از:عبد المجید بن عبد الوہاب مدنی
داعی اسلامک دعوہ سینٹر العیون
استقبال کے معنی ہیں کسی آنے والے کو خوش آمدید، اھلاً وسہلًا ومرحبا، یا ویلکم کہنا ۔ ظاہر سی بات ہے رمضان قمری سال کا ایک مہینہ ہے، کسی شخص یا شخصیت کا نام نہیں جس کی آمدکے لئے استقبالیہ مجلس کا انعقاد عمل میں لایا جائے،ضیافت کے لئے مٹھائياں اور مختلف انواع و اقسام كى پکوان اور ڈشیں تيار كی جائیں،اور جب وہ خصوصی مہمان پہونچ جائے تو جوش وخروش کے ساتھ کھڑے ہوکرخوش آمدید، اھلاً وسہلًا ومرحبا یا ویلکم کہیں،يا یہ کہیں کہ آپ کے آنے سے رونقیں بڑھ گئیں اور ہمیں بڑی مسرت وشادمانی نصیب ہورہی ہے۔
رمضان کی آمد ایک روحانی میسیج ،وجدانی پیغام ،اور قلب و شعور کی ایک خاص کیفیت اوراحساس کا نام ہے،رمضان تک پہنچنے کی توفیق ملنا،حالت ایمان میں اس مہینہ کا پالینا،اس پر خوش ہونا،اس کی عظمت،اس کے مقاصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن ودماغ میں بٹھانا،اس كے خصائص وفضائل کا استحضارکرنا، یہ سب کچھ مطلوب ومقصود ہی نہیں بلکہ ایمان کی دلیل ہے۔ لیکن ان چیزوں کو دلیل اور بنیاد بنا کرایسے اعمال وافعال کا جواز فراہم کیا جائے، جو آج کل مسلم سماج میں متعارف ہورہا ہے، مثلا رمضان کی آمد پر محفلیں منعقد کی جائیں اور رمضان المبارک کے آخری جمعہ کے خطبہ میں الوداع الوداع ماہ رمضان الوداع پڑھا جائے،اس طرح كا استقبال يا اظہار افسوس نہ سلف صالحین کے عمل سے ملتا ہے اور نہ ہی شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے استقبال میں ایک دو دن پہلے سے روزہ رکھنے تک سے منع فرمایا ہے، لیکن وہ شخص جوپہلے روزہ رکھتا رہا ہے اسے روزہ رکھ لینا چاہئے ( متفق عليہ)
پھربھلا کسی خاص قسم کی مجلس کا انعقاد ، پکوان،یا دعا ءوغیرہ کا اہتمام،دین کیسے ہو سکتا ہے لہذا ان تمام طریقوں،رسموں اور عرف ِ عام میں جاری و ساری باتوں کے ارتکاب سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
دیکھنے میں یہ بھی آرہا ہے کہ رمضان کا مہینہ ختم ہوتے ہی علماء خطبا واعظین مقررین لکھنے اوربولنے والےاس عنوان کو موضوع بحث بناتے ہیں کہ رمضان کے بعد کیا ؟ ليكن رمضان سے پہلے کیا ہونا چاہئے؟ اورکیا کرنا چاہئے؟اس جانب توجہ کم دی جاتی ہے۔
معزز قارئین : رمضان کی آمد پر خوشی ہراس شخص کو ہوتی ہے جو بہار کے موسم میں کھیتی کرنا چاہتا ہوآخرت کی کرنسی کو اپنی خاص تجوری میں بھرنا چاہتا ہو تاکہ دنیا سے کوچ کے وقت ایک اچھا ذخیرہ تیار ہو اور آخرت کے سفر پر کام آئے۔
پھر آخر انتظار اب کس بات کا،دیری کیسی، تياري ابهی سے شروع كر ديں،شب وروز كو تبديل کریں، شعبان کے مہینہ کی آج۲۶ ویں تا ریخ ہے،الحمدللہ دھیرے دھیرے ایک بار پھر ہم رمضان المبارک سے بالکل قریب پہونچ چکے ہیں ،کچھ ہی دن باقی رہ گئے ہیں کچھ ہی دوری پر ہیں، اپنی تمام تر خوبیوں برکتوں اور رعنائیوں کے ساتھ رمضان کا بابرکت مہینہ ایک بار پھر ہم پر سایہ فگن ہونے والا ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ اب ہم جاگ جائیں،تیار ہو جاہیں،اس کی تیاری میں جٹ جائیں،ابهي سے پورے جوش وخروش کے ساتھ اس ماہ مبارک میں عبادت کے لئےاپنے آپ كو تیار کریں تاکہ مبارك ماه كی جب داخل ہو جائے تو اس كی سعادتو ں،رحمتو ں،فيض بخشيو ں سے بہرور ہو سكیں۔
یاد رہے جو موقع جو دن جتنی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے,اُسی قدر اس کے لئے تیاری بھی کی جاتی ہے۔
محترم قارئین: سلف صالحین کے معمول سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ وہ رمضان کی آمد کا شدت سے انتظار کرتے تھے اور اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کرتے تھے اور اس کے لئے ہر طرح کی تیاری کرتے تھے، اپنے آپ کو اس کے لئے فارغ کر لیتے تھے تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکے۔
آئیے اس مختصرسی تحریر میں یہ جاننے اورسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رمضان سے پہلے کیا ہونا چاہئے اورکیا کرنا چاہئے ؟
رمضان کی آمد سے پہلے تہجد اور قیام اللیل کے لئے اپنے آپ کو تیار کیجئے, پنجوقتہ نمازوں بالخصوص نمازِفجر کی باجماعت ادائیگی کو اپنے اوپر لازم کرلیں، چوبیس گھنٹے کے اوقات کا ایک چارٹ بنالیں اور اس پر عمل کرتے ہوئے سنن و نوافل، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اذکار کا اہتمام کریں،عزم بالجزم کیجئے کہ کسی رات کی تراویح فوت نہیں ہوگی, مختصر یہ کہ اس بات پر دھیان رہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ جل شانہ کی عبادت میں صرف ہو ۔
اگر آپ کے ساتھ ڈیوٹی کے تقاضے ہیں اورعبادت کے لیے خود کو بالکلیہ فارغ نہیں کرسکتے،تو پھر یہ دیکھیں کہ کون کون سے کام ایک ماہ کے لئے چھوڑ سکتا ہوں،ان کو چھوڑیں۔ اور کن مصروفیات کو کم کر سکتا ہوں، ان کو کم کریں، اور جن کاموں کو رمضان کے بعد تک موخر کر سکتے ہیں ان کو موخر کر یں اور رمضان کے زیادہ سے زیادہ اوقات کو عبادت میں لگانے کی فکر کریں۔ میرے نزدیک استقبال رمضان کا یہ بہترطریقہ ہے۔
محترم قارئین : کیا ہی بہتر ہو اگر ہم خیر کے اس موسم کا استقبال سچی توبہ سے کریں کیونکہ گناہ اور معصیت اللہ کے غضب اور دنیا و خرت کی بھلائی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں رات کی تاریکی وتنہائی میں بھی جو غلطی اور گناہ بندے سےسرزد ہوا ہےلوگوں کی نگاہوں سے بچ کر چھپ کرجو گناہ سرزد ہوا ہے اسے یاد کرکے ندامت، پشیمانی اور پچھتاوا ،اوردل میں خلش ، جواب دہی کے احساس سے بدن پر کپکپی طاری ہو اور خود سےبول اٹھیں کہ یہ میں نے کیا کیا تھا؟ میں اپنے مُنعم ِحقیقی کو کیا منہ دکھلاؤں گا ارشاد نبوی ہے : النَّدَمُ تَوْبَةٌ“ندامت ہی تو بہ ہے”{ صحیح ابن حبان عن انس أحمد بن حنبل، المسند، 1:376، رقم:3568
بلاشبہ گناہ ایک زہر ہے اور توبہ اس کے لئے تریاق ،اللہ کی طرف سے بندے کوتوبہ کی توفیقِ اور وہ بھی ماہ ِ رمضان کی آمد سےقبل یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔
ماہ رمضان تزکیہ نفس کا بھی مہینہ ہےلہذا ہم رمضان کی آمد سے قبل شخصیت کی تعمیر اور نفس کے تزکیہ وتطہیر پر خصوصی دھیان دیں, اپنے سلوک اور کردار کو درست کریں, اپنے دل کی صفائی کر لیں تا كہ اطاعت و فرمانبردارى كے اعمال ميں جب ہم مشغول ہوں تو ہمارا دل مطمئن ہو۔
بصد افسوس رمضان کی تیاری میں لوگ گھروں کو صاف کرلیتے ہیں, کپڑوں کو صاف کرلیتے ہیں, ہر چیز کا اہتمام کرلیتے ہیں ,لیکن دل ویسے کا ویسے ہی چھوڑ دیتے ہیں , اسی دل کے ساتھ عبادت کریں گے جس میں گناہ کے دھبے اور مختلف قسم کے زنگ لگے ہوئے ہیں, دلوں کو صاف کریں,سب کو معاف کر دیں, تاکہ اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں معاف کر دیں۔ ارشاد باری تعالی ہے: الا تحبون ان یغفر اللہ لکم والله غفور رحيم (النور۲۲) کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ اللہ تمہیں معاف کر دے,اور اللہ تو بخشنے والا ,رحم کرنے والا ہے۔
بری صحبت اور برے دوستوں سے کنارہ کشی اپنائیں کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندہ انسانوں کی صحبت آدمی کے اوپر گہرا اثر ڈالتی ہے،اچھے لوگوں کی صحبت سے آدمی اچھا بن جاتا ہے،اور برے لوگوں کی صحبت میں آدمی بُرا بن جاتا ہے۔ اقبال مرحوم نے اپنے بیٹے جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر کہا تھا
ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
نوح علیہ السلام کا بیٹا برے لوگوں کی صحبت میں پڑکر ہی اللہ کے غضب کا شکار ہو ا،باپ کی نبوت بھی اس کے کچھ کام نہ آئی اور اصحاب ِ کہف کا کتا چند روز نیک لوگوں کے ساتھ رہا تو اس کا ذکر قرآن میں بہترین پیرایہ میں اچھے لوگوں کے ساتھ آیا ہے۔
رمضان آنے والا ہے رمضان کا پا لینا اصل کامیابی نہیں ہے اصل کامیابی یہ ہے کہ ہم رمضان آنے سے پہلے اپنے اندر تبدیلی پیدا کر لیں،آپ رمضان سے کیا پاتے ہیں، اس کا انحصار اُس کے دینے پرنہیں بلکہ آپ کے لینے پر ہے, اپنے سلوک او رکردار پر دھیان دھیان دیں، بری عادتوں سے باز آئیں،جھوٹ،فریب،دغا بازی، گالي گلوچ ،بدکلامی، غیبت، چغلی اور دیگر ہیرا پھیریوں سے خود کو دور کریں اگرآپ روزہ رکھیں اور جھوٹ بولنا نہ چھوڑیں تو آپ کا روزہ رکھنا بے کار جائے گا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو شخص روزہ میں جھوٹ بولنا اور جھوٹے کام کرنے نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس سے بھی کوئی سر وکار نہیں ہے کہ وہ کھانا پینا چھوڑے(صحیح البخاري رقم : 673) جو لوگ محرمات کا ارتکاب کرکے اللہ کی غیرت کو چیلنج کر رہے ہیں،بدکاری،شراب نوشی، ناجائزکاروبار،سودی لین دین جیسے جرائم میں ملوث ہیں وہ توبہ کرکے عزم کریں کہ وہ ان جرائم سے بالکل دور ہوجائیں گے اور پھر عمر بھر ان کے قریب نہ ہوں گے۔
رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا و التجا بھی عظیم عمل ہے۔ دعا کی مقبولیت کے قیمتی ترین لمحات اسی ماہ میں رکھے گئے ہیں اس لئے موقعہ کو غنیمت سمجھیں اوراپنی زبان کو دعا، استغفار، ذکر الٰہی کا عادی بنائیں۔ ماہ رمضان نزول قران اور اس کے ورد کا مہینہ ہے لہذا اس میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا باعث اجر و ثواب اور قیامت کے دن شفاعت کا ذریعہ ہو گا۔ رمضان اور قرآن کے اسی تعلق کی وجہ سے نبی کریم ﷺ ہر سال جبریل علیہ السلام کے ساتھ رمضان ہی میں قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔ امام مالکؒ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اس ماہ میں احادیث وغیرہ کے بجائے قرآن کی جانب متوجہ ہو جاتے تھے۔ کیا ہی بہتر ہو اگر ماہ رمضان میں صرف تلاوت قرآن کریم ہی پر زور نہ دے کر حفظ قرآن کریم اور فہم قرآن کریم کے لئے بھی ايك جامع خاکہ اور منصوبہ تیارکیا جائے تاکہ اللہ کے کلام سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوا جا سکے ۔ اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا عادی بنائیں،اور جب رمضان آپہونچے تو خیر کی راہوں میں خرچ کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، رمضان کے مہینہ میں زکوٰة وصدقات کی ادائیگی اجر وثواب کو دو چند کر نے کا اہم ترین سبب ہے، رسول اللہﷺ رمضان کے مہینہ میں تیز وتندہوا کی طرح سخاوت فرمایا کرتے تھے، تیز وتند آندھی سے اس لئے تشبیہ دی گئی کیوں کہ اس آندھی کا نفع وفائدہ ہر ایک کو پہنچتا ہے اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کی سخاوت اور رحمت کا اثر سب کو پہنچتا ہے ۔(فتح الباری 1/31)
ماہِ رمضان حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی مہینہ ہے اس لئے حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا خیال رکھا جائے،اگرکسی کا کوئی قرض یا دعوی ہے تو اسے فوراً چکادیں اور معاملے کا تصفیہ کرلیں، دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ہم عبادت اور بندگی کے تئیں چست ودرست ہوجاتے ہیں لیکن جہاں بات حقوق العباد کی آتی ہے تو وہاں ان شاء اللہ کہہ کر اپنے تئیں بری الذمہ ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد کسی ایک مخصوص گھڑی، رات میں اللہ کے حضور معافیاں مانگ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اللہ ہماری سب زیادتیوں کو بخشش دے گا بلا شبہ یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
ماہِ رمضان خود احتسابی کا مہینہ ہے اس کی آمد سے پہلے ایک دن تنہائی میں یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے نفس کا محاسبہ کریں،کہ ہم نے سال گزشتہ رمضان میں کیا کھویا اور کیا پایا، گزرے ہوئے گیارہ مہینوں میں اپنے اچھے اور برے کاموں کا خود سے حساب لینا،اپنے روزوں کے معیار کو دیکھنا،اس كا پتہ تبھی چلے گا جب آپ اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے۔ دوسرے کے عیب نہیں تلاش کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے عیب اور کمزوریاں تلاش کر رہے ہوں گے۔ یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آج میں نے کتنی نیکیاں کی ہیں یا کرنے کی کوشش کی ہےاور کتنی بُرائیاں ترک کی ہیں، کتنی بُرائیاں چھوڑی ہیں۔
رمضان کے احکام ومسائل کا بغورمطالعہ کریں،انکو ہم اچھی طرح پڑھیں ،سمجھیں،اس کی عظمت،اس کی فضیلت،اس کے مقصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں کیونکہ جب تک ہم رمضان کی اہمیت و فضیلت اور اس کی فوائد و ثمرات کا شعوری طور پر ادراک اور احساس نہ کریں گے,اس وقت تک ہم نہ اس کے شایانِ شان تیاری کر پائیں گے,اور نہ ہی رمضان المبارک سے اس طرح مستفید ہو سکیں گے جیسا کہ مستفید ہونے کا حق ہے۔
اس ماہ مبارک میں دعوت الی اللہ کے لئے خود کو تیار کریں،اس مقصد کے لیے ممکنہ وسائل کو کام میں لائیں،کیونکہ اس ماہ مبارک میں انسانی طبیعت میں فطری طور پر قبول حق کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے،جن غیر مسلموں سے آپ متعارف ہیں کم ازکم ان تک اسلام کا پیغام ضرور پہنچائیں،انہیں تعارف اسلام پر مبنی دعوتی لٹریچرز لاکر دیں، اوراپنے بھائیوں اور نیز اہل خانہ کی اصلاح اور ان کی روحانی تربیت کی طرف پوری توجہ مبذول کریں ۔
دنیا کی فضا عموما گناہ اور معاصی کی فضا ہے انسان کا ازلی دشمن خود اس کا نفس اور شیطان اس کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس کریم رب کی مہربانی اور بندہ نوازی جود وسخا دیکھئے عبادت کی راہ میں رکاوٹ بننے والی چیزوں کو بھی اس مبارک مہینی میں دور کردیا یعنی رمضان آتے ہی شیطان کو بیڑیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ ابو ہریرہ رضي الله عنه حدیث کے راوی ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جناتوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اور جہنّم کے تمام دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور پورا مہینہ ان میں سے ایک دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا اور جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور پورا مہینہ ان میں سے ایک دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا اور رمضان میں ہر رات ایک پکارنے والا پکارتا ہے اے بھلائی کے چاہنے والے آگے بڑھ اور اے برائی کے طالب رک جا کچھ لوگوں کو اللہ جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے، اور یہ( رمضان کی )ہر رات کو ہوتا ہے ۔ اخرجه الترمذي وابن ماجه وابن خزيمة وحسنه الألباني في صحيح الجامع حق تعالی ٰسے دعا ہے کہ اس ماہ کے چاند کو ہم پر امن ،ایمان ، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ ہم سب كوماه رمضان تک خيريت سے پہونچا دے، رمضان میں بھی ہمیں صحت وعافيت کی دولت دے،تاکہ ہم اجرو ثواب کی نیت سے رمضان کے فرض روزوں کو بہتر ڈھنگ سے رکھ سکیں اور اس سے عہدہ برآ ہو سکیں رمضان میں بکثرت اعمال صالحہ كو انجام دینے کی توفیق بخش ،اور ان اعمال کو آخرت میں نجات کا ذریعہ بنا ۔ آمین