اس لیے دفاع ضروری ہے۔ لیکن واضح رہے کہ حملہ آور کا خون صرف اس لیے حلال نہیں ہو جاتا کہ اس نے حملہ کیا ہے ، اگر دوسرے طریقے سے اس کا دفاع ممکن ہو تو اس کا قتل کرنا درست نہ ہوگا، شریعتنے صرف مجبوری میں حملہ آور کے قتل کی گنجائش رکھی ہے کہ اس کے بغیر دفاع ممکن نہ تھا۔ [کتاب الام للامام محمد بن ادریس الشافعی۶؍۱۷۲]
دفاع کی شرائط: دفاع ہر شخص کا قانونی اور شرعی حق ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں جن کی پابندی لازمی ہے۔ ذیل میں اس کی تفصیل سے وضاحت کی جاتی ہے۔
۱ــــ- پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی پر دفاع اس وقت ضروری ہوگاجب واقعی اس پر ظلم ہو رہاہو، مثال کے طور پر باپ بیٹے کو اور شوہر بیوی کو ادب سکھانے کے لیے اور استاد بچوں کو تعلیم دینے کے لیے مار پیٹ کرے تو یہ ظلم نہیں سمجھا جائے گا یا کسی پر حد شرعی کا نفاذ ہو رہا ہو تو وہ بھی ظلم شمار نہیں ہوگا ، کسی معاملے کی تحقیق کے لیے اس کو گرفتار کیا جانا اور معمولی مار پیٹ سے بھی دفاع کی مشروعیت ثابت نہیں ہوگی۔
ظلم و زیادتی کی کوئی حد مقرر نہیں ہے وہ شدید بھی ہو سکتا ہے اور معمولی بھی۔ معمولی زیادتی کی صورت میں حق دفاع ساقط نہ ہوگا ؛ البتہ حسب ضرورت ہی طاقت کا استعمال ہونا چاہیے۔آدمی دوسرے کی طرف سے بھی دفاع کا مکلف ہے۔ دفاع کے سلسلے میںیہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اگر حملہ آور خود دفاعی پوزیشن میں آ جائے اور یہ عذر پیش کرے کہ وہ اپنا دفاع کر رہا تھا تو یہ قابلِ لحاظ نہ ہوگاکیوں کہ زیادتی کا آغاز اسی کی طرف سے ہوا تھا۔ دفاع کے لیےیہ شرط نہیں ہے کہ حملہ آور اس پر حملہ کر دے تب اس کا دفاع کیا جائے بلکہ اس کا گمان غالب ہونا کافی ہے۔ مثلاً کوئی شخص تلوار یا ہتھیار لے کر سامنے آ جائے اور اسباب و قرائن ایسے ہوں جن سے ثابت ہو رہا ہو کہ وہ حملہ کر دے گا تو ایسی صورت میں دفاع مشروع ہوجائے گا؛ البتہ صرف وہم و گمان کی بنیاد پر دفاع کی اجازت نہیں ہوگی۔ [اسنی الطالب ۴؍۱۶۷، کتاب الام للامام الشافعی۶؍۲۷]
کوئی شخص کسی پر جارحانہ حملے کا اظہار کرتا ہے یعنی اس کی نیت اور ارادہ ہے کہ وہ اس پر حملہ کرے گا؛ لیکن وہ اس کی تعمیل پر قدرت نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں دفاع کی اجازت نہیں ہوگی۔
۲- حق دفاع کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ زیادتی زمانۂ حال میں ہو رہی ہو ممکنہ خطرہ یا دھمکی کی وجہ سے دفاع کی مشروعیت ثابت نہیں ہوگی البتہ ممکنہ خطرے اور دھمکی کا مناسب دفاع کر سکتاہے اور اس کے لیے حکومت کا تعاون بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
۳- حق دفاع کی تیسری شرط یہ ہے کہ حملہ آور کی جان لینے کے علاوہ کسی اور طرح دفاع ممکن نہ ہو ، اگر کسی اور طرح سے دفاع ممکن ہو سکتا ہو تو پہلے اسے اختیار کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر شور مچانے یا مدد طلب کرنے سے حملہ آور بھاگ جائے یا حملے کا دفاع کیا جاسکے تو بلا وجہ اس کو مارنا یا قتل کرنا مناسب نہیں ہے۔ فقہا کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ فرار (یعنی حملے کے موقع و محل سے بھاگ جانا) دفاع کا ایک متبادل ذریعہ تصور کیا جائے گا یا نہیں؟بعض فقہا نے اس کو مناسب ذریعہ قرار دیا ہے، بعض نے نہیں دیا ہے۔ بعض فقہا نے مناسب اور غیر مناسب صورتوں میں فرق کیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آدمی تنہا ہو اور بھاگ جانے سے اس کی عزت و آبرو پر کوئی آنچ نہ آئے تو ایسی صورت میں بھاگ جانا ہی بہتر ہے۔ دوسری صورت میں اس کے لیے ثابت قدم رہنا مناسب ہے۔ [اسنی المطالب ۴؍۱۶۷، المغنی۱۰؍۳۵۳، تحفۃ المحتاج ۴؍۱۲۶]
۴- حق دفاع استعمال کرنے کے لیے چوتھی شرط یہ ہے کہ دفاع کے وقت حسب ضرورت طاقت استعمال کی جائے۔ مثال کے طور پر کوئی آدمی کسی کے گھر میں گھس آئے اور وہ ڈانٹ پھٹکار ہی سے واپس چلا جائے تو ایسی صورت میں اس کا مارنا پیٹنا صحیح نہیںہےیا معمولی مار پیٹ سے وہ واپس جانے پر تیارہو تو غیر ضروری طور پر مارنا پیٹنا درست نہیں ہوگا۔اسی طرح اگر وہ لاٹھی اور ڈنڈے کی مار سے بھاگ جائے تو نوکیلے ہتھیاریا لوہے کے ہتھیار سے مارنا یا ایک دفعہ مارنے سے دفاع ہو جائے تو دوسری مرتبہ مارنا جائز نہیں ہے۔ دوسری صورت میں قانونی جواب دہی سے بری نہ ہوگااور اس پر حد شرعی نافذ کی جائے گی لیکن اگر قتل کیے بغیر دفاع ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں اسے اس کی اجازت ہوگی۔ [المغنی لابن قدامہ ۱۱؍۳۵۱-۳۵۲]
دفاع کے سلسلے میں ایک بنیادی بات یہ ہے کہ دفاع کے وقت اگر ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کی جائے تو یہ دفاع نہیں بلکہ زیادتی سمجھی جائے گی اور اس کی باز پرس کی جائے گی۔ زیادتی اور اس کے دفاع کے درمیان ایک گہرا ربط ہے کیوں کہ زیادتی کی وجہ سے دفاع مشروع ہوا پس جہاں زیادتی شروع ہوگی وہاں دفاع بھی مشروع ہوگا اور جہاں زیادتی ختم ہو جائے وہیں پر دفاع بھی ختم ہو جائے گا، اگر زیادتی ختم ہونے کے بعد دفاع جاری رہے تو یہ دفاع نہیں بلکہ خود زیادتی ہوگی۔
دفاع جائز ہے اور اس پر کوئی سزا نہیں ہے لیکن دفاع کے وقت جوابی حملے کا کوئی دوسرا شخص شکار ہو جائے تو اس کی دیت ادا کرنی پڑی گی اور اس کا حکم قتل خطا کا ہوگا۔
دفاع کی غرض سے گھر کے دروازے کے پیچھےیا راستے میں جال بچھانا یا کوئی ایسی تدبیر کرنا جس سے حملہ آور زخمی ہو جائے یا مر جائے امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک جائز ہے اور صاحب مکان اس کے لیے جواب دہ نہیں ہوگا۔ [شرح ابن عابدین۵؍۵۲۴، المغنی۹ی؍۵۷۱، التشریع الجنائی الاسلامی، عبد القادر عودہ مصری شہید،۱؍۴۸۹]
موجودہ دور میں مظالم سے بچنے کا ایک ذریعہ اور طریقہ ذرائع ابلاغ کی مدد لینا بھی ہے۔ آدمی اپنی مظلومیت کو میڈیا اور شوشل میڈیا میں بیان کرے تو ظالم کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اس کے خلاف اور عوام الناس کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ شریعت اسلامیہ کے مزاج اور ظلم و استبداد سے اس کی نفرت کی بنیادیہ کہی جا سکتی ہے کہ ذرائع ابلاغ کی مدد لینا درست ہوگا اور علماء و فقہاء نے اس کے جواز کے فتوے دیئے ہیں۔ شریعت میں ہر مظلوم کو عدالت سے یا حاکم وقت سے فریاد کی اجازت ہے۔۔