ڈاکٹرعبد الرزاق زیادی
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی۔76
Mobile No: +919911589715, E-mail: arziyadi@gmail.com
بیسویں صدی کو اردو زبان و ادب کی تاریخ میں کئی حیثیتوں سے امتیاز حاصل ہے۔ زبان و لسانیات ہوں یا تحقیقات وتنقیدات،افسانوی ادب ہو یا غیر افسانوی اصناف،نظم و غزل ہوں یا پھر دیگر شعری و نثری تخلیقات ہر ایک میں موضوعات و مسائل سے لے کر ہیئت وتکنیک تک کے بیشترمعاملات و تجربات اسی صدی میں معرض وجود میں آئے۔ اسی صدی میں اردو غزل نے بھی کروٹیں لیں اور جدیدغزل کی بنیاد پڑی۔ناصر کاظمی وخلیل الرحمن اعظمی وغیرہ کی کاوشوں سے جہاں اس کی طرح ڈالی گئی وہیں متعدد شعرا نے نہ صرف اس روایت کو آگے بڑھایا بلکہ اپنے مخصوص اندازِ فکر، شعری نظام اور اظہارو اسلوب کے ذریعہ اس میں گہرائی وگیرائی اور وسعتیں بھی پیدا کیں۔گوکہ ناصر کاظمی،شاد عظیم آبادی، فیض احمد فیض، فراق گورکھپوری،حسرت موہانی، اصغر گونڈوی،خلیل الرحمن اعظمی، ظفر اقبا ل، احمد مشتاق اور عرفان صدیقی وغیرہ کا شمار جدید اردو غزل کے معماروں میں ہوتا ہے لیکن ان کے بعد کے شعرا نے بھی اس روایت کو مزید آگے بڑھایا اور اس میں نئے رنگ و آہنگ پیدا کیے اور اردو کے شعری سرمایے بالخصوص جدید غزل میں قابل قدر اضافے بھی کیے۔اس تعلق سے مجازلکھنوی،مخدوم محی الدین،کیفی اعظمی،معین احسن جذبی،علی سردارجعفری،ساحرلدھیانوی،مجروح سلطان پوری،اخترالایمان،احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی جیسے ترقی پسند شاعروں کے علاوہ حسن نعیم، مخمورسعیدی،مظہر امام،شہریار،ندافاضلی،شہاب جعفری،فضا ابنِ فیضی،بشیر بدر،ابن انشا،شہزاد احمد،محسن احسان،ریاض مجید،افتخار عارف،پروین شاکر،ناصر شہزاد، محسن بھو پالی،حبیب جالب، ساقی فاروقی اور احمد فراز وغیرہ کے نام خاص طو سے قابل ذکر ہیں۔
آزادی کے بعد اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل گوئی کی تاریخ میں جن شعراکو بڑی اہمیت و مقبولیت حاصل ہوئی ان میں احمد فراز کا نام سر فہرست لیا جا سکتا ہے۔ احمد فراز 14/جنوری 1931کوپاکستان کے شہر نو شیرواں میں پیدا ہوئے۔ان کاپورا نام سید احمد شاہ اورتخلص فرازتھا،مگر ادبی دنیا میں وہ احمد فراز کے نام سے مشہور و مقبول ہوئے۔ احمد فرازنے ایک لمبی اور مرفہ الحال زندگی گزارکر77سال کی عمر میں25/اگست 2008کو وفات پائی اور اپنے چاہنے والوں اور عقیدت مندوں کے لیے بہت سی یادگاریں چھوڑ گیا۔احمدفراز کااولین مجموعۂ کلام’تنہا تنہا‘تھا جو کہ 1958 میں شائع ہوا تھا۔لیکن اس سے قبل بھی ان کے بہت سے کلام ملک و بیرون ملک کے معتبر رسائل وجرائدمیں شائع ہو چکے تھے اور قومی و بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کی وجہ سے ان کی شہرت و مقبولیت دور دورتک پہنچ چکی تھی۔پہلا مجموعہ کلام ’تنہا تنہا‘ کے بعد گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ یکے بعد دیگرے ان کے چو دہ شعری مجموعے شائع ہوئے۔ درد آشوب (1966)، نایافت(1970)،شب خون(1971)،میرے خواب ریزہ ریزہ(1972)،جاناں جاناں (1976)،بے آواز گلی کوچوں میں (1982)،نابینا شہر میں آئینہ(1984)،سب آوازیں میری ہیں (85 19)، پس انداز موسم(1989)،بودلک(1994)،خواب گل پریشاں (1994)،غزل بہانہ کروں (1999)اور پھر 2004 میں ان کا آخری مجموعہئ کلام’شہر سخن آراستہ ہے‘ شائع ہو کرمنظر عام پر آیا۔ اس طرح احمد فراز کی زندگی ہی میں ان کے تمام تر مجموعے شائع ہو چکے تھے اوراب تو ان کی کلیات بھی”کلیاتِ احمد فراز“ کے نا م سے دستیاب ہے۔
ہر بڑے شاعر و فنکار کی فنکارانہ خوبیاں ان کے بچپن سے ہی نمودار ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ مشرق و مغرب کی عظیم ہستیوں کی سینکڑوں مثالوں سے ہماری تاریخ عبارت ہے۔ مشرقی شعر و ادب کے حوالے سے میر، غالب، اقبا ل اور دیگر ادبا و شعرا کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں کہ انھوں نے محض10 سال یا اس سے بھی کم عمر میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ احمد فراز کے یہاں بھی یہ رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایک حوالے کے مطابق انھوں نے تبھی سے شاعری کا آغاز کر دیا تھا جب کہ وہ ابھی محض آٹھویں یا دسویں جماعت کے طالبِ علم تھے۔ مگرانھوں نے باقاعدہ طور پر شعر و سخن کے میدان میں کب قدم رکھا اور انھوں نے کس سے تحریک حاصل کر کے شاعری شروع کی تھی تا ہنوز یہ امر پردۂ خفا میں ہے۔مگر اتنا تو طے ہے کہ ان کے پاس بچپن سے ہی ایک رچا ہوا شعری ذوق اور سخن فہمی کا ہنر موجود تھا اور جن کا انھیں بہت جلد علم بھی ہو گیا تھا۔ان کے اس وصف کا اندازہ ہمیں ان کے اس شعری سفرسے ہوتا ہے جو گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے پر پھیلاہوا ہے۔
احمد فرازکا ادبی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے اور اس پورے ادبی سفر کے دوران اردو شعر و ادب نے کئی نشیب وفراز دیکھے۔ترقی پسند تحریک،حلقہ ٔ ارباب ذوق،جدیدیت اورمابعد جدیدیت وغیرہ تحریکات و رجحانات اسی زمانے کی دین ہیں۔ فرازنے جب آنکھیں کھولیں اور شعر گوئی کی ابتداکی تو ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی۔ہر طرف ترقی پسندیت کا غلغلہ سنائی دے رہا تھا۔ فیض، سر دار جعفری،کیفی اعظمی، تاباں،مجاز اور مخدوم وغیرہ کی آوازیں سب کے کانوں میں گونج رہی تھیں اوریہ گونج اس قدر سحر انگیز اور متاثر کن تھی کہ اس کے سامنے باقی تمام آوازیں دب سی گئی تھیں۔ چنانچہ فراز بھی بہت جلد ان کے حلقۂ تاثیر میں آگئے اور کالج کے زمانے سے ہی نہ صرف ترقی پسند تحریک کے علمبرداربن گئے بلکہ فیض احمد فیض اورعلی سردارجعفری جیسے اس عہد کے بڑے شعراان کے محبوب اورآئیڈیل قرار پائے۔یہی وجہ ہے کہ فرازاپنے ا بتدائی دور میں انھیں کے رنگ میں شاعری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔فراز کے پہلے مجموعہ ٔ کلام ”تنہا تنہا“ سے کچھ غزلیں پیش ہیں ؎
کچھ ایسے ہم نے خرابے بسائے شہروں میں
جو دشت والے تھے وہ بھی اُٹھ آئے شہروں میں
کہہ رہی ہے شکستگی دل کی
تھا مکینوں سے مکاں آباد
دوست جب ٹھہرے چمن کے دشمنِ جانِ بہار
زخم دکھلائیں کسے پھر سینہ چاکان ِ بہار
پھر آج دانہ ٔ گندم کے سلسلے میں فراز
کسی خدا نے مری خلد بیچ ڈالی ہے
ہم بھی کرتے تھے چراغا ن بہار
لیکن اب آنکھوں میں خونناب کہاں
اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یادکیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
میں کیا کروں مرے قاتل نہ چاہنے پر بھی
ترے لیے مرے دل سے دعا نکلتی ہے
یا پھر ذیل کی یہ غزل ملاحظہ ہو جس میں فیض احمد فیض کی غزلیہ شاعری کا رنگ و آہنگ نمایاں ہے؎
ہر ہم سفر ہے آبلہ پا دیکھتے رہو
یارو پلٹ پلٹ کے ذرا دیکھتے رہو
کس کس کو اپنی اپنی رفاقت پہ زعم ہے
ہوتا ہے کون کون جدا دیکھتے رہو
ہر فصلِ گل ہے غیریقینی سی ان دنوں
صر صر چلے کہ بادِ صبا دیکھتے رہو
سنتے رہو کہ وقت نے بدلی ہے راگنی
دم بھر میں انقلابِ ہوا دیکھتے رہو
تھا کل تو ایک نعرۂ منصور بھی گراں
اور اب کہ سینکڑوں ہیں خدا دیکھتے رہو
یارو پلک جھپکتے ہی لٹتے ہیں قافلے
یاں خودکشی ہے لغزش ِ پا دیکھتے رہو
احباب کوئے دار ورسن تک پہنچ گئے
اور تم فراز دستِ صبا دیکھتے رہو
گرچہ احمد فراز کی شاعری سے ان کے یہاں فیض و فراق اور علی سردار جعفری وغیرہ سے اثر پذیری ظاہر ہے اور ان کی نشو و نماترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر ہوئی تھی اور وہ خود بھی تاحیات اس کے علمبرداررہے لیکن کبھی بھی ان کی شاعری کسی بندھے ٹکے اصول کی پابند نہیں رہی بلکہ اس کے برعکس علم و آگہی کے دروازے ہمیشہ ان کے لیے کھلے رہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی تحریک سے وابستگی کے باوجود بھی فیض کی طرح انھیں بھی شاعری میں بہت جلد اپنی ایک الگ راہ نکالنے میں کامیابی مل گئی۔ بعد میں فراز نے بھی اپنے ایک مخصوص اور منفرد لب و لہجے میں نظمیں اور غزلیں کہیں اور ان کی اسی انفرادیت کی بدولت نہ صرف ہم انھیں دورسے ہی پہچان لیتے ہیں بلکہ ان کا یہی وصف انھیں غزل کی اعلیٰ روایت کا پاس دار بھی بناتا ہے۔احمد فراز کے تعلق سے پروفیسر عتیق اللہ وہ معروف جملہ ملاحظہ ہو جو انھوں نے ان کے انتقال کے بعد ایک تعزیتی جلسے کے موقع پر کہا تھا کہ:
”فیض احمد فیض،مجروح سلطان پوری او ر ناصر کاظمی کے بعد جن شعرا نے غزل کی اعلیٰ روایات کا پاس رکھا اور اسے قبولِ عام بنانے کی کوشش کی ان میں احمد فراز کانام خاص اہمیت کا حامل ہے۔“
بلا شبہ احمد فراز کی غزلوں میں اردو شاعری کی اعلیٰ روایتوں کا پاس و لحاظ نظر آتا ہے۔فراز نے اپنی غزلوں کے ذریعہ اردو غزل گوئی کی اعلیٰ روایتوں کو جس طرح مقبو ل عام بنایا ہے اس کی مثال ان کے ہم عصر شعرا میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ موضوعات و مسائل ہوں یاپھر لفظیات وتراکیب ہر سطح پر انھوں نے اردو غزل کے کلاسک سے اخذ واستفادہ کیاہے اور انھیں اپنی سطح پر برتا بھی ہے۔یوں تو فیض اس حوالے سے کافی متمول اور پُر ثروت نظر آتے ہیں لیکن احمد فراز کی غزلوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کسی کم نہیں ہیں۔چند اشعا ر ملاحظہ ہوں:
طوافِ منزل ِ جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
ہم کو بھی لذتِ غم تھی پیاری
لیکن اب جی میں تب و تاب کہاں
سکوتِ شب ہی ستم ہو تو ہم اٹھائیں بھی
وہ یاد آئے تو چلنے لگیں ہوائیں بھی
جب بھی دل کھو ل کے روئے ہوں گے
لوگ آرام سے سوئے ہوں گے
یہ سچ ہے بدلنے میں زمانے نہیں لگتے
ہا شیخ بھی کل صورتِ انساں میں پھرے تھا
ہم اپنے آپ میں گم تھے ہمیں خبر کیا تھی
کہ ماورائے غمِ جاں بھی ایک دنیا تھی
ترقی پسند تحریک کے دورِ عروج او رپھر اس کے بعد کے کچھ زمانے تک کو غزلوں سے زیادہ نظموں کا دور تسلیم کیا جاتا ہے۔ اپنے عہد کے دیگر بڑے شعرا کی طرح احمد فراز نے بھی بڑی تعداد میں غزلوں کے علاوہ بہت سی کامیاب نظمیں بھی کہیں اور اپنے منفرد لب ولہجے اوراندازواسلوب کی بدولت ایک نظم گو شاعر کی حیثیت سے اپنی شناخت بھی بنائی ہے لیکن جب ہم ان کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ا ن کی غزلیہ شاعری نظمیہ شاعری سے کہیں زیادہ اہم اور موجودہ عہد سے مربوط وریلیونٹ ہے۔ عصر حاضر کی پیچید گیاں، نئی تہذیب کی کشمکش، بنتی بگڑتی قدریں،سیاسی و سماجی مسائل،معاملات ِحسن و عشق کے تقاضے وغیرہ کا اظہار و بیان فراز نے اپنی غزلوں میں جس سلیقے اور ہنر مندی کے ساتھ کیاہے اس کی نظیر شاید ہی ان کی نظموں میں ملتی ہو۔ نظم کے مقابلے میں وہ غزل بڑی آسانی اور ہنر مندی سے کہتے ہیں۔ محض دو مصرعوں کی مدد سے وہ اپنی پوری بات حد درجہ عمدگی کے ساتھ کہہ جاتے ہیں اور اس کا اثر اتنا بھر پور اورمعنی خیز ہوتا ہے کہ قاری تک نہ صرف اس کی ترسیل ہوتی ہے بلکہ وہ ا س کے دل پر بھی نقش ہو جاتی ہے۔اس کا اندازہ اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے جو انھوں نے ایک عسکری جرنیل کے ظاہری فخر و تمکنت اور باطنی کھوکھلاپن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ ؎
جنھیں زعم کمان داری بہت ہے
انہی پر خوف بھی طاری بہت ہے
اس طرح اردو شعرو ادب کی تاریخ میں احمد فراز کی بنیادی شناخت ایک غزل گو شاعرکی ہے اور انھیں جدید غزل میں ایک خاص مقام و مرتبہ حاصل ہے اور انھیں یہ امتیاز،مسلسل فنی ریاضتوں اور طویل فکری کاوشوں کے بعد ہی حاصل ہواتھا مگر ان کے اس تسلسل میں بھی ان کے فکر وفن کا بڑا ساتھ رہاہے۔ مخصوص نظامِ فکر، اسلوب بیان کی ندرت اور منفرد و اچھوتا رنگ و آہنگ فراز کی غزلوں کے امتیازات ہیں۔ فراز کا کمالِ فن یہ بھی ہے کہ ان کے یہاں عام شعری رو ایت سے ہٹ کر اپنی فکرکو ایک مثبت سمت عطا کرنے کی سعی ملتی ہے جس میں ایثار و قربانی، خلوص و اپنائیت اور سچائی ومحبت کاآمیزہ بھی موجود ہوتا ہے۔فراز کا یہی وصف ان کی شاعری کو بلندیوں تک لے جاتا ہے کیونکہ بقول مِلٹن یہ ایک اچھی شاعری کی علامت بھی ہے۔ فراز کی شاعری کے اس کمال فن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فراق گو رکھپوری لکھتے ہیں:
”احمد فرازکی شاعری اردو میں ایک نئی ااور انفرادی آواز کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کے وجدان کی اور جمالیاتی شعور کی ایک خاص شخصیت ہے جو نہایت دلکش خدوخال سے مزین ہے۔ان کے سوچنے کا انداز نہایت حساس اور پرخلوص ہے۔ان کی شاعری کو صرف کلاسیکی یا صر ف رومانی شاعری نہیں کہا جا سکتا ہے بلکہ دورحاضر کے لطیف ذہنی ردِ عمل کا سچا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔و ہ صداقت کے نئے مقامات سے اپنی باتیں کہتے ہیں اور یہ باتیں دعوت فکر دیتی ہوئی حد درجہ دلکش اور دلنشیں ہیں۔“
فراز کے طبع میں بلا کی حساسیت تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں زندنگی کا ہر معاملہ اپنے اندر پوری حساسیت کو لیے ہوئے ہوتاہے۔ فراز نے دنیا میں جو کچھ بھی دیکھا اور محسوس کیا اسے انھوں نے نہ صرف بڑی خوبی و خوبصورتی کے ساتھ شاعری کا پیکر عطا کر دیابلکہ انھوں نے غم جاناں کو بھی غم دوراں بنا دیاہے۔ انھوں نے غم جاناں اور غم دوراں کا اظہاراس خوبی اور ہنر مندی کے ساتھ کیا ہے کہ اس میں ان دونوں کی دوئی مٹ سی گئی ہے بلکہ بقول کنو ر مہندرسنگھ بیدی:
”فراز کی شاعری غم جاناں اور غم دوراں کا ایک حسین سنگم ہے۔کبھی غم جاناں غم دوراں کو محیط کرتا ہے اور کبھی غم دوراں ہی غم جاناں بن جاتا ہے۔ان دونوں کو الگ کرنا مشکل ہوتا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ پہلا مصرعہ غزل کے لیے موزوں کرتے ہیں۔ لیکن فوراََانھیں اندرونیکرب موضوع بدلنے کی تر غیب دیتا ہے۔ اس طرح ان کی شاعری میںیہ دنوں موڑ ہمیں واضح طور پر دیکھائی دیتے ہیں کہ پہلے سرو قامت کا خیال آتا ہے لیکن پھر موضوع بدل جاتاہے۔فراز کا یہی وہ کمال فن ہے جس نے ان کی شاعرانہ مرتبت کو اس حد تک عظیم بنا دیا ہے کہ جہاں وہ صرف ایک انسان دوست اور انصاف پسند انسان نہیں رہ جاتے ہیں بلکہ دورِ حاضر کا نمائندہ شاعر بن جاتے ہیں“
اس حوالے سے فراز کی مختلف غزلوں سے چنداشعارملاحظہ ہوں:
وہ دشمن جان جان سے پیارا بھی کبھی تھا
اب کس سے کہیں کوئی ہمارا بھی کبھی تھا
ہمیں بھی غم طلبی کا نہیں رہا یارا
ترے بھی رنگ نہیں گردش زمانہ وہ
پاگل ہو فراز آج جو راہ دیکھ رہے ہو
جب اس سے ملاقات کا وعدہ بھی نہیں ہے
چند اور اشعار دیکھئے؎
کج اداؤں کی عنایت ہے کہ ہم سے عشاق
کبھی دیوار کے پیچھے کبھی دیوار کے بیچ
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکالگ گیا تعبیر کا
اُ س کی وہ جانے اُسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا
تم فراز اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
سب لوگ لیے سنگ ملامت نکل آئے
کس شہر میں ہم اہل محبت نکل آئے
یارو مجھے مصلوب کرو تم کہ مرے بعد
شاید کہ تمہار ا قد و قامت نکل آئے
ا ب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھو ل کتا بوں میں ملیں
مذکورہ بالا اشعار کے مطالعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فراز نے اپناشعری محل تیار کرنے میں نہ صرف قدیم شعری لفظیات کا سہارا لیا ہے بلکہ موضوعات و مسائل کو بھی برتنے میں ان کے یہاں اردو کی کلاسیکی روایت سے بھرپور استفادہ نظرآتا ہے۔ حسن و عشق کی داستان، درد و غم، وفاداری و بے وفائی،ظلم و انصاف،قید و بند وغیرہ ہماری شعری روایت کے عام موضوعات ہیں مگر یہ بھی فراز کی شاعری میں ایک نئے رنگ و آہنگ لیے ہوئے ہیں۔ غم جیسے موضوع کو انھوں نے ایک روایتی غم سے نکال کر ایک نیا معنی عطا کیا ہے،جس میں ہمیں مایوسی و ناامیدی کے بجائے فتح و زیست کی روشنی نظر آتی ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا کہ اس میں روایتی دائرے میں رہنے کے باوجود بھی ا ن کے یہاں نو رومانی فکر اور عہد حاضر کی حسیت اپنی تما م تر توانائیوں کے ساتھ موجودہے۔ان کا یہ شاعرانہ رنگ و آہنگ ذیل کی مشہور زمانہ غزل میں اور بھی نکھر کر سامنے آتا ہے:
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
کچھ تو میرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
پہلے سے مراسم نے سہی پھر بھی کبھی تو
رسم و رہِ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تومجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ
اِ ک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے بھی محروم
اے راحتِ جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ
اب تک دل ِ خوش فہم کو تجھ سے امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے آ
اس غزل کی قرأت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فراز کو جذبات کی عکاسی پر کس قدر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ ان اشعار میں انھوں نے وہ ساری باتیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ بیان کر دی ہیں جو ایک عاشق کے دل میں اپنے معشوق سے بچھڑنے پر گزرتی ہیں خواہ وہ عشق حقیقی ہو یاپھر مجازی یا پھر کسی اور چیز سے بچھڑنے کا رنج و غم۔ عصر حاضر کو سامنے رکھ کراگر ان اشعار کی قرأت کی جائے تو موجود ہ عہد کے معاملات ِ حسن وعشق پر یہ غزل زیادہ منطبق آتی ہے۔اس طرح فراز کی شاعری جذبے کی تڑپ اور شدت احساس کی شاعری بن جاتی ہے جو کہ حد درجہ تجربے کی بھٹی میں تپنے کے بعد نکل کرسامنے آتی ہے۔
کم عمری ہی سے فراز کا ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو جانا اور،جیساکہ اوپر ذکر ہوا، عنفوانِ شباب سے ہی ترقی پسند شعرا کی صحبت و معیت میں اپنا شبینہ روز گزارنا فراز کا معمول تھا۔ویسے میں ترقی پسندیت کی لیک سے ہٹ کر فراز کی شاعری میں ایک منفرد رنگ و آہنگ،ایک نیا نظام فکر، اور ایک منفرد لب و لہجہ کا پیدا ہو جانا کسی حیرانی سے کم نہیں۔لیکن یہ بھی ان کی روایتی شاعری سے حد درجہ وابستگی و تعلق کا ہی نتیجہ ہی کہا سکتاہے۔پروفیسر شمیم حنفی رقمطراز ہیں:
”شعر کے کلاسیکی محاورے اورا سلوب پر اُ ن کی گرفت اس اعتبار سے بہت منفرد اور غیر معمولی ہے کہ انھوں نے اسی روایتی دائرے میں اپنی نورومانی فکراور اپنے عہد کی حسیت کے اظہار کی گنجائش بھی پیدا کی ہے۔فراز نے اپنی حسیت میں نئی تخلیقی جہتوں اورزاویوں کی شمولیت کے بغیر اور شعری زبان اور تخلیقی دروبست میں کسی طرح کی لسانی چھیڑ چھاڑ کے بغیر اپنی پہچان بنائی ہے اور بے چہرہ و بے رنگ ہم عصروں کی بھیڑ میں اُ ن کاشعر آسانی سے الگ کیا جاسکتاہے۔سودا، میر، مصحفی، آتش، غالب او راسی طرح فراق اورفیض کے لسانی اور فکری اسالیب سے استفادے کے باوجود،فراز کی شاعری روایتی شاعری کے سانچے میں قید نہیں ہوتی۔نورومانیت اور نو کلاسیکیت کو فراز کے انفرادی میلانات نے ایک نئی سطح تک پہنچا یا ہے۔“
اس طرح فراز کے یہاں اگرچہ ا ردو کی کلاسیکی و نو کلاسیکی شاعری سے اخدو استفادہ موجود ہے مگر باوجود اس کے ان کا شعری انداز و اسلوب ماخوذ و مستعار نہیں۔ انھوں نے اپنے پورے ادبی سفر میں کبھی بھی سکے پہ سکہ بٹھانے کام نہیں کیابلکہ اس کے برخلاف فیض و فراق کی پیروی کے باوجود بھی انھوں نے اپنی ایک علیحدہ شعری شناخت قائم، جس کی بدولت ہم انھیں بہت دور سے ہی پہچان لیتے ہیں۔ فرازکی غزلوں کے مطالعے سے ان کا ایک کمال ِ فن یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے جس مضمون کو بھی ہاتھ لگایا ا س میں جان ڈال دی بلکہ بقول شخصے انھوں نے گرے پڑے الفاظ کو بھی نئے معانی و مفاہیم دے کر ان میں ایک رومانوی فضا پیدا کر دی ہے۔ اس تعلق سے فراز کی غزلوں سے ایک سے زائد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن سرِ دست ’حسن‘ ہی کولے آپ لے لیں،جس پر مختلف شعرا کے یہاں ہزاروں اشعار مل جائیں گے مگر اس کی پیش کش میں فراز کے یہاں جو فکری و فنی چابکدستی کا ثبوت ملتاہے اس کی نظیر پوری اردو شاعری کی تاریخ میں نایات تو نہیں مگر کم یاب ضرور ہے۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
سنا ہے بو لے تو باتوں سے پھول جھڑ تے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کر دیکھتے ہیں
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گر دشیں اس کا طواف کر تی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہی
فراز کے عام قارئین کا یہ خیال ہے کہ فرازایک سطحی قسم کا شاعر تھا اور ان کی شاعری حسن و عشق اور در دوغم سے آگے نہیں بڑھ پاتی ہے۔ مگر جب ہم ان کی شاعری کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے ہیں تو واقعہ اس کے برعکس نظر آتا ہے۔ کیونکہ ا ن کے یہاں معاملات حسن وعشق جس طرح غزل کے پیکر میں ڈھلتے ہیں اسی طرح انسانی تجربات ومشاہدات کو بھی انھوں نے نہ صرف بڑی عمدگی کے ساتھ شعری پیکر عطا کیا ہے بلکہ ان کی آرائش و زیبائش اور نزاکتیں بھی ان سے کسی طرح بھی الگ نہیں ہوتیں بلکہ وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ فراز کی شاعری میں انسانی تجربات و مشاہدات اوراحساسات و جذبات تجسیم و ترسیل کی صورت میں ایک معجزہ بن ہیں اور قاری و سامع اس تر سیلی معجزے کاحصہ۔نیز فراز کی غزلوں کا یہی وہ تر سیلی وصف ہے جو ان کے لیے باعث فخر و امتیاز ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ لکھتے ہیں:
”احمد فراز اس لیے بھییاد رکھے جائیں گے کہ ان کی غزل اس کتابی غزل سے ایک الگ راہ اختیار کر کے چلتی ہے جس کی معیار سازی ہماری موجودہ تنقید نے کی تھی اور جو جذبے سے خوف کھاتی ہے“۔
احمد فراز کی شاعری اور ان کی غزل گوئی کے متذکرہ بالا اوصاف کے حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ہمیشہ کے لیے مجھ سے بچھڑ جا
یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے
دور ہے تو، تو تری آج پرستش کر لیں
ہم جسے چھو نہ سکیں، اس کو خدا کہتے ہیں
کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
کل شب تھا عجب دید کا منظر مرے آگے
دنیا تھی نہ ہونے کے برابر مرے آگے
چلی ہے شہر میں کیسی ہو ااداسی کی
سبھی نے اوڑھ رکھی ہے ردا اداسی کی
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کروگے
مجرم ہیں اگرہم تو سز اکیوں نہیں دیتے
زخم بھر جائیں گے مگر داغ تو رہ جاتا ہے
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں
منزلیں ایک سی آوارگیاں ایک سی ہیں
مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں
کیا کیا نہ غزل اس کی جدائی میں کہی ہے
پم پر شب ِ ہجراں تیرے احساں زیادہ
ان اشعار کے مطالعہ و تجزیہ سے یہ اندازہ لگانا کسی قدر دشوار نہ ہوگا کہ گرچہ فراز نے اپنی شاعری میں رومان و انقلاب جیسے مضامین کوبکثرت برتے ہیں لیکن ان کا دیوان خانہ حیات و کائنات اور فکر و عمل جیسے مسائل و موضوعات سے بھی خالی نہیں بلکہ یہ تمام مسائل و معاملات زندگی اس میں اپنی تمام تر نزاکتوں اور جلوہ سامانیوں کے ساتھ جلوہ گرہیں۔عصر حاضر کی پیچیدگیاں،بے اعتدالیاں،تضادات اور نفسیاتی کشمکش جیسے مضامین فراز کی شاعری میں جگہ جگہ تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
غرض یہ کہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں اپنے فکر وفن کی بدولت جن شعراکوایک خاص شناخت حاصل ہوئی ان میں احمد فراز کا نام خصوصی طور پر لیا جا سکتا ہے۔ فراز کا شمار جدید اردو غزل کے پیش رو شعرا میں ہوتا ہے۔ترقی پسندیت سے وابستگی کے باوجود بھی ان کی شاعری میں قدم قدم پر ایک منفرد رنگ وا ٓہنگ کا احساس ہوتا ہے جو ان کی شاعری اور بالخصوص ان کی غزلوں میں قدیم شعری روایات سے گہری وابستگی اورفکروفن کے عمیق مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔ فراز کا یہی وہ شاعرانہ حسن اور اچھوتا انداز واسلوب ہے جس کی بدولت ان کے کلام کو نہ صرف ایک اعلیٰ شاعری کا مقام و مرتبہ حاصل ہے بلکہ اسے نئی نسل کے دھڑکتے دلوں کاترجمان ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔بلا شبہ فراز کا یہی وہ شاعرانہ امتیاز ہے جس کی بدولت وہ عصر حاضرہی میں نہیں بلکہ آنے والے تمام ادوار میں بھی یا د کیے جائیں گے اور ان کا نام تاریخ کے باب میں ہمیشہ جلی و روشن رہے گا۔