غیر محرم کو خون دینا

؟اگر کسی خاتون کو خون کی ضرورت ہو اور کسی محرم کا خون نہ ملے کیا کسی غیر محرم کا خون چڑھانا درست ہے
الجواب بعون رب العباد:
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تحریر:ابو زھیر محمد یوسف بٹ بزلوی۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد!
اس دور میں بہت سے ایسے اشخاص مسلم وغیر مسلم کو علاج ومعالجہ کے دوران خون کی ضرورت پڑتی ہے اور کسی انسان کی جان بچانا ہر کسی دوسرے انسان پر واجب ہے۔
رب کریم کا ارشاد گرامی ہے(فمن اضطر غير باغ ولا عاد فلا إثم عليه.. ] البقرة جزء من الآية برقم 173].
پہر کو مجبور ہوجائے اور وہ حد سے بڑھنے والا زیادتی کرنے والا نہ ہو اس پر کھانے میں کوئی گناہ نہیں ہے، اللہ تعالی بخشش کرنے والا مہربان ہے۔
اسلئے اگر اضطراری حالت ہو اور کسی دوسرے کے خون چاھئے وہ مسلم ہو غیر مسلم ہو محرم ہو یا غیر محرم سب کا جائز ہے۔
عقلی دلیل سے بھی اسکا جواز کا راستہ نکلتا ہے
مثلا کسی غیر محرم عورت کا راستہ میں حادثہ پیش آگیا تو حادثہ پر موجود شخص یہ نہیں سوچتا کہ یہ عورت غیر محرم ہے اسکی جان بچانا میرے لئے جائز نہیں جب تک اسکے محارم کو تلاش کیا جائے تب تک وہ اس حادثہ کی وجہ سے اللہ کو پیاری ہوجائے گی بلکہ اس وقت ہر ذی شعور شخص یہی سوچتا ہے کہ کسی طرح اس غیر محرم مرد یا عورت کو اٹھا کر ہسپتال پہنچائے جائے تاکہ اسکی جان بچ جائے۔
دوسری جگہ رب کریم کا فرمان ہے( ومن أحياها فكأنما أحيا الناس جميعا).[المائدة 32].
جو شخص کسی کی جان بچائے اس نے گویا کہ تمام لوگوں کو زندہ کردیا۔
اس آیت کریمہ سے بھی معلوم ہوا کہ دین فطرت میں کسی انسان چاھئے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم محرم مرد ہو یا عورت غیر محرم ہی کیوں نہ ہو کی جان بچانا ایک بہت بڑا اجر و ثواب کا کام ہے۔
اسے بھی استدلال کیا جاسکتا ہے کہ کسی غیر محرم مرد یا عورت کی جان بچانے کے لئے اسے اپنا خون عطیہ کرنا بھلائی اور نیکی ہے۔
اسی طرح کوئی عورت بیمار ہوجاتی ہے تو وہ کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے جو کہ غیر محرم ہو اور حالت اضطراری میں کسی غیر ڈاکٹر مرد یا عورت سے علاج کرنا بھی شرعا جائز ہے۔
لیکن اگر عورت بیمار ہوجائے اور اس فن کی کوئی عورت ڈاکٹر ہے اس صورت میں عورت اس لیڈی ڈاکٹر ہی کے پاس اپنا معاینہ اور علاج کرائے گی
اسی طرح مرد اس صورت میں کسی غیر محرم کے پاس علاج کرانا جائز نہیں ہے البتہ عند الضرورۃ جائز ہے
اسی طرح اگر کسی عورت کو کسی تکلف کی وجہ سے خون کی ضرورت پیش آئے یا کسی مرد کو خون کی ضررت، پیش آئے تو اس صورت میں بہتر اور افضل یہی ہے کہ کوئی محرم ہی خون عطیہ کرے اور اس پر اپنے حقیقی رشتے کا حق بھی ہے البتہ اگر کوئی محرم خون دینے کے لئے دستیاب نہ ہو تو اس صورت اور حالت اضطراری میں کسی غیر محرم عورت یا کسی غیر محرم مرد کو خون دینے میں کوئی شرعا کوئی حرج نہیں ہے اسلئے کسی انسان خاص کر کسی مسلمان کی جان بچانا کافی اجر و ثواب کا کام ہے۔
لھذا کسی کو خون دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
هذا ما بدا لي في هذه المسئلة فإن أصبت فهو من الله وإن أخطأت فمن من نفسي.
والله اعلم بالصواب.
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه اجمعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *