ماہِ شعبان:بدعات و خرافات کے نرغے میں

    از قلم:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

داعی اسلامک دعوہ سینٹر میسان طائف

الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و اسلام علی أشرف الأنبیاء و المرسلین أما بعد

جب ہم احادیث رسولﷺ, آثار صحابہ ,اوراقوال ِ سلف کا بغور مطالعہ  کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ماہ شعبان اسلامی مہینہ کے اعتبار سے آٹھواں مہینہ ہے۔ اور اس مہینہ کے بے شمار فضائل و مناقب موجود ہیں,اور نبی ٔ کریمﷺ آپ ﷺ اس مہینہ کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ نفل روزے کثرت سے رکھتے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں: “ما رایت النبی ﷺ فی شھر اکثر صیاما منہ فی شعبان کان یصومہ الا قلیلا بل کان یصومہ کلہ”(صحیح ابو داؤد حدیث نمبر:۲۴۳۵؛) (ترجمہ:میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی مہینہ میں (رمضان کے فرض روزوں کے علاوہ)  شعبان سے زیادہ روزہ رکھتے نہیں دیکھا ،آپ ﷺ کچھ دنوں کے علاوہ پورے مہینہ کے روزے رکھتے تھے بلکہ پورے مہینے کے روزہ رکھا کرتے تھے)۔ اس حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ ماہ شعبان میں کثرت سے عبادت کی جانب متوجہ رہتے تھے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے رسول کریم ﷺ کو تمام مہینوں میں روزہ رکھنے کے واسطے شعبان کا مہینہ پسندیدہ تھا،بلکہ آپ ﷺ اس ماہ کو ماہ رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے۔(سنن أبی داؤد،حدیث نمبر: ۲۴۳۱))

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں(كان يَصومُ حتّى نَقولَ: لا يُفطِرُ، ويُفطِرُ حتّى نَقولَ: لا يَصومُ. لم أرَهُ في شَهرٍ أكثَرَ صِيامًا منه في شَعبانَ، كان يَصومُ شَعبانَ كُلَّه إلّا قَليلًا، بل كانَ يَصومُ شَعبانَ كُلَّه)(بخاری حدیث نمبر:۱۹۶۹) کہ نبی ﷺ روزہ رکھتے جاتے، یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب افطار نہ کریں گے اور افطار کرتے جاتے، یہاں تک کہ ہم کہتے کہ اب روزہ نہ رکھیں گے اور میں نے نہیں دیکھا کہ نبی ﷺ نے رمضان کے سوا کسی مہینہ پورے روزے رکھے ہوں اور نہ شعبان کے مہینہ سے زیادہ کسی مہینہ میں آپ کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں(لَمْ يَكُنْ رَسولُ اللهِ ﷺ في الشَّهْرِ مِنَ السَّنَةِ أَكْثَرَ صِيامًا منه في شَعْبانَ وَكانَ يقولُ: خُذُوا مِنَ الأعْمالِ ما تُطِيقُونَ، فإنَّ اللَّهَ لَنْ يَمَلَّ حتّى تَمَلُّوا وَكانَ يقولُ: أَحَبُّ العَمَلِ إلى اللهِ ما داوَمَ عليه صاحِبُهُ، وإنْ قَلَّ)(مسلم حدیث نمبر:۱۱۵۶) :نبی کریمﷺسال کے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے,اور فرمایا کرتے تھے:جتنا عمل کرع سکتے ہو,کر لو ,کیوں کہ اللہ کبھی نہیں تھکتا ,یہاں تک کہ تم تھک ہار جاتے ہو,نیز فرمایا کرتے:اللہ کے یہاں سب سے محبوب عمل وہ ہے جس پر کرنے والا مداومت اختیار کرے ,گو کہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر:1156)

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپﷺاس ماہ کا اہتمام اس قدر کیوں فرماتے تھے ,سو اس کا جواب یوں ہے

(۱)نبی ٔ کریم ﷺہر ماہ  تین دن کےروزے رکھا کرتے تھے؛کبھی کچھ ماہ روزہ نہ رکھ پاتے تو آپﷺ شعبان ہی میں روزہ رکھ لیا کرتے تھے تاکہ رمضان سے قبل اس کا تدارک کیا جا سکے

(۱)تعظیم رمضان اور روزوں کی تیاری

اس ماہ میں نبی کریم ﷺ نےرمضان المبارک کی عظمت و اہمیت اور اس کے روزوں کی تیاری،اور ماہ رمضان میں اللہ کا قرب اور رمضان کے خاص انواروبرکات کے حصول اور ان سے مزید مناسبت پیدا کرنے کے لیے کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کا حکم فرمایا چنانچہ شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت حاصل ہے جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرض سے ہوتی ہے؛ماہ رمضان کی تیاری اور اپنے نفس کو عبادت کا عادی بنانے کے لئے روزہ کا اہتمام ہونا چاہئے ,تاکہ رمضان میں یکایک روزہ رکھنا بھاری نہ پڑ جائے

(۲)بندوں کے اعمال کی اللہ کی طرف پیشی(دیکھئے :تہذیب السنن ۳؍۳۱۸)

ماہ شعبان میں  اللہ کی طرف بندوں کے اعمال سالانہ پیش کئے جاتے ہیں ,جیسا کہ نبی ٔ کریمﷺ نے فرمایا:( [عن أسامة بن زيد: قلتُ يا رسولَ اللهِ لم تكنْ تصومُ من الشهر ما تصوم من شعبانَ؟ فقال: ذاكَ شهرٌ يغفلُ الناسُ عنهُ بين رجبَ ورمضانَ وهو شهرٌ تُرفَعُ فيهِ الأعمالُ إلى ربِ العالمينَ فأحبُّ أن يُرْفعَ عملِي وأنا صائم)( (سنن نسائی:حدیث نمبر: ۲۳۵۷)))( حضرت اُسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ میں نے نبی کریمﷺسے سوال کیا : یا رسول اللہ! شعبان کے مہینے میں، میں آپ کو اتنے روزے رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں، جتنا کہ کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا ، اِس کی کیا وجہ ہے؟آپﷺ نے فرمایا: رجب اور رمضان کے درمیان جو شعبان کا مہینہ ہے ،(عام طور پر )لوگ اُس سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں، حالانکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال اللہ تعالیٰ کےحضور پیش کیے جاتے ہیں، تو میں یہ چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اِس حالت میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔

(۳)لوگوں کا غفلت میں شکار ہونا

اس ماہ میں آپﷺ بہ شدت ﷺ تمام اس لئے بھی روزہ رکھتے تھے کہ عام طور پر لوگ اس ماہ میں غفلت کا شکار ہوجاتے ہیں

ماہ شعبان اور اسلاف کرام رحمہم اللہ کا عمل:

سلف صالحین کے نزدیک ماہ شعبان كى بڑی قدر ومنزلت تھی، یہی وجہ ہے کہ شعبان کے آتے ہی وہ عبادات کے لئے اپنے آپ کو فارغ کرلیتےتھے ۔

علامہ ابن رجب حنبلی۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں کہ شعبان رمضان کا مقدمہ اورپیش خیمہ ہے،لہذا اس میں وہی اعمال یعنی روزہ اور تلاوت کرناچاہیے،جو کثرت سے رمضان میں کیے جاتے ہیں ،تاکہ ماہ ِرمضان کی برکات حاصل کرنے کی تیاری ہوجائے اور نفس رحمان کی اطاعت سے تروتازہ ہوجائے، چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کا معمول تھا کہ شعبان کا مہینہ شروع ہوتے ہی قرآن کریم کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور اپنے مالوں کی زکاۃ اداکرتے تھے،تاکہ غریب اور مسکین بہتر طور پر ماہ ِرمضان گزارسکیں۔

جب شعبان کا مہینہ آتا ،تو حبیب بن ابی ثابت رحمہ اللہ فرماتے کہ یہ قاریوں کا مہینہ ہے اورعمرو بن قیس رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب شعبان کا مہینہ آتا، تو عمرو بن قیس رحمہ اللہ اپنی دکان بند کردیتے اور قرآن کریم کی تلاوت میں منہمک ہوجاتے(لطائف المعارف لابن رجب الحنبلی۔ص:۲۵۸،))

کیا شبِ برأت کی فضیلت قرآن کریم سے بھی ثابت ہے؟

کیا شب برات کی فضیلت قرآن ِ کریم سے ثابت ہے,بعض شب براتیے شب برات کی فضیلت قرآن کریم سے بھی ثابت کرنے کی نا روا کوشش کرتے ہیں,اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ شبِ برأت کی فضیلت قرآن کریم سے بھی ثابت ہے یا نہیں، اس بارے میں علمائے کرام کی دو رائے ہیں:

جمہور مفسرین جن میں علامہ ابن کثیر اور علامہ شوکانی سر فہرست ہیں , فرماتے ہیں کہ سورۃ الدخان کی آیت نمبر:۳ میں ’’ لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے’’ شبِ قدر’’ مرادہے،علامہ ابن کثیر۔رحمہ اللہ۔ فرماتے ہیں 🙁 يقول تعالى مخبراً عن القرآن العظيم أنه أنزله في ليلة مباركة ، وهي ليلة القدر كما قال عز وجل :{ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر}[سورہ القدر] ، وكان ذلك في شهر رمضان كما قال تبارك وتعالى :{شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ }(سورہ البقرہ:۱۸۵).وقد ذكرنا الأحاديث الواردة في ذلك في سورة البقرة بما أغنى عن إعادته.ومن قال إنها ليلة النصف من شعبان كما روي عن عكرمة فقد أبعد النجعة، فإن نص القرآن في رمضان(تفسیر ابن کثیر:۴؍۵۷۰)جبکہ حضرت عکرمہ اور بعض دیگرمفسرین فرماتے ہیں کہ سورۃ دخان کی آیت نمبر:۳میں ’’ لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے’’ شبِ برأت‘‘ مراد ہے،مگریہ بات درست نہیں ہے،اس لئے کہ سورۃ دخان کی اس آیت میں نزولِ قرآن کا ذکر ہے اور’’ شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن’’اور ’’انا انزلنا فی لیلة القدر‘‘جیسی واضح نصوص سے یہ بات ثابت ہے کہ نزولِ قرآن رمضان کے مہینے میں لیلۃ القدر میں ہواہے،لہذاقرآن کی اس آیت میں اگر’’ لیلۃ مبارکۃ‘‘ سے شب برأت مراد ہو، تو اس کی فضیلت قرآن سے بھی ثابت ہو گی، ورنہ نہیں ، اور چونکہ راجح تفسیر کے مطابق شب برأت مراد نہیں، اس لیے قرآن سے اس کی فضیلت کا ثبوت مشکل ہے

شب برات کی رسومات,بدعات و خرافات

(۱)اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا

(۲)شب برات میں بطور ِ خاص قبروں کی زیارت

(۳)شب برات کی نماز

(۴)شب برات کی قرآن خوانی

(۵)قبرستان جاکرمردوں کے لئے ایصال ثواب اورمغفرت کی دعا کرنا

(۶)آتش بازی,پٹاخے بازی

(۷)یہ اعقتاد رکھنا کہ دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے(اس کی بنیاد ایک ضعیف حدیث پر رکھی گئی ہے,جو حضرت علی ۔رضی اللہ عنہ۔ سے مروی ہے,علامہ حافظ ابن رجب نے لطائف المعارف (۲۶۱)میں علامہ عراقی نے تخریج الإحیاء(۱ ۲۷۳)میں امام ذہبی نے (تلخیص العلل المتناہیۃ (۱۸۴) میں ابن ابی سبرۃ راوی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے,علامہ البانی نے ضعیف الجامع(۶۵۲)میں موضوع قرار دیا ہے,علامہ شوکانی نے(الفوائد المجموعۃ)(۵۱)میں ضعیف قرار دیا ہے,نیز علامہ صلاح الدین العلائی نے فتاوی(۳۷) میں فرمایا ہے کہ یہ روایت باتفاق اہل علم ضعیف ہے)

(۸)حلوہ,,نیز انواع و اقسام کے پکوان و کھانے تیار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ پندرہویں شعبان کو حلوہ وغیرہ نہ بنایا جائے تو مردوں کی روحیں دیواریں چاٹ کر واپس چلی جاتی ہیں

(۹)مردوں کے آنے کا انتظار,بعض گھروں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ مردوں کے انتظار میں گھر کے دروازے تک کھول کر رکھتے ہیں (حالانکہ یہ سرتاسر قرآنی حکم کے مخالف ہے)

(۱۰)گھر وغیرہ کی لیپا پوتی اس نیت سے کہ اس سے گھر کی بَلائیں دور ہوجائیں گی۔

(اگر یہ شرک نہیں ہے تو پھر شرک کیا ہے )

(۱۱)گھروں میں موم بتیاں جلانا کہ ہمارے مرحومین کی روحیں آج رات ہمارے گھروں میں آئیں گی۔

(۱۲)بعض علاقوں میں باضابطہ کھیر وغیرہ پکاکر الگ سے رکھ دیا جاتا ہے کہ ہمارے مرحومین کھائیں گے۔

(۱۳)شب برات کی نیت سےمخصوص قسم کے کھانے تیار کرنا

(۱۴)گھر اور مساجد کو سجانا اور باضابطہ تہوار کے طور پر شب برات کو منانا

(۱۵)۔پندرہویں شعبان کی رات کومحفلیں منعقد کرنا،مسجدوں میں جمع ہوکر قیام اللیل کرنا اور اجتماعی دعائیں کرنا

(۱۶)مسجدوں میں مخصوص نماز پڑھنے کیلئے جمع ہونا مثلاسو رکعتیں ایک ہزار مرتبہ سورہ اخلاص پڑھکر ادا کرنا

(۱۷)پندرہویں شعبان کی رات کو مخصوص دعائیں کرنا جیسے 🙁 اللَّهُمَّ يَا ذَا الْمَنِّ ، وَلا يُمَنُّ عَلَيْكَ ، يَا ذَا الْجَلالِ وَالإِكْرَامِ ، يَا ذَا الطَّوْلِ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ ، ظَهْرَ اللاجِئِينَ ، وَجَارَ الْمُسْتَجِيرِينَ ، وَمَأْمَنَ الْخَائِفِينَ . إِنْ كَانَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ أَنِّي شَقِيٌّ ، فَامْحُ مِنْ أُمِّ الْكِتَابِ شَقَائِي ، وَأَثْبِتْنِي عِنْدَكَ سَعِيدًا ، وَإِنْ كَانَ فِي أُمِّ الْكِتَابِ أَنِّي مَحْرُومٌ مُقَتَّرٌ عَلَيَّ مِنَ الرِّزْقِ ، فَامْحُ مِنْ أُمِّ الْكِتَابِ حِرْمَانِي وَإِقْتَارَ رِزْقِي ، وَأَثْبِتْنِي عِنْدَكَ سَعِيدًا مُوَفَّقًا لَكَ فِي الْخَيْرِ ، فَإِنَّكَ قُلْتَ فِي كِتَابِكَ الْمُنَزَّلِ عَلَى نَبِيِّكَ : يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِنْدَهُ أُمُّ الْكِتَابِ)نیز یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک بار آپﷺ یہ فرما رہے تھے(’’سَجَدَ لَكَ خَيَالِي وَسَوَادِي، وَآمَنَ بِكَ فُؤَادِي، فَهَذِهِ يَدِي وَمَا جَنَيْتُ بِهَا عَلَى نَفْسِي يَا عَظِيمُ يُرْجَى لِكُلِّ عَظِيمٍ، يَا عَظِيمُ اغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِيمَ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلْقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ‘‘)یعنی اے اللہ! میرے خیال اور باطن نے تجھے سجدہ کیا، تجھ پر میرا دل ایمان لایا، یہ میرا ہاتھ ہے اور میں نے اس کے ذریعے اپنی جان پر ظلم نہیں کیا، اے عظیم! ہر عظیم سے امید باندھی جاتی ہے، اے عظیم! بڑے گناہوں کو بخش دے، میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا ،جس نے اس کی تخلیق کی اور اس کی سمع و بصر کی قوتوں کو جدا جدا بنایا۔‘‘)(حالانکہ یہ روایت ضعیف ہے)

(۱۸)پندرہویں شعبان کی رات کو خصوصیت کے ساتھ سورہ یس کی تلاوت کرنا، اور قبروں کی زیارت کرنے کیلئے قبرستان جانا

(۱۹)ما ہ شعبان میں مردوں کی روحوں کی طرف سے صدقات وخیرات کرنا

(۲۰)پندرہویں شعبان سے ایک دو دن پہلے قبروں کو درست کرنا،لیپنا پوتنا،پندرہویں شعبان کی رات کو اس پر چراغاں روشن کرنا ،قمقمہ جلانا،پھول پتیاں چڑھانا،اگربتیاں جلاناوغیرہ  حالانکہ یہ سب امور  مجوسیوں اور ہندؤں کے رسم ورواج ہیں جن سے ایک مسلمان کو از حد بچنا چاہئے

(۲۱)مردوں کی عید سمجھنا ، بعض مسلمانوں کا یہ عیقدہ ہے کہ کوئی شخص شب برات سے پہلے مرجائے اور جب تک شب برات میں حلوہ پور ی اور چپاتی پر فاتحہ نہ کی جائے وہ مردوں میں شامل نہیں ہوتا ہے

(۲۲)شب برات میں مرد و خواتین کی بے ہنگم  حاضری اور وہاں عجیب و غریب اختلاط

(۲۳)خانقاہوں وغیرہ کے صحن وغیرہ میں شامیانے وغیرہ بچھانا

(۲۴)مسجدوں؛خانقاہوں وغیرہ میں مختلف قسم کے کوزے ,اباریق,لوٹے ,اور دستر خوان وغیرہ کا اہتمام و انتظام

(۲۵)شب برات کی ایک بدعت یہ بھی ہے کہ اس رات لوگ حلقے بناکر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک کو اپنا امیر یا بڑا مانتے ہیں ؛اور پھر اجتماعی ذکر کا دور چلتا ہے,اور اسی امیر کی اقتدا میں سب ذکر کا ورد کرتے ہیں,اور مختلف قسم کے اذکار اہتمام کرتے ہیں

(۲۶)شب برات میں شعر خوانی ,تلاوت کا اجتماعی اہتمام

(۲۷)خواتین کا قبرستان جانا اور وہاں اختلاط کے ساتھ پورے شباب کے ساتھ مردوں کے شانہ بہ شانہ رقص و سرود میں شریک ہوتی ہیں

اللہ ہم سب کو سنت کا شیدائی فدائی بنائے,محب کتاب و سنت کا حقیقی وفا شعار بنائے؛اور تا دم ِ زیست کتاب و سنت کا حامل بنائے؛آمین یا رب العالمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *